بعد از خرابیٔ بسیار اب غیروں کی طعنہ زنی
رابرٹ- آر - ریلی امریکن خارجہ پالیسی کی کونسل کے سینئر فیلو ہیں اور
کمیٹی برائے مغربی تہذیب کے چیر مین بھی ہیں- ان کی ۲۰۱۰ء میں شائع ہونے
والی کتاب "مسلم ذہنی بندش " (کلوزنگ آف مسلم مائینڈ) میں ناقص العقلی ،
توہماتی نظریات، تقدیر پرستی ، تقلیدی ذہن اور توکل الا اللہ کو مسلمانوں
کی کچھ شدت پسند تنظیموں کی ذہنی اساس یا مصنف کے الفاظ میں "ذہنی بیماری"
کا باعث بتا یا گیا ہے- بلکہ بقول مصنف تمام سنی مسلمانوں کی ذہنی اساس یہی
ہے- مصنف نے تاریخی اعتبار سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہزار بارہ سو
سال پہلے جبریہ اور قدریہ کی کشمکش میں غیر عقلیت(جبریہ) کی کامیابی نے ایک
ایسے "نظریۂ قوت" کو جنم دیا جس کے اثرات پوری قوت کے ساتھ اب تک مسلمانوں
کے ذہنوں میں سرائیت کیے ہوئے ہیں- جبریت کی جیت نے گویا مسلمانون کو ذہنی
خود کشی پر مجبور کیا ان کا ذہن بند ہو گیا- سوچ کے دروازوں پر تالے پڑ گئے
اور وہ صرف مقلد ہو کر رہ گئے-" تقدیر پرستی "نے مسلم قوم کو کمزور کیا اور
اس کی قوت کو ضائع کیا جبکہ " توکل الااللہ" اسے ایک ساکت حالت کی طرف لے
گیا -سائنس ، عقل ، منطق اورفلسفہ پر پابندی عائد کردی گئی ، تقلیدی ذہن
خود اپنے اوپر الٹ گیا- اس کے نتیجے میں مسلم دنیا میں جبر و قوت ہی واحد
حاکمانہ علت قرار پائی- یہی نظریۂ قوت موجو دہ اسلامی شدت پسند گروہوں کی
پیدائش کا سبب ہے- مصنف نے یہ سارے نتائج خود مسلمانوں کی تاریخ اور کچھ
مسلمان دانشوروں اور مصنفین کی تصنیفات سے استفادہ کر کے حاصل کیے اور بعض
جگہ قران کی آیات اور احادیث بھی بیان کی ہیں- اس کے علاوہ فاضل مصنف نے
اور بہت سے فرسودہ اعتراضات بھی اٹھائے ہیں جو بہت پہلے سے اٹھائے جاتے رہے
ہیں – مثال کے طور پہ ذمی ، مرتد ، زکواۃ اور انسانی مساوات وغیرہ کے بارے
میں سوالات-
ان اعتراضات کے جوابات بہت سے جید اسلامی علماء کی تحریروں میں دیکھے
جاسکتے ہیں- لہذہ ہم ان کی تکرار نہیں کریں گے-
ہم صرف ان مشاہدات اور اعتراضات کی نشاندہی کر ینگے جو واقعی مسلمانوں میں
موجود ہیں اور مصنف بجائے خود اپنی رائے میں کلی یا جزوی طور پر درست ہے-
اس کے ساتھ ساتھ فاضل مصنف کی منطقی اور عقلی تاویلات اور توجیحات کا جائزہ
لیں گے - مزید یہ کہ جن مسلمان مصنفین کی تحریروں کے حوالے مصنف نے دیے ہیں
ان کے تحریر کردہ مشاہدے یا نظریہ پر اپنی رائے کا اظہار کریں گے- ان کی
ذات پر کوئی تبصرہ نہیں کرینگے نہ ہی ان کے کسی مکتبئہ فکر سے تعلق کو زیر
بحث لائیں گے- جن مسلمان مصنفین کے حوالے رابرٹ ریلی نے دیے ہیں ان میں
طارق ہیگی ، جارج ہورانی ، فضل الرحمن ، احمد امین ، فاطمہ مرنسی، محمد خیر
اور الحماد وغیرہ شامل ہیں-
اس کتاب کا موضوع مصنف کی زبان میں " فوقیت اقتدار بمقابلہ فوقیت وجہ(علت)
ہے-
اس کتاب کے مندرجات میں سے ان اقتباسات کے نچوڑ جو اس کتاب کے مرکزی خیال
کی نمائندگی کرتے ہیں درج ذیل ہیں جن کا تجزیہ یکے بعد دیگرے کیا جائے گا:
۱- تقدیر پرستی نے مسلم قوم کو کمزور کیا اور اس کے قوت کو ضائع کیا جبکہ
توکل الا اللہ اسے ایک ساکت حالت کی طرف لے گیا-
۲-تراشیدہ یا تاویل شدہ اسلام کی بربریت تراشیدہ دینیات سے آتی ہے
۳-مصنف کے خیال میں موجودہ اسلامی ذہن یا اسلامی طرز فکر ( خصوصا" سنی مذہب
) کا ذمہ دار اشاعرہ فرقہ کی کامیابی اور معتزلہ کی ناکامی کا تاریخی واقعہ
ہے-
اقتباسات (کلوزنگ آ ف مسلم مائینڈ):
۱۔ بنیادی تصور : تقدیر پرستی نے مسلم قوم کو کمزور کیا اور اس کے قوت کو
ضائع کیا جبکہ توکل الا اللہ اسے ایک ساکت حالت کی طرف لے گیا-
فضل الرحمان کی طرح مصر کی ثقافت کے مؤ رخ"احمد امین (۱۸۸۶-۱۹۵۴) کہتے ہیں
کہ: " اگر معتز لی روایت آج کے دور تک جاری رہتی تو تاریخ میں مسلم قوم کی
پوزیشن آج سے کہیں مختلف ہوتی - تقدیر پرستی نے مسلم قوم کو کمزور کیا اور
اس کے قوت کو ضائع کیا جبکہ توکل الا اللہ اسے ایک ساکت حالت کی طرف لے
گیا-
صفحہ ۱۲۸ پر "جبر کی منطق" کے تحت لکھتا ہے:
اشاعری شکل کے اسلام کی فاتحانہ اخلاقی مادہ پرستی(وجوب پرستی) سیاسی ترقی
کے لیے متنوع نتائج رکھتی تھی اور اب بھی رکھتی ہے- اور یہی اس میں رکاوٹ
کی ذمہ دار ہے- جامعہ قاہرہ میں فلسفہ کے پروفیسر حسن حنفی نے تجویز کیا ہے
کہ "عقلی سائینس پر الغزالی کی تنقید حکمرانوں کو ایک نظریہء قوت دے رہی
تھی" – زمانہء ازمنہ وسطی میں قوتوں کا توازن کتنا ضرورت سے زیادہ جبریت کے
حق میں تھا اس بارے میں فضل الرحمان نے کہا کہ " بڑھتی ہوئی جبریت
(ڈیسپوٹزم) اس نظری رویہ کی وجہ سے قائم رہی (یا برداشت کی گئی)- یہ حقیقت
ہے کہ کمال اتاترک نے ترکی کو جدید اور جمہوریہ بنانے کی اپنی کوشش میں
الغزالی کے کام کو ترکی میں ترجمہ کرنے پر پابندی لگا دی تھی-
بہت سے لوگ حیران ہیں کہ مسلم دنیا میں جمہور یت مقامی طور پر کیوں پروان
نہیں چڑہی اور پوچھتے ہیں کہ کیا اب بھی آج یہ پروان چڑھ سکتی ہے؟ اس کا
جواب یہ ہے کہ جب تک اشاعری (یا حنبلی) نظریہء دنیا مروج ( مقبول) ہے
جمہوری ترقی کامیاب نہیں ہو سکتی، اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ یہ نظریہ
"قوت" کو " توجیہ(علت)" پہ مقدم رکھتا ہے-وہ لوگ جو یہ سمجھیں کہ اب اشاعری
مشرق وسطی میں غیر متعلق ہو چکا ہے تو انہیں اس غیر عملی کردار کی کوئی اور
وضاحت فراہم کرنے کی ضرورت ہوگی – میں یہ نہیں کہتا کہ اشاعری ان معنوں میں
کوئی زندہ قوت ہے کہ جس سے لوگ اسلامی مسائل کے حل اس جدید دنیا میں بہ ہوش
و حواس تلاش کرتے ہیں- اگرچہ کہ یہ الاظہر اور دوسرے اسلامی دینیات کے
اداروں میں پڑہائی جاتی ہے ، بلکہ یہ ایک پہلے سے ذہن میں پیوست نظریہ(ڈیڈ
ویٹ) کی طرح عمل کرتی ہے جو حل کی قابل توجیہ تلاش کو روکتا ہے- اس سے بھی
زیادہ خراب حنبلیت ہے جس کا د فاع کرنے اشعری اٹھا تھا ، جو آ ج کل وہابیت
کی شکل میں مقبول ہو رہی ہے ، اور جو توجیہ کے لیے اشاعری سے بھی زیادہ
نقصان دہ ہے- بڑھتی ہوئی اسلامی تحریکوں پہ ولفرڈ کینٹ ول اسمتھ کے الفاظ
کا اطلاق ہوتا ہے: " نیا اسلامی تلاطم ایک ایسی قوت ہے جو مسائل حل کرنے کے
لیے نہیں بلکہ ان لوگوں کو زہر دینے کے لیے ہے جو اب اور زیادہ مسائل کے حل
کی ناکامی کو برداشت نہیں کر سکتے-
اقتباس اول کا تجزیہ:
تقدیر ، توکل الااللہ اور نظریہء قوت کی اصطلاحات کی اصل غرض و غایت اور
معنی کیا ہیں اور ہمارے معاشرے میں اسے کیسے غلط معنی پہنائے گئے ہیں۔ ذرا
غور فرمائیے:
تقدیر ایمان کا حصہ ہے ، توکل الا اللہ مسلم کی قوت زندگی ہے ہر مایوسی کے
خلاف تلوار ہے- لیکن اپنا حصہ ادا کیے بغیر ، کوشش و کاوش کیے بغیر ، میسر
وسائل کو استعمال کیے بغیر محض تقدیر پر بھروسا کرنا یا اللہ توکل بیٹھے
رہنا تقدیر پرستی ہے یہ ذہنی سوچ صرف معجزات کے انتظار میں ہوتی ہے-مواقع
کھوتی اور ضائع کرتی ہے ، کسی ہدف کو حاصل کرنے کے لیے کمر ہمت نہیں
باندھتی- یہ بات بدقسمتی سے بہت حد تک درست ہے اور مسلمانوں کی موجودہ حالت
میں اس کا خاطر خواہ حصہ ہے- مصنف رابرٹ ریلی نے اس کیفیت کو بڑی حد تک
صحیح پہچانا ہے- قرون اولی کے مسلمانوں نے عملی طور پر تقدیر پہ ایمان کی
مثالیں قائم کیں- ایسے ایسے معرکے سر انجام دیے جو بظاہر ناممکن نظر آتے
تھے- حضرات ابو عبیدہؓ ، سعد بن ابی وقاصؓ ، علیؓ کرم اللہ وجہ ، خالد بن
ولیدؓ ، عقبہ بن نافع ، طارق بن زیاد ، موسی بن نصیر ، محمد بن قاسم اور
بہت سے د وسرے سالاروں نے اس کی ناقابل یقین مثالیں قائم کیں-
یہاں یہ بات بیان کرنا ضروری ہے کہ تقدیر پرستی اور تقدیر پر ایمان دو
مختلف چیزیں ہیں- تقدیر پرستی میں آدمی ہر واقعہ اور دنیوی معاملات کی ذمہ
داری تقدیر پر ڈال کر اپنی کسی بھی ذمہ داری سے استثناء حاصل کر لیتا ہے-
یا محض تقدیر کا نام لے کر کسی کو شش ، جستجو، محنت و مشقت میں نہیں پڑتا
کہ جو قسمت میں ہوگا دیکھا جاےَ گا- توکل الااللہ کے نام پہ معجزوں کا
انتظار کرتا ہے- یہ تقدیر پرستی بد قسمتی سے مسلم معاشروں میں رچی بسی ہیں
اور مسلمانوں کی تعداد کا ایک معتدبہ حصہ اس کا شکار ہے-تقدیر پہ ایمان کی
یہ انتہائی صورت تقدیر پرستی کہلاتی ہے جو کسی بھی طرح تقدیر پہ ایمان کا
مقصود ہرگز نہیں ہے-
" تقدیر پہ ایمان کا اصل مقصود یہ ہے کہ انسان میں قناعت ، یک سوئی، توکل
علی اللہ، صبر و استقامت اور دنیوی طاقتوں سے بے خوفی پیدا کی جاےَ اور اس
میں ایسی اخلاقی قوت بھر دی جاےَ جس کی موجودگی میں مایوسی، پریشانی، حسد
،رشک اور لالچ میں مبتلا ء نہ ہو اور وہ اس قوت سے حق و صداقت اور نیکی کے
طریق پر قائم رہے اور اس کی طرف دوسروں کو دعوت دے- انسان دنیا کی کسی طاقت
کو نفع نقصان کا مالک نہ سمجھے بلکہ صرف خدا کو فاعل، مؤثر اور نافع سمجھے،
مخلوقات کے سامنے ذلت نہ اختیار کرے ، غرور و نخوت کو اپنے نفس میں جگہ نہ
دے اور خدا کی زمین پر سرکشی اور تکبّر نہ اختیار کرے"-(از کتاب " مسئلہ
جبر و قدر")
اس کا بیان سورہ الحدید میں کیا گیا ہے:
مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنفُسِكُمْ إِلَّا
فِي كِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَا ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّـهِ
يَسِيرٌ ﴿٢٢﴾ لِّكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا
بِمَا آتَاكُمْ ۗ وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ ﴿٢٣﴾
-الحدید
کوئی مصیبت ایسی نہیں ہے جو زمین میں یا تمہارے اپنے نفس پر نازل ہوتی ہو
اور ہم نے اس کو پیدا کرنے سے پہلے ایک کتاب میں لکھ نہ رکھا ہو ایسا کرنا
اللہ کے لیے بہت آسان کام ہے (٢٢) (یہ سب کچھ اس لیے ہے) تاکہ جو کچھ بھی
نقصان تمہیں ہو اس پر تم دل شکستہ نہ ہو اور جو کچھ اللہ تمہیں عطا فرمائے
اس پر پھول نہ جاؤ اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اپنے آپ کو بڑی
چیز سمجھتے ہیں اور فخر جتاتے ہیں –
مختلف معاشرتی رویوں نے اس اصل مقصد کو نظروں سے اوجھل کردیا ہے اور بہت سے
مسلمان صرف تقدیر پرستی کا شکار ہوگئے ہیں- اور اردو محاورے کے مصداق اللہ
توکل ہوکے بیٹھ گئے- توکل الا اللہ کا مطلب ہے کہ ا پنی پوری کوشش کے بعد
اللہ پر بھروسا رکھنا، نہ کہ کچھ نہ کرکے محض اللہ کے بھروسے بیٹھے رہنا۔
نظریہء قوت سے مصنف کی مراد دانشورانہ مباحث پہ پابندی کی وجہ سے خلیفہ کو
یہ قوت حاصل ہوئی کہ وہ ہر مخالف کو حکم سے بزور قوت کچل دے- اس کے خلاف
کوئی آواز نہ اٹھائی جا سکے- اسےخلیفہ کی بربریت سے تشبیہ دی گئی- اسلامی
تاریخ خلافت میں ایسا ہوتا بھی رہا- جیسا کی امین الرشید کا قتل جو اس کے
بھائی خلیفہ مامون الرشید کے دور میں ہوا- یا حجاج بن یوسف کے ہاتھوں عبد
اللہ بن زبیرؓ کا قتل ، حاکم کوفہ کی فوج کے ہاتھوں حضرت حسینؓ کی شہادت
اور بہت سے ایسے ہی واقعات۔یہ واقعات خلافت کے ملوکیت میں تبدیل ہو جانے کے
بعد رونما ہونا شروع ہوئے- جیسا کہ کتاب" خلافت و ملوکیت " کے مصنف صفحہ
۱۴۷ پر لکھتے ہیں:
"اس طرح جس تغیر کی ابتداء ہوئی تھی ، یزید کی ولی عہدی کے بعد سے وہ ایسا
مستحکم ہوا کہ موجودہ صدی میں مصطفی کمال کے الغائے خلافت تک ایک دن کےلیے
بھی اس میں تزلزل واقع نہیں ہوا- اس سے جبری بیعت اور خاندانوں کی موروثی
بادشاہت کا ایک مستقل طریقہ چل پڑا- اس کے بعد سے آج تک مسلمانوں کو
انتخابی خلافت کی طرف پلٹنے کا کوئی موقع نصیب نہ ہو سکا- لوگ مسلمانوں کے
آزادانہ اور کھلے مشورے سے نہیں بلکہ طاقت سے بر سر اقتدار آتے رہے- بیعت
سے اقتدار حاصل ہونے کے بجائے اقتدار سے بیعت حاصل ہونے لگی-"
بد قسمتی سے اقتدار سے بیعت کے نتیجے میں تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ
مسلمان خلفاء اور بادشاہوں نے اپنے بھایئوں، باپ اور بیٹوں تک کو غداری کے
الزام میں قتل کیا- ۱۳۲ھ کے بعد عباسیوں کے ہاتھوں ہزار ہا امویوں کا قتل
ایک داستان خونچکاں ہے- ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ باقی غیر مسلم اقوام کی
تواریخ بھی اس عمل سے بھری ہوئی ہیں! مگر اسلام کے ماننے والوں کا یہ عمل
ناقابل فہم اور اسلام سے انحراف کے سوا کچھ نہیں- لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز
نہیں ہے کہ چند منفرد شخصیات کے طرز عمل کی وجہ سے جو زیادہ تر سیاسی تھا
اور اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے تھا ایک سواد اعظم کو نظر انداز کر
دیا جائے جو اس طرز عمل کو بجا نہیں سمجھتے اور اسلام کے صحیح طرز فکر کی
فہم رکھتے تھے یا اسلام کے زریں اصولوں کو نظر انداز کر کے اسلام کو اس
بربریت کا منبع سمجھا جائے- تمام ائمہ کرام نے ہر دور میں ملوکیت اور
نظریہء قوت کے خلاف آواز بلند کی ہے- آج بھی مسلمان انہی میں سے کسی نہ کسی
امام کے پیرو کار ہیں نہ کہ کسی خلیفہ کے- علاوہ خلفاء راشد ینؓ اور صحابہء
کرامؓ کے جو سارے اماموں کے امام ہیں-
مصنف رابرٹ ریلی نے یہاں ملوکیت کے نظریہء قوت کو اسلام کے اطاعتی نظام سے
خلط ملط کر دیا ہے- امیر کا فیصلہ ماننا لازم ہے ، مگر یہ بذریعہ قوت نہیں
ہوتا بلکہ امیر منتخب کرنے کے عمل کا از خود نتیجہ ہوتا ہے یعنی امیر کا
انتخاب اس بات کا اعلان ہے کہ امیر کی اطاعت قبول کر لی گئی ہے- یہی اللہ
کا حکم بھی ہے-اطیع اللہ، و اطیع الرسول و ا ولی لامر منکم کا حکم اس امیر
کے لیے ہے جو متفقہ سب سے ایماندار اور سب سے زیادہ صلاحیت والا، متقی
پرہیزگار انسان ہوتا ہے ، نہ کہ کسی بادشاہ کے لیے-
۲- بنیادی تصور:۔ تراشیدہ یا تاویل شدہ اسلام کی بربریت تراشیدہ دینیات سے
آتی ہے- تراشیدہ اسلام میں صرف متعصب بغاوت( فینیٹیکل ریوولٹ) کی شکل میّں
کوئی چیلینج باقی بچ پایا-
مصنف صفحہ ۱۴۰پر رقمطراز ہے:
دانشور فاطمہ مرنسی اس بیماری کی وضاحت اس طرح کرتی ہیں: " جب دانشورانہ
حزب اختلاف کو دبا دیا گیا اور خاموش کر دیا گیا ، تو صرف بغاوت یا دہشت
گردی کو ہی کچھ کامیابی ہو سکتی تھی ، جیسا کہ ہم آج اچھی طرح دیکھ رہے
ہیں- صرف مخالف کی بربریت ہی خلیفہ کی بربریت سے مقابلہ کرسکتی تھی- یہ
نقشہ ، جس سے مسلمانوں کی تاریخ بھری پڑی ہے ، جدید حقیقت کی وضاحت کرتا
ہے- جس میں تبلیغ کی جاتی ہے صرف مذ ہبی بربریت ہی وہ سیاسی زبان ہے جو
کوئی کردار ادا کرنے کے قابل ہے- اس وقت سے (معتزلہ کی بیخ کنی سے) آج تک
تاویل شدہ اسلام میں صرف متعصب بغاوت( فینیٹیکل ریوولٹ) کی شکل میّں کوئی
چیلینج باقی بچ پایا- "
" مرنسی معتزلہ کی بیخ کنی کو بیان کرنے سے بربریت کی اس بیماری کے منبع کے
قریب قریب پہنچی ہے ، مگر وہ یہ تخصیص کرنے میں ناکام رہی کہ اس تراشیدہ
اسلام کی بربریت تراشیدہ دینیات سے آتی ہے
صفحہ ۱۴۱ پہ مصنف لکھتا ہے:
محمد خیر کے الفاظ میں "خدا کی قوت کو علت و اسباب کی بیڑیوں سے آزاد رکھنے
کی قیمت عقلیت کا نقصان (قربانی) تھا" جو نتیجہ کے طور پر غیر عقلی رویہ کو
فروغ دیتی ہے- مختصر طور پہ ، جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے ٗ اشاعری
دینیات نے اپنے پیرو کاروں کو حقیقت کے انکار پر مجبور کیا-
سعودی مصنف اور مصلح ترکی الحماد علامات کی وضاحت یوں کرتا ہے:
"بدقسمتی سے ہم ضعیف الاعتقادانہ اور نامعقول طریقے سے رجعت پذیر ہیں" – آج
کی دنیا پہ عقل حکمران ہے- یہ ایک خاص منطق کے مطابق عمل کرتی ہے- جو
مستقبل کو ایک خاص معیار اصول اور لحاظ کے مطابق دیکھتی ہے- دوسری جانب ہم
نے اس مستقبل کو دیو مالائی(وہمی) داستانوں کی خاطر تنہا چھوڑ دیا ہے-ہم
مافوق الفطرت کی دنیا میں رہتے ہیں ، نہ کہ حقیقی دنیا میں- جسے ہم نے مکمل
طور پر نظر انداز کیا ہوا ہے -
صفحہ ۱۴۵ پر لکھتا ہے:
اسباب و علل سے آزاد اسلامی دنیا قبل از فلسفہ، جادوئی سلطنت کی طرف پلٹ
گئی جہاں پراسرار مافوق الفطرت قوتوں کی وجہ سے ناقبل توجیہ واقعات رونما
ہوتے ہیں – معقول وضاحت کی جگہ یا وضاحت بشرط وجہ(علت) کے بجائے توہم پرستی
کے ساتھ نظریہء سازش کا تسلط ہے- روزانہ کا اسلامی پریس اس سے بھرا پڑا ہے-
نظریہء سازش ہی غیر عقلی دنیا کے استدلال کی کرنسی ہے- مسلمان ستم رسیدہ
(معصوم شکار) میں تبدیل ہو گئے---- عمومی طور پر یہودی یا مغربی سازشوں کا-
اسکے علاوہ واقعات براہ راست خدا کے سپرد کر دیے گئے انکی واحد وجہ کے طور
پہ- ایک بار پھر انہیں اس دنیا سے الگ کر دیا گیا جس میں آدمی کے عمل
(حرکات) کوئی اثر رکھ سکتی ہوں- جیسا کہ تیونسی شاعر باسط بن حسن اس کے
بارے میں بیان کرتا ہے:
"ہمارے درمیان عمو می گفتگو یا رائے عامہ اس بات کی خوگر ہے کہ اپنی
بدقسمتی ( بد نصیبی)، اپنی وحشت جس نے ہمیں گھیرا ہوا ہے، اپنے تہذیب و
تمدن کے کھوکھلے پن اور اپنے مسائل کا الزام دوسرے سربراہوں اور مطلق
العنان غاصبوں پر لگائے- یہ(رویہ) ہمارے المیوں سے ہمیں ہماری اپنی ذمہ
داری سے بری الذمہ کرتا ہے ، اپنے کو خیر ( معصوم شکار) اور دوسروں کو شر
کی ثنویت کے ذریعے-"
صفحہ ۱۴۶
جب جنوبی ریاستہائے متحدہ میں کترینہ کا طوفان آیا ، تو عرب پریس میں اعلان
کیا گیا کہ یہ کترینہ اللہ کی طرف سے عذاب ہے جو امریکہ کی سلطنت کی طرف
بھیجا گیا ہے-اور یہ کہ دہشت گرد کترینہ اللہ کے سپاہیوں میں سے ہے- مزید
یہ کہ اس تباہی کی صرف یہ وجہ ہے کہ اللہ ان سے ناراض ہے-
زیادہ تر امریکن اس کو ایک سادہ پروپیگنڈہ کے طور پر دیکھتے ہیں بغیر یہ
سمجھے ہوئے کہ :
"اس کی جڑ یں ایسے دینی تناظر میں ہیں جو اصرار کرتا ہے کہ واقعہ کو پہلی
وجہ (خدا کا حکم) کا براہ راست نتیجہ سمجھنا چاہیے-
اقتباس دوم کا تجزیہ: "
راقم الحروف کے خیال میں اوپر بیان کیے گئے مشاھدات بڑی حد تک درست ہیں-بہت
سے مسلمانوں کی اپنی تراشیدہ یا تاویل شدہ دینیات ہے- یا وہ کسی عالم کی
تراشیدہ یا تاویل شدہ دینیات کے ماننے والے ہیں-مگر یہ بات مکمل درست نہیں-
یہ ٹھیک ہے کہ بعض مسلمان اپنے مقاصد کے لیے دینیات کو تراشنے سے دریغ نہیں
کرتے- لیکن عمومی طور پر علماء سے اس کی توقع رکھنا یا ان پر اس کا الزام
لگانا درست نہیں- خصوصی طور سے جب قران جیسی معجزاتی کتاب جس کے محفوظ ہونے
میں کوئی شک نہیں، موجود ہے- علمائے سوء ضرور اپنی اپنی تراشیدہ دینیات
رکھتے ہیں ، مگر ان کی نشاندہی کون کرے گا ، یہ ایک بہت اہم سوال ہے!
تراشیدہ دینیات کو صرف علم سے بے بہرہ یا دنیوی فوائد کے شیدائی ہی قبول
کرتے ہیں- یہاں تراشنے اور تاویل کرنے کے فرق کو سمجھنا ضروری ہے – تراش
خراش جان بوجھ کر غلط مقصد کے لیے کی جاتی ہے جو بنیادی طور پر ہوتی ہی غلط
ہے- جبکہ تاویل غلط اور صحیح دونوں ہوتی ہے- غلط تاویل کی بھی دو اقسام
ہیں- ایک کم علمی کی وجہ سے غلط تاویل اور دوسری جان بوجھ کر اپنی بات
منوانے کے لیے غلط تاویل- بہت سے مسلمان اپنے گناہوں اور غلطیوں کو جواز
فراہم کرنے کے لیے تراشیدہ تاویل کا سہارا لیتے ہیں- جبکہ صحیح تاویل کے
لیے سیاق و سباق کا علم ، واقعات اور حالات اور معاشرے کی کیفیت کا معلوم
ہونا ضروری ہے-ایسے علماء کی کمی نہیں جو یہ علم رکھتے ہیں- اگر سائل کا
ارادہ نیک ہو اور نیت صاف ہو تو استفادے کے لیے یہ علماء پہچانے جاتے ہیں-
یہ ایک تلخ حقیقت ہے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد دینی علم سے بے بہرہ ہے اور
ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو جان بوجھ کر دینی علم حاصل نہیں کرنا چاہتی-
اس کے علاوہ اکثر ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو کہتے ہیں کہ علماء کی موجو
دگی میں ہمیں دینی علم حاصل کرنے کی کیا ضرورت ہے ، ہم صرف تقلید کرینگے-
اس قسم کے لوگ بہت آسانی سے علما ئے سوء کے جال میں آجاتے ہیں اور ان کی
تراشیدہ دینیات کے مقلد بن جاتے ہیں- بہت سے پیروکار سمجھتے بوجھتے ہوئے
تقلید کے طور پر اور بہت سے نا سمجھی یا کم علمی کی وجہ سے بربریت و انتہاء
پسندی کی راہ پر گامزن ہو جاتے ہیں- دراصل قران کا علم حاصل کرنے میں ہی
دنیوی اور اخروی کامیابی ہے- یہی سارے مسائل کا واحد حل ہے- قران قلب و ذہن
کو وہ روشنی عطا کرتا ہے کہ حق و باطل کی پہچان میں دشواری نہیں ہوتی-
عذاب اور معجزات
چونکہ ہمارے معاشرے میں کسی بھی قدرتی آفت کو محض مفروضے یا ذہنی خیال کی
بنیاد پہ ،ارادی یا غیر ارادی ذہنی فرحت حاصل کرنے کے لیے اللہ کا عذاب
قرار دے دینے کا چلن موجود ہے ، جو کہ ایک خیالی پلا ؤ سے زیادہ اہمیت نہیں
رکھتا-کیونکہ کسی بھی آفت کو عذاب قرار دینے کے لیے نہ ہمارے پاس کوئی ثبوت
ہے اور نہ ہی کوئی وسیلہ ہے(جیسےوحی) جو اللہ کے ارادے کو ظاہر کرے-محض
قران اور روائیتوں میں بیان کردہ عذاب کے واقعات کو زبردستی موجودہ صورتحال
پر منطبق کرنے کی کوشش کی جاتی ہے- اس لیے ضروری ہے کہ اس موضوع پہ کچھ غور
کیا جائے-
اللہ اور اس کے قادر مطلق ہونے پر ایمان کے نتیجے میں اور قران میں بیان
کیے گئے واقعات معجزات اور عذاب پہ ایمان کی وجہ سے ہم معجزات اور عذاب پہ
یقین رکھتے ہیں- اللہ نے ایک عالم اسباب تخلیق کیا ہے جس میں ہم رہتے ہیں-
ہم(انسانوں) نے اس عالم اسباب کو سمجھنے کی کوشش کی ہے، اس علم کو سائینس
کہتے ہیں- لیکن موجودہ جدید سائینس اس بات کی معترف ہے کہ ہماری پہنچ ابھی
تک اس عالم اسباب کے بھی بہت محدود دائرے تک ہو سکی ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ
انسانی ذہن اس مادی پہنچ کے دائرے سے حاصل کردہ علم کی بنیاد پر اس سے
ماوراء بھی کچھ سوچ سکتا ہے، جسے فلسفہ کہتے ہیں- لیکن فلسفیانہ کاوشیں
اکثر حقیقت سے دور پائی گئی ہیں یعنی جدید دور کے مشاہدات نے ان کے اکثر
نظریات کی تردید کردی ہے- لہذہ جدید دور کے سائینسدانوں(مثلا' اسٹیفن
ھاکینگ) کے بقول اب فلسفہ کا کام ختم ہو گیا ہے- اب انسان صرف محیر العقول
مشاہدا ت کی توضیح اور تجزیے میں الجھ کے رہ گیا ہے- یہ ہیں انسانی عقل کے
حدود-
اللہ قادر مطلق ہے- اس کے لیے بغیر اسباب کے کوئی واقعہ منعقد کردینا
ناممکن نہیں ، کیونکہ بہرحال اسباب بھی اسی کی تخلیق ہیں- ہماری ناقص عقل
صرف اسباب کو سمجھتی ہے کیونکہ ہم اس عالم اسباب میں رہتے ہیں- بلا سبب کسی
واقعہ کو سمجھنے میں ہمیں دقت کا سامنا ہوتا ہے- یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے
ہم سہ جہتی دنیا میں رہتے ہیں اور کسی چہار جہتی نظام کو سمجھنا ہمارے لیے
نا ممکن ہے جبکہ ہمارے پاس اس کے ریاضیاتی ثبوت بھی موجود ہیں- معجزات اور
دنیوی عذاب اسی دوسرے قسم کے واقعات کی قسم میں سے ہیں جن کا سبب نہیں
ہوتا- مثال کے طور پہ حدیث کے مطابق فرشتے کا رسول اللہﷺ کے پاس حاضر ہونا
اور کہنا کہ اگر آپﷺ کہیں تو اس طائف کی بستی کو ان دو پہاڑوں کے درمیان
پیس دوں- گویا اللہ کو پہاڑ کو ہلانے کے لیے کسی عالم اسباب کے سبب کی
ضرورت نہیں جیسے زلزلہ وغیرہ- عالم اسباب اور بہت سے دوسرے نامعلوم عالموں
میں سے ایک ہو سکتا ہے جو اللہ نے تخلیق کیے ہوں، ان نا معلوم عالموں کا
ہمیں علم نہیں اور نہ ہم انہیں سمجھ سکتے ہیں- قران کے مطابق عذاب ایک
اچانک آنے والی آفت ہوتی ہے، اور پورے کا پورا شہر یا آبادی اس کی گرفت میں
آ جاتی ہے- اس کا سبب نامعلوم ہوتا ہے، کسی طریقے سے اس کی پیش گوئی نہیں
کی جاسکتی اور وہ اچانک نازل ہوتا ہے- اس کی مثالیں قران میں کئی جگہوں پہ
بیان کی گئی ہیں- جیسے صاعقہ (اچانک ٹوٹ پڑنے والا عذاب ---فصلات -۱۷)-
یا الصیحۃ ( کڑک دار آواز یا دھماکہ---ھود ۶۷) ایک چنگاڑھ تھی اور جیسے وہ
کبھی وہاں بسے ہی نہ تھے وغیرہ-
یعنی عذاب یا معجزہ ناقابل فہم اور ناقابل سراغ ہوتا ہے- لہذہ ایسی آفت یا
طوفان ، سیلاب، سونامی وغیرہ جس کی پیش گوئی کی گئی ہو، یا اچانک ہو لیکن
اس کے اسباب کا پتہ ہو اللہ کا عذاب نہیں قرار دیا جاسکتا- ہر بڑے طوفان کو
اللہ کا عذاب قرار دے دینا بے علمی کے سوا کچھ نہیں- قران سے معلوم ہوتا ہے
کہ اللہ عذاب کے لیے فرشتوں اور دیگر قوتوں کو ماوراء اسباب استعمال کرتا
ہے- لہذہ کسی قدرتی آفت کو ٰعذاب قرار دے دینا ہماری ناقص رائے میں صرف ایک
مفروضہ ہے- یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اللہ اسباب پیدا کر کے بھی عذاب لا
سکتا ہے ، درست ہے ، لیکن اس بات کو جاننے کا ذریعہ کیا ہے کہ یہ اللہ کا
عذاب ہے ، محض مفروضہ!۔۔ اس لیے ایسی بات نہ ہی کہی جائے تو بہتر ہے۔
نظریہء سازش یقینی طور پہ ہمارے ذہنوں میں رچا بسا ہے اور یہ درست بھی ہے
کہ ہر قسم کا حریف اپنے مخالف کے لیے سازش تیار کرتا ہے- سازش بنانے والے
کے لیے وہ حکمت عملی ہوتی ہے اور مخالف کے لیے سازش- مگر ہم اس سازش کا
شکار کیوں ہوں، اس سازش کو ناکام بنانے کے بجائے سازشی پر محض الزام عائد
کر دینا مسئلہ کا حل تو نہیں ہے- سازش کا واویلہ کرنے سے سازشی ناکام نہیں
ہو سکتا- یہ یاد رکھیے کہ جن عالمی اصولوں کو مد نظر رکھ کر مخالف حکومت یا
حکمراں کی سازش ثابت کی جاتی ہے وہ اصول صرف کمزور قوموں کے لیے لاگو ہیں-
طاقت ور حکومتوں کے لیےطاقت ہی اصول ہے-
مصنف نے محمد خیر کے الفاظ کا حوالہ دیا ہے کہ "خدا کی قوت کو علت و اسباب
کی بیڑیوں سے آزاد رکھنے کی قیمت عقلیت کا نقصان (قربانی) تھا جو نتیجہ کے
طور پر غیر عقلی رویہ کو فروغ دیتی ہے"- ہمارے خیال میں یہ جملہ انسانی عقل
کی کم مائیگی یا بد عقلی کو ظاہر کر رہا ہے- یہ ٹھیک ہے کہ مسلمانوں میں
غیر عقلی رویے موجود ہیں، لیکن خدا کی قوت کے لیے کوئی اصول، ضابطہ یا
قانون بیڑی نہیں بن سکتا- علت و اسباب اس عالم اسباب کے ضوابط تو ہو سکتے
ہیں جن کے تحت یہ عالم بنا ہے، لیکن یہ ضوا بط اللہ کی قوت کے لیے کسی طور
بھی رکاوٹ نہیں بن سکتے- اللہ کی قوت کسی حد کی پابند نہیں ہے- جیسا کہ ہم
نے پہلے عرض کیا کہ عالم اسباب اور بہت سے عالموں میں سے ایک ہو سکتا ہے جو
اللہ نے تخلیق کیے- عالم اسباب علت و اسباب کی بیڑیوں میں جکڑا ہوا ہے
کیونکہ خالق نے اسے ایسا ہی بنا یا ہے، اس کے لیے علت و اسباب کے قوانین
ایجاد کیے ہیں ، نہ کہ وہ خود ان اسباب کا پابند ہے- خالق کسی بھی پابندی
سے مبری' اعلی' و ارفع ہے- اب تو جدید سائینسداں بھی اس نتیجے پر پہنچ چکے
ہیں کی حقیقیت متنوع ہے- ایک ہی واقعہ کی مختلف حقیقتیں ہو سکتی ہیں اور ہر
حقیقت کا ماڈل مختلف اور درست ہو سکتا ہے – یعنی اس عالم اسباب میں بھی
ضمنی عالم اسباب موجود ہیں جو اپنی علتیں اور اسباب رکھتے ہیں یا پھر ہمارے
علم سے ماوراء کچھ اور حقیقت رکھتے ہیں- لہذہ اللہ کی قوت ہماری عقل سے
ماوراء ایک مطلق قوت ہے جو کسی دنیوی قانون سے بالا تر ہے-مصنفین اسٹیفن
ہاکینگ اور لیو نارڈ ملو ڈینو کی شائع ہونے والی کتاب "دی گرانڈ ڈیزائین"
مطبوعہ ۲۰۱۰ ء میں اب تک کی معلوم دریافتوں، مشاہدات اور ریاضیاتی
نمونوں(میتھمیٹکل ماڈل) کی روشنی میں کائینات کی طبعی حقیقت کے تصور کو پیش
کیا ہے اور اس کا لب لباب ماہنامہ " سائینٹفک امریکن"اکتوبر ۲۰۱۰ء میں بیان
کیا گیا ہے- مزید تفصیل کے لیے راقم الحروف کا مضمون " حقیقت کائینات " کا
مطالعہ بہتر رہے گا-
۳-مصنف موجودہ اسلامی ذہن یا اسلامی طرز فکر ( خصوصا" سنی مذہب ) کا ذمہ
دار اشاعرہ فرقہ کی کامیابی اور معتزلہ کی ناکامی کو قرار دیتا ہے-
باب ۶ صفحہ۱۲۷ ------ عنوان -" زوال اور نتائج" کے تحت لکھتا ہے:
" اگر الغزالی نہیں ہوتا تو ابن رشد اور عقلیت مسلم ذہن کے لیے جنگ جیت
سکتے تھے- لیکن ایسا نہیں ہوا اور نتیجہ کے طور پر سنی مسلم ذہن نے نتیجہ
بھگتا ، وہ بند ہو گیا- مصلح مفکر طارق ہیگی بیان کرتا ہے: " ایسے شخص کا
رتبہ بڑہانے سے جو یہ یقین نہیں رکھتا تھا کہ انسانی ذہن خدا کی بتائی ہوئی
سچائی(حق) کو سمجھنے کے قابل ہے، ایک ایسے عمل کو جاری کیا جو عرب ذہن پر
اپنے تباہ کن اثرات کے ساتھ آج تک جاری ہے – یہ ذہن نئے تصورات کے لیے حاجز
(انسولر)، تنزل پسند( ریگریسو) اور بند یا غیر وصول پذیر( ان ریسیپٹو)
ہوگیا-"
فقہ کی برتری کی ضمانت کے ساتھ، یہ ذہنی رجحان(مائینڈ سیٹ) اپنے آپ کے اوپر
الٹ گیا اور شریعت کی مزید بہت تفصیلی ترجمانی میں لگ گیا ، یہاں تک کہ ہر
ہر صورتحال پہ شرع کا اطلاق کر کے فیصلہ کیا گیا اور وضاحت کی گئی، اور پھر
یہ رک گیا- اجتہاد کا دروازہ بند ہو گیا –تقلید حکمراں ہوئی- فلسفہ مر گیا
( جامعہ الاظہر کے سلیبس سے نکال دیا گیا ، انیسویں صدی میں اس کو زندہ
کرنےکی کوشش ہوئی) –
مصنف جا رج ہورانی کے حوالے سے صفحہ ۱۴۰ پہ لکھتا ہے:
جارج ہورانی اسلامی دنیا میں بربریت کے محرکات کو ایسے ہی بلکہ اس سے بھی
زیادہ بھر پور تناظر میں پیش کرتا ہے، اس لائق ہے کے اس کا حوالہ دیا جائے،
وہ وضاحت کرتا ہے کہ:
اخلاقی ارادیت (ایتھیکل والنٹرزم ) نے شریعت کی ترجمانی میں اخلاقی سوالات
کے جوابات اخذ کرنے کا کام پوری طرح ماہر ین کے سپرد کر دیا- جن سے توقع کی
گئی کہ وہ عملی زندگی کے ہر ایک شعبہ میں رہنمائی کریں گے- یہ ماہرین علماء
تھے، پیشہ ور اسلامی علماء جس میں شامل تھے مدرسہ کے لوگ ، مسجدوں کے مبلغ
، قاضی ، مفتی ، اور نظری مصنفین- ان رجحانات اور مطلق العنا ن سلطانوں سے
عام آدمی کی ذات کی حوصلہ شکنی ہوئی کہ وہ کوئی اصلاحی تجویز ریاست کے لیے
پیش کر سکیں یا کوئی غیر مذہبی (دنیوی) گروہ منظم کرسکیں جیسے محنت کشوں کی
یونین ، خیراتی تنظیمیں اور خاص طور پر سیاسی جماعتیں- پس معاشرے میں ہر پر
امن تبدیلی کی ابتداء صرف ریاست کے سربراہ کی طرف سے کروا نی پڑتی تھی ، جو
زیادہ تر جیسا چل رہا ہے س ویسے ہی چلنے دو سے مطمئن ہوتا تھا- تبدیلی کے
لیے دوسرا طریقہ صرف انقلاب کے راستے سے تھا- لیکن صرف مذہبی رہنماء ہی وہ
قوت تھے جو حمائتی جمع کر سکتے تھے-
اقتباس سوم کا تجزیہ:
سب سے پہلے مختصر طور پہ معتزلہ اور اشاعرہ کے عقائد کا جائزہ لیتے ہیں –
اس کے لیے کتاب "مسئلہ جبر و قدر " سے مندرجہ ذیل اقتباسات ملاحظہ کیجیے :-
جبریت:۔
فلاسفہ اسلام کی کی عظیم اکثریت نے بھی اس مذہب ( جبریت) کی حمایت کی ہے-
چنانچہ مسلمانوں کا سب سے بڑا فلسفی ابن سینا تعلیقات شفا ء میں لکھتا ہے:-
" عرف عام میں مختار سے مراد بالقوت مختار ہے اور بالقوت مختار ہمیشہ ایک
مرجح کا محتاج ہوتا ہےجو اس کے اختیارات کو قوت سے فعل میں لاےَ- عام اس سے
کہ وہ مرجح خود اس کی اپنے ذات ہو یا اس سے خارج- اس بنا ء پر ہم میں جو
مختار ہے وہ دراصل مضطر کے حکم میں ہے"- (یعنی مختار بھی مختار نہیں ہےبلکہ
وہ ایک واسطے(میڈیم) کا محتاج ہے جو اس کے اختیار کو قوت سے عمل میں لائے
جو صرف اللہ ہے، گویا باالقوت مختار ، مختار مطلق نہیں بلکہ قوت فعل کے لیے
کسی مرجح کا محتاج ہے اور قوت فعل کےلیے اگر اللہ ہی مرجح ہے تو ہر چیز
جبریہ ہوئی لہذہ ہم میں جو مختار ہے وہ مضطر کے حکم میں ہے)-- مسئلہ جبر و
قدر صفحہ ۲۵
آیات جو جبریت کے حق میں پیش کی جاتی ہیں:
بقرہ، ۶،۷، ۶۵،۱۱۳، ۲۵۳ ، اعراف۵۴ ، ۱۰۰، الرعد ۱۶ ، الصفت ۹۶ ، فاطر ۲،۴۳
، بنی اسرائیل ، ۱۶،۴ ، آل عمران ۱۶۶،۱۲۸،۱۵۴ ، الحدید ۲۳ ، القمر ۴۹ ،
الشوری ۱۲، ۲۷ ، الانعام ۳۹، ۲۵، ۱۱۲، ۱۲۳ نساء ۸۸ وغیرہ
معتزلہ (قدریت)
اس مذ ہب کے قواعد سب سے پہلے واصل بن عطا الغزال نے مقرر کیے تھے جس کا
قول تھا باری تعالی حکیم عادل ہے، اس کی طرف شر اور ظلم کی اضافت جائز نہیں
ہے- نہ یہ جائزہے کہ اللہ نے خود ہی اپنے بندوں کو جن اوامر و نواہی سے
مکلف کیا ہے ان کے خلاف اعمال کے صدور کا وہ خود ارادہ کرے اور نہ یہ جائز
ہے کہ وہ بندوں کو کسی ایسے فعل پر سزا دے جس کا ارتکاب انہوں نے اس کے حکم
سے ہی کیا ہو- لہذہ بندہ ہی فاعل خیر و شر ہے-وہی ایمان و کفر اور اطاعت و
معصیت اختیار کرتا ہے------ "مسئلہ جبر و بقدر" صفحہ ۴۹
قدریہ کے قول سے لازم آتا ہے کہ انسان کا ارادہ خدا کے دائرہ خلق و ابداع
سے خارج ہو اور کائنات میں خدا کے سوا ایک اور چیز بھی ایسی ثابت ہو جو غیر
مخلوق ہے- کیوں کہ اگر انسان کے ارادہ کا خالق خدا نہیں ہے تو خود انسان
بھی اس کا خالق نہیں ہے ، اس لیے کہ انسان خود مخلوق خدا ہے لہذہ مخلوق کے
ارادہ کا غیر مخلوق ہونا لازم آتا ہے جو ایک نہایت ناقابل قبول بات
ہے---"مسئلہ جبر و بقدر" صفحہ ۲۲
آیات جو قدریہ پیش کرتے ہیں:
قصص ، ۵۹،۱۶، ہود ۴۷، انبیاء ۸۷، اعراف ۲۳، بقرہ ۲۵۶، یونس،۴۴ ۱۰۸، حم سجدہ
، ۴۶،۳۰، شوری ۳۰، الروم ۴۱، البینہ ۵،الزمر ۷، ۵۴، النساء ۶۹، الاحقاف ۳۱،
آل عمران، ۱۰،۱۰۸، ۱۳۴، الکہف ۲۹، المزمل ۱۹ ، انشقاق ۲۰، ص ۷۵ وغیرہ
اشاعرہ (جبریت)
اشاعرہ اور انکے ہم خیال حضرات خواہ کسسب کے قائل ہوں یا نہ ہوں اور قدرت
حادثہ کے لیے کسی قسم کی تاثیر مانتے ہوں یا نہ مانتے ہوں ان کے استدلال کا
منطقی نتیجہ خالص جبر ہی ہے- کیوں کہ جب خدا اپنے بندوں کا خالق ہے اور اسی
نے ان سے اچھے اور برے اعمال کے صدور کا ارادہ کیا ہے تو دو صورتوں میں سے
ایک صورت ضرور ہو گی یا تو بندہ میں قضائے الہی کے خلاف عمل کرنے کی قدرت
ہوگی یا نہ ہوگی—صورت اول میں بندے کی قدرت اور اس کے ارادہ کا خدا کی قدرت
اور اس کے ارادہ پر غالب آجانا لازم آتاہے جو بالاتفاق باطل ہے ، بصورت دوم
خدا کی قدرت کے آگے بندے کی قدرت کا بے اثر اور خدا کے ارادے کے سامنے بندے
کے ارادے کا بے چارہ ہونا لازم آتا ہے جس کے بعد کسب اور قدرت حادثہ کا عدم
اور وجود برابر ہے- یہی خالص جبریت ہے اور یہ ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ
جبریت کے مقدمات کو تسلیم کر لینے کے بعد کوئی شخص عقیدہء جبر کی انتہا کو
پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا- -- صفحہ ۶۰-۶۱ مسئلہ جبر و قدر
" تاویل کی خراد"
مصنف " مسئلۂ جبر و قدر" مولانا ابوالاعلی نے دونوں بحثوں کا نچوڑ بیان
کرتے ہوئے ایک بہت دلچسپ اصطلاح کو استعمال کیا ہے یعنی۔ " تاویل کی خراد "
۔ وہ فرماتے ہیں:۔
متکلمین اسلام کے دونوں گروہوں کی تقریر یں دیکھنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے
کہ مسئلہ جبر و قدر کو حل کرنے میں دونوں کو ناکامی ہوئی ہے ، مگر اس
ناکامی کی وجہ یہ نہیں ہے کہ انہوں نے قران سے ہدایت حاصل کرنی چاہی تھی
اور قران نے ان کی ہدایت نہیں کی ، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے قران
سے استفتا کرنے کے بجائے فلسفیانہ طریق پر فکر کی اور دو مقابل پہلو وَ ں
میں سے ایک پہلو اختیار کر لیا- پھر اپنے اعتقاد کی تائید میں دلائل
ڈھونڈنے کے لیے قران مجید پر نگاہ ڈالی ، جو آیات اپنے موافق مطلب نظر آ
ئیں ان کو " تاویل کی خراد" پر چڑہا دیا---- صفحہ ۷۱
اس مسئلہ پر مزید وضاحت تقدیر پرستی کے تحت اوپر بیان کی جاچکی ہے۔
معتزلہ اور اشاعرہ کے عقائد کو مختصر طور پہ سمجھنے اور مصنف " مسئلہ جبر و
قدر " کے فیصلے کہ دونوں گروہوں کو مسئلہ کے حل میں ناکامی ہوئی ہے اور
جبریہ و قدریہ دونوں عقائد کے ماننے والوں نے اپنے عقیدے کے حق میں قرانی
آیات کی تاویلیں کی ہیں، کے بعد اب ہم اصل مضمون کی طرف آتے ہیں –
مصنف رابرٹ ریلی کا ابن رشد اور عقلیت کی شکست کو مورد الزام ٹھہر ا کر اور
جبریت کی فتح کو مسلم ذہن کو بند ہونے کی وجہ قرار دینا جزوی طور پر درست
ہے لیکن اس کی وجہ اسلام کے نظریہ میں سقم نہیں ہے، بلکہ جبریت کی غلو آمیز
انتہا پسندی ہے جسے علماء کے ایک گروہ نے اختیار کیا- اور انکے پیرو کاروں
نے اس کی تقلید کی-اسے حرف آخر سمجھ لیا گیا- اسلام کی اصل تعلیمات اور
مسلمانوں کے جزو اعظم سے اس نظریہ کا تعلق نہ ہونے کے برابر ہے- عقلیت کی
تعریف فاضل مصنف رابرٹ ریلی کی نظر میں کیا ہے، اس کا اندازہ کتاب کے
مطالعہ سے لگایا جا سکتا ہے- مصنف عقل انسانی کو عقل کل سمجھتا ہے- جبکہ"
عقل مطلق" اور عقل انسانی میں زمین و آسمان کا فرق ہے- عقل انسانی آج کے
دور میں قدم قدم پر شکست سے دوچار ہے، اس کا ببانگ دہل اعلان آج کے
سائینسداں آئے دن کرتے رہتے ہیں- علماء اور ائمہ کا یہ کہنا کہ انسانی عقل
حقیقت سمجھنے کے قابل نہیں ہے سو فیصد درست ہے-آج کے دور میں فلسفہ کی شکست
نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ انسانی دماغ ایک حد سے آگے موشگافیاں نہیں کر
سکتا- نیز یہ کہ انسانی دماغ بہت بڑی حد تک اپنے ماحول اور مشاہدے کے زیر
اثر رہ کر تشکیل پاتا ہے- اس کی نشو نما کے دوران بچپن سے بہت سے نظریات و
تمثیلات اور خاکے ذہن میں پیوست ہو جاتے ہیں- یہی ذہن مشاہدے کی حد پہ پہنچ
کے ناقابل مشاہدہ کو اپنے فلسفہ سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے – محدود اور
متاثر شدہ ذہن کی یہ کوشش متاثر ہونے کی وجہ سے غیر جانبدار نہیں رہ سکتی
اس لیے یقینی طور پر مطلق حقیقت کو سمجھنے کے لیے ناکافی بلکہ قاصر ہے-
بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ انسانی دماغ حقیقت سمجھنے کی کسوٹی ہی نہیں ہے- مثال
کے طور پر بے وزنی کی حقیقی ذہنی کیفیت کو زمین پر رہ کر کوئی بھی انسانی
دماغ چاہے وہ کتنا بھی ذہین کیوں نہ ہو فلسفہ سے نہیں سمجھ سکتا جب تک
کہ خلاء میں جاکر بہ نفس نفیس اس کا تجربہ نہ کرے یا زمین پر ویسا ہی ماحول
مصنوعی صورت میں بنا کر تجربہ کیا جائے۔ اور پھر نئی ایجادات کے سہارے
مشاہدہ کی حد بڑھنے کے ساتھ سارے کے سارے فلسفہ دھرے رہ جاتے ہیں کیو نکہ
مشاہدہ فلسفیانہ نظریہ کی دھجیاں بکھیر کر کسی اور حقیقت کی طرف اشارہ کر
رہا ہوتا ہے مثال کے طور پہ کائنات کے پھیلاؤ کی رفتار میں اسراع کے حیرت
انگیز مشاہدے کے نتیجے میں سیاہ مادہ اور سیاہ توانائی کی دریافت- اس
دریافت نے بگ بینگ نظریہ پہ بھی شک پیدا کر دیا ہے- بگ بینگ دھماکے کے بعد
اجرام فلکی کی رفتار کم سے کم تر ہوتی جانی چاہیے تھی جیسا کے دھماکوں میں
ہوا کرتا ہے لیکن مشاہدہ کے مطابق اس کے برعکس اجرام کی رفتار میں اضافہ ہی
ہوتا جا رہا ہے- یعنی کائنات کے پھیلا ؤ کی رفتار میں اضافہ ہی ہوتا
جارہاہے بجائے کم ہونے کے- ظاہر ہے کہ رفتار میں اضافہ کرنے کیلیے توانائی
کی ضرورت ہوتی ہے جس کی تلاش نے سیاہ توانائی اور سیاہ مادے( ڈارک مے ٹر)
کو دریافت کیا- اس دریافت شدہ مادے کی نوعیت کیا ہے ابھی کچھ پتہ نہیں- کیا
بگ بینگ کے نتیجے میں یہ مادہ پیدا ہوا ؟نا ممکن سی بات لگتی ہے! کہتے ہیں
کہ کائنات میں اس سیاہ مادے کی مقدار ۹۰٪ ہے یا شاید اس سے بھی زیادہ! تو
انسانی محدود ذہن اور محدود مشاہدے نے صرف ۱۰٪ مشاہدے کی بنیاد پہ بگ بینگ
کا نظریہ ایجاد کیا او ر آج پھر شش و پنج میں مبتلا ہے کہ یہ نئی دریافت
سیاہ مادہ اور توانائی کیا ہے اور اس کو کیسے بگ بینگ تھیوری میں کوئی مقام
دیا جائے؟ اب تو ایڈوانس ریاضی نے فلسفیوں کا کام ہی ختم کردیا ہے- انسانی
مشاہدے کی حد سے آگے کے ریاضیاتی نمونے بنا ئے جاتے ہیں اور پھر کسی نئے
مشاہدے کا انتظار کیا جاتا ہے تاکہ کوئی ریاضیاتی نمونہ صحیح ثابت کیا جا
سکے- جیسے ذراتی طبیعیات کے میدان میں" گاڈ پارٹکل" ( ھگز بوسون) کی تلاش-
بعض دفعہ سارے ریاضیاتی نمونے غلط ثابت ہوتے ہیں اور کوئی نئی حقیقت آشکار
ہوتی ہے- اقلیدسی اشکال یا جیومیٹری میں مثال کے طور پر بڑے پیمانوں پر
مثلث کے زاویوں کا مجموعہ ۱۸۰ درجے سے زیادہ ہونے کی حقیقت- نیوٹن کے "وقت"
کی مستقل حیثیت کے بجائے رفتار کے ساتھ متغیر ہونے کی حقیقت- آئین اسٹائین
کے نہ ماننے کے باوجود کوانٹم طبیعیات، شروڈنگر کی موجی مساوات اور ہائزن
برگ کےاصول غیر یقینی کی حقیقت، میکسویل کی برقی مقناطیسی تھیوری کے مقابلے
میں جناب ڈاکٹر فن مین کی کوانٹم برقی حرکیات (کوانٹم الیکٹرو ڈائینمکس)،
اور قوت کے ذرات پر مشتمل ہونے کی حقیقت ، سیاست کے میدان میں اشتراکیت کے
غیر عملی ہونے کی وجہ سے روس میں لینن اور اسٹالن کے نظریات کی شکست کی
حقیقت وغیرہ - گویا تاریخ گواہ ہے کہ انسانی عقل کے ہر لحظہ غلط ہونے کا یا
شکست کھانے کا امکان موجود ہے – دوسرے الفاظ میں عقلیت شکست سے دوچار ہے-
لہذہ مصنف کا یہ کہنا کہ عقلیت( یا دوسرے الفاظ میں شکست خوردہ عقلیت) کی
شکست سے مسلم ذہن بند ہو گیا ، ایک مہمل بے معنی جملے کے علاوہ کچھ نہیں-
(سائینسی نظریہء حقیقت اور انسانی عقل کے بارے میں مزید معلومات کے لیے
راقم الحروف کا مضمون " علم" اور حقیقت کائینات" پڑہیے -)
اب آتے ہیں اس کے دوسرے پہلو کی طرف یعنی مسلمانوں کے ایک گروہ کا ذہن کیوں
بند ہوگیا، کیوں نئے خیالات کے لیے حاجز ہو گیا اور نئے افکار اور خیالات
خاص طور پر سائینس میں ترقی کیوں نہ کر سکا- مصنف کی یہ بات بڑی حد تک درست
ہے کہ اس گروہ نے چونکہ ہر واقعہ کی وجہء اول اللہ کو قرار دیا چاہے وہ
قدرتی واقعات ہوں یا معاشرتی اور تاریخی واقعات- لہذہ اس گروہ نےکسی بھی
واقعہ کی ذمہ داری اٹھانے یا اس کی وجہ سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی- اس نے
ایک جامد رویہ اپنا لیا- اس بات پہ توجہ ہی نہیں دی کہ اللہ مسبب الا سباب
ہے، اگر اللہ کے بنائے ہوئے عالم اسباب کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو بہت
سے واقعات کی وجوہات سمجھ میں آسکتی ہیں اور بعض ضرر رساں واقعات سے بچا
بھی جا سکتا ہے جیسے طوفان وغیرہ اور نئی معلومات کے ذریعے نئی ایجادات بھی
کی جاسکتی ہیں- عالم اسباب کے اصولوں کو سمجھنا ہی سائینس ہے، جو قومیں اس
علم کو حاصل کر رہی ہیں وہ دنیوی ترقی کی راہ پر گامزن ہیں- ہر قدرتی آفت
کو اللہ کا عذاب سمجھ لینا حقیقت سے آ نکھیں بند کرنے کے مترادف ہے- بد
قسمتی سے اس قسم کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد مسلمانوں میں موجود ہے جو نہ
جدید علوم سمجھنا چاہتے ہیں اور نہ کسی اور کو یہ کام کرنے دینا چاہتے ہیں-
لیکن یہ صرف ایک گروہ ہے جو حقیقت سے آنکھیں بند کیے ہوے ہے- یہ بات روز
روشن کی طرح عیاں ہے کہ مسلمانوں کا جدید سائینس کی بنیاد میں بہت بڑا حصہ
ہے-ریاضی ، فزکس ، طب اور کیمیا کی تاریخ میں بڑے بڑے نام مسلمانوں کے ہیں
جنہوں نے جدید سائینسی فکر کی اساس فراہم کی- نام دہرانے کی ضرورت نہیں
کتابیں ان سے بھری ہوئی ہیں- یہ تاریخی سائینسی حصہ اسی تعلیم کی دین ہے جو
رسول اور ان کے صحابہ نے سکھائی تھی- اور مسلم ذہن کو کھولا تھا ، بند نہیں
کیا تھا- ان لوگوں نے عالم اسباب کے مطالعے سے اور مشاہدے سے نظری سائینس
کے وہ اصول وضع کیے جو آج کے سائینسدانوں کے لیے مشعل راہ ہیں - خلیفہ
مامون الرشید نے "دارالحکمت " جیسا ادارہ قائم کرکے اس وقت کے جدید علوم کا
عربی میں ترجمہ کروایا- اس علمی ادارہ میں تقریبا" تین ہزار مترجم ملازم
تھے-جو فارسی، ہندی، لاطینی، یونانی وغیرہ کے ماہر تھے- یہ حقائق مسلم ذہن
کے کھلنے کی دلیل ہیں نہ کہ بند ہونیکی- ان تاریخی حقائق سے مستشرقین اور
دیگر مغرب کے علماء اچھی طرح واقف ہیں-
یہ بات بھی قابل توجہ حقیقت ہے کہ سنی طبقۂ فکر کے چار ا ماموں کی فقہ یعنی
حنفی، شافعی ، حنبلی ، اور مالکی کی تدوین کے بعد اجتہاد کا دروازہ بند کر
دیا گیا اور اس کے نتیجے میں مسلم ذہن صرف تقلید کی طرف مائل ہو گیا- تمام
مسائل کا حل چند مخصوص علماء کے گروپ کے حوالے کر دیا گیا جیسے مفتی وغیرہ،
اس کی طرف مصنف نے اشارہ کیا ہے اور اس کو ذہنی بندش سے تعبیر کیا ہے-
موجودہ دور کے علماء کے درمیان اجتہاد کے بارے میں مختلف آراء ہیں- اس سریع
الرفتار دور میں تیزی سے بدلتے ہوئے زندگی کے عوامل اور طرز بود و باش میں
مسلمان کو جگہ جگہ کسی نہ کسی معاملے میں کوئی نہ کوئی راستہ اختیار کرنے
کی ضرورت پڑتی ہے جو فقہی اعتبار سے پہلے سے طے شدہ نہیں ہے- گویا اس دور
میں نہ صرف بحیثیت امت بلکہ انفرادی طور پر بھی دنیا کے غیر مسلم یا مسلم
دونوں خطوں میں فیصلہ یا اجتہاد کرنا پڑتا ہے چاہے ا سکی اجا زت ہو یا نہ
ہو- اس وقت اجتہاد کی جتنی ضرورت ہے پہلے کبھی نہ تھی- اجتماعی معاملات میں
مسائل ہر حالت میں مستند مجتہدین علماء ہی کو حل کرنے چاہیے – انفرادی
معاملات میں بھی علماء کو ایک عمومی رہبری مہیا کرنی چاہیے تاکہ فرد کو ایک
بنیادی معلو مات حاصل ہو جائے کہ کس قسم کے حالات میں کیا رویہ مناسب ہو
گا-
مصنف کا یہ اعتراض کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں مثال کے طور پہ مزدور یونین،
خیراتی تنظیمیں اور غیر مذ ہبی تنظیمیں خاص طور پر سیاسی جماعتیں اخلاقی
ارادیت یعنی ا یتھیکل والنٹیرزم کی وجہ سے نہیں بن پائیں- یعنی انسان کی
عام آزادی کے بجائے یہ سب کام رضاکارانہ طور پر مذہبی علماء کے سپرد کردیے
گئے- اول تو یہ کہ جس زمانے کی بات کی جارہی ہے وہ ایک ہزار سے بارہ سو سال
سال پہلے تک کا زمانہ ہے، اس زمانے میں اس قسم کی تنظیموں کا تصور تک دنیا
کے کسی کونے میں موجود نہ تھا- معاشروں اور ملکوں کی قوت قبائلی نظام ،
بادشاہت یا مذہب کے ہاتھوں میں تھی- یہ تصور ات آج سے محض ایک یا دو صدی
قبل وجود میں آئے ،
دوم یہ کہ مصنف اسلام کے نظام کی ہمہ گیری کو سمجھنے سے قاصر نظر آتا ہے-
مصنف کا ذہن جدید تصورات سے آزاد ہو کر اسلامی نظام کی بنیادی فکر کو سمجھ
نہیں پایا جو سب سے پہلے رحمت کی بات کرتا ہے- انسانی ہمدردی ، انسانی حقوق
اور انسان کی تمام آلام و مصائب سے نجات کو عقیدہ کا درجہ دیتا ہے- عقیدہ
تمام قوانین و آئین سے ماوراء سب سے مضبوط اور سب سے زیادہ قوت سے مانا
جانے والا تصور ہوتا ہے- پھر یہ کہ اسلام میں سب سے اچھے کردار کے انسانوں
کو چن کر جو اپنے علم میں بھی سب سے اعلی' ہوتے ہیں، معاشرے میں معزز ہوتے
ہیں ، عام آدمی کے پرکھے ہوئے ہوتے ہیں، ان کے سپرد رہبری کا کام کیا جاتا
ہے ، اسے شورائی نظام کہا جاتاہے- علم اور ایمانداری کو اہمیت حاصل ہوتی
ہے، صرف سروں کو نہیں گنا جاتا-یہی لوگ یا شورائی نظام ان تمام انسانی
محرومیوں کا ازالہ کرتا ہے جن کے لیے سماجی تنظیمیں وجود میں آتی ہیں- لہذہ
جن سماجی تنظیموں کا وجود ہمیں آج نظر آتا ہے ان کے وجود کا جواز ہی نہیں
پیدا ہوتا۔غیر انسانی رویوں ، مادیت پسندی اور خود غر ضی یا حکمران طبقے کی
زیادتیوں اور لوٹ مار کی وجہ سے یہ سماجی تنظیمیں معرض وجود میں آئی ہیں۔
|