الیکٹرونک میڈیا اور ہماری ذمہ داریاں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

IT میں جہاں ترقی ہو رہی ہے وہاں بے حیائی اور برائی میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے اس میدان میں دعوت کاکام کیسے کریں اور کیوں؟ آئی ٹی پراسلامی تناظر میں خصوصی تحریر۔

مجھے یاد ہے کہ جب میں ٹی وی کے سامنے بیٹھا خبریں سن رہا تھا تو پتہ ہی نہیں چلا کہ ایک ڈرامہ شروع ہو گیا یہ غالباً تیسری قسط تھی یہ کیا ایک نوجوان لڑکی ہاف بازؤں کے ساتھ جین کی پینٹ پہنے ڈرامے میں ایکڑس کا کردار ادا کر رہی تھی جبکہ دوسری جانب ایک نوجوان لڑکا محبت میں گرفتار عشق ومعشوقی میں تمام شرعی حدود پار کر رہا تھا۔ میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ یہ برائی ہے بے حیائی ہے اس کو روکنا میرا فرض ہے جیسا کہ قرآن میں آیا ہے کہ
”کُنتُم خَیرَ اُمَّةٍ اُخرِجَت لِلنَّاسِ تَامُرُونَ بِالمَعرُوفِ وَتَنھَونَ عَنِ المُنکَرِ“۔
ترجمہ: ”تم بہترین امت ہو کیونکہ تم لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو“۔

اور ان بے حیائی اور بے غیرتی پھیلانے کو پسند کرنے والوں کے حوالے سے تو قرآن نے بڑی سخت وعید بھی سنائی ہے پس فرمایا:
”ِانَّ الَّذِینَ یُحِبُّونَ اَن تَشِیعَ الفَاحِشَةَ فِی الَّذِینَ اٰمَنُوا لَھُم عَذَاب اَلِیم لا فِی الدُّنیَا وَالاٰخِرَةِ ط وَاللّٰہُ یَعلَمُ وَاَنتُم لَا تَعلَمُونَ“۔ [سورة النور]
ترجمہ: ”جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ نہیں جانتے“۔

اس کے بعد میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ میں ٹی وی بند کر دیتا ہوں اس سے برائی اور بے حیائی ختم ہو جائے گی لیکن نہیں۔ اس سے تو صرف میں محفوظ ہو سکتا ہوں جو کروڑوں انسان ہیں ان کے ٹی وی تو میں بند نہیں کرسکتا۔ میرے پاس طاقت ہے اور نہ ہی وسائل ہیں کہ میں ان کو جبراً بند کروا سکوں۔ میں تو ایک طالب علم ہوں۔ لیکن پھر میرے رہبر وراہنما کل کائنات حضرت محمد ﷺ کے ان الفاظ نے رہنمائی فرمائی کہ:
”۔۔۔۔فکلم راع وکلکم مسوول عن رعیتہ“۔ (بخاری، مسلم عن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما)
ترجمہ: ”پس تم میں سے ہر کوئی نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی نگہبانی کے بارے میں پوچھا جائے گا“۔

میں نے سوچا کہ میری جوابدہی صرف ٹی وی بند کرنے تک ہے لہٰذا میں نے ٹی وی بند کیا اور اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔ اسی دوران مجھے اپنے کسی دوست کی کال آگئی وہ کہہ رہا تھا کہ مجھے اردو میں قرآن کی تفسیر اور تلاوت کی وڈیو بھیجنا۔ میں نے اوکے، ”ان شاءاللہ“ کہا اور انٹر نیٹ اوپن کر لیا۔

میرے کمپیوٹر میں اسلامک ڈیٹا کافی موجود ہے۔ مختلف موضوعات پر اردو ، عربی اور انگلش میں بکس، آڈیو اور ویڈیو مواد موجود ہے اب ای میل کے ذریعے یہ ڈیٹا سینڈ کرنے میں کافی وقت لگتا ہے تو میں نے فوراً انٹرنیٹ پر سرچ کر کے فیس بک کے ذریعے شیئر کر دیا۔

اب انٹر نیٹ اور فیس بک استعمال کرنے کے دوران مختلف ویب سائٹس اور ID'sمیری نظروں سے گزرے۔ بعض ایسی ویب سائٹس تھیں جو یہودیوں او عیسا ئیوں نے بنائی تھیں اور وہ دیکھنے میں تو اسلامی سائٹس لگتی ہیں لیکن ان میں بہت ساری ایسی چیزیں داخل کی ہوئی ہیں جن کا دور دور تک اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور بعض تو ایسی ویب سائٹس ہیں جو آٹومیٹک اوپن ہو کر سامنے آگئی اور وہ غیر اخلاقی اور بے حیائی پر مبنی تھیں۔ میرے پاس ان سائٹس کو فوراً بند کرنے کے سوا چارہ کار نہیں تھا۔

ذراسوچئے! ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کا دعویٰ کرنے والے ہیں کیا صرف خاموشی اختیار کر لینے سے یا اپنے کمپیوٹر اور ٹی وی پر پروگرامات بند کر لینے سے بے حیائی اور برائی رک جائے گی؟ یا ہم کم از کم اپنی دعوت برائی پھیلانے والوں تک پہنچا سکتے ہیں یا نہیں؟ یقینا آپ کا جواب نفی میں ہوگا!

پتہ نہیں ہزاروں یا لاکھوں، کروڑوں مسلمان اور علمائے کرام یہ سوچ کر خاموش ہوجاتے ہیں کہ ہمارے اندر اس برائی کو روکنے کی طاقت نہیں ہے۔ لہٰذا ہم اسے دل میں برا جانتے ہیں اور یہ بھی ایمان کا حصہ ہے۔ کتنے ہی ایسے امتی ہوں گے جو برائی کو دیکھتے ہیں اور خاموش رہتے ہیں۔

معزز قارئین! ہمارے عظیم محسن رہبر عالم حضرت محمد ﷺ نے کیا خوب فرمایا:
”من رای منکم منکراً فلیغیرہ بیدہ فن لم یستطع فبلسانہ، فن لم یستطع فبقلبہ وذلک اضعف الیمان“۔ (مسلم)
ترجمہ: ”جو تم میں سے کوئی برائی دیکھے پس اسے چاہئے کہ اس کو ہاتھ سے بدل دے اور اگر وہ اس کی استطاعت نہیں رکھتا تو پھر زبان سے (روکے) اور اگر اس کی بھی استطاعت نہیں رکھتا تو زبان ہی سے (اسے برا جانے) اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے“۔

مجھے بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج پوری دنیا میں سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب اسلام، ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جم غفیر کے باوجود بہت سارے اسلام کے نام لیوا کمزور ترین ایمان کا مظاہرہ کر رہے ہیں ، جبکہ وہ برائی کو زبان سے روک سکتے ہیں، لیکن لا علمی کی وجہ سے ایسا نہیں کر پارہے۔

آج IT کا زمانہ ہے ہم برائی کو روکنے کا کسی حد تک زبان سے اختیار رکھتے ہیں اور ہم ایمان کے بہتر درجے پر فائز ہوسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم پاکستان اسلامی ملک میں رہتے ہیں اور یہاں PTV، GEO، AAJ، WAQT، DAWN، ATV، SAMAA، ARY، Star Plus اور اس کے علاوہ دیگر مختلف چینل کام کر رہے ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی غیر اخلاقی اور اسلامی نظریہ پاکستان کے خلاف کوئی چیز دکھائی جارہی ہے تو وہ پاکستانی قانون پیمرا آرڈیننس کے تحت جرم ہے اوراس کی سزا متعین ہے۔

جی ہاں! ہم www.pemra.gov.pk ویب سائٹ پر جا کر [email protected] ای میل کے ذریعے شکایت (Complaint)کر سکتے ہیں اور غیر اخلاقی پروگرامات کو بند کرانے کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر کوئی ویب سائٹ غیر اخلاقی اور اسلامی نظریہ کے خلاف مواد پر مشتمل ہے تو آپ اس کو بھی بلاک کرانے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ گورنمنٹ پاکستان کی ویب سائٹ پر جاکر کمپلینٹ درج کروائیں اور اسی طرح فیس بک پر کوئی ID غیر اخلاقی ہے تو اس کو بھی آپ بلاک کروا سکتے ہیں صرف اتنا ہی نہیں بلکہ گورنمنٹ پاکستان نے آئی ٹی کے حوالے سے کسی بھی قسم کی شکایت درج کروانے کے لیے ٹال فری نمبر 0800-73672 بھی دے دیا ہے جس پر آپ مفت کال کرکے یا اپنے دوستوں کے ذریعے کروا کے ، نہ صرف خود کو بلکہ آئندہ آنے والی نسلوں کو بے غیرتی اوربے راہ روی سے بچا سکتے ہیں۔

ایسا نہ ہو کہ ہمارے بچے جن کو محمد بن قاسم اور محمود غزنوی کا کردار ادا کرنا تھا وہ میر جعفر اور میر صادق کا کردار ادا کرنے پر فخر محسوس کرنے لگیں، اور انڈیا اور یورپ کی تہذیب کے ایسے دلدادہ بیورو کریٹ پیدا نہ ہونے لگے جو مسلمانوں کے قاتل، ہندو یاتریوں کے جوتے پالش کرکے غیرت اور حمیت کا جنازہ نکال دیں۔ پھر ایسی بے حیا اور بے غیرت تہذیب کے گن گانے والوں سے ایسے گورنر پیدا ہونے بھی بعید از قیاس نہیں جو حافظہ قرآن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو تو دہشت گرد سمجھے لیکن آسیہ مسیح جو ہمارے پیارے نبی ﷺ کو گالیاں بکنے سے باز نہ آئی، کے حق میں پریس کانفرنس کرنے لگے اور اسلامی قانون کو گندگی اور کالا قانون کہنے پر بھی شرم محسوس نہ کریں۔

قرآن کے چالیس پارے جب وزیرتعلیم کہے اور سورہ اخلاص کو اوپر سے دیکھ کر نہ پڑھنے والوں میں جب وزیر داخلہ پاکستان ہوتو ایسی قوم کا پھر خدا ہی حافظ ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ قصور ان کا اتنا نہیں جتنا ہمارے نظام تعلیم کا ہے اور ان اداروں کا جہاں اسلامیات پڑھائی ہی نہیں جاتی۔ اگر اسلامیات پڑھائی جاتی ہے تو پھر اسلام نہیں پڑھایا جاتا۔ علمائے کرام کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

آئیے!
معاشرتی زندگی ہو یا آئی ٹی کی دنیا، آپ زندگی کے کسی بھی فیلڈ میں کام کر رہے ہوں نیکی کی طرف دعوت دینا اور برائی کے کاموں سے منع کرنا اور اپنا محاسبہ کرنا آپ کا فریضہ ہے باقی ہدایت دینا اور تبدیلی لانا یہ اللہ کے اختیار میں ہے جب وہ چاہے گا تو دیر بھی نہیں لگے گی اورہم سے پوچھ گچھ ہماری تڑپ اور لگن کے حوالے سے ہوگی کہ ہم نے کتنی کوشش کی۔

یہ لاززمی نہیں ہے کہ گورنمنٹ یا میڈیا آپ کی شکایت پر فوری ایکشن لے اور مثبت قدم اٹھائے اور نہ ہی ان سے کوئی خیر کی توقع کی جا سکتی ہے جیسا کہ حالیہ واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے پیارے نبیﷺ کے خلاف توہین آمیز خاکے اور فلمیں بنائی گئی لیکن میڈیا نے امریکہ سے 6کروڑ روپے لے کر چند شرپسند عناصر کی توڑ پھوڑ بار بار دکھا کر کروڑوں پرامن عاشقین رسولﷺ کے خلاف پروپیگنڈہ خوب کیا۔لیکن اس کے باوجود میڈیا اور اس کے باہر ایسے غیرت مند عاشق رسولﷺ بھی موجود ہیں جو دشمنان اسلام کی ناک میں مسلسل دم کیے ہوئے ہیں۔اللہ ان کی کاوشوں کو قبول فرمائے۔

اس کار خیر میں نہ صرف ہم خود شریک ہو سکتے ہیں بلکہ لاکھوں مسلمانوں کو شریک کرکے اپنی ایمانی طاقت کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کے اس فعل سے ہزاروں لوگ راہ راست پر آجائیں اور آپ کے شکایت (Complaint) نہ کرنے پر خاموشی ہزاروں لوگوں کو گمراہی کی طرف لے جائے ۔ واللّٰہ اعلم

نوٹ: میں کراچی کے پندرہ سالہ طالب علم عبد اللہ غازی کی جرات کو سلام پیش کرتا ہوں جس نے دھمکیوں کے باوجود بے حیائی اور فحاشی کے خلاف پیمرا کو انٹر نیٹ پر لاکھوں فحش ویب سائٹس بند کرنے کے نشاندہی کی ہے اور قاضی حسین احمد سابق امیر جماعت اسلامی کو بھی جنہوں نے سپریم کورٹ میں فحاشی کے خلاف رٹ دائر کی ہوئی ہے لیکن تاحال حکومت پاکستان، عدلیہ اور اکثرعلمائے کرام خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
Tayyab Haneef
About the Author: Tayyab Haneef Read More Articles by Tayyab Haneef: 2 Articles with 1907 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.