اسلام ہی دین علم ہے

علم سے مراد علم دین ہے جس کا تعلق کتاب و سنت سے ہے وہ دو قسم ہے ایک مبادی اور دوسرا مقاصد۔ ُمبادی قرآ ن وسنت کی معرفت جیسے کہ اسکے لغت، علم صرف و نحواور علوم عربیہ میں مہارت۔ مقاصدکا تعلق انسانی اعمال واخلاق، عقائد ، معاملات، علم مکاشفہ جو ایک نور ہے کہ جس سے اسرارورموز منکشف ہوتے ہیں یہ علم حقیقت اور وراثت ہے۔ جیسا کہ حضرت علامہ شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ نے اشعة للمعات فی شرح مشکوة شریف کتابُ العلم میں لکھا ہے بحکم حدیث شریف من عمل بما علم ورثہ اللہ علم مالم یعلم ۔

میں یہاں اللہ تعالی کی جانب سے علم کے مقام کو ظاہر کرنے والی کچھ آیات کا مفہوم ذکر کردوں کیونکہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام صرف چند عبادات کا نام ہے۔

قرآن حکیم کی سوة بقرة کے چوتھے رکوع میں سیدنا حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کا ذکر اللہ نے فرمایا: : جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔ بولے کیا ایسے کو(نائب) کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خونریزیاں کرے گا۔ اور تجھے سراہتے ہوئے تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں۔ فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے ۔ اور اللہ تعالی نے آدم(علیہ السلام) کو تمام (اشیاءکے)نام سکھائے پھر سب (اشیاء) کو ملائکہ پر پیش کر کے فرمایا سچے ہوتو ان کے نام بتاﺅ۔

بولے پاکی ہے تجھے ہمیں کچھ معلوم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا بے شک تو ہی علم و حکمت والاہے۔ فرمایا اے آدم!بتا دے انہیں سب (اشیائ) کے نام ۔ جب اس نے انہیں سب کے نام بتادیئے، فرمایا میں نہ کہتا تھا کہ میں جانتا ہوں آسمانوں اور زمین کی چھپی چیزیں اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو۔

یہ واقعہ سیدنا حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے ساتھ ہی پیش آیاکہ فضیلت سیدنا آدم علیہ السلام کا سبب اللہ تعالی نے فرشتوں پر انکی علمی برتری کو بنایا حالانکہ آپ علیہ السلام میں اللہ تعالی نے دیگر کثیر تعداد میں خصوصیات پیدا فرمائی تھیں مثلا جسمانی خوبصورتی اور وضع قطع کے اعتبار یا غلبہ نورانیت، جنت کی وراثت لیکن آپکی بڑائی اور فرشتو ں کے لیئے قابل احترام بوجہ علم ہوئے،جبھی تو فرشتوں کو حکم ہوا کہ انہیں سجدہ کرو۔ یہی صفت اللہ تعالی نے تمام انبیاءکرام علیھم الصلوة والسلام میں پیدا فرمائی کہ دنیا کا مال یا حسن و جمال جسمانی کی فراوانی ایک طرف مگر نبوت رسالت کی طاقت وہ علم ہے جو اللہ تعالی نے اپنے پیاروں کو دے کر خناسوں پر غلبہ دیا۔نبی کا لغوی معنی ہے غیب کی خبریں دینے والا۔

سورة الزمر آئت نمبر ۹ مفہوم:اے محبوب ﷺ ! تم فرماﺅ کیا برابر ہیں جاننے والے اور انجان۔ سورة النساءآیہ نمبر 113 کا مفہوم: اور اللہ تعالی نے تم پر کتاب اور حکمت اتاری اور تمہیں سکھادیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے۔ اور اللہ کا تم پر بڑا فضل ہے۔ سورة الاانعام آیہ نمبر 38 میں سے مفہوم: ہم نے اس کتاب میں کچھ اٹھا نہ رکھا پھر اپنے رب کی طرف اٹھائے جائیں گے۔ سورة یونس آیہ نمبر 37 کا مفہوم: اور اس قرآن کی یہ شان نہیں کہ کوئی اپنی طرف سے بنالے بے اللہ کے اتارے۔ ہاں وہ اگلی کتابوں کی تصدیق ہے اور لوح میں جو کچھ لکھا ہے سب کی تفصیل ہے، اس میں کچھ شک نہیں ہے پروردگار عالم کی طرف سے ہے ۔ سورة النحل کی آئت نمبر 89 مفہوم: اور جس دن ہم ہر گروہ میں ایک گروہ انہیں میں سے اٹھائیں گے کہ ان پر گواہی دے اور اے محبوب ﷺ تمہیں ان سب پر شاہد بنا کر لائیں گے اور ہم نے تم پر قرآ ن اتارا کہ ہر چیز کا روشن بیان ہے اور ہدائت اور رحمت اور بشارت مسلمانوں کو۔ سورة الرحمن آیہ نمبر ۱ اور ۲ کا مفہوم: رحمن نے اپنے محبوب کو قرآن سکھایا۔انسانیت کی جان محمد ﷺ کو پیدا کیا ماکان ومایکون کا بیان انہیں سکھایا۔ سورة الجن آیہ نمبر 26 اور 28 مفہوم: غیب کا جاننے والا تو اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے کہ ان کے آگے پیچھے پہرا مقرر کردیتا ہے۔

قرآن حکیم کے مطابق اللہ تعالٰی نے حضور نبی کریم ﷺ کو قرآن سکھایا گویا آپ ﷺ کا معلم خود اللہ ہے متعلم کی علمی استعداد ذخیرہ معلم کی وسعت علمی کا محتاج ہوتا ہے۔ معلم کا علم متعلم کے لیئے لا محدود ہوتا ہے۔ جب معلم خود اللہ تعالی ہے اور مت۵علم سید الانبیاء ﷺ ہیں تو علم ذاتی کے خزانے رکھنے والے نے اپنے محبوب کو کیسے نوازا اس کا اظہار یوں فرمایا جیسا کہ اوپر آیات قرآنیہ کے مفاہیم حوالہ جات کے ساتھ درج ہیں۔ اب ضروری ہے کہ اللہ کے واحدمحبوب شاگرد علم کے بارے کیا فرماتے ہیں۔ آپ ﷺ انسانیت کے محسن اور اور مخلوق کو رب کائنات کی معرفت کرانے تشریف لائے۔ معرفت الہی کی بنیاد علم ہے۔ علم ہی خاصہ انسانیت ہے۔ دین سے دنیا کی ترقی اور ایجادات کے دروازے کھلے۔

احادیث مبارکہ میں تعلیم کی تاکید میں حضور انور ﷺ نے فرمایا بلغوا عنی ولو آیة (بخاری) امت کو میری جانب سے پہنچا دو اگرچہ وہ ایک آئت ہو۔ اس پہنچانے میں بھی صداقت کا پہلو لازمی جزو ہے فرمایا ومن کذب علی متعمدافلیتبوءمقعدہ من النار (بخاری) جس نے مجھ پر جھوٹ باندھا اور میں نے وہ بات نہیں فرمائی پس چاہیئے کہ وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ فرمایا کہ من یرداللہ بہ خیرا یفقھہ فی الدین (متفق علیہ) اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اسے فقیہ بنا دیتا ہے یعنی اسے دین ، سمجھ اور عقلمندی کی دولت عطا فرماتا ہے تاکہ اسکی بصیرت کی آنکھیں کھل جائیں تاکہ وہ کتاب و سنت کا ادراک حاصل کرے۔ فرمایا کہ انسان جب مرجاتا ہے تو اس کا سلسلہ عمل منقطع ہوجاتا ہے سوائے تین اعمال کے ۔ پہلا یہ کہ صدقہ جاریہ(پانی کا کنواں،مسجد و مدرسہ وغیرہ کی تعمیر)دوسرا کہ نفع دینے والاعلم اور تیسرا نیک وصالحہ اولاد کہ اسکے لیئے دعاءمغفرت کرے۔ پھر فرمایا کہ جو کوئی تحصیل علم کی راہ پر چلا اللہ تعالی جنت میں جانے کے لیئے اس کا راستہ آسان فرمادیتا ہے۔ (مسلم شریف)سیدنا حضرت عبداللہ بن عمر رضی عنہما سے روائت ہے ،سرور کون و مکاں ﷺ نے فرمایا:مفہوم ( اللہ تعالی یوں ہی علم کو نہیں اٹھائے گا لیکن علما فوت ہوجائیں گے یہاں تک کہ کوئی عالم باقی نہیں رہے گا۔ مسلم شریف) حضرت ابی امامہ باہلی سے روائت ہے کہ رسول پاک ﷺ کے سامنے دو مردوں کا ذکر کیا گیا کہ ایک ان میں عبادت گذار اور دوسرا عالم ہے ان میں سے کون سا افضل ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ عالم کو عابد پر ایسی فضیلت اصل ہے جیسی کہ مجھے تم میں سے ایک ادنی پر۔ ( حضور ﷺ کو تمام انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام پر اور پھر اپنے صحابہ کرام پر اور پھر کم درجہ کے صحابی پر) پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بے شک اللہ تعالی اور اسکے فرشتے یہاں اور تمام آسمان والے اور زمین والے ، یہاں تک کہ اپنے سوراخ میں چیونٹی، پانی میں موجود مچھلی خیر کی تعلیم دینے والے معلم پر درودبھیجتے ہیں ( یعنی نیکی اور بھلائی کی تعلیم دینے والے کے حق میں دعا کرتے ہیں) (ترمذی شریف) حضرت ابی ھریرة رضی اللہ عنہ سے روائت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا مفہوم:علم و حکمت کی بات حکیم کی گمشدہ یا مومن کا گمشدہ سرمایہ ہے پس جہاں سے بھی ملے وہ اس کا حقدار ہے۔(ترمذی و ابن ماجہ) اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ علم و حکمت سے متعلق کوئی بھی بات مومن کا گمشدہ سرمایہ ہے جیسا کہ موجودہ دور میں سائنسی اور ایٹمی ٹیکنالوجی کے علوم اور جدید ایجادات۔ سیدنا حضرت انس رضی اللہ عنہ روائت فرماتے ہیں مفہوم فرمایا رسول عالمِ ماکان ومایکون ﷺ نے کہ حصول علم ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اور مسند امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ میں آیا ہے ہر مسلمان مرد اور عورت پر حصول علم فرض ہے۔ شیخِ محقق حضرت شاہ عبدالحق رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہاں وہ علم فرض ہے جو ہر مسلمان مرد اور عورت کی ضرورت ہے مثلا اسلام میں آنے بعدوہ خالق کائینات کی صفات کی معرفت حاصل کرے۔اس طرح حضورِ اکرم ﷺ کی نبوت کے بارے اسے معلوم ہو۔ کیونکہ بغیر اللہ و رسول کی معرفت کے ایمان لانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ پھر نماز کے اوقات اور نماز کا داکرنا، نماز روزے کے احکامات ، زکوة کی ادائیگی کے لیئے نصاب کے بارے جاننا ضروری ہے، عورتوں کو اپنے ایام مخصوصہ اور زچگی سے پیداشدہ مسائل کا جاننا انتہائی ضروری ہے(ابن ماجہ)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روائت کہ فرمایا رسول الثقلین ﷺ نے کہ جو طلب علم میں نکلا وہ اللہ کی راہ میں نکلایہاں تک کہ واپس آئے(ترمذی )ذکرکردہ احادیث مبارکہ تومشت از خروارے کی مثال ہے یا یوں کہیں کہ خزینہ مشک و عنبر کی تھوڑی سی خوشبو کی لہر ہے۔ کتب احادیث میں کتابُ العلم ہے دعوت مطالعہ دیتا ہوں۔ حضور اکرم ﷺ نے غزوہ بدر کے قیدیوں کی رہائی کے لیئے دس ان پڑھ آدمیوں کو لکھنا پڑھنا سکھانا مقرر فرمایا۔ وحی کے نزول کے سلسلہ میں کاتبین وحی مقرر فرمائے۔ غیر مسلم حکمرانوں کو تحریری ددعوت نامے بھیجے۔ خلافت عباسیہ کا دور اسلامی عروج کا سنہری دور تھا جب خلفائے عباسیہ نے علوم وفنون کو ثریا پر پہنچایا۔ اس دور کے چند سانئسدانوں اور ماہرینِ علوم و فنون کے نام درج کرتا ہوں کہ جن سے استفادہ کرکے اہل یورپ نے اپنا نام پیدا کیا۔ طب میںحیان ابن اسحق(809 تا 874 ) ابوبکرزکریا الرازی (865 تا 925 ) ابن سینا (980 تا1037 ) ریاضی دان محمد بن موسی (780 تا 846) ابو الوفا (940 ت 998 ) ابو ریحان البیرونی (973تا 1048) عمر خیام (1123) ماہرین فلکیات و ہئیت محمد بطانی ( 858 تا929) عبدالرحمن (9903 تا 986) ابن الہیثم (965 تا 1040)

ٓہمارا صدیوں پرانا چیلنج ہے کہ دولت علم سے اللہ تعالٰی خالق کائینات نے ہمیں ہی نوازا ہے اور اگر کسی کے پاس یہ دولت آئی ہے تو وہ ہمارے ہی وسیلہ سے آئی۔ اگر دنیا میں کوئی ہمارے اس نظریہ کا مخلاف ہے تو دلائل و قرائن سامنے لائے۔ دنیا جب کفروضلات و جہالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہی تھی تو آدھی تو پورے یورپ ،افریقہ اور آدھے ایشیا پر عیسائی حکمران تھے مگر حالت یہ تھی کہ انکے تن پر پہننے کو کپڑا نہ تھا، موجودہ برطانیہ دورافتادہ گاﺅں کی تصویر تھا، آج کا پیرس کل کا گھٹنے گھٹنے کیچڑ اور غلاظتوں کی آماجگاہ تھا۔ عیسائی حکمران ، گورنر انتہائی جاہل؛ اور ظالم تھے گویا کہ قرآن پاک کے ارشاد کے مصداق تھے ارشاد ربانی ہے۔ مفہوم :بے شک وہ ظالم اور جاہل ہے۔ یہ عیسائی ہی تھے جو انسانوں کی تجارت کرتے تھے اور مویشی منڈیوں کی طرح انسانی منڈیاں لگاتے تھے۔ افریقہ سے کالے لوگوں سے جہاز بھر کر لے جاتے بشمول امریکہ کے تمام عیسائی جاگیردار اپنے فارموں پر ان غریبو ںسے محنت و مشقت کراتے جس کا کوئی معاوضہ نہ تھا بلکہ انہیں کھانے کو نہائت قلیل خوراک دیتے تھے۔ اگر کوئی انکے مظالم سے دل برداشتہ راہ فرار اختیار کرتا تو شکاری کتوں کو انکے پیچھے لگا کر پکڑ لیتے اور روح فرسا مظالم ان پر ڈھائے جاتے۔ دوسروں کے لیئے نشان عبرت بنانے کے لیئے منڈھی پر انکے پاﺅں رکھ کر کلہاڑا مارکر پاﺅں کے پنجے اڑا دیتے تھے۔عیسائی وڈیروں کی داستانہائے ظلم و جبر بڑی وسیع ہے۔ اسی مفلوک الحالی کے پیش نظر واسکوڈی گاما اور کولمبس نے اپنے تجارتی بحری بیڑے چلائے۔ نور اسلام کی ضیا پاشیوں نے شام کو منور کیا کہ بوقت پیدائش سیدالمرسلین ﷺ آپکی عفت مآب والدہ ماجدہ سلام اللہ علیہا نے دیکھا کہ نور نکلا اور شام کے محلات نظر آئے، غزوہ خندق کی مضبوط ترین چٹان جب کسی طاقتور جوان سے نہ ٹوٹی تو خود سیدالعالمین ﷺ نے اسے توڑا اس چٹان پر ضر ب پڑی،شعلے نکلے آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے ملک شام کے خزانے نظرآئے جو امر کی بشارت تھی کہ میری امت عنقریب ملک شام میری امت کے زیر نگیں ہوگا ۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں حضرت ابوعبیدہ،حضرت خالد بن ولید اور حضرت عکرمہ رضی اللہ عنھم نے شام کے تمام علاقے فتح کریئے اور خزانوں پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا۔ اسی طرح مصر اور اسکے بعد افریقہ کا بیشتر علاقہ خلافت میں شامل ہوگیا۔ 92 ہجری میں مسلمانو ں نے ہسپانیہ(اندلس ) فتح کیا اور اس طرح اسلام یورپ میں داخل ہوا۔ یہاں اس امر کی وضاحت کردوں کہ ان تمام علاقوں میں عیسائی ہی کثرت سے آباد تھے لیکن معاشرتی ناانصافیوں اور اپنے حکمرانوں کے مظالم سے تنگ لوگوں نے مسلمانوں کے عدل و مساوات اور انسانیت کے احترام کو دیکھاتو حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ اور آج بھی ان علاقوں میں مسلمانوں کا اقتدار ہے اگرچہ کہ پہلے والے مثالی مسلمان نہیں۔مسلمانوں نے صرف علاقے فتح نہیں کیئے بلکہ اپنے عمدہ طرز حکومت سے انسانوں کے دل فتح کیئے، مفتوحہ علاقوں میں عدل و انصاف ، معاشی انصاف، جہالت سب سے بڑی برائی ہے اسے دور کرنے کے لیئے درسگاہیں قائم کیں۔ یہ اعزاز صرف مسلمانوں کو حاصل ہے کہ اپنے پیارے نبی ﷺ کے ارشاد کے مطابق قرآن وسنت کی تعلیم کوعام کیا۔

درج بالامفہومات کی آیات ربانی سے علم کی اہمیت اور فضیلت مسلمانوں کے لیئے سرمایہ افتخار ہی نہیں بلکہ دردنیا و آخرت کے خزانوں کی کنجیا ں ہر اسکے پاس ہیں جو قرآن کو امام بنائے اور اس میں فکر و تدبر کرے۔ ہمارے ناسمجھ سمجھتے ہیں کہ موجودہ سائنسی اور ایٹمی ترقی اہل یورپ کی مرہون منت ہے۔ اگر کسی کا ذہن میری بات کو تسلیم کرنے میں لیت لعل سے کام لیتا ہے تو میں یہ پوچھتا ہوں کہ اے صاحبان تحصیل علوم جدیدہ کے حاصل کنندگان ذرا سائنسی اور صنعتی انقلابات کی تاریخ پر غور کروکہ کیا اہل یورپ آٹھویںنویں صدی عیسوی بلکہ میں صیہونی اور صلیبی فکرو تدبر نے کچھ مسلمانوں کی سوچ و فکر کی حس سن کرکے اس پر اپنے رنگ و روغن کی ایسی دبیزتہیں جما دی ہیں کہ وہ حقائق کی دنیا سے دور چلے گئے۔ انہیں اگر اہل علم اور علم کی درسگاہیں نظر آتی ہیں تو صرف یورپ اور امریکہ میں۔ سچ کڑوا ہوتا ہے مگر میں بیان کیئے بغیر بھی نہیں رہ سکتا کہ دور غلامی میں مسلمانوں کا اوڑھنا بچھونا سرکار فرنگی کی خوشنودی میں ڈھل گیا۔ انگریزی آداب معاشرت، آداب خوردن طعام، لباس، مہمان نوازی، میزبانی، استقبالُ و الوداع غرضیکہ کہ انواع و اقسام کی کتب شائع کی گئیں۔ تاکہ لوگ انہیں پڑھ کرسرکار فرنگی کے پاس حاضری دیا کریں۔ اس کارخیر کی تبلیغ کے لیئے فرنگی صیاد کی مردہ شناس نگاہوں نے کچھ ایسے افراد بھی چن لیئے مثل سید احمد خان صاحب جیسے کہ جنہوں نے فرمایا کہ جب تک مسلمان انگریزی آداب مجلس نہیں سیکھتے اور انکے طریقے نہیں اپناتے اس وقت تک مسلمان ترقی نہیں کرسکتے۔ جس کے لیئے جناب نے علی گڑھ میں اقامتی سکول اور پھر کالج قائم فرمایا۔ جہاں فرنگی کا مجوزہ سلیبس نافذ کیا گیا۔ یہ میکالے کے منصوبے کی مضبوطی تھی۔ اب یہاں سوٹ ٹائی، کھڑے ہوکر کھانا،سلام دعا کے طریقے سبھی کچھ فرنگی کے مزاج کے مطابق سکھائے گئے۔ ادارے کی جانب سے تو فرنگی رنگ خوب چڑھایا گیا مگر کچھ سعید روحین اس نہج سے ہٹ کر اپنے آبا و اجداد کی فکر ونظر کی نذر ہوگئیں۔

حضرت علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ نے فرنگی نظام تعلیم کے ذریعہ تعلیم حاصل کی۔بت ہندی تھا مگر جوہر حجازی تھا حق و باطل کی تمیز اللہ نے ان کو ودیعت فرمائی تھی۔ فرنگی نظام تعلیم کے بارے فرمایا:اور یہ اہل کلیسا کا نظام تعلیم ۔ ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف (ضرب کلیم)

یہاں میں اہل جاپان کی قوت ارادی اور دشمن شناسی کی داد دوں گا کہ دوسری جنگ عظیم میں امریکہ نے جاپان کے دوبڑے شہروں پر ایٹم بم گراکے ظلم و بربریت کی چھاپ لگوالی۔ جاپان میں دس سال تک امریکی قابض رہے وہاں بھی ہندوستانی طرز پر نظام وضع کیا کہ انگریزی ذریعہ تعلیم بنا کر وہاں اپنا نصاب جاری کرے مگر آفرین کہ جاپانیوں نے انگریزی تعلیم کو قدم نہ جمانے دیئے۔ اور اپنی زبان کو قائم رکھا۔جسکے نتیجہ میں جاپانیوں نے امریکیوں کو نکالااور اور اپنی مادری زبان میں جدید دور کی صنعتی ترقی میں وہ کمال حاصل کیا کہ آج امریکہ کی سڑکوں پر جاپانی گاڑیوں کی حکومت ہے۔ جاپان غیر زرعی ملک ہے مگر صرف جدید ایجادات کے بل بوتے اس ملک میںکسی چیز کی کمی نہیں۔ بغور دیکھا جائے تو اس کی ترقی اپنی زبان میں علمی تحقیقات کا نتیجہ ہے۔ اگر جاپانی بھی ہماری طرح یورپی اور امریکی یونیورسٹیوں سے پڑھ کر آتے تو ان کا حال بھی ہم سے کچھ مختلف نہ ہوتا۔ اسی طرح چین جب منشیات کے عادی لوگوں سے آزاد ہوا تو اپنی چینی زبان میں جدید دور کے علمی اور تحقیقاتی کارہائے نمایا سرانجام دیئے کہ آج امریکہ جو اپنے آپ کو پاٹے خان سمجھتا ہے ، دوسروں کو آنکھیں دکھانے والا چین کے سامنے شرمندگی کی باچھیں کھولتا ہے۔جناب سرور عالمین عالم ماکان وما یکون ﷺ نے آج کے چین کی علمی ترقی کو دیکھتے ہوئے فرمایا کہ علم حاصل کرو اگرچہ وہ چین سے کرو۔ روس اور دیگر وسط ایشیاءکی آزاد ہونے والی ریاستوں نے بھی اپنی قومی زبانوں میں دور جدید کی تمام ترقی حاصل کی جن میں اسلحہ سازی، راکٹ سازی اور خلائی تحقیقاٹیکنالوجی ، سبھی کچھ اپنی زبان میں اور اپنے ہی ملک میں عروج کو پہنچے۔ میرا عرض کرنے کا مدعا یہ ہے کہ ہمارے نظام تعلیم پر شبخون مارا گیا۔ جب اتحادیوں نے خلافت کو تار تار کیا ۔ اندلس سے غرناطہ اور اشبیلیہ ، افریقہ سے طرابلس جامعہ ازہر عراق سے بغداد اور برصغیر سے دہلی، لاہور اور حیدر آباد کے علمی خزانے فرنگی لے گئے اور اپنا گندیہاں چھوڑ گئے۔ جسے ہمارے نام نہاد سکالروں، بیوروکریٹس اور سیاستدانوں نے قوم پر مسلط رکھا ہوا ہے۔ علمی اساس قرآن انکے پاس ہے مگر حصول علم کے لیئے یورپ کی درس گاہوں کا رخ کرتے ہیں ۔ وہاں سے پڑھ کر آتے تو فارن کولیفائیڈ سکالر کہلاتے ہیں، جب ان سے سورة اخلاص سنی جائے تو انہیں آتی، وضوکرنا انہیں نہیں آتا، ضروریات علم یا اسلامی نظریہ تعلیم کو سمجھنا تو دور کی بات اپنا نام تک درست لہجہ میں نہیں آتا، قرآن حکیم ناظرہ تک نہیں آتا۔ اللہ جانے یہ سکالر لوگ اپنے ماں باپ کے جنازہ میں کیا پڑھتے ہونگے۔ تیجہ چالیسواں تو قریب کی مسجد سے طلبا کو بلاکر کرلیتے ہیں۔ ما ںباپ نے جوکچھ پڑھایا وہی انہیں ایصال ثواب کرتے ہیں۔

ریاضی کے موجد جناب محمد بن موسی الخوارزمی(780-850 ) جنہوں نے الجبرا کا نظریہ دیا اور ایجاد کیا۔جناب ابو یوسف یعقوب ابن اسحق الکندی(801 -873) نے نمریکل انیلیسز پر اور ریاضی پر گیارہ کتب لکھیں۔ ابوبکر بن حسین نے ریاضی، الجبرا اور جیومیٹری کو ترقی دی ۔الکافی فی الحساب اور الفخری آپکی مشہور کتب ہیں۔ محمد بن جابر بن سنان ابو عبداللہ(850-929) ٹرگنومیٹری کے موجد ہیں۔ آپ ایک عرب شہزادے اور شام کے گورنر تھے۔ البیرونی(973-1050) ماڈرن ٹرگنومیٹری کی بنیاد رکھی،ماہرفلاسفر، جغرافیہ ان،ماہر علم ہئیت (علم فلکیات ) ، فزکس اور ریاضی کے ماہر تھے۔ آپ نے ریاضی کی مدد سے دنیا میں کسی مقام سے سمت قبلہ معلوم کرنے کا طریقہ ایجاد کیا۔ گالگیو سے چھ سو سال قبل آپ ہی نے زمین کے اپنے محور پر گھومنے پر بحث کی۔ سب سے پہلے مسلمانوں نے اندلس میںآتشیں ہتھیار تیار کیئے،مسلمانوں نے بارودتیار کیا۔ یہ تمام علوم اندلس سے اٹلی والوں نے حاصل کیئے کیونکہ اندلس کے قرب وجوار والے عیسائی ممالک کے لوگ اندلس کی یونیورسٹیوں میں علم حاصل کرتے تھے اور وہاں سے تمام ٹیکنالوجی ان لوگوں نے اپنی زبانوں میں منتقل کی۔ اٹلی سے فرانس اور آخر میں یہ علوم جرمنی والوں نے حاصل کیئے۔ مسلمانوں نے راکٹ سازی کا کام شروع کیا۔ جب اسلام اندلس سے چین تک پھیلا ہوا تھا تو یہی دور تھا جب مسلمانوں نے دنیا کو جدید علوم کی نعمتوں سے نوازا اور قرآن و سنت کی رہنمائی میں کائنات میں غوروفکر کی دعوت دی۔ جس کے نتیجہ میں آج اہل دنیا طرح طرح کی آسائشوں سے متمتع ہے۔ لیکن افسوس کہ جس دین اور جس قوم نے نے اہل عالم پر احسانات کیئے آج انہیں کے خلاف اہل یورپ صف آرا ہیں۔ کیا احسان کا یہی بدلہ ہے؟کہ اہل یورپ کو انسان بنانے والوں اور دنیا کی نعمتوں سے متمتع ہونے کے راستے بتانے والوں کی قبریں بھی اکھیڑ دیں؟ آٹھ سوسال تک یورپ کو تاریکیوں سے اجالوں میں لانے والوں کا قتل عام صلیبیوں نے ہی تو کیا۔ اس سے بڑھ کر بددیانتی اور کیا ہوگی کہ عربی میں علوم حاصل کیئے اور انکے تراجم اپنی زبانوں میں کرکے موجد بن بیٹھے۔ پہلی جنگ عظیم میں مصر ، لبیا اور دیگر تمام مسلم ممالک سے نادر و نایاب مختلف مضامین کی کتابیں یورپ کے کتبخانوں میں لے گئے، جو آج بھی وہاں موجود ہیں ۔ انہیں ہی دیکھ کر علامہ اقبال روپڑے۔ آج پھر ضرورت خودی کی اور خودداری کی، اپنی زبانوں میں علم کا حصول اہم ضرورت ہے۔ خادم اسلام: پروفیسر اکبر حسین ھاشمی
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 140714 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More