بدخلقی اور زہنی انتشار

کچھ بداخلاقیاں اور بعض ناپسندیدہ عادتیں انسانیت و دوستی کی بنیاد کو کمزور کر دیتی ہیں۔ جسکے اخلاق اچھے نہ ہوں جس کے مزاج میں سختی ہو وہ اپنے اور دوسروں کے درمیان ایسی دیوار کھڑی کر لیتا ہے کہ مفاہمت مشکل سے مشکل ہوتی چلی جاتے ہے۔ بدخلقی انسانی قدر و قیمت کو گرا دیتی ہے اور بداخلاق انسان سمجھتا ہے کہ میں نے دوسروں کو اپنی چرب زبانی سے چپ کروا دیا ہے درحقیقت لوگ اس سے دور ہوتے جاتے ہیں اور اگر وہ بداخلاق شخص کسی اختیار و طاقت کا مالک بھی ہو تو لوگ اس سے ڈر کر اسکی عزت کرتے ہیں جس کی وعید میں ایک مشہور حدیث ہے جس کے مفہوم کے مطابق (اللہ میری کمی بیشی معاف فرمائے) کہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ بداخلاق و بدگو شخص سے لوگ ڈر کر اسکی عزت پر مجبور ہونگے۔

یہ بات تو ظاہر ہے کہ ہر شخص بد اخلاق شخص سے دور رہتا ہے اس سے کسی حد تک نفرت بھی کرتا ہے۔ ایک نامانوس و بد مزاج شخص کی صحبت سے انسان کو رنج و تکلیف کے سوا کچھ نہیں ملتا اور ایسا شخص غیر ارادی طور پر دراصل اپنی ہی ترقی کی راہوں میں روڑے اٹکا رہا ہوتا ہے۔

معاشرے میں کامیابی کی اہم شرائط میں سے ایک شرط حسن خلق ہے جس کے لیے فرمایا گیا بہتر وہی ہوگا جس کے خلق اللہ کی مخلوق کے ساتھ اچھے ہونگے۔

انسان میں حسن خلق کی عادت بہت ہی اچھی اور لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنے والی ہوتے ہے جس سے انسان کی شخصیت میں غیر معمولی جازبیت پیدا ہوتی ہے یہ انسانی کی صلاحیتوں اور طاقتوں کو ابھارتی ہے اور معاشرتی زندگی گزارنے میں بہت معاون و مؤثر ہوتی ہے۔

جس شخص کو حسن خلق کی دولت مل گئی بس سمجھیے اسکو ایک خزانہ مل گیا اس سے دوسرے کبھی ازیت کا شکار نہیں ہونگے اور اس شخص کی پوری کوشش ہوگی کہ اپنے چاروں طرف اس خزانہ کو بانٹے جس کے جواب میں اسے مزید خزانے ملتے رہیں گے

کسی بھی حلقہ احباب میں محبوب و مقبول ہونے کا راز خوش خلقی ہے بد اخلاق کی عادت جس میں ہوگی وہ دوسروں کے لیے ناقابل برداشت ہو گا اور لوگ اس سے متنفر رہیں گے۔

حسن اخلاق ایک عظیم دولت ہے مگر شرط یہ ہے کہ یہ دولت آپ اپنے تک محدود نا رکھیں بلکہ اپنے جاننے والے اور نا جاننے والوں پر اس دولت کو نچھاور کرنا شروع کریں جسکے جواب میں آپ کو جو کچھ اس دنیا میں ملے گا وہ تو ملے گا آخرت میں آپ جس انعام کے حقدار پائیں گے اس کا ادراک اگر آپ کو ہوجائے تو یقین کریں کہ آپ سارے کام چھوڑ کر حسن اخلاق کی دولت لٹانے میں لگے رہیں۔
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 533272 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.