اقبال کو شروع سے ہی انتہائی
قابل اساتذہ ملے جنہوں نے اس گوہرنایاب میں پوشیدہ صلاحیتوں کو پہچان
لیایہی وجہ ہے اُن کے اساتذہ نے ان کی تعلیم و تربیت کی طرف خصوصی توجہ دی
ویسے تو اقبال نے کئی اساتذہ سے کسب فیض حاصل کیا لیکن ان میں سے تین نام
ایسے ہیں جو اقبال کے حوالے سے بہت مشہور ہیں یہ خوش نصیب حضرات مولوی
میرحسن،سرتھامس آرنلڈ اورمرزا داغ دہلوی ہیں۔
مولوی میرحسن اقبال کے بچپن کے استاد تھے اوراقبال نے ابتدائی تعلیم آپ ہی
سے حاصل کی مولوی میر حسن اقبال کی بے پناہ ذہانت و فطانت سے بہت متاثر تھے
پھر کچھ واقعات ایسے رونما ہوئے جنہوں نے مولوی میرحسن پر یہ حقیقت واضح
کردی کہ یہ بچہ کل کو ملت کے مقدر کا ستارہ ضرور بنے گا مثلاََ ایک دفعہ
اقبال لیٹ ہوگئے تو مولوی صاحب نے پوچھا کہ اقبال دیرسے کیوں آئے ہو تو آپ
نے جواب دیاکہ اقبال ہمیشہ دیر سے ہی آتا ہے آپ کے اس جواب نے مولوی میر
حسن کو بہت متاثر کیا۔اسی طرح اقبال ایک بار اپنے استاد کے صاحبزادے جن کا
نام احسان تھا کو اٹھائے ہوئے تھے لیکن چوں کہ آپ ابھی کمسن تھے اس لئے
انہیں احسان کو اٹھانے خاصی دشواری پیش آرہی تھی یہ صورتحال مولوی میرحسن
نے دیکھی تو انہوں نے اقبال سے کہاکہ کیا اس کی برداشت بھاری ہے اس پر آپ
نے بے ساختہ جواب دیا نہیں آپ کا احسان بھاری ہے ۔آپ کے اس جواب سے ہی
مولوی صاحب نے اندازہ لگا لیا کہ اُن کا شاگرد ہندوستان کا ایک عظیم شاعر
بننے جارہا ہے ۔1923ءمیں انگریز حکومت نے آپ کو سر کا خطاب دینے کا فیصلہ
کیا لیکن علامہ اقبال نے کہا کہ وہ سرکا خطاب اس وقت قبول کریں گے جب اُن
کے استاد مولوی میر حسن کو شمس العلماءکا خطاب دیاجائے گاتواس پر حکومت نے
اُن سے اسفسار کیا کہ اتنا بڑا خطاب مولوی میر حسن کو کیسے دیاجاسکتا ہے
کیا اُن کی کوئی معروف کتاب یاتصنیف ہے جس پر انہیں یہ اعزاد دیاجائے تو آپ
نے فرمایاکہ میں اُن کی جیتی جاگتی کتاب اورتصنیف آپ کے سامنے ہوں آپ کی
خواہش پر حکومت برطانیہ نے مولوی میرحسن کو شمس العلماءکا خطاب دے دیا۔
اقبال کے دوسرے استاد سرتھامس آرنلڈ تھے آپ نے گورنمنٹ کالج لاہورمیں مسٹر
آرنلڈ سے فلسفے کی تعلیم حاصل کی اقبال مسٹر آرنلڈ کی شخصیت سے بہت متاثر
تھے ایک موقع پر اقبال نے شعرو شاعری کو ترک کرنے کا فیصلہ کرلیا تو
مسٹرآرنلڈ نے آپ کو ایسا کرنے سے منع فرمایااس کے اقبال نے انگلینڈ
اورجرمنی سے اعلیٰ تعلیم مسٹر آرنلڈ ہی کے مشورے پر حاصل کی مسٹر آرنلڈ جب
برصغیر سے ہمیشہ کیلئے انگلینڈ چلے گئے تو اقبال بہت رنجیدہ ہوئے اور
نالہءفراق کے نام سے ایک نظم لکھی جو اُن کی شہرہ آفاق کتاب بانگِ درا میں
موجود ہے اس نظم کے چنداشعار یہ ہیں ۔
آہ مشرق کی پسندآئی نہ اس کو سرزمیں
آگیاآج اس صداقت کا مجھ کو یقین
ظلمت شب سے ضیائے فرقت کم نہیں
یہ اشعارواضح کررہے ہیں کہ اقبال کو مسٹرآرنلڈ سے غضب کی عقیدت تھی۔
اقبال کے تیسرے استاد شعروسخن کے بادشاہ مرزاداغ دہلوی تھے اقبال بذریعہ خط
و کتابت داغ سے اپنے کلام کی اصلاح لیتے تھے تھوڑے ہی عرصے میں داغ نے
اقبال کو یہ کہہ کر فارغ کردیا کہ آپ کا کلام بالکل ٹھیک ہے اب اس میں
اسلاح کی کوئی گنجائش نہیں ۔داغ دہلوی نے اپنی زندگی میں علامہ اقبال کو
بام عروج پر دیکھا اور وہ فخریہ کہا کرتے تھے کہ کبھی اقبال بھی مجھ سے
اپنے کلام کی اصلاح کروایا کرتے تھے ۔یہاں اس امر باعث حیرت ہے کہ مرزاداغ
دہلوی اور اقبال کی ملاقات محض خط و کتابت تک ہی محدود رہی کبھی بالمشافہ
ملاقات نہ ہوسکی مرزاداغ کی وفات کو علامہ اقبال نے دنیائے ادب کیلئے بہت
بڑا نقصان قراردیتے ہوئے اُن کیلئے ایک مرثیہ لکھا جس کے چنداشعار یہ ہیں۔
اب کہاں وہ بانکپن وہ شوخیءطرزبیاں
آگ تھی کافور پیری میں جوانی نہاں
تھی زبانِ داغ پر جو آرزو ہردل میں ہے
لیلیٰ معنی وہاں بے پردہ یہاں محمل میں ہے
اب صباسے کون پوچھے گا سکوت دل کا راز
کون سمجھے گا چمن میں نالہ ءبلبل کا راز
لکھی جائیں گی دل کی تفسیریں بہت
ہوں گی اے خواب جوانی تیری تعبیریں بہت
ہو بہو کھنچے گا لیکن عشق کی تصویریں کون
اُٹھ گیا ناوک فگن مارے گا دل پر تیرکون
اشک کے دانے زمیں شعر میں بوتا ہوں میں
تو بھی اواے خاکِ دلی داغ کو روتا ہوں میں
کتنے خوش نصیب ہوتے ہیں وہ استاد جنہیں اقبال جیسے شاگرد ملتے ہیں۔ |