یوں تو پاکستان میں ہر لمحہ نئی
نئی خبریں وجود میں آتی رہتی ہیں اور اپنے منطقی انجام کو بھی پہنچتی ہیں
مگر آج ایک برطانوی صحافی ایڈ ہاکنز نے ایک ایسا دعویٰ کیا ہے جسے مدتوں
یاد رکھا جا سکتا ہے۔ ہاکنز نے اپنے دعوےٰ اسپاٹ فکسنگ کیس میں ملوث تین
پاکستانی شاہینوں سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر کے متعلق ببانگِ دہل یہ
اعلان کر دیا کہ پاکستانی کرکٹرز بے قصور ہیں، اور ان تینوں کو پھنسایا گیا
ہے۔ یہ دعویٰ برطانوی صحافی کی کتاب کے ایک اقتباس میں کیا گیا ہے۔ اور اس
نے یہ بھی کہا ہے کہ جسٹس کُک کا پاکستانی کرکٹرز پر فیصلہ غلط تھا۔اس کا
مطلب یہ ہے کہ اب بین الاقوامی سطح پر بھی سزا پہلے دی جانے لگی ہے اور
سچائی بعدمیں سامنے آرہی ہے۔ اور حد تو یہ ہے کہ ICCنے بھی اتنی تیزی
دکھائی کہ تینوں کو کئی کئی سال تک کیلئے کرکٹ کھیلنے پر پابندی عائد کر دی....کیونکہ
اس دعوےٰ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان تینوں کھلاڑیوں کو غلط سرائیں دی
گئیں اور ICCنے اسپاٹ فکسنگ کا کیس میں شفافیت نہیں دکھائی، ان شاہینوں پر
اسپاٹ فکسنگ کا کیس بنتا ہی نہیں ہے۔
ویسے تو حقیقت یہی ہے کہ یہ تینوں گرین شرٹس کھلاڑیوں سے کوئی بھول چوک ہو
گئی ہو ، اور انسان ویسے بھی خطا کا پُتلا ہے....اس کی اتنی بڑی سزا نہیں
ملنی چاہیئے تھی کیونکہ دنیا بھر میں کرکٹ کے کھلاڑی کیا کچھ نہیں کرتے مگر
ICCکو وہ سب کچھ نظر نہیں آتا ، نظر آیا تو بس پاکستان کے کھلاڑی۔ میں یہاں
پر کسی کی وقالت نہیں کر رہا مگر یہی سچائی ہے کہ شکل و صورت سے یہ تینوں
عام سے کھلاڑی لگتے ہیں ، کاش کہ ان تینوں کے ساتھ مشہور و معروف نام لگے
ہوتے جیسے راجہ، لغاری، گیلانی، قریشی، خان،زردار، جیلانی وغیرہ تو یہ
ناتمام سلسلہ کب کا ختم ہو چکا ہوتا اور یہ تینوں ٹیم میں بھی اِن رہتے اور
کسی میں اتنی جرات بھی نہ ہوتی کہ انہیں سزائیں دیتے۔ بڑے ناموں نے تو
پاکستان کی معیشت کو ڈوبو ہی دیا ہے ،کون ہے جن کہ سیاہ کارنامے پاکستان کے
وجود کے ساتھ چسپاں نہیں ہے۔ہر کسی نے کرپشن کو بدبو دار بنا دیا ہے۔ ہمارے
یہاں ہی کیا تقریباً ترقی پذیر ملکوں میں یہی صورتحال ہے مگر سب نہ صرف
باعزت شہری کہلاتے ہیں بلکہ معزز و محترم بھی ہیں۔
پہلے جب انہیں سزا ہوئی تو پورا پاکستان بھی دنیا کے ساتھ یک آواز ہوکر
انہیں لعنت ملامت کرتا رہا مگر آج جب پردہ فاش ہو ہی گیا ہے تو PCBسمیت
ICCکو بھی اس معاملے میں نرم دلی اور نرم گوشہ دکھانے میں کوئی کوتاہی نہیں
کرنی چاہیئے کیونکہ یہ تینوں تو سزا بھگت ہی چکے ہیں رہ گئی بات پابندی کی
تو کم از کم اسے یہ دونوں ادارے ختم کرکے ان کے مستقبل کو سنوارنے میں
مددگار بن سکتے ہیں۔ خاص طور پر نوجوان کرکٹر محمد عامر کو تو فوری ٹیم میں
شامل کیا جانا چاہیئے کیونکہ اس پایے کا کھلاڑی پاکستان میں کم ہی پیدا
ہوتے ہیں۔
ان کی کرپشن کیا رینٹل پاور کیس سے بڑا ہے، ان کی کرپشن این آئی سی ایل کیس
سے بڑا ہے، ان کی کرپشن حاجیوں کے کرپشن کیس سے بڑا ہے۔ جب یہ سب لوگ باعزت
رہ سکتے ہیں تو ان لوگوں کو بھی حق ہے کہ ملک کی کرکٹ میں اپنا کردار ادا
کریں۔یہ کہہ لیں کہ بدنصیبی ان کے مقدر میں تھی جس نے ان تینوں کو ملزم سے
مجرم بنا دیا۔ انہوں نے ایسا جرم کر دیا اور کرنے سے پہلے یہ نہ سوچا کہ
برطانیہ جیسے ملک میں کوئی معافی نہیں، واقعی یہ نادان ہیں اگر انہیں عقل
ہوتی تو شاید یہ ایک مرتبہ سوچتے ضرور کہ کرپشن صرف پاکستان میں معاف ہے۔
عدالت کے روبرو محمد عامر کے وکیلِ صفائی نے اس استدعا نے پاکستانیوں کا دل
جیت لیا ۔ ویسے بھی بیرونی دنیا کو پاکستان کا اگر کوئی کیس مل جائے تو وہ
کہاں پیچھے رہنے والے ہیں۔عدالت میں آنسو بھی بہائے گئے، اظہارِ ندامت بھی
دیکھنے کو ملا، گورے ہر جگہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ان لوگوں نے کھیل کو بھی
نہیں بخشا۔ مگر انہیں کوئی یہ بتائے کہ صرف پاکستان نہیں، انڈیا کے پریمئر
لیگ سب سے بڑا جوئے کا گڑھ ہے۔ وہاں ICCایکشن میں نظر کیوں نہیں آتی۔ دوسرے
لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کیا انہیں اس کارخانے سے حصہ پہنچ جاتا ہے
جو وہ اس پر چپ سادھ کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ میں بھی دوسرے پاکستانیوں کی طرح
اس بات پر مکمل ایمان رکھتا ہوں کہ ندامت کا نکلا ہوا ایک آنسو کا قطرہ ہی
بخشش کا سبب بن سکتا ہے اگر دل سے یہ آنسو نکلے۔ اور آج کے اس ببانگِ دہل
اور چونکا دینے والے بیان سے یہی لگتا ہے کہ ان تینوں کے آنسو واقعی ندامت
کے آنسو ہی تھے۔
ایک عام خیال یہ بھی ہے کہ کرکٹ میں سیاست کا عمل دخل نہیں ہونا چاہیئے ،اور
حقیقت بھی یہی ہے کہ کھیل کو کھیل ہی کی طرح سمجھنا چاہیئے مگر ایک طرف
کرکٹ کو سیاست سے دور رکھنے کی باتیں کرنا، اور دوسری طرف جب ہماری ٹیم
بھارت جانے والی ہوتی ہے تو وہاں کے ایک لیڈر صاحب ”کھیلنے نہیں دیں گے“ کا
نعرہ لگاتے ہیں اور بعد میں بیمار ہوکر اسپتال شفٹ ہو جاتے ہیں۔ یہ ان کا
وطیرہ رہا ہے کہ وہ ایسے بیان داغ دیتے ہیں اور خواہ مخواہ کرکٹ کو سیاسی
بساط کی طرف کھینچنے لگتے ہیں۔پی سی بی سے بھی درخواست ہے کہ وہ ایسے
بیانات کا نوٹس لیں کیونکہ ہم بھی وہاں کرکٹ کھیلنے جاتے ہیں کوئی سیاسی
پنجہ آزمائی کہ نہیں جاتے....کیا انہیں بھی ایسے بیان داغنے کیلئے اسپاٹ
فکسنگ والے پیسے عنایت کرتے ہیں؟
جرمی کُک صاحب آپ بھی برطانوی ہیں اور یہ صحافی ایڈ ہاکنزبھی برطانوی ہے ،اب
پتہ نہیں کون سچا ہے اور کون جھوٹا۔ آپ نے تو سزا سنا دی اور سزا دینے سے
پہلے رحم کی تمام اپیلیں بھی مسترد کر دیں، قید اور جرمانے کی سزا بھی سنا
دی اور اس پر مکمل عملدرآمد بھی کرا دیا اور ان تینوں شاہینوں نے سزا بھی
کاٹ لیا۔ آپ کا فیصلہ سر آنکھوں پر مگر اب صرف اتنی کسر رہ گئی ہے کہ انہیں
پابندی کا سامنا ہے۔اگر یہ برطانوی صحافی اصل حقائق سے باخبر ہے جیسا کہ اس
نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے تو آپ پر فرض بنتا ہے کہ کیس ری اوپن کریں اور
اس پابندی کا خاتمہ کریں کیونکہ بقول آپ کے پاکستان کے لوگ کرکٹ سے بہت
محبت کرتے ہیں اور کرکٹ کے دیوانے ہیں تو یہی دیوانے آپ نے التجا کرتے ہیں
کہ کیس کو فوری ری اوپن کریں اور پابندی کی سزا کو ختم کریں کیونکہ جس طرح
پاکستانی کرکٹ سے لگاﺅرکھتے ہیں اسی طرح ان تینوں کو بھی دوبارہ کرکٹ کے
میدانوں میں دیکھنا چاہتے ہیں اور ویسے بھی اب تینوں کی عقل ٹھکانے پر آگئی
ہوگی کہ ملک کو بدنام کرکے کوئی سرخرو نہیں رہ سکتا۔ چند روپوں کی خاطر اگر
ان تینوں نے ملک کی عزت داﺅ پر لگائی مگر ان کو اپنے کیئے کی سزا مل چکی ہے۔
میں اب بھی یہ ساری روداد نہیں لکھتا مگر اس صحافی کے بے باک بیان نے مجھے
قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ذکاءاشرف صاحب آپ سے بھی بہت مودبانہ
درخواست ہے کہ ان تینوں کھلاڑیوں کا آج کے برطانوی صحافی کے بیان کے بعد
کچھ کیجئے تاکہ دودھ کا دود اور پانی کا پانی ہو سکے۔ |