حضوراکرم نورمجسم شفیع معظم محبوب خدا یعنی محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی ذات وہ عظیم الشان ذات ہے جن سے محبت کا دعوه صرف ہم مسلمان ہی
نہیں کرتے بلکہ غیرمسلم بھی آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت
کا دعوہ کرتے رہتے ہیں۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے کیا دل لگتی بات کہی کہ “حق وہ ہے جس کی
گواہی دشمن بھی دے“۔ ہمارے آقا مدینے والے مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کی ذات سے محبت کا دعوہ ایک ہندو شاعر کالکا برشاد نے کچھ اس طرح کیا کہ
چاند سورج کوئی مجھے لادے
کونین کی دولت میرے دامن میں سما دے
پھر کالکا پرشاد سے پوچھے کہ تو کیا لے،
تو نعلین محمد کو وہ آنکھوں سے لگالے
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اسی طرح ایک سکھ شاعر کنور مہندرسنگھ بیدی اس طرح اظہار محبت کرتے ہیں۔
عشق ہوجائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمد پر اجارہ تونہیں
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ایک مستشرق سیرت نگار مارگولیتھ اپنی تصنیف “محمد “ کے دیباچے پر تحریر
کرتے ہیں کہ “محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سیرت نگاروں کا ایک طویل
سلسلہ ہے مگر اس میں جگہ پانا قابل اعزاز بات ہے۔“
“دی ہنڈرٹ“نامی کتاب کے مصنف مائیکل ایچ ہارٹ،نے بھی اپنی کتاب میں سب سے
پہلے ہمارے پیارے آقا مدینے والے مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تذکرہ
کیا ہے۔ ایک انٹرویو میں کسی نے مائیکل ایچ ہارٹ سے پوچھا کہ تمہارا تو
مذہب عیسائی ہے مگر تم نے مسلمانوں کے پیغمبر کی سیرت کے بارے میں سب سے
پہلے اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے اس کی وجہ کیا ہے؟
مائیکل ایچ ہارٹ نے بتایا کہ بات دراصل یہ ہے کہ میں نے مختلف لوگوں کی
سیرت کا مطالعہ کیا جن لوگوں نے اپنے کردار کی بدولت انسانی زندگیوں پر دور
رس اثر قائم کئے۔ اُن تمام لوگوں میں مسلمانوں کے پیغمبر کی زندگی کے
دوواقعات میری نظر سے ایسے گزرے کہ جو اُنہیں تمام لوگوں میں ممتاز کرتے
تھے۔ایک واقعہ تو فتح مکہ کے موقع کا تھا۔ جب کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے ساتھ ١٠٠٠٠دس ہزار صحابہ کرام آپ کے ساتھ تھے جن کے ہاتھوں
میں تلواریں تھیں جو حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک اشارے پر
مشرکین مکہ کی گردنیں اڑا دینے کے لئے تیار تھے اسی لئے مشرکین مکہ یہ سوچ
کر بہت زیادہ خوف زدہ تھے کہ ناجانے اب ہمارا کیا حال ہوگا،مگر حضوراکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کمال عفو و درگزر و رحم دلی کا مظاہرہ فرماتے
ہوئے اپنی جان کے دشمنوں کو عام معافی کا اعلان کردیا ۔تاریخ انسانی اس
زبردست عفو و درگزر و رحم دلی کے واقعے کی مثال دینے سے قاصر ہے ۔ اور
دوسرا واقعہ ایک مرتبہ مدینے منورہ کی مبارک گلی سےتشریف لے جارہے تھے، چند
بچے کھیل رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھنے
لگے۔ اتنے میں ایک صحابی وہاں آئے اوراُن کھیلتے ہوئے بچوں میں سے اپنے بچے
کو آواز دی تاکہ اُسے ساتھ لے جاسکیں، بچہ کھیل میں اس قدر منہمک تھا کہ
اپنے باپ کی آواز نہ سنی اُن صحابی نے دوبارہ آواز دینی چاہی تو حضوراکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کو منع فرمادیا ۔بچے جب کھیل سے فارغ ہوئے
تواُن صحابی کا بچہ اپنے باپ کے پاس آیا تو اُن صحابی نے عرض کیا یارسول
اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یہ تو فرمائیے
کہ آپ نے مجھے اپنے بچے کو آواز دینے سے کیوں منع فرمایا تھا ۔ حضور اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بات دراصل یہ ہے کہ تمہارا بچہ جن
بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا اُن میں ایک یتیم بچہ بھی تھا میں نے سوچا کہ
تمہارے اپنے بچے کو محبت کے ساتھ بلا کر ساتھ لے جانے سے کہیں اس یتیم بچے
کہ دل میں یہ خیال نہ آئے کہ کاش آج میرا باپ بھی زندہ ہوتا اورمجھے اتنی
ہی محبت سے بلاکر ساتھ لے جاتا اس پر اس یتیم کا دل دکھ جائے۔ میں نے تمہیں
منع کیا تھا۔ مائیکل ایچ ہارٹ نے کہا کہ اس قدر یتیم بچے سے محبت کہ اس کا
دل نہ ٹوٹ جائے اس کا خیال رکھنا مجھے کسی اور شخصیت میں نظر نہیں آیا اس
لئے عدل کا تقاضا تھا کہ میں مسلمانوں کے پیغمبر کو سب سے پہلے اپنی کتاب
میں جگہ دوں ۔
پیارے آقا مدینے والے مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیوانوں ١٢ ربیع
الاول کو خوب خوشیاں مناؤ مگر جب تک حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
سیرت پر عمل نہ ہوگا عشق کا دعوہ مکمل نہیں ہوگا کیوں کہ ہونا تو یہ چاہیے
کہ ہم اس شعر کی مصداق بن جائیں ۔
فنا اتنا تو ہوجاؤں میں تیری ذات عالی میں
جو مجھے کو دیکھ لے اُس کو تیرا دیدار ہوجائے
اللہ تعالٰی اپنے حبیب لبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے میں ہمیں
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے
۔آمین |