الحمد اللہ ہم سب مسلمان ہیں اور
مسلمان ملک میں پیدا ہوئے ہیں اسی وجہ سے مسلمانوں کی اکثریت کے درمیان ہی
رہتے ہیں۔یہ ہماری خوش قسمتی ہے ۔اس کے باوجود ہم لوگ خود ایک دوسرے سے اور
اپنے آپ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ ”کیا ہم مسلمان ہیں“؟حقیقت بھی یہ ہی ہے کہ
مسلمان ہونے کے باوجود ہم میں سے اکثریت دین دار نہیں ہے۔
حالانکہ دین دارہی مکمل مسلمان ہوتا ہے یا یوں کہاجائے اللہ کے دین پر عمل
کرنے والا ہی سچا پکامسلمان ہوتا ہے ۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ دین دار کون ہوتا ہے اور دین کیا ہوتا ہے ؟ہم کیسے
اچھے اور مکمل مسلمان بن سکتے ہیں؟ایسے مسلمان جسے اللہ نے اپنا دوست قرار
دیا ہے۔
اس کے لئے ہم ایک حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا” بے شک اللہ تعالیٰ نے
فرمایا ہے : جو میرے کسی دوست سے دشمنی کرےگا یقینا میرا اس سے اعلان ِجنگ
ہے۔ اور میرے بندے کامیرے عائد کردہ فرائض کے ذریعے سے میرا قرب حاصل
کرنامجھے باقی چیزوں سے زیادہ محبوب ہے علاوہ ازیں میرا بندہ مزید نوافل کے
ذریعے میرا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ میں اس سے محبت
کرنے لگ جاتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان
بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ،آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، ہاتھ
بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پیر بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے
اور وہ مجھ سے کچھ مانگے تو میں اسے وہ دے دیتا ہوں اور وہ مجھ سے کسی چیز
سے پناہ مانگتا ہے تو میں اسے ضرور پناہ دیتا ہوں“۔( اللہ ہم سب کو ایسا ہی
بنادے ،آمین)۔
آپ اس حدیث کو پڑھتے ہوئے سوچ رہے ہونگے کہ یہ حدیث کس کی ہے ۔ عرض ہے کہ
یہ بخاری شریف کی حدیث اورہر مستند اور مصدقہ کتانوں میں درج ہے۔( احادیث
اور دیگر نیکی کی باتوں کے درمیان ایسے خیالات دراصل شیطانی خیالات ہوتے
ہیں اور شیطان کو ہم خود ہی یہ موقع دیتے ہیں کیونکہ عمواََ ہمارا ذہن نیک
اور اچھی باتیں سننے کے لئے تیار نہیں ہوتا)
اس حدیث مذکورہ میں اللہ نے اپنے نیک بندوں اوران پر کئے جانے والے فضائل و
انعامات کا ذکر کیا ہے۔
پانچ وقت کی نماز پڑھنے ، رمضان المبارک میں روزے رکھنے، حج کرنے ، زکواة
دینے اور جہاد کرنے کا نام دین نہیں ہے۔یہ تو سب حقوق اللہ ہے ۔ اس کی
تکمیل کرنے والوں کوبقول علماءکرام عبادت گذار کہا جاتا ہے۔اس سے دین دار
کی تکمیل نہیں ہوتی۔
دین کے دو جزو ہیں ۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد۔
حقوق العباد دین کا اہم ترین حصہ ہے ۔آج معاشرے میں جو کچھ ہورہا ہے اس کی
وجہ حقوق العباد سے منہ موڑنا یا گریز کرنا ہے۔ حقوق العباد کے معنی ہے
انسانوں کے حقوق یا اللہ کے بندوں کے حقوق انسانوں پر ۔ہم سب پیدائشی طور
پر اللہ کے بندے ہیں اور اس کے ہی بتائے یا بنائے ہوئے طریقے سے ہم انسانوں
اور تمام مخلوق کی تخلیق ہوئی ہے تاہم اللہ نے ہم انسانوں جنہیں اشرف
المخلوقات کا درجہ دیا گیا ہے کی پیدائش سے قبل ہی ہمارے حقوق کا خیال
رکھتے ہوئے ہماری آسانی کے لیئے ہماری ضروریات زندگی کو پیدا کردیا تھا ۔
اللہ نے حضرت آم علیہ السلام اور بی بی حوا کی پیدائش سے قبل ان کی اور ان
کی نسلوں کی ضروریات کی تمام اشیاء، یعنی،آسمان زمین، پہاڑ ، درخت ،پھل ،پھول
،پودے ،چرند پرند ، سمندر ، اور انسانوں کے فائدے اور نقصان کے لیئے سمندری
جانور اور کیڑے موکڑے بھی پیدا کردئیے تھے۔انسان کی پیدائش اور پرورش کے
ساتھ اس کی تدفین کا طریقہ بھی سیکھا دیا تھا۔اللہ نے دنیا کے پہلے مقتول
ہابیل جو کہ حضرت آدم علیہ السلام کے چھوٹے صاحبزادے تھے کی تدفین کا طریقہ
ایک کوے کے ذریعے بتایا۔ ہابیل کی تدفین قابیل نے کوے کے بتائے ہوئے طریقے
سے کی ۔ ہم مسلمان آج بھی اسی طریقہ کے مطابق اپنے پیاروں کو سپرد خاک کرتے
ہیں لیکن ہم انسانوں ہی میں سے بعض مردہ کو آگ ، سپرد ، تو بعض کنویں کے
منڈیر کے حوالے کرکے چلے جاتے ہیں۔
خیر بات ہورہی تھی دین دار لوگوں کی ، اس دین کی جو اللہ کا دین ہے جسے
اسلام کہتے ہیں۔انسان اللہ کے نظام کے تحت پیدا ہوتا ہے اس لیئے ہم یہ ہی
جانتے ہیں کہ انسان پیدائشی طور پر مسلمان ہوتا ہے۔اللہ کے حکم سے انسان کی
تخلیق کے بعد کچھ بھی مزید تخلیق نہیں ہوا ۔ جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ
دنیا کے قیام کی بڑی وجہ انسان کی تخلیق اور اللہ کے دین کا نفاذہے ۔دراصل
دنیا کا قیام انسانوں کے لیئے ہی وجود میں آیا ہے اور جو کچھ زمین و
آسمانوں پر ہے وہ سب انسانوں کے لیئے ہے ۔
قرآن شریف میں ارشاد ہے ” اور تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے جو کچھ آسمانوں
اور زمین پر ہے سب کو تمھارے ہی کام پر لگادیا ہے“۔
اللہ نے اپنی آخری کتاب قران پاک میں سب سے زیادہ مرتبہ زکواة کا حکم دیا
ہے جو کل 82 مرتبہ ہے جب کہ نماز کا حکم 72 بار ہے۔
سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے کہ اللہ نے زکوٰة کی ادائیگی کو اس قدر اہمیت
کیوں دی ہے؟ ظاہر ہے اللہ حقوق کی تقسیم مساویا نہ چاہتا ہے۔ کیونکہ وہ بہت
بڑا انصاف کرنے والا ہے۔زکوٰة اپنی آمدنی کا اضافی اور بچت کئے ہوئے مال کا
صرف ڈھائی فیصد نکالنے کا نام ہے ۔
زکواة کا تعلق براہ راست انسانوں سے ہے اسے ادا انسان کرتا ہے اور دوسرا
انسان وصول کرتا ہے یہ سب اللہ کے حکم کی بدولت اور اس کی رضا کے لیئے ہوتا
ہے-
جس حدیث کا حوالہ میں نے اوپر دیا ہے اس میں اللہ نے اپنے فرائض کا ذکر کیا
ہے یعنی نماز، روزہ، حج ، زکواة، اور جہاد فی سبیل اللہ۔ اگر غور کیا جائے
تو ان پانچوں کا تعلق انسانوں کی فلاح کے لیئے ہے۔
فرض نماز کی ادائیگی کے لئے مرد وں کو مساجد جانا ہے ،جہاں نماز پڑھنے کے
بعد دیگر نمازیوں کی خیر و عافیت دریافت کرناہے ، یہ عمل حقوق العباد کا
باعث ہے۔
رمضان المبارک میں روزے فرض کئے گئے ہیں ،روزہ رکھنے کے بعد افطاری کا
اہتمام کیا جاتا ہے جس کے نتیجے خریداری معمول سے زیادہ بڑھ جاتی ہے ، اس
خریداری کے نتیجے میں اور اس ماہ مبارک میں ہر عمل کا ثواب کئی گنا بڑھ
جانے کے باعث انسانوں کو غیر معمولی فائدہ پہنچتا ہے۔یہ عمل حقوق العباد سے
منسلک ہے۔
زکوٰة کا حکم اس لیئے ہے کہ معاشرے میں کوئی غریب نہ رہے اس مقصد کے لیئے
امیر آدمی اللہ کی رضا کے لئے خود بغیر کسی دباﺅ اپنی آمدنی کا ایک مخصوص
حصہ مستحق شخص کو پہنچا دے۔
حج پر غور کیجئے تواندازہ ہوگا کہ حج بھی صرف صاحب حیثیت پر اللہ نے اس لئے
فرض کیا ہے کہ صاحب حیثیت اپنے مال کا حصہ دوسرے انسانوں پر خرچ کرے ، لوگ
جب حج کی ادائیگی کے لیئے جاتے ہیں تو ،جہاز کا کرایہ ، کھانے پینے کے
اخراجات پر ایک بڑی رقم خرچ ہوتی ہے جو دیگر انسانوں کے کام آتی ہے۔ اس عمل
سے حقوق العباد کے کئی مواقع سامنے آتے ہیں۔اسی طرح جہاد بھی صرف انسانوں
کے تحفظ اور فائدے کے لئے ہی ہوتا ہے جس سے حقوق العباد کی اہمیت اجاگر
ہوتی ہے کہ ایک انسان اپنے مسلمان بھائی کی حفاظت یا اپنے مسلمان بھائیوں
کی سر زمین کے تحفظ کے لیئے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر جہاد کے لیئے نکل
پڑتا ہے ۔
یہ تو ذکر تھا اللہ کے مقرر کردہ فرائض میں حقوق العباد جیسے اعمال کاجو ان
فرائض کی ادائیگی کے دوران ”بطور ِ بونس“تکمیل کو پہنچنے کا۔
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم عام دنوں اور مواقعوں پر حقوق العباد کو
بھول جائیں۔
حقوق العباد میں اخلاق کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے جس کا اندزہ اس حدیث
سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا جس کا اخلاق صحیح نہیں وہ مجھ میں سے
نہیں ہے۔
اس کا مطلب میری نظر میں یہ ہے کہ آپ ﷺ نے بد اخلاق کو انسان ماننے سے ہی
انکار کردیا ہے ۔ اس لیئے کہ دنیا میں ان سے بڑا اوران کی امت سے عزیز کوئی
انسان نہیں ہے۔ ہم سب کو اپنے اخلاق کو بہتر بنانے کی طرف توجہ دینی چاہئے۔
حدیث ہے کہ کسی کے خوش اخلاق ہونے کا اندازہ لگانے کے لیئے ضروری ہے کہ اس
کے ساتھ طویل سفر کرکے دیکھیں ، اس سے لین دین کرکے دیکھیں یا پھر اسے غصے
کی حالت میں دیکھیں۔اگر غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ حج ، زکوٰة ، روزہ اور
زکوٰة بھی انسان کے اخلاق کو جانچنے کا عمل ہے۔حج کے لئے لمبے سفر کا موقع
ملتا ہے ، زکوة کی ادائیگی مستحق کو ادائیگی کا وقت آتا ہے اور روزہ رکھ کر
غصے کے اظہار کو جانچنا کا موقع بھی ملتا ہے ۔
بد اخلاقی صرف یہ نہیں کہ آپ کسی دوسرے انسان سے بدتمیزی سے پیش آئیں بلکہ
بداخلاقی کا مطلب یہ ہے کہ آپ دوسرے انسان کے حقوق کو نظر انداز کررہے ہیں
یا اس کے حقوق پورے کرنے سے گریزاں ہیں ۔ذرا سوچئے کہ کوئی حج پر جانے کے
باوجود مکہ اور مدینہ میں دوسرے انسانوں کو گذرنے کا راستہ یا بیٹھنے کی
جگہ دینے سے بھی گریزاں ہو تو وہ کونسی اور کیسی نیکی کما رہا ہوگا؟کہیں وہ
خدا نخواستہ مزید گناہگار تو نہیں ہورہا؟
اللہ نماز،روزے، زکوٰة ، حج اور جہاد جسے حقوق اللہ کہا جاتا ہے کو معاف
کردے گا کیونکہ اللہ بہت بڑا معاف کرنے والا ہے لیکن حقوق العباد کی خلاف
ورزیوں کو احادیث کے مطابق اللہ معاف نہیں کرے گا اس وقت تک جب تک وہ شخص
اسے معاف نہ کردے جس کی حق تلفی کی گئی ہو ۔
ہم سب کو سوچنا چاہئے کہ ہم کیا کررہے ہیں اپنے اوپر خود ہی کیوں ظلم کررہے
ہیں۔ قرآن میں اللہ کے احکامات نہ ماننے والے کو ظالم کہا گیا ہے ۔
حقوق العباد گھر سے شروع ہوتے ہیں اور وہاں تک ہمارے ساتھ رہتے جہاں تک
ہمارا دائرہ کار ہے ۔میری نظر میں جھوٹ بولنا دہرا گناہ ہے کیونکہ جھوٹ کا
تعلق کسی دوسرے انسان سے ہوتا ہے کوئی بھی شخص اپنے چھوٹے سے مفاد کے لیئے
باآسانی جھوٹ کا سہارہ لیتا ہے لیکن ایک بڑے گناہ میں اضافہ کرتا ہے ،ہمارے
معاشرے میں کس حد تک جھوٹ بولا جاتا ہے آپ خود فیصلہ کرلیں؟ حقوق العباد کی
خلاف ورزیوں کی ابتداءہمارے معاشرے میں جھوٹ سے شروع ہوکر ،جعلسازی ، دھوکہ
دہی ، منافقت، بدکاری ، فحاشی ، زنا اور قتل و غارت گری تک پہنچ جاتی ہے۔
اللہ نے جھوٹ کو گناہ کبیرہ قراردیا ہے لیکن آج کل جانتے بوجھتے ہوئے بھی
جھوٹ بولنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی جارہی۔ کیونکہ وقتی طور
پر ہونے والے فائدے کو ہی ہم بہت کچھ سمجھنے لگے ہیں۔
جھوٹی بات کا سہارہ لیکر دوسرے شخص کو دھوکہ تو دے رہے ہیں لیکن اصل میں ہم
شیطان کا ساتھ دے رہے ہیں اسے خوش کررہے ہیں ذرا سوچئے آپ سے خوش ہونے والا
آپ کو تنہا کیسے چھوڑ سکتا ہے؟۔ نتیجہ میں شیطان ہر وہ کام کرانے میں مصروف
ہوجاتا ہے جس سے انسانیت کو نقصان پہنچے۔ یہ شیطان ہی کا کمال ہوتا ہے کہ
وہ دل سخت اور دماغ کو ماﺅف کردیتا ہے جس کے بعد حق اور سچ سمجھ میں ہی
نہیں آتا ۔
بچے سے غلطی ہوجائے تو والدین اسے بچانے یا اس کی غلطی کو چھپانے کے لیئے
جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں نتیجے میں بچے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور پھر وہ
خود ہر معاملے میں جھوٹ بولتا ہے ،مسلسل غلط بیانی کے باعث شیطان اپنی گرفت
تنگ کرتا جاتا ہے ۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کل ایک غلطی کرنے والا آج کا بڑا
کرمنل یا ٹارگیٹ کلر بن کر سامنے آتا ہے۔
آپ ذرا اپنے رویعے اور تربیت پر غور کریں کہ ہم اور آپ اسکول جانے والے
معصوم بچوں کو کیا درس دیکر اسکول بھیجتے ہیں؟ اکثر گھروں میں مائیں لنچ
باکس دیتے ہوئے بچے کو تاکید کرتی ہیں کہ ” چپ چاپ بیٹھ کر کھا لینا کسی کے
ساتھ کچھ شیئر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ معصوم بچے کے ذہن میں یہ بات بیٹھ
جاتی ہے اور پھر بڑا ہوکر وہ بڑا بخیل بن جاتا ہے جو زکوٰة کی ادائیگی سمیت
ہر معاملے میں اپنی کنجوسی کا اظہار کرتا ہے۔
پڑوسی کے حقوق کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اگر پڑوسی غیر مسلم بھی ہوتو اس
حقوق کا خیال رکھو، اس کی صحت اور ضروریات زندگی کے بارے میں ہمیشہ باخبر
رہو اور اس کی مدد میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کرو۔رشتے داروں اور عزیزوںسے
ملاقات کرتے رہا کرو اور اگر کوئی بیمار ہوجائے تو اس کی تیمارداری کرو۔یہ
ہیں حقوق العباد جس کی تکمیل کے بعد ہی ہم دین دار یا سچے مسلمان بن پائیں
گے۔
اللہ نے کسی ایک بے قصوریا بے گناہ کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا
ہے ۔ہمارے معاشرے میں ہر شعبے میں انسانوں کے حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی
ہیں، یہاںنیک کاموں کی آڑ میں دھڑلے سے منافقت ، جھوٹ اور حق تلفیاں عام
ہیں۔ سیاست دان سچ کی طرح جھوٹ بولتے ہیں اور جھوٹ پر ڈٹے رہتے ہیں ۔ حکومت
کا یہ حال ہے کہ اس کے وزیر صاحب عدالت کے ذریعے جھوٹے ، بے ایمان اور بد
دیانت قرار پائے ہیں مگر پھر بھی پارسا بن کر اہم عہدے سے چپکے ہوئے ہیں۔
عوام کا حال یہ ہے کہ بجلی کے میٹرز کو ٹمپر کرنے ، کنڈا کنکشن سے بجلی
حاصل کرنے کو حق سمجھنے لگی ہے۔
ان سب عوامل کے باوجود ہم اپنے آپ کو مسلمان اور دین دار کہہ سکتے ہیں؟
وقت ہے کہ ہم اپنی بد اعمالیوں اور بداخلاقیوں کی توبہ کریں اور جن کی حق
تلفی کی ان سے معافی مانگ لیں ۔۔کیونکہ ایک دن ہم کو بھی ہر طرف سے بند اور
تاریک قبر میں جانا ہے۔اگر وہاں کچھ ہوگا تو صرف ہماری دین داری، کیونکہ
دنیا اور دنیا والے تو ہم سے بہت دور ہوجائیں گے۔ اس لئے ضروری ہے کہ نماز
، روزہ، زکوٰة اور حج کے فرائض کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی پر بھی
خصوصی توجہ دی جائے۔دھوکہ بازوں ، جھوٹوں ، منافقین اور شعبدہ بازوں کو دین
کی دعوت دی جائے اگر وہ دین کی طرف نہیں آتے تو خود ان سے دور ہوجائیں اور
اللہ کے دوست بن جائیں۔ |