اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ دین ”دین
اسلام“ کو تمام ادیان عالم میں یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس نے اپنے پیروکاروں
کو زندگی کے ہر شعبے کے بارے میں تفصیلی ہدایات دی ہیں اور اس سلسلے میں
قرآن و سنت کی تعلیمات بہت واضح ہیں ۔یہ تعلیمات قابل عمل اور انسانی فطرت
کے عین مطابق ہیں اور خود نبی اکرم ﷺ اُمہات المومنین اور صحابہ کرام رضی
اللہ عنہم نے ان پر عمل کر کے امت کے لئے روشن راستہ فراہم کر دیا ہے ۔لیکن
المیہ یہ ہے کہ آج کا مسلمان قرآن و سنت کی تعلیمات سے بے خبر اور ان پر
عمل کرنے سے گریزاں ہے ۔اس پس منظر میں شاعر مشرق ،مفکر پاکستان اور اسلامی
فلسفی علامہ محمد اقبال رحمة اللہ علیہ نے فرمایا ہے :
خواراز مہجوری قرآن شدی
شکوہ سنجِ گردش دوراں شدی
ترجمہ:” اے مسلمان! تو قرآن سے دور ہو کر ذلیل و خوار ہو ا مگر اپنی ذات پر
زمانے کی گردش کا شکوہ کرنے لگا ہے ۔“حقیقت میں قرآن مجید کی تعلیمات کو
فراموش کر دینے ہی کا نتیجہ ہے کہ مسلمان اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی ہدایت
سے بیگانہ ہو گئے ہیں ،حالانکہ قرآن مجید بار بار انہیں تاکید کرتا ہے
ترجمہ”اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو۔“ چنانچہ قرآن و
سنت دونوں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کی راہ عمل متعین کرتے
ہیں ۔قرآن مجید دنیا کی آسان ترین کتاب ہے ۔قرآن مجید کا بھی یہی دعویٰ ہے
ترجمہ:”ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان بنایا ہے ۔ہے کوئی نصیحت پکڑنے
والا؟“
حدیث شریف میں ہے کہ قرآن مجید کی ایک آیت کریمہ کو سمجھ کر پڑھ لینا ،سو
رکعت نفل پڑھنے سے افضل ہے ۔نبی پاکﷺ کی حیات طیبہ قرآن کریم کی عمل تفسیر
ہے ۔عاشق رسول ﷺعلامہ محمد اقبال رحمة اللہ علیہ نے مسلمانوں کو نصیحت کی
ہے :
گر تومی خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جُزبہ قرآن زیستن
ترجمہ:” اگر تم مسلمان کی زندگی گزارنا چاہتے ہو تو یہ قرآن کریم کی
تعلیمات پر عمل کرنے کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔“ علامہ محمد اقبال رحمة اللہ
علیہ فرماتے ہیں :” قرآن کریم میں قانون بھی ہے اور تصورات بھی “ اس معاملہ
میں قابل غور امر یہ ہے کہ قرآن پاک عین فطرت ہے ۔لہٰذا فطرة اللہ کا
انکشاف جس پر انسان کو پیدا کیا گیا ۔قرآن کریم ہی کے ذریعے ہوا ۔پھر یہ
فطرت اس نظام حیات ہی میں مشہود ہوئی جس کو اس نے دین کہا اور دین کا تقاضا
ہے وہ اعمال و عقائد ،جو ہر پہلو سے زندگی کو سہار ا دیتے ہیں اور جن کو
اصطلاحاً شریعت سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔لہٰذا ہم کہیں گے قرآن پاک میں قانون
بھی ہے اور تصورات بھی ،گو انسان کو تصورات کی اتنی ضرورت نہیں جتنی قانون
کی ۔یہ انسان کی عقل ،اس کا تجربہ اور مشاہدہ ہے جس میں قرآن مجید کا قانون
حیات منکشف ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا لیکن وہ قانون حیات قرآن حکیم میں
تمام و کمال موجود ہے ۔جب ہی قرآن حکیم نے دعویٰ سے کہا ہے ترجمہ:” اور اس
جیسی ایک سورة ہی لاﺅ“ یہ دوسری بات ہے کہ نفس متناہیہ اسے اپنے احوال اور
استعداد ہی کے مطابق سمجھ سکتا ہے ۔فرد کی صورت میں تو خطا و صواب کا امکان
یکساں ہے ۔اس کا فہم غلطی بھی کر سکتا ہے ۔لیکن فرض کیجئے ! ذہن انسانی اس
فطرت کا تمام و کمال احاطہ بھی کر لے جو قانون اور تصورات دونوں کا سر چشمہ
ہے جب بھی قرآن حکیم ہی سے رجوع کرنا پڑے گا۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہمارے
علم اور عقل کو ان مصلحتوں کا اعتراف ہے جو احکام شریعت میں مضمر ہیں ۔قرآن
پاک کا مطالعہ کیجئے تو اس کا مقابلہ دوسرے مذہبی صحائف سے بھی کرتے جائےے
یوںقرآن حکیم کا فہم زیادہ آسان ہو جائے گا۔
عہد نامہ عتیق میں ہے :خدا وند نے زمین و آسمان کو چھ دنوں میں پیدا کیا
۔ساتویں دن خدا وند کے آرام کا دن تھا ۔اس کے مقابلے میں قرآن حکیم کا
ارشاد ہے کہ بے شک زمین و آسمان کی پیدائش چھ دنوں میں ہوئی ،مگر اللہ
تعالیٰ کو آرام کی ضرورت پیش نہیں ہوئی ۔ایسے ہی ہندو و بدھ دھرم کے تصورات
ہیں ۔ مثلاً مایا اور آنند۔ قرآن حکیم نے ان کے بر عکس حقیقت اور فلاح پر
زور دیا ۔قرآن سرا سر ہدایت ہے اور ہر حالت میں رہنما ،یہ کتاب اللہ ہے اور
لفظ کتاب غور طلب ہے ۔قرآن حکیم قلب کے راستے سے بھی شعور میں داخل ہوتا ہے
اور دماغ کی راہ سے بھی سمجھ میں آتا ہے ۔دماغ کی راہ سے سمجھ میں آنے کا
مطلب ہے حقائق کا ادراک ،علم اور فکر ،تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں حقائق
کا ادراک ہمیشہ سے جاری تھا۔کبھی ایک حقیقت سمجھ میں آتی کبھی دوسری،کبھی
جزواًکبھی تماماً ۔ اب اگر انسان وہ سب حقائق جو اس نے اپنے علم اور تجربے
کی روشنی میں حاصل کئے یا جن تک عقل اور فکر کے ذریعے اس کی رسائی ہوئی
باہم فراہم کرے اور ایک مربوط و منظم شکل میں پیش کرے تو اُن سے قرآن حکیم
ہی کے ارشادات کی تصدیق اور ترجمانی ہو گی ۔حقائق کا ادراک ہوتا رہے گا۔
قرآن حکیم ان سب حقائق کا جامع ہے جو ہمارے ادراک میں آچکے ہیں اور ان کا
بھی جن کا ادراک باقی ہے ۔ان حقائق کو سمجھنے کی جس طرح کوشش کی جائے اپنی
جگہ پر ٹھیک ہے ۔مقصد ہے ان کا سمجھنا اور قبول کرنا ۔لہٰذا انہیں جس طرح
سے بھی سمجھیں یہ قرآن حکیم کا ہی سمجھنا ہو گا۔ اس کی تعلیم سے بہرہ ور
ہونا ۔قرآن کی روح آفاقی ہے ،جس میں انفس و آفاق دونوں کو ان کا مقام حاصل
ہے ۔قرآن حکیم حیات و کائنات کی ایک جامع تعبیر پیش کرتا ہے ،جس میں عقل
بھی ہے اور وحی بھی اسلام کے نزدیک عقل و تدبر کرنے کی اس قدر بار بار دعو
ت کیوں دی جاتی ہے ۔قرآن حکیم میں ہے :”اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا
نور ہے ۔ اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیساکہ ایک طاق میں ایک چراغ ۔چراغ ایک
شیشے میں ۔وہ شیشہ ایسا شفاف گویا کہ وہ چکمتا ہوا ایک ستارہ ہے ۔“ نور کا
اطلاق ذات الہٰی کی مطلیقیت کی طرف ہے ،نہ کہ ان کی ہر کہیں موجودگی کی طرف
،کہ جس سے ہمارا ذہن با آسانی وحدة الوجود کی طرف منتقل ہو سکتا ہے ۔اللہ
تعالیٰ کی صفتِ کمال فردیت کے بعد علامہ محمد اقبال رحمة اللہ علیہ کے
نزدیک قرآن حکیم میں خالص فکری لحاظ سے زیادہ اہم صفات ہیں :خالقیت ،علم
،قدرت کاملہ اور ابدیت ۔تصور باری تعالیٰ جو علامہ محمد اقبال رحمة اللہ
علیہ نے قرآن حکیم کی روشنی میں پیش کیا اختصار کے ساتھ بیان کرنا چاہیں تو
ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک بے مثل و مطلق ذات ”انا“ ہے جو کل
کائنات کا خالق ہے اور جو اپنی مخلوق سے کہیں دور اس کا تماشا نہیں کر رہا
بلکہ وہ اپنی تخلیقی فعالیت سے لمحہ بہ لمحہ اس میں جس طرح چاہتا ہے اضافہ
اور تبدیلی کرتا ہے ۔وہ بہ نفسہ کائنات کی ہر شے میں موجود نہیں بلکہ اس کا
علم اور قدرت کاملہ کائنات کے ذرے ذرے پر حاوی اور محیط ہے ۔
علامہ محمد اقبال رحمة اللہ علیہ کی رائے میں اللہ تعالیٰ نے خود اپنی رضا
سے انسان کو عقل و فہم کی ایسی طاقت بخش کر اسے اس قابل بنایا ہے کہ وہ
نیکی اور بدی، روشنی اور اندھیرے میں تمیزکر کے ان میں جس کو چاہے اختیار
کرے ۔انسان کی آزادی خود اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے ۔قرآن حکیم جس زمانہ میں
نازل ہوا اس کا خطاب اہل کتاب ہی سے ہو سکتا تھا ۔دیکھ لیجئے اس نے انہیں
مخاطب کرتے ہوئے کس دعوے سے کہا (مصدقالما معکم)جو کچھ تمہارے پاس ہے اس کا
مصدق۔یہ اس لئے بھی کہ قرآن حکیم نہ صرف حقائق کا جامع ہے بلکہ ان کی تصدیق
کا بھی واحد ذریعہ ۔کبھی ایک حقیقت زرتشت کو ملی ،دوسری بدھ کو ۔ایسے ہی
اور بھی حقائق ہیں ،وہ انسان کے فہم و ادراک میںذہن انسانی کاگزر ہو رہا
تھا ۔لہٰذا جیسے کسی قوم نے کسی حقیقت کو مانا ویسے ہی کوئی افسانہ بھی
قبول کر لیا ۔لیکن افسانوں کو تو افسانہ ہی سمجھنا چاہےے ۔انہیں حقیقت پر
محمول کرنا غلطی ہے ،افسانے ہمارے دل و دماغ کی اختراع ہیں ۔ان کو وضع کیا
گیا تو کسی مطلب کے لئے ۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم نے جہاں حقائق کی تصدیق کی وہاں افسانوں کو نظر
انداز کر دیا اور اگر نہیں بھی کیا تو اس حد تک ترمیم اور قطع اور برید کے
ساتھ کہ ان سے اُن حقائق کی ترجمانی مقصود ہے ان کی طرف واضح طور پر اشارہ
ہو جائے ۔مثال کے طور پر حضرت آدم اورحضرت حوا کا قصہ ہے ۔قرآن حکیم نے اس
کے بیان میں ایک نیا انداز اختیار کیا ۔قصہ حضرت آدم جیسا کہ قرآن حکیم میں
دو حصوں میں بیان ہوا ہے ،علامہ محمد اقبال رحمة اللہ علیہ نے ان دو بیانوں
کو سامنے رکھ کر جو نتیجہ اخذ کیاہے ا س میں نافرمانی ،گناہ اور سب کے
نتیجے میں مایوسی اور زوال کے عناصر کم ہیں ۔اُن کے بر عکس انسان کی آزادی
اور اپنے افعال کے نتائج کو بھگتنے اور قبول کرنے کے پہلو نمایاں ہیں ۔اس
قصہ میں جس میں جنت کا ذکر ہے ،وہ اُس کااحساس فراغت ہے جو اخلاقی ذمہ داری
قبول کرنے سے پہلے انسان کو نصیب تھی ۔حضرت آدم کا وہ فعل جو ایک طرح سے
نافرمانی تصور ہوتا ہے ،اپنے اندر مستقبل کے لئے بے پناہ امکانات رکھتا ہے
۔یہ فعل نافرمانی کے جذبے سے نہیں بلکہ علم او رتجربے کے شوق میں حضرت آدم
سے سرزد ہوا ۔قرآن حکیم میں حضرت آدم علیہ السلام کا قصہ بالعموم اس تمہید
سے شروع ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو ”اسمائ“ کا علم دیا جو فرشتوں کو
حاصل نہ تھا اور آدم اپنے علم کی برتری کی بناءپر مسجودِ ملائک ٹھہرے
۔علامہ محمد اقبال رحمة اللہ علیہ نے درخت کا پھل کھانے کو مزید علم حاصل
کرنے یا حصول علم میں بے تابی سے تعبیر کیا ہے ۔چنانچہ ابلیس نے انسان کو
جس لازوال بادشاہی کی طرف متوجہ کیا ،وہ بھی در اصل انسان کے باطن کا فہم
ہے لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کی اس بے ارادہ سرتابی
سے ایک تو اس پر آزادی اور علم کے امکانات منکشف ہوتے ہیں اور دوسرے نسل کی
افزائش و استقاءکا دروازہ کھلتا ہے ۔جنس کے بے داغ عمل سے انسان گویا موت
کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتا ہے ۔تم مجھے ختم کرنا چاہتی ہو؟ میں
تمہارے مقابلے میں اگلی نسل کا لشکر لے کر آﺅ ںگا۔مگر لطف کی بات یہ ہے کہ
اگر قرآن حکیم کسی افسانے کا ذکر نہ کرے تب بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا
اشارہ کس افسانے کی طرف ہے ۔
علامہ محمد اقبال رحمة اللہ علیہ کے نزدیک قرآن حکیم کا بڑا مقصد یہ ہے کہ
انسان میں اس بات کا شعور پیدا کرے کہ اس کے تعلقات اللہ تعالیٰ سے ایک طرف
اور کائنات سے دوسری طرف کئے ہیں۔اسلام میں حقیقت اور مجاز دو مخالف طاقتیں
نہیں ہیں بلکہ مجاز کی دوامی کوشش یہی رہتی ہے کہ حقیقت پر روشنی ڈالے اور
اس کو اپنا حصہ بنا لے اور اسی لےے وہ حقیقت کی تلاش مجاز میں کرتا ہے ۔اسی
کو علامہ محمد اقبال رحمة اللہ علیہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آلباس مجاز میں
علامہ محمد اقبال رحمة اللہ علیہ یہ نہیں کہتے کہ اے مجاز حقیقت کی شکل
اختیار کر کے ظاہر ہو ۔اسلام اور عیسائیت میں یہی بنیادی فرق ہے اگر چہ
دونوں انسان کی خودی کی آخری منزل روحانیت میں ڈھونڈتے ہیں ،اسلام مادی
دنیا سے گریز نہیں کرتا بلکہ اس کی تسخیر کر کے گوئی بنیاد تلاش کرتا ہے جس
پر زندگی کی عمارت بادلوں میں نہیں بلکہ زمین پر کھڑی کی جا سکے ۔ہر کتاب
کا ایک موضوع ہوتا ہے ۔قرآن حکیم کا بھی ایک موضوع ہے ”انسان“ جس کا احاطہ
اس نے ہر پہلو سے بحسن خوبی کر لیا ہے ۔مگر پھر لفظ کتاب کے اور بھی توکئی
معنی ہیں ۔مثلاً فرض ،قانون ،حکم ۔ان کا لحاظ رکھ لیجئے تو بطور ایک کتاب
قرآن حکیم کے اور بھی کئی لطیف پہلو ہمارے سامنے آجائیں گے ۔شعور انسانی کی
تکمیل کے ساتھ ساتھ بالا ٓخر وہ مرحلہ بھی آگیا ہے کہ زندگی اپنے مقصود کو
پالے تو ذات امجدیہ بھی اپنی پوری شان سے جلوہ گر ہو گی ۔حضور رسالت مآب ﷺ
تشریف لائے ،باب نبوت بند ہوا ،انسانیت اپنی معراج کمال کو پہنچی اور حضور
ﷺ کا اسوہ ¿ حسنہ ہی ہر اعتبار سے ہمارے لئے حجت ،مثا ل اور نمونہ ٹھہرا
۔اب جتنا بھی کوئی اس رنگ میں رنگتا چلا جائے گا اتنا ہی قرآن حکیم کو
سمجھے گا۔ علامہ نیاز الدین خان کو ایک خط میںعلامہ محمد اقبال رحمة اللہ
علیہ لکھتے ہیں :” قرآن حکیم کو کثرت سے پڑھنا چاہےے تاکہ قلب محمدی ﷺ سے
نسبت پیدا کرے ۔اس نسبت محمدی ﷺ کی تولید کے لئے یہ ضروری نہیں کہ قرآن کے
معنی بھی آتے ہوں ۔خلوصِ دل کے ساتھ محض قرات بھی کافی ہے ۔“
علامہ محمد اقبال رحمة اللہ علیہ نے بتایا کہ مشہور جرمن شاعت گوئٹے کے
متعلق ایک کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ جب اس نے جرمن زبان میں قرآن حکیم کا
ترجمہ پڑھا تو اس نے اپنے بعض دوستوں سے کہا کہ ”جب میں یہ کتاب پڑھتا ہوں
تو میری روح میرے جسم میں کانپنے لگتی ہے ۔“ عشق رسول ﷺ اور قرآن حکیم سے
علامہ محمد اقبال رحمة اللہ علیہ کے شخصی عناصر کی تعمیر ہوئی ہے اور اس
اجمال کی تفصیل ان اقوال و احوال میں پیش کی جاتی ہے جو مختلف کتابوں میں
بکھرے پڑے ہیں ۔
روزِ محشر خوار و رسوا کن مرا
بے نصیب از بوسہ پاکن مرا
گر زرِا اسرارِ قرآن سفتہ ام
بامسلمان اگر حق گفتہ ام
ترجمہ:” مجھے قیامت کے روز رسوا کیا جائے اور نبی پاک ﷺ کی قدم بوسی سے بھی
محروم کر دیا جائے اگر میں قرآن حکیم کے علاوہ کچھ اور کہوں تو مجھے ختم کر
دیا جائے اور قوم کو میرے شرسے محفوظ رکھا جائے ۔پروفیسر یوسف سلیم چشتی کو
علامہ محمد اقبال رحمة اللہ علیہ نے مشور ہ دیا کہ قرآن حکیم کو اس زاویہ
نگاہ سے پڑھو کہ اللہ تعالیٰ سے میرا کیا رشتہ ہے اور کائنات میں میرا کیا
مقام ہے ۔قرآن حکیم اس لئے نازل ہوا کہ وہ انسان میں اللہ سے ربط قلبی کا
اعلیٰ شعور پیدا کر دے تاکہ انسان اس ربط کی بدولت مشیتِ ایزدی سے ہم آہنگی
پیدا کر سکے ۔قرآن پاک کا رجحان زیادہ اس طرف ہے کہ ”فکر “ کی بجائے ”عمل“
پر زور دیا جائے ۔قرآن حکیم میں تفکر کے لئے کم و بیش اُنیس آیتیںہیں ،تدبر
کے لئے آٹھ ،نفقہ کے لئے بیس ،شعور کے لئے انتیس ،تعقل کے لئے اُنچاس اور
تُبَصر کے لئے چھیانوے ،کل دوسو اکیس لیکن عمل صالح کے لئے تین سو چھپن
آیتیں ہیں ۔دنیا کے لئے عمل بھی اگر اللہ کی رضا کے لئے ہو تو وہ بھی ہمارے
دین میں عبادت اور آخرت کا عمل بن جاتا ہے ۔مولانا عبد السلام ندوی نے
علامہ محمد اقبال رحمة اللہ علیہ کے بارے میں لکھا ”اس بات کا خاص طور پر
لحاظ رکھنا چاہےے کہ مذہب کے متعلق ڈاکٹر محمداقبال رحمة اللہ علیہ نے اپنی
تصانیف میں جو خیالات ظاہر کئے ہیں وہ اگر چہ فلسفیانہ ہیں لیکن عملی طور
پر وہ مسلمانوں کے لئے صرف عقیدہ توحید و رسالت اور نماز ،روزہ ،حج اور
زکوٰة کو کافی سمجھتے تھے ۔جس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان کو مسلمان بننے کے
لئے فلسفہ کی ضرورت نہیں بلکہ عمل کی ضرورت ہے ۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
لہٰذا ایسی کتاب جس کے فلسفیانہ طرز تکلم کو علامہ محمد اقبال رحمة اللہ
علیہ جیسے صاحبِ حضوری مفکر نے اپنے علم و فن سے اجاگر کیا ۔اس کے نذریعہ
امن و محبت کو پروان چڑھایا اور اس سے بڑ ھ کر کسی کتاب کو قابل عمل قرار
نہ دیا ۔مغرب کی طرف سے اس کتاب لاریب کی توہین ،چرچوں میں اسے جلایا جانا
اور شدت و دہشت سے تعبیر کیا جانا کہاں کا انصاف ہے ؟قرآن حکیم تو معرفتِ
ربی کا ذریعہ ہے جبکہ شدت و دہشت تاریکی ۔کاش کبھی مغربی دنیا اللہ تعالیٰ
کی اس آخری الہامی کتاب قرآن حکیم کو نظر اقبال سے پڑھتی تو یقینا جھوم
جاتی اور عمل کے لئے تیار ہو جاتی ۔ان کے دل میں نبی آخر الزماں حضرت محمد
مصطفےٰ ﷺ کا عشق و محبت اجاگر ہو جاتا کیونکہ مدعا ءقرآن بقول علامہ محمد
اقبال رحمة اللہ علیہ یہی ہے
مغزِ قرآں روح ایماں جان دیں
ہست حب رحمة اللعالمین
لہٰذا اسلامی حکمران غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قرآنی پیغام امن کو
عام کریں ۔فکر اقبال کو فروغ دیکر نسل نوکو جذبہ حب الوطنی سے سرشار کریں
تاکہ پاکستان سمیت عالم اسلام دہشت گردی کی دلدل سے نکل سکے اور قرآن و
حاملین قرآن پر شد ت پسند ی کا الزام مسترد کیا جا سکے ۔ |