فضائل محر م اور بدعات محرم

جب سے زمین کا سبزہ زار فرش اور آسمان کی نیلگوں چھت تیارہوئی تویہ بات نوشتہ دیوار پر لکھ دی گئی تھی کہ صبح وشا م کی تبدیلیوں ،شب وروز کے الٹ پھیر، گھنٹوں منٹوںاور سیکنڈوں کے ہیرپھیر سے جو مہینے وجود میں آتے ہیںوہ بارہ ہیں۔چنانچہ اس حقیقت کو خالق کائنات نے اپنی آخری کتاب میں یوں بیان فرمایا ۔ان عدةالشہور عنداللہ اثناعشر شہراًفی کتاب اللہ یوم خلق السمٰوات والارض(التوبہ): (مہینوں کی گنتی بارہ ہے اللہ کی کتاب (اللہ کے حکم )میں جس دن پیدا کیے آسمان وزمین )۔ان بارہ مہینوں میں سے چارمہینے ایسے ہیں جو فضیلت اہمیت عبادت مغفرت اورحرمت کے لحاظ سے خاص مقام رکھتے ہیں ،اور وہ یہ ہیں ذیقعدہ ،ذی الحجہ ،محرم الحرام ،رجب ۔ان مہینوں کے محترم ہونے کا مطلب ہے” لاتظلموفیہن انفسکم“ کہ ان مہینوں میں قتل وقتال ،فتنہ فساد اور گناہوں کے ذریعہ اپنے جانوں پر ظلم نہ کیا جائے اورامن عامہ کی خرابی کا ذریعہ بننے والے کاموں سے اجتناب کیا جائے ۔ان مہینوں کا احترام طلوع اسلام سے پیشتر بھی کیاجاتاتھایہی وجہ تھی کہ جاہلیت کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں بھی ان مہینوں کی آمد کے وقت تلواریں نیام میں کرلی جاتیں،معمولی باتوں پر سالہا سال کی نا ختم ہونے والی لڑائیوں کوروک دیاجاتااور سال بھرکے گھٹیا وخسیس کاموںکو ترک کردیاجاتاتھا۔ ان حرمت والے چار مہینوں میں ایک مہنیہ محرم الحرام بھی ہے۔یہ مہینہ بہت فضائل اور برکات کا حامل ہے ۔

فضائل محرم:
۱:اس مہینے سے نئے اسلامی سال کا آغاز ہوتاہے ۔اس کی فضیلت اس لحاظ سے بھی ہے کہ یہ سن ہجری کا پہلا مہینہ ہے۔سن ہجری اپنے معنی ومفہوم کے اعتبار سے ایک منفرد حثیت کا حامل ہے کیوںکہ دوسرے مذاہب میںجو سن رائج ہیں وہ یاتو کسی شخصیت کے یوم ولادت کی یاددلاتے ہیںیا کسی قومی مسرت وشادمانی کے خاص واقعہ کی ترجمانی کرتے ہیں ۔جیسے سن عیسوی اورسن رومی جوحضرت عیسی ؑاورسکندراعظم کی ولادت کی یاد دلاتے ہیںاور ہندﺅں کے بکرمی سن کی بنیادراجہ بکرماجت کی ولادت پرہے اور یہودی اپنے سن کی بنیاد حضرت سلیمانؑ کے فلسطین پر تخت نشینی کے ایک پرشکوہ واقعہ پر رکھتے ہیں۔نسل انسانی کو ان سے کوئی فائدہ نہیں ہوتالیکن اسلامی سن ہجری عہد نبوی کے ایسے عظیم الشان واقعہ کی یاد گار ہے جس سے دین اسلام کو عروج ملا کفروشرک کا زوال شروع ہوا۔واقعہ ہجرت دین اسلام کی خاطر مشقتیں سہنے والے ان عظیم لوگوں کی یاددہانی بھی کراتاہے جن کوخدا نے رضی اللہ عنہم ورضوعنہ کے لقب سے سرفراز فرمایا۔شاعر اس عظیم واقعہ کو یوں تعبیر کرتاہے :
تازہ خواہی داشتن گرد اغہائے سینہ را
گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را
یعنی اے مسلمانو!اگر تم اپنی تاریخ اور اپنے اسلا ف کی قربانیوں کو یا درکھناچاہتے ہوتو ہجرت کے اس تاریخی قصہ کو یاد رکھواوراس سے سبق سیکھو۔

۲:اس مہینہ میں برے کاموں کا گناہ عام دنوں کی بنسبت دوگناہوجاتاہے اور اس میں کیے جانے والے نیک اعمال کا ثواب بھی خوب بڑھا چڑھا کر دیاجاتاہے چنانچہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جواس مہینہ کی دسویںتاریخ یعنی یوم عاشورہ کے دن روزہ رکھے تو مجھے اللہ سے قوی امید ہے کہ وہ اس کے گزشتہ گناہوں کو مٹادے گا(ترمذی)۔عاشورہ کا یہ روزہ رمضان کے روزوں سے پہلے فرض تھابعد میں اس کی فرضیت منسوخ ہوگئی لیکن سنت اورمستحب اب بھی ہے چنانچہ سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہود اس دن روزہ رکھتے تھے آپ نے پوچھا کہ تم اس دن کیوں روزہ رکھتے ہو تو انہوں نے کہا کہ یہ ہماری نجات کا دن ہے اس دن اللہ نے حضرت موسیؑ اور بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات دلائی تھی اورحضرت موسیؑ نے اس دن شکرانے کے طور پر روزہ رکھاتھا،آپ نے فرمایا موسی ؑکے ساتھ ہم تم سے زیادہ موافقت رکھنے کے حقدار ہیں چنانچہ اس دن آپ نے روزہ رکھا اور صحابہ کرامؓ کو بھی حکم دیا لیکن مشابہت ِیہود سے بچنے کے لیے آپ نے فرمایاکہ اگر میں آیندہ سال زندہ رہا تو محرم کی نویںاوردسویں کو روزہ رکھوں گالیکن آپ آیندہ سال حیات نہ رہے چنانچہ صحابہ کرام ؓنے اس پر عمل کیااور نو اوردس کو روزہ رکھا ۔(بخاری ومسلم و احمد) ۔

۳:محرم کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ یو م عاشور ہ کو اپنے اہل وعیال پر کھانے پینے میں فراخدلی کرنے والوں کے لیے حدیث پاک میں پورے سال کے نفقہ میں وسعت کرنے کی خوشخبری سنائی گئی ،ارشاد ہے :من وسع علی عیالہ فی النفقة یوم عاشوراءوسع اللہ علیہ سائرسنة(مشکوة،ص 170،بیہقی فی شعب الایمان ص365)۔

بدعات ورسومات محرم:
واقعہ کربلاتاریخی سانحہ ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے پچاس سال بعد رونما ہوا،حضرت حسین ؓ نے اپنے نانا کے دین کی حفاظت کی خاطر جان دے کر دنیا کو پیغام دیا کہ حق کی خاطر جان کے نذرانے پیش کرنے پڑیں تو گریز نہ کیاجائے ۔شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے اس المناک سانحہ کی یوں تصویر کشی کی ہے:

غریب وسادہ و رنگین ہے داستان ِ حرم
نہایت اس کی حسینؓ،ابتدا ہے اسماعیل ؑ

اس المناک سانحہ کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ شہداءکربلاءکی قربانیوں کی لاج رکھی جاتی اوران کے نقش قدم پر چل کر دین اسلام کی حفاظت کی خاطر جدوجہد کی جاتی کیوں کہ:ان المحب لمن یحب مطیع(یعنی جس سے محبت کی جاتی ہے تو اس کی اطاعت بھی ضرور کی جاتی ہے)۔

مگرافسوس !جس دین کی حفاظت کی خاطر حضرت حسینؓ نے جام شہادت نوش کیااسی دین میں بگاڑ پیداکردیاگیا ا وراس میںایسی عجیب وغریب بدعات ورسومات کوایجاد کیاگیا جن پرارض وسماءبھی اشک بہاتے ہیںاور شہدائِ کربلا کی روحیں بھی تڑپ اٹھتی ہیں ۔چنانچہ ہلال ِمحرم کے نظرآتے ہی ہر طرف سیاہ جھنڈوں اور سیاہ کپڑوں میں ملبوس شیطانی کارندوں کے دھڑے لگنے شروع ہوجاتے ہیں۔جوں جوں یوم شہادتِ حسین ؓقریب آتاہے بدعات وخرافات بڑھتی جاتی ہیں ،کہیں تابوت وتعزیے نکالے جاتے ہیں تو کہیں نوحے اور شرک وبدعات سے پراگندہ شیطانی ماتمی مجالسیں منعقد کی جاتیں ہیں ،کہیں بے حجاب عورتیںسڑکوں پر دندناتی پھرتی ہیں تو کہیں باﺅلے بندرنماانسان بِناپاپوش کے سرگرداں پھرتے ہیں ،کہیںسادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیے من گھڑت قصہ خوانیاں کی جاتی ہیں تو کہیں نیاز ِحسین کی خاطر سبیلیںلگائی جاتی ہیں(حالانکہ اس دن تو روزہ رکھنا سنت اورمستحب ہے )۔ان شیطانی کارندوں کی بدعات ورسومات کا زہریلااثر عام مسلمانوں کو بھی متاثر کرنے لگاہے اور وہ بھی ان کی ماتمی مجلسوں اور تعزیوں کی نمائش میں شریک ہونے لگے ہیں (حالانکہ یہ سب بدعات ہیں اور سراسر ناجائز ہیں)۔اسی طرح دس محرم کو حلوے کھیراور حلیم کی دیگیں پکائی جاتی ہیں،قبرستانوں میں مردوزن کااختلاط کیا جاتاہے اور شیرنیاں تقسیم کی جاتی ہیں(حالانکہ قبروں کی زیارت کا حکم اس لیے دیاگیا تاکہ وہاںجا کر فکرآخرت پیداکی جائی ،ظاہرہے اس طرح کے ماحول میں فکرآخرت تو کجا الٹا بے فکری اور دین سے دوری بڑھتی ہے) ۔بدعات محرم میں سے ایک خاص بدعت جس کا شکار اکثر مسلمان بھی ہیں وہ اس مہینہ میں شادیاںنہ کرناہے، جب کہ شریعت میں اس طرح کی قطعا کوئی ممانعت نہیں ہے ۔یہ سب بدعات اور من گھڑت خرافات ہیںجن کی شریعت میں کوئی اصل نہیںہے اوران بدعات کا وبال گمراہی ہے ، حدیث میں ہے کل بدعة ضلالة وکل ضلاة فی النا:(مشکوة)ہربدعت گمراہی ہے اورہرگمراہی جہنم میں لے جاتی ہے ۔

دعوت ِفکر:
بحثیت مسلمان ہونے اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کے نا طے ہم سب پر فرض ہے کہ آپ کے مبارک اسوہ حسنہ کو اپنا ئیں ،شریعت مطہرہ اور اسلامی احکامات کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزاریں اورروز مرہ اور مخصوص ایام میں برسنے والی رحمتِ الٰہی کی بارشوں سے فیض یاب ہوں۔دین میں جدت پسندی من مانی مفاد پرستی اور سستی کاہلی سے بچیں اور نئی نئی بدعات ورسومات سے کنارہ کشی اختیار کریں۔اور
حج بھی کیاکعبہ کا اور گنگا کا اشنان بھی
راضی رہے رحمان بھی خوش رہے شیطان بھی
والے طرز عمل سے کام نہیں بنے گا اورزندگیوں میں مکمل سکون واطمینان کبھی نہیںملے گا ۔ہمارے لیے موقع ہے کہ ہم محرم الحرام کے فضائل وبرکات سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہوں اور خلاف شریعت کی جانے والی تمام برائیوں سے لازمی اجتناب کریں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تقاضابھی یہی ہے کیونکہ محب محبوب کی ہرحالت میں اورہر کام میں اطاعت کرتاہے۔
Ghulam Nabi Madni
About the Author: Ghulam Nabi Madni Read More Articles by Ghulam Nabi Madni: 45 Articles with 38229 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.