مسلکی آگ

امام صاحب نے نماز کے بعد صلوة وسلام پڑھنا شروع کردیا،مسجد کے متولی نے روکا؛لیکن امام صاحب رکے نہیں،بحث ومباحثہ کا سلسلہ چل پڑا،بریلوی ،دیوبندی دونوں مکتبہ فکر کے لوگ جمع ہوگئے،برسوں سے چل رہے اختلافات آج اتنے شدید ہوگئے،کہ ہر کلمہ گو اپنے ہی مسلمان بھائی کے خون کا پیاساہوگیا،اور اسلحہ سے لیس ہوگئے،گولی چلنے لگی،تصفیہ کرانے کے لئے پہونچی ایک عورت گولی کا شکار ہوگئی ،اور موقع واردات ہی میں ان کی موت واقع ہوگئی۔

یہ واقعہ ضلع ارریہ کے نرپت گنج تھانہ کے بیریاگاﺅں کا ہے ،جہاں ہندو مسلم سب لوگ رہتے ہیں، مسلمانوں میں دیوبندی بھی ہیں اور بریلوی بھی،مسجد میں بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والے ایک مولانا صاحب امامت کے فرائض انجام دینے لگے،بس کیا تھا نمازکے بعد صلوٰة وسلام پڑھنا شروع کردیا،متولی مسجد نے منع کیا؛ لیکن وہ مانے نہیں، دیوبندی لوگ طیش میں آگئے،بریلوی حضرات تو پہلے ہی سے غصہ سے لال پیلا ہورہے تھے ، دونوں پارٹی کے لوگ اپنے،اپنے مسلک کو بچانے کے لئے اسلحہ سے لیس ہوگئے،اسلام پر حرف آرہاتھا، اس پر کسی کی نظر نہیں تھی،سب کوفکر تھی اپنے مسلک کی ،دیوبندیوں کو دیوبندیت بچانی تھی ،اور بریلویوں کو بریلویت ۔بے چاری ایک عورت سے رہانہیں گیا ،تصفیہ اور صلح وصفائی کرانے کے لئے پہونچی،توگولی کا شکار ہوگئی ،اناللہ واناالیہ راجعون۔

افرا تفری کا ماحول قائم ہوگیا،شرپسند نوجوانوں کو بھی خوب موقع ملا،تھانہ کی پولیس آئی،آج مسجد پر تالالٹک گیاہے،گاﺅں کے لوگ ڈرے ہوئے ،سہمے ہوئے گھر چھوڑدئے،ہیں، آج وہ اپنے ہی گھر سے بے گھر ہیں، گاﺅں کے سرکردہ لوگوں نے مل کرحکومت کوایک میمورنڈم پیش کیا ،اور صلح وصفائی کرانے کی گذارش کی بھی ۔

یہ روز،روز کی کہانی ہے،مسلم معاشرہ کے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں،ہر آئے دن اس طرح کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں،مسلمان بھائی اپنے ہی مسلمان بھائی کا جانی دشمن ہے ،صرف اس بنیا دپر کہ ہم صلوٰة وسلام پڑھتے ہیں اور وہ کیوں نہیں پڑھتا ہے؟ہم رفع یدین کرتے ہیں، وہ رفع یدین کیوں نہیں کرتاہے؟ہم آمین بالجہر کرتے ہیں،اور وہ آمین بالجہر کیوں نہیں کرتاہے؟

کفار ومشرکین سے اتنی نفرت نہیں ہوتی ہے ،جتنی کہ ایک مسلک والے ؛دوسرے مسلک والے سے کرتے ہیں ، بریلوی ؛دیوبندیوں کے یہاں کھانانہیں کھا سکتاہے،دیوبندی اہلحدیث کے یہاں کھاناکھالے ایک جرم ہوجائیگا،ایک مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والا،دوسرے مکتبہ فکر کے لوگوں سے دوستی کا ہاتھ بڑھالے اپنے مسلک والے اس کا ہاتھ کاٹ ڈالیں گے،کافروں کے ساتھ ،اٹھنا،بیٹھا،کھانا،پینا،ہو ،ان کے گودمیں کھیل رہاہو؛ لیکن کسی کو اس پراعتراض نہیں ہوگا۔

دیوبند کی ایک بزرگ شخصیت ،عالم دین،مقدیٰ اور رہنماءکی کشن گنج آمد ہوئی ، دیوبند یوں، سلفیوں ، اوردوسرے لوگوں نے ایئرپورٹ پر زبردست ان کا استقبال کیا،سلفی علماءان سے بہت زیادہ متاثر ہوئے،مجھ سے کہہ کر انہوں نے ناشتہ کی دعوت کردی، اب ان کے ساتھ موجود ،دوسرے مولانا صاحبان مجھ پر غصہ ہونے لگے: آپ نے یہ وضاحت کی کہ جس کے یہاں دعوت ہے وہ لوگ دیوبندی نہیں ہیں،میں نے کہا :پوچھ لیا،کہنے لگے: آپ دوبارہ پوچھ لیں،میں نے کہا:لیکن ہمارے بڑے بڑے علماءتو بڑے بڑے غیر مسلم رہنماﺅں کے یہاں بھی دعوت میں جاتے ہیں،اور ہم سب تو اللہ کا کرم ہے کہ مسلمان ہیں۔ ہم پر ایک گہری نظر ڈالی اور خاموش ہوگئے۔

یقینا آج کی تحریرسے اپنے دوستوں کے جذبات کو ٹھیس پہونچے گی؛مگر جو زخم ہر دن ہمارے دلوں پر لگتے ہیں ،اسے کتنا چھپائیں اور کب تک چھپائیں،اسے چھپاتے چھپاتے آج نوبت یہاں تک پہونچ گئی ہے کہ ہماراوجود ہندوستان ہی میں نہیں پوری دنیامیں مشکوک ہوگیا ہے ،ہم بٹتے بٹتے اتنے بٹ گئے کہ اقلیتوں میں بھی ہماراشمار مشکل ہوگیاہے،آج ہماری کوئی عزت نہیں ،ہماراکوئی وقار نہیں ،سڑکوں ،گلی ، چوراہوں سے ہم گذر تے ہیں،ہم پر کڑی نگاہ رکھی جاتی ہے ،بس میں سوار ہوتے ہی،بس روک کر تلاشی لی جاتی ہے ،اور اس کے پیچھے بھی مسلکی ذہنیت کی توجہِ خاص کارفرماہے۔

ہم ان کا نام نہیں جانتے،اور نہ یہ معلوم ہے کہ کس مقام سے ان کا تعلق ہے ؛لیکن اکثر موبائلوں میں ہری پگڑی پہن کر انہیں تقریر کرتے ہوئے کئی باردیکھاہے،کہتے ہیں:میں یہ نہیں کہتاکہ سارے وہابی (دیوبندی) آتنگ واد ہیں؛لیکن جو بھی آتنگ واد اور دہشت گرد ہیں وہ وہابی اور دیوبندی ہیں،اس طرح کے نہ جانے کتنے نام نہاد مولاناہیں،جو مسلکی جنون میں حکومت کے رکھوالوں کے پاس دوسرے مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے بارے میں اسی طرح کی الزام تراشیاں کرتے رہتے ہیں،انہیں یہ بھی ہوش نہیں رہتاکہ اپنے پڑوس کے گھر کو آگ لگانے سے اپناگھر بھی محفوظ نہیں رہتاہے۔

ہم یہ نہیں کہتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا فروعی اورجزئی مسائل میں مکمل طورپر اتحاد ہوجائے؛ چوں کہ یہ کبھی بھی ممکن نہیں ہے؛ لیکن اختلاف ہو حدود کے دائرے میں؛ اختلاف میں بھی خلوص وللہیت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے، نفسانی خواہشات کسی طرح بھی ہماراپیچھانہ کرے اورایسااختلاف توباعثِ رحمت ہے، اس سے سہولتیں پیداہوتی ہیں، ایسے اختلاف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام سنتوں اورتمام طریقوں پر عمل ہورہا ہے ۔ مثال کے طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمنے کبھی رفع یدین کیااورکبھی نہیں کیا، کبھی زورسے آمین کہی، کبھی آہستہ۔ اس طرح امت میں دونوں صورتوں پر عمل ہورہاہے؛لیکن اگر اختلاف میں انسان کی خواہشات؛ قرآن وسنت پرغالب آجائے، زور سے آمین کہنے والے، آہستہ ا ٓمین کہنے والے پر کفر وشرک کا فتوی صادر کرنے لکے، رفع یدین نہ کرنے والا رفع یدین کرنے والے کو اسلام سے خارج سمجھنے لگے؛ تواس کامطلب یہ ہے کہ خلوص میں نفوس کا دخول ہوگیاہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ: تم قبیلہ بنی قریظہ میں جاکر عصر کی نماز اداکرو! راستہ میں نماز کا وقت ہوگیا ایک جماعت راستہ میں نماز پڑھ لی ،انہوں نے کہا:کہ حضور کامقصد صرف تعجیل تھا، دوسری جماعت نماز نہ پڑھی ، انہوں نے کہا:کہ حضور نے ہمیں قبیلہ بنی قریظہ میں نماز پڑھنے کا حکم دیاہے، راستہ میں نہیں پڑھ سکتے ہیں، جب واپس آئے، تو ساری بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلو م ہوئی، آپ نے دونوں جماعتوں سے فرمایا:تم دونوں نے درست کیا ۔

چونکہ دونوں کا مقصد ضد اورنفس پرستی نہیں ہے اورنہ راحت طلبی؛ بلکہ ہرایک کامقصدرسول اللہ کی اطاعت ؛ اسلئے دونوں قابل مبارک باد ہوئے۔

حضرات صحابہ کرام کا آپس میں بہت سی چیزوں میں اختلاف تھا، بہت سے مسائل میں باہم مختلف تھے؛ لیکن کبھی بھی ادب واحترم کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹا،خلوص وللہیت کا ایک عجیب منظر دکھائی دیتاتھا۔

حضرت علی اورحضرت معاویہ ؓ کے درمیاں جنگ کا بازار گرم ہے، رومیوں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حضرت معاویہ سے ہاتھ ملانے کی کوشش کی اورخط لکھا:اے معاویہ ہم نے سناہے کہ تم حق پر ہو! اس کے باوجود حضرت علی ؓ تمہیں پریشان کررہاہے اورتمہارے ساتھ زیادتی کررہاہے، ہم علی کے مقابلے میں تمہاری مدد کے لئے تیار ہیں، تمہارا پیغام ملنے کی دیر ہے، حضرت معاویہ کی خلوص وللہیت پر قربان جائیے کہ وہ انتہائی غیض وغضب اورجنگ کی حالت میں بھی اس پیش کش کو ٹھکرادیا اورلکھا: کہ اے رومی کتے! ہمارے اختلاف سے دھوکا نہ کھاﺅاگر تم نے مسلمانوں کی طرف رخ کیاتوعلی کے لشکر کاپہلا سپاہی جوتمہارے مقابلے کے لئے نکلے گا وہ معاویہ ہوگا ۔

حضرات صحابہ کرام کے بعد تابعین ،ائمہ مجتہدین میںبہت سے مسائل میں اختلاف رہاہے؛ لیکن کسی نے بھی کسی کی ہجونہ کی،حضرت امام شافعی ؒ نے یہاں تک فرمایا:جوفقیہ بنناچاہے اس کو چاہئے کہ امام ابوحنیفہ ؒکے شاگردوں کو چمٹ لے اورمیں خود امام محمد کی کتابوں سے فقیہ بناہوں۔

آمین بالجہر اورآمین بالسر کے بارے میں امام ابوحنیفہؒ اورامام شافعی ؒکے مابین اختلاف ہے، امام ابوحنیفہؒ آمین بالجہرکے قائل ہیں، جب کہ امام شافعیؒ کے یہاں آمین آہستہ سے کہناہے؛ مگر جب امام شافعیؒ بغداد تشریف لائے اورامام ابوحنیفہؒ کے مزار پر حاضر ہوئے ،مسجد میں نماز پڑھی تو آمین آہستہ سے پڑھا اورفرمایا: مجھے حیاآتی ہے: اس صاحب مزارسے کہ اس کے قریب آکر اس کے اجتہاد کے خلاف کروں۔

اور آج کی حالت تو یہ ہے کہ اگر ہم آمین بالجہر کرتے ہیں ،توآمین بالسرکرنے والوں کا مذاق اڑانا ہمارا مقصد ہوتاہے، مسجد میں ایسے نوجوانوں کو بھیجاجاتاہے کہ وہ خوب زورو شور سے آمین کہے۔ ؛تاکہ آمین بالسر کرنے والوں کے کان کاپردہ ہی پھٹ جائے۔

دارالعلوم دیوبند کے سابق مہتمم حضرت مولانا،قاری محمد طیب صاحب ؒ فرماتے ہیں:کہ میں نے حضرت مولانا تھانوی کو دیکھا کہ احمد رضاخان صاحب مرحوم کے اختلاف کے باوجود جب مجلس میں ذکر آتا تو فرماتے: مولانا احمد رضاءخان صاحب۔

ایک دفعہ مجلس میں ایک شخص نے صرف احمد رضاءکہدیا:حضرت تھانوی خفاہوگئے اورڈانٹااورفرمایا: وہ عالم ہیں، منصب کی بے احترامی کرتے ہو، رائے کا اختلاف اوربات ہے ؛مگر ان کی توہین اوربے احترامی کاکیامطلب ؟

دارالعلوم دیوبندکے بانی: حضرت مولانا قاسم صاحب نانوتویؒ دہلی میں مقیم تھے ،حضرت کے مخصوص تلامذہ حضرت شیخ الہند ،مولانا احمد حسن امروہی اوردوسرے شاگردان نے اپنے ہمجولیوں میں بیٹھ کر فرمایا: کہ لال کنویں کے امام کی قرائت بہت اچھی ہے ،کل صبح وہیں نماز اداکریں گے۔ حضرت شیخ الہندنے غصہ میں آکر فرمایا : شرم نہیں آتی، وہ توہمارے حضرت کی تکفیر کرتاہے،اور ہم اس کے پیچھے نماز پڑھیں،یہ بات حضرت نانوتوی کے کان میں پہونچ گئی ۔ اگلے دن صبح تمام شاگردوں کو لے کر حضرت نانوتوی اسی مسجد میں نماز پڑھنے کی خاطر پہونچ گئے،نماز پڑھی ، سلام پھیرا ،نمازیوں نے پوچھا،کون ہیں؟معلوم ہوا،یہ مولاناقاسم صاحب نانوتویؒ ہیں۔امام صاحب نے سناتو بڑھ کر مصافحہ کیا اور کہا:حضرت آج میں شرمندہ ہوں،میں ہمیشہ آپ کی تکفیر کرتاتھا،اور آپ نے میرے پیچھے نماز پڑھی ، حضرت نانوتوی نے فرمایا:کوئی بات نہیں،میرے دل میں آپ کے جذبے کی قدر ہے،بلکہ اس سے میرے دل میں آپ کی عزت اور زیادہ بڑھ گئی ہے ۔کہنے لگے: کیوں؟حضرت نے فرمایا:چونکہ آپ کے پاس جو روایت پہونچی ہے: کہ میں توہینِ رسول کا مرتکب ہوں اور جو بھی توہینِ رسول کامرتکب ہوگا،وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوگا ، تو یہ آپ کی غیرت ایمانی کا تقاضہ تھی کہ آپ مجھ پرکفر کا فتویٰ لگاتے؛لیکن شکایت یہ ہے کہ اس روایت کی تحقیق کرلینی چاہئے تھی۔آج میں یہ عرض کرنے آیاہوں: کہ یہ خبرغلط ہے اور میں اس شخص کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتاہوںجو ادنیٰ درجہ بھی توہین کرےگا،اگر آپ کو یقین نہ آئے تو آپ کے ہاتھ پر میں اسلام قبول کرتا ہوں ، پڑھتاہوں :اشہد ان لاالٰہ الااللہ واشہد ان محمد ارسول اللہ۔

مسلمانو!سوچو،سمجھو،اور غور کرو،ہمارا مقصد آپ کی دل آزاری نہیں،آپ کوتکلیف دیناہمارامقصد نہیں ؛ بلکہ ہر آئے دن اپنے گھر میں جو ہم دیکھتے ہیں،اس کی ایک جھلک آپ کو دکھانے کی ہم نے کوشش کی ہے ،اگر پوراآئینہ سامنے رکھ دیاجائے تو آپ بھی بے قرار ہوجائیں گے۔

اگر ہم مسلک کے نام پر ایک نہیں ہوسکتے ،ذات ،برادری کے نام پر ایک نہیں ہوسکتے،اماموں کے نام پر ایک نہیں ہوسکتے،تو کیاہوا،کلمہ واحدہ کی بنیاد پر ایک تو ہوسکتے ہیں،اسلام کے نام پر ایک تو ہوسکتے ہیں،قرآن کے نام پر ایک تو ہوسکتے ہیں،خانہ کعبہ کے نام پر تو ایک ہوسکتے ہیں،مکہ ،مدینہ کے نام پرتو ایک ہوسکتے ہیں۔

کوئی حنفی ہو،کوئی شافعی ہو،کوئی مالکی ہو،کوئی حنبلی ۔کوئی بریلوی ہو ،کوئی دیوبندی ہو،کوئی سلفی ۔کوئی شیخ ہو، کوئی سید ہو،کوئی انصاری ہو،کوئی پٹھان۔لیکن اسلام کے مفاد میں سب ایک ہوں،فروعی ،اور جزوی مسائل میں ہمارے اختلافات ہوں،لیکن ہماری کوشش ہو کہ اسلام کو کوئی نقصان نہ پہونچے،مسلمانوں کی طرف کوئی نظر بد اٹھاکر نہ دیکھ سکے۔

ہزار اختلافات کے باوجود شیشہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ہم سب ایک ہوجائیں،ان باتوں کی تبلیغ کریں، جس میں سب کا اتفاق ہے،ایک پاکیزہ صالح معاشرہ کی تعمیر میں اہم رول اداکریں، کلمہ اسلام کی دعوت وتبلیغ کے لئے اپنی پوری طاقت صرف کردیں، قرب وجوار،گاﺅں،پڑوس میں اگر کوئی شخص کفر کی حالت میں اس دنیا سے رخصت ہوجاتاہے ،تو کل قیامت کے میدان میںہم بھی پوچھے جائیں گے کہ ہم نے ان کے لئے کوشش بھی کی تھی یانہیں؟

حضرت مفتی شفیع صاحبؒ لکھتے ہیں:کہ قادیان میں ہر سال ہماراجلسہ ہوا کرتاتھا،اور سیدی حضرت علامہ انور شاہ کشمیری اس میں شرکت فرماتے تھے،ایک سال جلسہ میں تشریف لائے ،دیکھاکہ مغموم بیٹھے ہیں،میں نے پو چھا ، حضرت مزاج کیسا ہے؟فرمایا:مزاج کیاپوچھتے ہو میں نے عمر ضائع کردی،میں نے کہا:حضرت آپ کی پوری زندگی تو علم دین کی خدمت ،واشاعت میں گذری ہے ،ہزاروں ،لاکھوں آپ کئے شاگردان ہیں،کہنے لگے:ہماری کدوکاوش کا خلاصہ صرف یہ تھاکہ دوسرے مسلک کے مقابلہ میں حنفیت کو ترجیح دے دوں،جب کہ امام ابوحنیفہؒ ہماری ترجیح کے محتاج نہیں ہیں،کہنے لگے:ارے میاں!اجتہادی مسائل میں صحیح فیصلہ دنیامیں تو ہونہیں سکتا،قبر میں بھی منکر نکیر نہیں پوچھے گاکہ رفع یدین حق تھا،یاترک رفع،آمین بالجہر حق تھایاآمین بالسر۔اور نہ یہ پوچھاجائیگاکہ فلاں امام نے کہا کہا: کہنے لگے:اور جو صحیح بات اسلام کی دعوت تھی ،جس پر سبھی کا اتفاق تھا،جن کی دعوت عام کرنے کاہمیں حکم دیاگیاتھا،وہ منکرات جن کے مٹانے کی کوشش ہم پر فرض کی گئی تھی،اس کی دعوت ہی نہیں دی گئی،گمراہی پھیل رہی ہے ،الحاد آرہا ہے ، شرک و بت پرستی کا دور دورہ ہے،حرام وحلال کا امتیاز اٹھ رہاہے،اور ہم فروعی بحثوں میں پڑے ہوئے ہیں، حضرت شاہ صاحب فرمانے لگے:اس لئے میں غمگین بیٹھاہوں،لگتاہے کہ میں نے عمر ضائع کردی۔

حضرت شیخ الہند مولانامحمود الحسن ؒجب مالٹاکے قید خانہ سے واپس آئے تو کہنے لگے،میں مالٹاکی زندگی سے دو سبق سیکھ کر آیاہوں،فرمایا:جیل کی تنہائیوں پر جب میں نے غور کیا کہ پوری دنیامیں مسلمان ہراعتبار سے تباہ کیوں ہو ر ہے ہیں؟ تو دوسبب معلوم ہوئے،ایک قرآن سے دوری ،اور دوسرے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی۔اس لئے میں جیل کی کوٹھری سے یہ عزم لے کر آیاہوں کہ بقیہ زندگی انہیں دوکاموں میں صرف کرونگا،مکاتب کے ذریعہ قرآن کو عام کرونگا،درس قرآن کا اہتمام کرونگا،اور مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کرونگا۔

انبیاءکرام کے وارثو!آج ہندوستان کی حالت بہت زیادہ نازک ہے،تم مسلک کی بات کرتے ہو،اور یہاں تمہارے وجو دکو مٹانے کی کوشش ہورہی ہے ،تم مسجدوں میں جھگڑ رہے ہو اور یہاں تمہاری مسجدوں میں تالے لگائے جارہے ہیں،مسجدوں کو خنزیر کے گوشت سے آلودہ کیا جارہے ؛غرض یہ کہ اسلام مخالف طاقتیں ہر طرح تمہیں کمزور کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔

ہم اس وقت اس بحث میں نہیں پڑتے کہ صلوٰة وسلام کی کیا حیثیت ہے ؟لیکن اتناکہیں گے،کہ ایک اولیٰ اور افضل کام کی وجہ سے فتنہ پھیلاناکیاجائز ہے؟قرآن کریم میں تو اللہ تبارک تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:الفتنة اشد من القتل ، کہ فتنہ قتل سے بھی زیادہ سنگین جرم ہے ۔قرآن تمہارے سامنے ہے، پھر بھی خدا کا خوف نہیں ہے، اگر اللہ نے پوچھ لیا:کہ تمہارے فتنہ پھیلانے کی وجہ سے ،گاﺅں کے اتحاد کو توڑنے کی وجہ سے:اللہ کا کلمہ نیچے آرہا تھا، مساجد پر پابندی عائد ہورہی تھی۔تو آپ کیاجواب دیں گے؟

خداراایک ہوجائیے!ایک ہوجائیے!ایک ہوجائیے!اپنی خواہشات پر اسلام کو مقدم رکھئے!آمین
خالد انور پورنوی المظاہری ایڈیٹر ماہنامہ ندائے قاسم پٹنہ
About the Author: خالد انور پورنوی المظاہری ایڈیٹر ماہنامہ ندائے قاسم پٹنہ Read More Articles by خالد انور پورنوی المظاہری ایڈیٹر ماہنامہ ندائے قاسم پٹنہ : 22 Articles with 29580 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.