ایک اور خودکش بمبار

مجھے پاکستان سے آئے ابھی کچھ روز ہی ہوئے ہیں . میں جب پاکستان سے لوٹ رہا تھا تو میں نے یہ تحریر پی آئی ے کی فلائٹ میں لکھنا شروع کی . میں ہزاروں فٹ بلندی پر نیچے دیکھ رہا تھا ، پاکستان اوپر سے اتنا ہی حسین ہے کہ جتنا نیچے سے مگر اوپر سے جو دکھتا ہے وہ نیچے ملتا نہیں . فلک بوس پہاڑوں کی خوبصورتی ، صحراؤں کی مستی ، وادیوں کا حسن سب کچھ تو ہے اس ملک میں . جہاز میں ملنے والا اخبار اس خوبصورت مشاہدے کو بدصورت کر رہا تھا . اخبار میں وہی بے تکے تجزیے ، اشتہارات اور ہیجانیت سے بھرپور انٹرویو . عمران خان کی سونامی، شریفوں کا انگلی ہلانہ ، زرداری کا کرپٹ ٹولہ اور کسی خودکش بمبار کی حرام موت اور بیسیوں پاکستانیوں کی شہادت ......

میں کوئی تنخواہ دار صحافی نہیں اور نہ ہی کوئی تجزیہ نگار ہوں ، ایک عام شہری ہوں جو کبھی کبھار لکھ بھی لیتا ہوں ، نہ مجھے ٹویٹر پر ہزاروںپیغامات آتے ہیں اور نہ ہی کبھی میرے ٹی وی پروگراموں کی ٹی آر پی کے لیے میں نے وینا ملک اور علما کرام کا مناظرہ کروایا ہے . نہ میرا فیس بک پہ کوئی ہزاروں کا فین کلب ہے اور نہ ہی میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ مجھے لاکھوں لوگ جانتے ہیں . میرا قلم اٹھتا ہے تو شہیدوں کی داستانیں لکھتا ہے اور کبھی کبھی خود کلامی کرتے کرتے تھک جاتا ہے کیونکہ کوئی ہے ہی نہیں جو سن سکے . آج کا صحافی اور خاص کر پاکستان کا صحافی عجیب مخلوق ہے اس کی نظر کمزور ہے یا پھر وہ عوام کو وہ تصویر نہیں دیکھا پا رہا جو اسے دیکھانی چاہیے . شائد ٹی آر پی ، لفافہ ، یوم تاسیس کا پاس ، پلاٹ اور کھوکھے کا الاٹمنٹ لیٹر سچ لکھنے سے نہیں ملتا . شائد چک شہزاد اور اب بحریہ انکلیو کے راستے میں کہیں وہ لوگ نہیں آتے کہ جن کو خبر کا حصہ ہونا چاہیے اور یہ بھی ممکن ہے کہ میں دیوانہ ہوں جو اسطرح کی تحریر اپنے پڑھنے والوں تک پہنچا رہا ہوں . ملاله کا غم اور تکلیف جہاں سب کو ہے وہیں مجھے بھی دکھ ہے کہ ایک معصوم بچی کو شہرت کے سوداگروں نے معصومیت کے تخت سے اتار کہ درندوں کا ہدف بنا دیا . اللہ پاک ہماری ہر ملاله کو محفوظ رکھے ( آمین)

پاکستان کی مٹی میں ایک عجیب جادو ہے . یہاں ہر طرح کا موسم ہے اور ہر طرح کا شخص رہتا ہے . پاکستان کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہاں کے حالات کی سنگینی کے باوجود قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عوامی درد میں ان کو راحت مہیا کرنے والے سرکاری اور نیم سرکاری اہلکاروں کی ایک بری تعداد ان لوگوں پر مشتمل ہے جو ہر روز ایک اور خودکش بمبار کو ایک عام آدمی سے بمبار بناتے ہیں .

یہ بمبار کوئی دہشت گرد نہیں وہ عام لوگ ہیں جو ہر روز ان اداروں اور اہلکاروں کے ہاتھوں تذلیل کا شکار ہوتے ہیں . چلیں ہم مل کر ان خود کش بمباروں کی نشاندہی کرتے ہیں . آپ پاکستان میں داخل ہونے کے لیے اسلام آباد ، کراچی یا لاہور کے ایئرپورٹس پر اترتے ہیں تو پہلا ممکن بمبار ہمیں کسٹم کے ہاتھوں بے عزتی کا شکار وہ بیرون ملک آباد پاکستانی یا پاکستان لوٹنے والا پاکستان کا دیوانہ نظر آتا ہے جو مدینہ ثانی کے عشق میں پاکستان لوٹتا ہے .

چلیں ہم اسلام آباد ایرپورٹ سے باہر نکلتے ہیں اور راولپنڈی یا اسلام آباد کی جانب اپنا سفر جاری رکھتے ہیں . تھوڑے ہی فاصلے پر پنجاب پولیس کے چاک و چوبند باوردی اہلکار ہمیں نظر آتے ہیں یہاں ہمیں ایک اور ممکنہ بمبار نظر آتا ہے . یہ وہ شخص ہے جسے پولیس کے اہلکار اپنے مسکین بچوں کی مٹھائی کے لیے وردی میں لوٹ رہے ہیں . Public humiliation برداشت سے باہر نظر آتی ہے . یہ وہی پولیس ہے جو سڑکوں ، تھانوں اور جیلوں میں معصوم لوگوں کو دہشت گرد اور ممکنہ بمبار بناتی ہے .

ابھی ان ممکنہ بمباروں کی نشاندہی جاری ہے . آپ اگر کسی عدالت میں چلیں جائیں تو یہاں بھی غریب کا مقدمہ کوئی نہیں سنتا ، یہاں بھی پولیس ریمانڈ کے شکار ملزم کسی نہ کسی خودکش حملے کی تیاری میں مصروف نظر آتے ہیں یہ ممکنہ خودکش وہ قیدی یا ملزمان ہیں کہ جنھیں پولیس نے کسی وڈیرے یا با اثر سیاستدان کی ایما پر گرفتار کیا اور عدالتوں کے نظام میں پسنے کے بعد باغی کر دیا . پاکستان کے بڑے بڑے شہروں اور خاص کر پاکستان کے دارالحکومت میں آباد پاکستانی شہری اور راولپنڈی کے مکین میری اگلی نشاندہی سے بخوبی واقف ہیں . یہ وہ ممکنہ بمبار ہیں جو کسی بڑے افسر یا وی آئی پی کی آمد پر سیفٹی روٹ یا بند سڑکوں پر محصور ملتے ہیں . ان میں کوئی کسی بیمار کو ہسپتال لے جانے کی کوشش میں لگا نظر آتا ہے تو کوئی اپنی پہلی نوکری کے انٹرویو کے لیے لیٹ ہوتا پریشان دکھائی دیتا ہے . حاملہ خواتین ،بیمار اور بزرگ گھنٹوں اس سیفٹی روٹ کے دونوں جانب مجبور نظر آتے ہیں . اسی روڈ بلاک میں جب کوئی مریض دم توڑتا ہے ، کوئی نوجوان اپنے پہلے انٹرویو پر نہیں پہنچ پا تا ہے اور کوئی حاملہ خاتون اپنا حمل کھو بیٹھتی ہے تو ان کے پیارے خودکش بمبار بننے کا خیال دل میں لاتے ہیں .

میں پچھلے تین ہفتے سے پاکستان میں تھا ، میں نے ہر روز ایک عام پاکستانی کی طرح پاکستان کی سڑکوں پہ سفر کیا اور ہر روز ہی میں نے ان ممکنہ حملہ آوروں کو دیکھا جو کسی نہ کسی زیادتی کا شکار نظر آتے ہیں اور تنگ ہیں .

اسلام آباد ہائی وے پر پولیس نے ایک باریش پروفیسر صاحب کو روکا وہ میرپور آزاد کشمیر سے اسلام آباد اپنے بیمار بھائی کو ڈاکٹر کو دیکھانے لا رہے تھے . پولیس والے نے اس باریش پروفیسر سے گاڑی کے کاغذات ، شناختی کارڈ اور دیگر کوائف کی مانگ کی . پروفیسر صاحب نے یہ کاغذات دیے ، سب کچھ ٹھیک تھا . پولیس والا ان پروفیسر صاحب کے پاس آیا اور اس نے ایک عجیب سی بات کی ، وہ بولا "مولوی صاحب ، یہ گاڑی آزادکشمیر نمبر پلیٹ کی ہے اور آپ اسلام آباد جا رہے ہیں ؟" پولیس والے کا سوال عجیب تھا اور حیران کن بھی . مجھے ایسے لگا جیسے کوئی بغیر اجازت امرتسر سے لاہور آ رہا ہو اور واہگہ پہ اسے روک کے پوچھا جا رہا ہو کہ بھائی صاحب گاڑی انڈیا کی ہے پاکستان میں کیا کر رہی ہے . شریف النفس پروفیسر نے عقلمند پولیس والی کو سمجھایا کہ وہ آزاد کشمیر کے شہری ہیں اور میرپور میں نوکری کر تے ہیں اس لیے گاڑی کی رجسٹریشن آزاد کشمیر کی ہے . ابھی یہ گفتگو جاری تھی کہ ایک اور پولیس والا آ گیا . پہلے پولیس والے نے دوسرے سے کہا مولوی صاحب کے کاغذ پورے ہیں مگر ان کی نمبر پلیٹ میں گڑبڑ ہے . اس گاڑی میں مریض اب نڈھال ہو رہا تھا . پروفیسر صاحب نے پولیس والے کو بتایا کہ وہ اسلام آباد کسی ماہر ڈاکٹر کے پاس جا رہے ہیں اور ان کا بھائی کافی بیمار ہے . پولیس والوں نے ان کی بات سنی ان سنی کر دی. دوسرا پولیس والا جو اپنے ساتھی پولیس والے کے جرم میں شریک ہونے آیا تھے نے پروفیسر صاحب سے کہا " مولوی صاحب ہمارے صاحب بڑے اچھے آدمی ہیں آپ کچھ دے دلا کر جان چھڑا لیں ".

پروفیسر نے یہ سنا تو انکی آنکھوں میں آنسو آ گئے ، پروفیسر صاحب کے سر پہ ٹوپی ، ہاتھ میں تسبیح مگر آنکھوں میں شرمندگی کے آنسو تھے . وہ بولے " تم مجھ سے رشوت مانگ رہے ہو ؟" پولیس والا بولا " نہیں مولوی صاحب یہ بچوں کی مٹھائی شٹھائی ہے".

پروفیسر صاحب نے شائد اس سے پہلے یہ نہ سوچا ہو مگر اس Public humiliation کے بعد کہا " یا اللہ ایک اور خود کش بمبار یہاں بھی بھیج دے " میں جس گاڑی میں سفر کر رہا تھا اس کا ٹائیر پنکچر تھا ، میں اور میرے ساتھ ایک اور صحافی دوست یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے مگر پولیس کے اہلکاروں کو کوئی شرم نہیں آئی .

کیا پتہ ایک دن یہی استاد حالات سے تنگ آ کر کوئی خودکش جیکٹ پہن لے اور ایک اور بمبار بن جائے .

اگر ہم پچھلے کچھ سالوں کے خود کش بمباروں کے ریکارڈ چیک کریں یا پھر ان لوگوں کے پس منظر پر نظر دوڑائیں تو خبروں میں آنے والے کچھ بمبار یا تو ڈاکٹر و انجینیر تھے یا سابقہ فوجی اور پڑھے لکھے لوگ. یہ کسی تحریک کے حامی یا پاکستان کے دشمن نہیں ہوے ہونگے مگر نظام نے انھیں دہشت گرد بنا دیا .

ہم اغیار کی جنگ لڑتے لڑتے یہ بھول گئے کہ ہم نے پاکستان کو خودکش بمباروں کی فیکٹری بنا دیا ہے . عوام نے زیادتیوں اور جبر سے تنگ آ کر افغانستان اور فاٹا کا رخ کر لیا ہے جبکہ "سب پر بھاری " ظالم پاکستان کے کونے کونے کو دھیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں .کسی کو احساس نہیں کہ یہ ممکنہ بمبار پاکستانی ہیں اور ان کے دلوں میں نفرتیں بیرونی طاقتیں نہیں پاکستان کے اپنے محکمے بو رہے ہیں وہ کہ جنھیں عوام کا رکھوالا اور انصاف کا محافظ ہونا چاہیے تھا .

کراچی کے حالات ، فاٹا کی صورتحال ، امریکہ کی پاکستان میں جنگ ، زرداری کے بھاری ٹولے کی کرپشن ، زرداری جونیر یر اور وزیر خارجہ کا عشق ، عمران خان کا امن مارچ ، نواز شریف کے بے تکے بیان اتنا بڑا خطرہ نہیں ہیں جتنا یہ مایوس عوام ہیں .

عمران خان نے گو کہ اپنی تقریروں اور امید کی کرنوں سے تھوڑا حوصلہ دیا ہے مگر جو سفر انہوں نے اسلام آباد سے وزیر ستان تک کا کیا اگر اسکا رخ پارلیمان اور صدارتی محل تک ہوتا تو شائد صورتحال کچھ اور ہوتی . ڈرون حملے رکے نہیں . ایک اخباری اطلاع کے مطابق امن مارچ سے اب تک مزید چا لیس پاکستانی شہری ڈرون کے فولاد کے قہر کا شکار ہو چکے ہیں . عمران خان کی مقبول پارٹی کو "سب پر بھاری" کرپٹ حکمران ٹولے کو گھسیٹ کر سڑکوں پر لانا چاہیے اور چیف جسٹس آف پاکستان کو عوام کی موجودگی میں ایک عدالت لگانی چاہیے اور ان ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے . شائد اس طرح پاکستان کی عوام کو کچھ ریلیف مل پائے ورنہ اسلام آباد ہائی وے پر پولیس کے ہاتھوں مجبور پروفیسر کی دعا بہت سے لوگوں کی مشترکہ بد دعا بن جائے گئی اور حالات پر قابو پانا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہو جائے گا .

پاکستان کا میڈیا بھارت کے ساتھ جس امن کی آشا کا دیپ روشن کرنے کی کوشش میں ہے وہ صرف اپر کلاس پاکستانی کی زندگی کا عکاس ہے . بھارت کے ساتھ کاروبار کی ایک جھلک کیلے اور آلوکے ریٹس کی صورت پاکستانی عوام بھکت رہی ہے . میری لاہور میں ایک چھوٹے کاشتکار سے بات ہوئی تو اس نے کہا " ہم کتنی بھی کوشش کر لیں انڈین مارکیٹ کو نہیں تور سکتے " پاکستان کی اپنی پیداوار کو ایک منصوبے کے تحت سمگل کیا جا رہا ہے یا پھر منڈیوں سے غائب کر دیا گیا ہے.

امیر کے دل میں غریب کے لیے نفرت اور تفریق صاف نظر آتی ہے ، عدالتیں آج بھی با اثر کا مقدمہ سنتی ہیں . گیلانی کا بیٹا موت کا سوداگر ہو کر بھی قومی اسمبلی کا ممبر ہے ، پاکستان کا صدر ایک بدنام زمانہ شخص ، وزیر اعظم کرپشن کے الزامات میں مطلوب اور وزیر داخلہ سب سے زیادہ مشکوک شخصیت ہے . کوئی نہیں جو کرپشن کی اس سونامی کو روک سکے اٹھے اور ان پاکستان کے دشمنوں کو عدالتوں کے کٹہروں تک لائے. مجھے جو اٹھتا دکھائی دیتا ہے اس کے جسم پر ایک جیکٹ ہے جس کے ساتھ منسلک ایک تار کو کھینچنے کے بعد تبدیلی تو نہیں آتی مگر دہشت کی فضا اور سینکڑوں معصوم پاکستانیوں کی لاشوں میں اضافہ ضرور ہوتا ہے . یا رب کہاں ہیں وہ غیب کے پردوں سے آنے والے محافظ کہ جنہوں نے پاکستان کی جنگوں میں سپاہیان پاکستان کے شانہ بشانہ پاکستان کا دفاع کیا . یا رب ہمیں معاف کر دے اور ایک اور خود کش بمبار کو بمبار بنانے والوں کو سزا دے اور پاکستان سے نفرت کرنے والی پاکستانی طاقتوں کے دلوں میں پاکستان کی عزت اپنے نبی کا عشق اور مخلوق انسانی کا درد پیدا کر. اے رب توں ہی ہے جو سب طاقتوں کا مالک ہے پاکستان تیرا قلعہ ہے اسکو ان ظالم حکمرانوں کے جبر اور بھٹکے پاکستانیوں کے قہر سے محفوظ کر دے. یا الہی کتنی مللائیں ہیں جو تیرے سامنے کٹ رہی ہیں ، انکے لہو میں ڈوبے لاشے ہم سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا انکی قربانیوں کا کچھ صلہ نہیں ملے گا اور کیا انکے مجرموں کو کوئی سزا نہیں دے گا. میرے رب توں ہی سچ ہے اور ہمیں پتہ ہے کہ توں انصاف کرے گا (انشااللہ)
Anwaar Raja
About the Author: Anwaar Raja Read More Articles by Anwaar Raja: 71 Articles with 76420 views Anwaar Ayub Raja is a professional Broadcaster, voice over artist and linguist for Urdu and Mirpuri languages. Soon after graduating from University o.. View More