کاش اس ملک میں نیک نیتی کی کمی
نہ ہو تی اگر ایسا ہوتا تو شاید بہت سے مسائل جنم ہی نہ لیتے۔ صرف اور صرف
خود کو محب وطن اور دوسروں کو غدار کہنے کا رواج بھی انتہائی خطرناک ہے۔اس
طرح کے الزامات کوکچھ لوگ اپنے مفادات کی خاطر اچھالتے ہیں اور قومی سا
لمیت اور یکجہتی کو نہ صرف پس پشت ڈال دیتے ہیں بلکہ اسے شدید نقصان
پہنچانے کی دانستہ و نادانستہ کوشش بھی جاری رہتی ہے تاکہ گرما گرم خبر
میسر رہے۔
حال ہی میںچیف آف آرمی اسٹاف نے معمول کا ایک بیان دیا جس میں انہوں نے ایک
مکمل طور پر غیر متنازعہ بات کہی کہ کسی ایک ادارے کو یہ حق نہیں کہ وہ ملک
کے مفاد کا تعین کرے بلکہ اس کے لیے قومی اتفاق رائے کا ہونا ضروری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ فوجی قیادت اور سپاہ میں پھوٹ ڈالنے کی کو شش برداشت
نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اداروں کو کمزور کرنا یا آئین سے
تجاوز ہمیں صحیح راستے سے ہٹا دے گا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ ماضی میں سب
سے غلطیاں ہوئیںاور کسی ملزم کو مجرم ٹھہرا کر پورے ادارے کو مورد الزام
ٹھہرانے کا ہمیں کوئی حق نہیں۔
چیف آف آرمی اسٹاف کے بیان پر ہماری مستعدد اور آزاد میڈیا نے کچھ اتنی
تیزی سے پروگرام مرتب کیے اور اس سے پہلے کچھ یوں بریکینگ نیوز کا ہنگامہ
مچایا گیا کہ محسوس ہوا بلکہ کرایا گیا کہ جسے مارشل لائ لگنے میں محض چند
منٹ باقی ہیں اور اسے بالکل واضح طور پر عد لیہ کے خلاف بیان قرار دیا گیا۔
اسکے بعد چیف جسٹس صاحب کے آنے والے بیان کو آرمی چیف کے بیان کا جواب قرار
دیا گیا۔
میڈیا کی آزادی سے کسی کو اختلاف نہیں لیکن یوں دو بڑے اداروں کے سربراہوں
کے بیانات کو اچھالنا کسی بھی طرح دانشمندی نہیں جبکہ ان بیانات میں ایسی
کو ئی بات بھی نہ ہو۔ آرمی چیف کے بیان کو جس طرح ہمارے چغادری اینکرز نے
کئی کئی طرح معانی پہنائے ان کا بیان کے متن سے کہیں بھی اندازہ نہیں لگایا
جا سکتا۔ فوج اپنے ڈسپلن کی نوعیت میں دوسرے تمام اداروں سے مختلف ادارہ ہے
یہاں اس پر لگنے والے الزامات کی تردید یا تو آئی ایس پی آر کر سکتا ہے یا
ادارے کا سربراہ۔ موجودہ حالات میں جس طرح فوج کو تنقید کا نشانہ بنایا جا
رہا ہے اس سے یقینا ادارے کی ساکھ پر اثر پڑ رہا ہے۔ آرمی چیف نے تسلیم کیا
ہے کہ ماضی میں سب سے غلطیاں ہوئیں ہیں۔ اگر کچھ جرنیلوں نے ملک کی سیاست
میں مداخلت کی ہے اور قوانین کی خلاف ورزی کی ہے تو اس کا ہر گز یہ مطلب
نہیں کہ پورے ادارے کو بدنام کیا جائے۔ بالکل اسی طرح جس طرح اگر ایک جج
غلط فیصلہ دے تو پوری عدلیہ مجرم نہیں گردانی جاسکتی۔جسٹس منیر کے فیصلے سے
آج کی عدلیہ کا کوئی تعلق نہیں اسی طرح ہر جرنیل کا فعل اس کا ذاتی فعل ہے۔
یہ بھی ذہن میں رہے کہ ہر دوسرے شخص کی طرح فوجی بھی پہلے انسان اور پھر
فوجی ہے اور ہر دوسرے انسان کی طرح یہ ہر خطا سے مبرا ئ نہیں ہو سکتا۔ اور
پھر جو جرم اس ادارے سے منسوب کیا جا رہا ہے اس میں سیا ستدان بھی شامل ہیں
بلکہ مارشل لائ ا کو تحفظ دینے میں عدالتیں بھی برابر کی شریک ہیں ،عوام نے
بھی مارشل لائوں کی آمد پر مٹھائیاں بانٹی ہیں۔ سیاستدانوں نے جرنیلوں کو
وردی میں دس دس بار منتخب کرنے کے دعوے کیے ہیں۔ آئی ایس آئی کا سیاسی ونگ
بنانے کا کارنامہ بھی ایک سیاسی وزیراعظم نے سرانجام دیا۔دو چارماہ کی
وزارت عظمیٰ کی تاریخ بھی سیاستدانوں نے مرتب کی اور انہی کارناموں نے پہلے
مارشل لائ کی راہ ہموار کی اور ایک ایسی بری روایت کو ملک میں متعارف
کروایاجس سے قوم جان چھڑانے میں کامیاب نہیں ہوپا رہی۔ انہی غلطیوں کا
دونوں اداروں کے سربراہوں نے مختلف انداز میں ذکر کیا اور ہم سب ایک بار
پھر ایک بڑی قومی غلطی کرنے پر آمادہ ہوگئے کہ دونوں کے بیانات کو اس طرح
پیش کیا جائے گویا دو دشمنوں کے بیانات ہوں۔ حیرت اور افسوس اس بات پر ہے
کہ ایسے میں ملکی مفادات کے تحفظ کا دعویٰ کرنے والے اینکرز صرف اپنی ریٹنگ
کی فکر میں مبتلا ہو گئے اور قومی مفاد اور یکجہتی کہیں پیچھے رہ گئے۔ اس
وقت فوج باوجود انتہائی حالات کے بھی حکومت کے معاملات میں مداخلت نہیں کر
رہی تو ایسے میں اس کے کردار کو سراہا جانا چاہیے تھا۔ اگر جنرل کیانی یا
کوئی دوسرا فوجی غلطیاں کرنے والے جرنیلوں کو تحفظ دینے کی بات کرے تو تب
انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جا سکتا تھا مگر اب کیوں ۔ اس میں بھی کوئی شک
نہیں کہ عدلیہ نے بھی ماضی سے ہٹ کر فیصلے کیے ہیں جن کا ملکی سیاست پر
یقینا مثبت اثر پڑے گا کیونکہ جب چیک کا نظام رہے گا تو خوف کے تحت ہی سہی
اپنے اعمال درست رکھے جائیں گے۔ اگر پینسٹھ سال کے بعد بھی ہمارے اداروں نے
اپنے اپنے دائرہ ہائے کا ر کا تعین کرکے اس کے اندر رہنے کا فیصلہ کر لیا
ہے اور ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر کم از کم اس وقت انہیں نہ دہرانے کا
عزم کیا بلکہ آئین کی پاسداری کا اعلان بھی کیا تو اس کی حوصلہ افزائی کی
جانی چاہیے نہ کہ ان بیانات کو اپنی مرضی کے معنی پہنا کر اپنا اُلو سیدھا
کیا جائے۔ کیا یہ بہتر رویہ نہیں کہ ادارے کے سربراہ کو ہی یہ اختیار ہو کہ
وہ پورے ادارے کی ترجمانی کرے یا یہ بہتر ہوگا کہ آرمی چیف
ہرلیفٹیننٹ،کیپٹن یا میجر کو یہ اجازت دے کہ وہ میڈیا پر آکر اپنی ذاتی
حیثیت میں بیانات دے اور اپنا دفاع کرے اور چیف جسٹس سیشن کورٹ ، ہائی کورٹ
یا سپریم کورٹ کے ہر جج کو یہ اجازت نامہ مرحمت فرمائے کہ وہ سیاستدانوں کی
طرح ہر شام میڈیا پر بیٹھ کر اپنے خیالات کا اظہار کرے۔ آزادی اظہار رائے
یقینا قابل قدر ہے اور اسے ہونا بھی چاہیے لیکن اگر تجھ کو تہذیب ہر بند سے
آزاد کرے تو پھر یہ آزادی نہیں بلکہ جنگل کا قانون بن جاتا ہے۔ اور ہمارے
ملکی حالات میں جبکہ ہمیں قومی اور بین الاقوامی سطح پر بہت بڑے بڑے اور
شدید چیلینجز کا سامنا ہے تو ہمیں ان چیلینجز کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے
اپنے محاذ پر ڈٹ جانا چاہیے اور اگر کسی دوسرے محاز پر کمزوری دیکھیں تو
اپنا محاذ چھوڑے بغیر ان کی مدد کے لیے بھی کمر بستہ ہوجانا چاہیے تبھی ہم
دشمن کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اس وقت بین الاقوامی سطح پر ہمیں جس طرح گھیرا
گیا ہے اور ہمیں جس دہشتگردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، ڈرون حملے بلکہ
کھلم کھلا دو مئی اور سلالہ چیک پوسٹ جیسے حملے بھی انتہائی آسان سمجھ لیے
گئے ہیں تویہ کوئی نئی بات بھی نہیں منتشر قومیں ہمیشہ طاقتور اور متحد
قوموں کے لیے سافٹ ٹارگٹ ہوتی ہیں اور کچی دیوار بھی ثابت ہوتی ہیں۔
موجودہ حالات کو نظر میں رکھتے ہوئے بالخصوص اور قومی مفاد کو مد نظر رکھتے
ہوئے بالعموم ہمیں ہر نکتہ نگاہ سے انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے ۔کسی ادارے
کو اتنا ہدف تنقید نہیں بنانا چاہیے کہ نہ صرف اس کی کارکردگی متاثر ہو
بلکہ وہ کوئی ایسا ردعمل ظاہر کرنے پر مجبور ہو جائے جو قومی مفاد کو نقصان
پہنچنے کا باعث بنے۔ اگر چہ فوج کے نظم و ضبط کے پیش نظر ایسے کسی ردعمل کا
اندیشہ نہیں ہوتا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایسے اداروں کی عزت و
تکریم کو نقصان پہچایا جائے جو قومی سلامتی اور وقار کے ضامن ہوتے ہیں۔
ایک دردمند پاکستانی کی حیثیت سے میری الیکڑانک میڈیا سے یہ درخواست ہے کہ
قومی مفاد کو مدنظر رکھیئے ۔ اگر لوگ آپ کو دیکھتے اور سنتے ہیں اور آپ
سمجھتے ہیں کہ آپ رائے عامہ کو بدل سکتے ہیں تو اس کو ملکی مفاد میں بدلیئے۔
اداروں کا خود بھی احترام کریں اور عوام کو بھی یہ احترام سکھائیے تاکہ ہم
ان چیلینجز کا جو ہمیں درپیش ہیں نہ صرف مقابلہ کر سکیں بلکہ سر خرو بھی ہو
سکیں۔ |