محبت الہٰی شریعت کی روشنی میں
رقم کرنے کی جستجو خاص کی طرح الفاظوں کے ذخیروں میں پِرو رہا ہوں اور امید
کرتا ہوں کہ ہم سب اس ذاتِ الہٰی سے محبت اور عقیدت کا سلسلہ اور دراز کریں
گے۔محبت تمام مقامات میں انتہائی بلند مرتبہ رکھتی ہے اس لیے کہ محبت کے
بعد جتنے بھی مقامات ہیں وہ سب اس کے تابع ہیں جیسے شوق، اُنس و رضا، اور
اس سے پہلے جتنے مقامات ہیں وہ سب محبت کے مقدمات ہیں جیسے توبہ، صبرو زہد۔
محبت کے علاوہ جتنے بھی مقامات ہیں اگرچہ ان کا وجودبہت نادر ہے لیکن
مومنین کے قلوب ان پر ایمان کے امکان سے خالی نہیں ہوتے لیکن محبت الہٰی پر
ایمان لانا مشکل ہے۔
پہلے ہم محبت کے شرعی شواہد بیان کرتے ہیں، پھر اس کی حقیقت اور اسباب پر
بھی روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ محبت کا استحقاق صرف اللہ تعالیٰ کے لیے
ہے، اور سب سے بڑی لذت اللہ تعالیٰ کے دیدار کی لذت ہے، اور یہ لذت آخرت
میں ان لوگوں کے لیے دو چند ہوگی جو دنیا میں اس کی معرفت رکھتے ہیں اس کے
بعد یہ بیان کریں گے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں قوت پیدا کرنے والے اسباب
کون سے ہیں، اور اس کی وجہ کیا ہے کہ لوگ محبت کے باب میں مختلف نظر آتے
ہیں، پھر لوگ اللہ تعالیٰ کی معرفت سے کیوںقاصر ہیں۔تمام امت اس امر پر
متفق ہیں کہ بندے پر اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت
فرض ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر محبت فرض ہے تو اس کے وجود کا انکار کیسے کیا جا
سکتا ہے، اور جن لوگوں نے محبت کی تفسیر اطاعت پر مواظبت سے کی ہے وہ کیسے
صحیح ہو سکتی ہے، اس لیے کہ ا طاعت تو محبت کا ثمرہے اور اس کا تابع بھی،
پہلے محبت ہوتی ہے، پھر محبوب کی اطاعت ہوتی ہے۔
مفہوم: جن سے اس کو محبت ہوگی اور ان کو اس سے محبت ہوگی۔ (پارہ: ۲، 12،
آیت 54)۔ مفہوم: اور جو مومن ہیں انکو اللہ کے ساتھ قوی محبت ہے۔(پارہ :۲،
۴ آیت 106)۔
ان دونوں آیات کے ترجموں سے نہ صرف یہ کہ محبت کا وجود ثابت ہوتا ہے ، بلکہ
اس میں شدت اور خفت کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ بہت سی روایات میں سرکار دو عالمﷺ
نے محبت الہیٰ کو ایمان کی شرط قرار دیا ہے ۔ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:
تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہ ہوگا جب تک اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے
نزدیک غیر سے محبوب تر نہ ہوں۔ (صحیح بخاری و مسلم)ایک اور جگہ یہ حقیقت ان
الفاظ میں بیان کی گئی ہے:بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوتا جب تک میں اس کے
نزدیک اس کے اہل‘ مال‘ اور تمام لوگوں سے محبوب تر نہ ہوجاﺅں۔ (صحیح بخاری،
مسلم ۔ انس)
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:مفہوم: آپ ﷺ کہہ دیجئے کہ اگر
تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا
کنبہ اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کی کساد بازاری کا تم
کو اندیشہ ہو، اور وہ گھر جن کو تم پسند کرتے ہو، تم کو اللہ سے اور اس کے
رسول سے اور اسکی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیارے ہوں تو تم منتظر رہو
یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم بھیج دیں۔(پارہ 10، ۹ آیت 24)سرکارِ دو عالم صلی
اللہ علیہ وسلم نے بھی محبت کا حکم فرمایا ہے، ارشاد ہے:مفہوم: اللہ سے
محبت کرو اس نعمت کے لیے جو وہ تمہیں ہر صبح عطا کرتا ہے، اور مجھ سے محبت
کرو اللہ بھی مجھ سے محبت کرتا ہے۔(ترمذی۔ ابن عباس)
ایک شخص نے آپ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! میں آپ ﷺ سے محبت
کرتا ہوں، آپ ﷺنے فرمایا مصیبت کے لیے تیار رہو۔ (ترمذی)
ائے اللہ ! مجھے اپنی محبت عطا کر، اور ان لوگوں کی محبت عطا کر جو تجھ سے
محبت کرتے ہیں، اور ان چیزوں کی محبت بھی جو مجھے تیری محبت سے قریب کر دیں
اور اپنی محبت کو میرے نزدیک ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ محبوب کر۔ایک اعرابی
آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ قیامت کب آئے گی،
آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ تونے قیامت کے لیے کیا تیاری کی ہے، اس نے
عرض کیا کہ نہ میں نے بہت زیادہ نمازیں پڑھی ہیں اور نہ بہت زیادہ روزے
رکھے ہیں، لیکن مجھے اللہ اور اس کے رسول سے محبت ہے۔حضرت عمر ؓ سے روایت
ہے کہ حضرت محمد ﷺنے مصعب ابن عمیر کو دیکھا جو مینڈھے کی کھال اپنی کمر سے
لپیٹے ہوئے آ رہے تھے، آپ نے لوگوں سے ارشاد فرمایا کہ اس شخص کو دیکھو
اللہ نے اس کا دل روشن کر دیا ہے‘ میں نے اسے اس کے والدین کے پاس دیکھا ہے
جو اسے عمدہ عمدہ چیزیں کھلایا پلایا کرتے تھے۔ اور اب اللہ اور اس کے رسول
ﷺکی محبت نے اس کا یہ حال بنا دیا ہے (ابو نعیم)۔
جو شخص غیر اللہ سے محبت کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی طرف ملتفت نہیں ہوتا
تو یہ اسکی کم فہمی اور معرف الہٰی سے اس کے عجز کی دلیل ہے‘ نبی کریم ﷺ کی
محبت بھی ایک عمدہ تعریفی وصف ہے‘ کیونکہ آپ کی محبت بھی خدا ہی کی محبت ہے‘
اور یہی حکم علمائے دین کی محبت کا ہے کیونکہ محبوب کا محبوب‘ اس کا قاصد‘
اور اس کا محب سب محبوب ہوتے ہیں‘ اور ان سب محبتوں کی انتہا ایک اصل پر
ہوتی ہے‘ اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی محبت‘ حقیقت یہ ہے کہ اہل بصیرت کے
نزدیک اللہ کے سوا کوئی محبت کا مستحق نہیں ہے‘ اور نہ کوئی محبوب کہلانے
کا اہل‘ اور یہ دعویٰ بلادلیل نہیں ہے‘ صرف اللہ کی ذات میں ہے، غیر اللہ
میں ان کا اجتماع مقصود نہیں ہے۔
انسان اپنے نفس کو محبوب سمجھتا ہے‘ اور اس کے لیے دوام و بقا اور کمال کی
خواہش رکھتا ہے‘ اسے ہلاکت‘ عدم نقص‘ زندہ شخص کی فطرت میں یہ باتیں پائی
جاتی ہیں‘ کسی کا ان سے خالی رہنا ممکن نہیں ہے‘ جو شخص اپنے نفس کی معرفت
رکھتا ہے اور اپنے رب کو پہچانتا ہے وہ یہ بات اجھی طرح جانتا ہے کہ اس کا
وجود ذاتی نہیں ہے، بلکہ اسکی ذات کی وجودو دوام سب کچھ اللہ سے ہے‘ وہی
وجود کا خالق ہے‘ وہی اس کو باقی رکھنے والا ہے‘ وہی کمال کی صفات پیدا
کرکے اسے مکمل بناتا ہے‘ اور وہ اسباب پیدا کرتا ہے جو کمال کی طرف لے جانے
والے ہیں‘ اور وہ ہدایت پیدا کرتا ہے جس سے اسباب کے استعمال میں راہنمائی
حاصل کی جا سکے۔ ورنہ بندے کا اپنا وجود کچھ نہیں ہے‘ اگر اللہ تعالیٰ اپنے
فضل سے پیدا نہ کرے، اور پیدا کرنے کے بعد اس کا فضل شامل حال نہ ہو تو
ہلاک ہو جائے اور اپنے فضل و کرم سے مکمل نہ کرے تو ناقص رہے۔ حاصل یہ ہے
کہ دنیا میں کوئی ایسا وجود نہیں ہے جو اپنی ذات سے قائم ہو‘ ہر وجود اسی
حیّ قیوم سے قائم ہے جس کا وجود ذاتی ہے‘ اگر بندے کو اپنی ذات سے محبت
ہوگی تو اس ذات سے بھی ہوگی جس سے اس کا وجود مستفاد ہے اور جس سے اس کے
وجود کو بقا ملی ہے‘ بشر طیکہ وہ اپنے خالق‘ موجود‘ مبقی مانے‘ اور اگر
ایسی ذات سے محبت نہ رکھے تو یہ کہا جائے گا کہ نہ اسے اپنے نفس کی معرفت
حاصل ہے اور نہ اپنے رب کی۔ محبت معرفت ہی کا ثمر ہے‘ جب محبت نہ ہوگی تو
معرفت بھی نہیں ہوگی‘ اور جس قدر معرفت ضعیف ہوگی اسی قدر محبت بھی ضعیف
ہوگی۔اور جس قد ر معرفت قوی ہوگی اور اسی قدر محبت بھی قوی ہوگی۔ اسی لئے
حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کو پہچانتا ہے وہ اس سے
محبت کرتا ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ آدمی کو اپنے نفس سے محبت ہو اور اپنے رب
سے نہ ہو‘ یہ حقیقت ہے کہ شخص دھوپ کی سختی برداشت کرتا ہے اسے سائے سے
محبت ہوتی ہے اور جو سائے سے محبت کرتا ہے اسے ان درختوں سے بھی محبت ہوتی
ہے‘ جن سے سایہ قائم ہے‘ اور جن سے سائے کا وجود ہے ہر موجود شئے کی نسبت
اللہ تعالیٰ کی قدرت کی طرف ایسی ہے جیسے سائے کو درختوں سے ہوتی ہے سائے
کا وجود درختوں سے ہے‘ اور نور کا وجود آفتاب سے ہے، یعنی سایہ اپنے وجود
میں درختوں کے تابع ہے اور نور کا وجود آفتا ب کے تابع ہے، اسی طرح تمام
موجودات کا وجود اسی ذات واحد کے تابع ہے، سب اسی کی قدرت اور صنعت کے
نمونے ہیں۔ |