دینی مدارس پر چھاپے ....آخر کیوں ؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

عبداللہ اورعبدالرحمن ہمارے کلاس فیلو تھے ،ذہین بھی بلا کے تھے مگر شوخ وشریر بھی بے حد ،ان کی نت نئی شرارتیں دیکھ کر انسان کانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور ہو جاتا ۔وہ پہلے ملک کی ایک معروف دینی درسگاہ میں زیر تعلیم تھے لیکن ان کی سیمابی طبیعت نے انہیں گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے پر مجبور کیا ۔عبداللہ اورعبدالرحمن کی پیدائش افریقا میں ہوئی تھی،بچپن سعودی عرب میں بیتا تھا اور لڑکپن پاکستان کی آوارہ گردی کی نظر ہو رہا تھا ۔ان کے والد گرامی اپنے بیٹوں کی تعلیم وتربیت اور چونچلوں کی وجہ سے بہت پریشان تھے....عبداللہ تو پھر بھی کسی حد تک منکسر المزاج واقع ہوا تھا لیکن عبدالرحمن ....نہ پوچھیے !....ان کے والد کی دعائیں اور فکر مندی رنگ لائی اور کسی نے انہیں آخری حربے کے طور پر اپنے بیٹوں کو جامعہ اشرف المدارس میں عارف باللہ حکیم اختر دامت برکاتہم العالیہ کی خدمت میں پیش کرنے کو کہا چنانچہ ان دونوں بھائیوں کو گھیر گھار کر اشرف المدارس لے جایا گیا....اشرف المدارس بیک وقت درسگاہ بھی ہے اور خانقاہ بھی .... وہ فیضان ِنظر تھا یا مکتب کی کرامت تھی بس حکیم اختر دامت برکاتہم العالیہ کے قدموں میں ان دونوں بھائیوں کو کیا جگہ ملی کہ ان کی زندگی کی کایا ہی پلٹ گئی ....سچی بات یہ ہے کہ ہمیں ان دونوں بھائیوں کے” راہِ راست“ پرآنے اور ”سدھر جانے“ کی کوئی امید نہ تھی اسی لیے برسوں بعد جب ان دونوں بھائیوں سے اتفاقیہ طور پر اشرف المدارس کراچی میں ہی ملاقات ہوئی تو ہم حیران رہ گئے ۔ ان کی وضع قطع ،چال ڈھال اور نشست وبرخاست میں ہم چند برس قبل کے ان شریر لڑکوں کو ڈھونڈتے رہ گئے مگر ہمیں ان شریر بچوں کے لڑکپن کی شرارتوں اور آوار ہ گردی کی کوئی پرچھائیں تک نہ ملی ....بااَدب ،ملنسار ،خوش اخلاق اور متقی وپرہیز گار عبداللہ وعبدالرحمن کو دیکھ کر خوشگوار حیر ت ہوئی....پھر ما ہ وسال گزرتے رہے گزشتہ برس مدینہ منورہ کی حاضری کے وقت عبداللہ سے ملاقات ہوئی وہ دینی تعلیم کا سلسلہ تو جاری نہ رکھ سکا بلکہ انجینئر بن گیا لیکن ایک ایسا باعمل مسلمان جس کے تقوی ٰ ،پرہیز گاری ،سادگی ،عاجزی اور انکساری کو دیکھ کر رشک آتا ہے ان سب صفات میں یقینامدینہ طیبہ کی برکات جھلکتی ہیں لیکن عبداللہ کے دل ودماغ کی مٹی کو مدینہ طیبہ کی برکات قبول کرنے کے قابل حکیم اختر صاحب کی نظر اور ان کی خانقاہ ودرسگاہ نے بنایا۔حرمین شریفین کے گزشتہ دو تین اسفار کے دوران عبداللہ شریف مدینہ منورہ میں ہمارے میزبان بھی ہوتے ہیں ،مہربان بھی اور رہبر بھی وہ خدمت اور نصرت کی حد کر دیتے ہیں اللہ ان کو اپنی شان کے مطابق جزائے خیر سے نوازے .... اور عبدالرحمن شریف .... کل کے اس شریر سے لڑکے کا صرف عبدالرحمن نام لیتے ہوئے ججھک محسوس ہوتی ہے ....اس نے نہ کوئی شرارت چھوڑی تھی اور نہ کسی مہم جوئی میں ہچکچاہٹ محسوس کی تھی.... لیکن پھر اللہ نے کرم فرمایا اور وہ اشرف المدارس چلاگیا۔ حکیم اختر صاحب کی عنایات ،توجہات اور شفقتوں نے اس کو کندن بنا دیا۔اس نے درس نظامی کیا،مفتی بنا اور ان دنوں جنوبی افریقا کے ایک علاقے کا اللہ کے فضل وکرم سے سب سے بڑا مفتی ہی نہیں بلکہ مرجع الخلائق ہستی بھی ہے .... ماشاللہ حکیم اختر صاحب نے ان دونوں بھائیوں کو اجازت بیعت دے رکھی ہے اور یہ اپنے اپنے شعبے میں خوب کام کر رہے ہیں ....اللہ نظر بد سے بچائے اور استقامت نصیب فرمائے ....

میں نے جب سے اشرف المدارس پر رینجرز کے شب خون ، مسلح دھاوے،فائرنگ اور رات کے بارہ بجے سے صبح کے چار بجے تک جاری رہنے والے آپریشن کی خبریں سنی ہیں نہ جانے کیوں مجھے رہ رہ کر عبداللہ اور عبدالرحمن یادآرہے ہیں۔سوچتا ہوں رینجرزاور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے محض ایک مہمان کا بہانہ بنا کر اس درسگاہ اور خانقاہ کا تقدس پامال کیا اگر وہاں اس شب سعودی عرب سے عبداللہ شریف اور ساؤتھ افریقا سے عبدالرحمن شریف آئے ہوتے اور یہ سب ناٹک رچایا جاتا ، اس ادارے پر یلغار کی جاتی،انہیں شہید کر دیا جاتا یا زخمی حالت میں گرفتار کر لیا جاتا تو اگلے دن کے اخبارات میں کیسی چیختی چنگھاڑتی ہوئی سرخیاں جمتیں،الیکٹرانک میڈیا کیسی دور دور کی کوڑیاں مول لاتا ....عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں پاکستانی نژاد اس لیے اردو ان کی مادری زبان ہے ،عربی پر انہیں کامل عبور حاصل ہے ،انگلش میں وہ بڑی روانی سے گفتگو کرتے ہیں اور شاید افریقا کی کسی ایک آدھ زبان میں بھی اظہار مافی الضمیر کر لیتے ہیں....یوں ان کی عربی دانی ان کو القاعدہ رہنماءثابت کرنے کے لیے کافی تھی ،عبداللہ کی انجینئرنگ کی ڈگری کی بنیاد پر اس کا نائن الیون کے واقعے سے گہرا تعلق جوڑا جا سکتا تھا، عبدالرحمن کے افریقا قیام پر بہت حاشیہ آرائی کی گنجائش تھی،یہ دونوں بھائی خود کو جہاد ی کہلانے والے ایک پاکستانی شخص کے برادر نسبتی بھی ہیں اس رشتے کو زیبِ داستاں کے لیے بہت استعمال کیا جا سکتا تھا ....حکیم اختر صاحب دامت برکاتہم العالیہ اور ان کے بیٹے حکیم مظہر لاکھ دلیلیں دیتے لیکن ان کی کس نے سننی تھی ؟.... حسنِ اتفاق سے جامعہ اشرف المدارس پر ہونے والی یلغار میں عبداللہ اور عبدالرحمن مشق ستم نہیں بنے ۔

یہ صرف عبداللہ اور عبدالرحمن کی داستان نہیں بلکہ دنیا بھر کے ایسے ہزاروں لوگ ہیں جنہوں نے جامعہ اشرف المدارس سے کسب ِفیض کیا،حکیم اختر صاحب کی نظرِ شفقت نے جن کی زندگی کی کایا پلٹ دی ....حکیم مظہر دامت برکاتہم کے ساتھ مل کر جنہوں نے رفاہی وفلاحی کا م کیے.... کیا ان سب کی جامعہ اشرف المدارس آمد پر یہی مشق دہرائی جاتی رہے گی ؟....یہ صرف ایک جامعہ اشرف المدارس اور حکیم اختر صاحب کی بات نہیں اس ملک کی ہر دسگاہ اور اس کو خون جگر سے سینچنے والے ہر باغبان کا فیض دنیا بھر میں پھیلاہو ا ہے ....جامعہ اشرف المدارس سے قبل دارلعلوم کراچی پر چھاپہ مارا گیا ....عالمِ اسلام کی مستند اور معیاری دینی درسگاہ کی ساکھ کوجس طرح تاراج کیا گیا اس کو سوچ کر ہی انسان شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے ....اور پھر قیامِ پاکستان کے خاکے میں رنگ بھرنے والے مفتی اعظم پاکستان مفتی محمدشفیع ؒ کے ادارے جہاں سے محبت اور اخوت کے چشمے پوٹتے ہیں اس کے ساتھ اس پاک سرزمین میں یہ سلوک کیا گیا ....جب اس پر شدید ردعمل سامنے آیا تو آخر میں وہی معذرت ،وہی ”سوری “ ،وہی غلط فہمی کا بہانہ ،وہی جھوٹی رپورٹوں کے عذر لنگ !....اب کی بار بھی جب مولانامحمد حنیف جالندھری نے گورنر سندھ کو فون کرکے قوم کے شدید احتجاج واضطراب سے آگاہ کیا تو انہوں نے نہ صرف یہ کہ اس واقعے پر معذرت کی بلکہ اس پر افسوس کا بھی اظہار کیا اور اس میں ملوث لوگوں کے خلاف سخت ایکشن لینے کی یقین دہانی بھی کروائی ....سمجھ نہیں آتی کہ یہ سب کس کے اشارے پر اور کن مقاصد کے لیے ہو رہا ہے ؟

حیرت سر پیٹ کر رہ جاتی ہے کہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والی اس مملکت میں اللہ کے نام لیواؤں اور محمد کے غلاموں کے ساتھ یہ کیا سلوک روا رکھا جا رہا ہے ؟....دارالعلوم کراچی سے لے کر اشرف المدارس تک اور اشرف المدارس سے لے کر ایبٹ آباد کے مولانا حبیب الرحمن کے ادارے دارلعلوم صدیقیہ تک یہ کیا تماشہ ہے؟....نہ کوئی مشکوک شخص گرفتار ہو تا ہے ....نہ کوئی قابل اعتراض مواد برآمد ہوتا ہے ....نہ کوئی ٹھوس ثبوت ہوتا ہے....نہ کوئی حتمی اطلاع ہوتی ہے اور سپاہ کی سپاہ دینی درسگاہوں پر چڑھ ددوڑتی ہے ....وفاق المدارس اور دینی مدارس کی دیگر نمائندہ تنظیموں اور وفاقوں کی طرف سے مستقل طور پر پیشکش ہے کہ کسی ادارے کے خلاف شکایت ملے تو وفاق خود کارروائی کرے گا ....تمام اداروں کی انتظامیہ نے عزم مصمم کر رکھا ہے کہ ملک وملت کے خلاف کسی قسم کی سرگرمی میں ملوث لوگوں اور جرائم پیشہ عناصر کی کبھی بھی قطعاً سرپرستی یا پشت پناہی نہیں کی جائے گی لیکن اس کے باوجود نہ وفاق کو اعتماد میں لیا جاتا ہے نہ ادارے کے مہتمم کو کانوکان خبر ہوتی ہے ،نہ انتظامیہ سے تعاون کی درخواست کی جاتی ہے اور کسی پہلے سے تحر یر کیے گئے سکرپٹ کے مطابق مدارس پر چھاپے اور شب خون مارے جاتے ہیں....آخر یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟....کب تک مدارس کے طلباءاور علماءکو ہراساں کیا جاتا رہے گا؟....کب تک دینی اداروں کا تقدس پامال ہوتا رہے گا؟....
Abdul Qadoos Muhammadi
About the Author: Abdul Qadoos Muhammadi Read More Articles by Abdul Qadoos Muhammadi: 120 Articles with 142079 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.