راجہ زین العابدین
دہشت گردی چاہے وہ کسی بھی شکل یا قسم کی ہو انتہائی قابل مذمت ہے۔درحقیقت
کسی بھی معاشرے کو حراساں کرنے، خوفزدہ کرنے اور انتشار کا شکار کرنے کے
لئے دہشت گردی کا سہارا لیا جاتا ہے اور ایسا کرنے کا مقصد ملک کو کمزور
کرنا ہے کیونکہ دہشت گردی کے منصوبے کسی بھی ریاست کے مختلف عوامل کے
درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی بھی کوشش ہے۔ دشمن کی یہ منصوبہ بندی ہے کہ
دنیا کے واحد ایٹمی اسلامی ملک کے مختلف اداروں کو آپس میں لڑا کر اپنے
مذموم مقاصد حاصل کیے جاسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایسے بہیمانہ حربے استعمال
کررہا ہے۔ پاکستان میں صحافیوں پر حملوں، اغواءاور قتل کی وارداتوں میں
اضافہ ہوا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ریاست کے اس انتہائی اہم
اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کے خلاف کارروائی کرکے پاکستان کو انتہائی غیر
محفوظ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بلاشبہ اس میں غیر ملکی طاقتیں ملوث ہیں
جو پاکستان کے بعض انتہا پسند عناصر کو استعمال کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنے
کے درپے ہیں کیونکہ صحافی برادری صرف اپنے قلم کے ذریعے سے ملک دشمنوں
کےخلاف عوام کا شعور اجاگر کرتے ہیں جو ان عناصر کو کسی صورت قبول نہیں۔
حال ہی میں معروف اینکر پرسن اور صحافی حامد میر پر قاتلانہ حملہ بھی
درحقیقت ملک و قوم کےخلاف ایک منظم سازش ہے کیونکہ دشمن کو یہ اچھی طرح
معلوم ہے کہ اس طرح کے حربوں سے ملک کی خفیہ ایجنسیوں پر الزامات لگائے
جائینگے اور اس طرح عوام میں ان کا امیج تباہ کیا جائے گا اور ایسا ہی ہوا
جونہی حامد میر گاڑی پر بم باندھ کر دھماکے سے اڑانے کی خبر نشر ہوئی تو
ایک طبقے نے فوراً ہی اس کا الزام پاکستان کی نامور خفیہ ایجنسیوں پر لگانا
شروع کردیا کیونکہ آئی ایس آئی دشمن کی آنکھوں میں بُری طرح کھٹکتی ہے اور
دشمن کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے جس اس کو الزامات کا نشانہ نہیں
بنایا جاتا۔ حامد میر پر حملے کی کوشش کی معاشرے کے ہر طبقے نے شدید مذمت
کی ہے۔ ان میں میڈیا، سول سوسائٹی، دانشور اور ملک کے تمام اہم اداروں اور
حکام نے مذمت کی ہے۔ بدقسمتی سے دہشت گرد خوف و ہراس پھیلا کر اپنے مقاصد
کے حصول میں لگے ہوئے ہیں۔ حامد میر پر حملے کی کوشش ایسے غیر ریاستی عناصر
کی کارستانی ہے جو پاکستان میں قائم ہوئے امن و امان کو برداشت نہیں کرسکتے۔
یہ حامد میر کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں ہوا اور
اللہ نے انہیں بچا لیا۔ بلاشبہ زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ ہے اور
مقررہ وقت سے پہلے کوئی کسی کی زندگی نہیں چھین سکتا۔ حامد میر وطن عزیز کا
اہم اثاثہ اور انتہائی محب وطن ہیں۔ جو معاشرے کو لاحق برائیوں، مسائل سے
پردہ اٹھاتے رہتے ہیں اور ارباب اختیار کو جھنجوڑتے رہتے ہیں کہ ملک کو
تباہی سے بچایا جائے اور ان درپیش مسائل کا حل نکالا جائے۔ دشمن اور غیر
ریاستی عناصر حامد میر کے اس جہاد کو برداشت نہیں کرسکے اور ان پر حملے کی
منصوبہ بندی کی۔ بدقسمتی سے بعض تجزیہ کار اپنے مفروضوں کی بنیاد پر حملے
کی کوشش کا الزام ریاستی عناصر پر لگا رہے ہیں۔ خاص طور پر ایجنسیوں پر
الزام لگایا جارہا ہے۔ حامد میر خود اور نجم سیٹھی نے کھلم کھلا ریاستی
عناصر کا نام لے کر الزام لگایا ہے حالانکہ حقائق اس کے برعکس نظر آتے ہیں
اور یہ بغیر ثبوت کے ریاستی اداروں پر الزام ملک و قوم کے مفاد میں نہیں
کیونکہ دشمن کی یہی خواہش ہے۔ اس سے غیر ملکی دشمن عناصر دنیا بھر میں
پاکستان کی خفیہ ایجنسی کو بدنام کرنے کی کوشش کرینگے۔ اس لئے تمام ذمہ دار
تجزیہ کاروں کو ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے کسی بھی پر بھی بے بنیاد الزام
نہیں لگانا چاہئے۔ ان تجزیہ کاروں کو چاہئے کہ وہ حکومت سے غیر جانبدار
تحقیقات کا مطالبہ کرے تاکہ حقائق سامنے آ سکیں۔ حکومت کو ایسے قوانین واضح
کرنے چاہئے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایسے اختیار تفویض کیے
جائیں کہ وہ دہشت گردوں کے خاتمے کے لئے واضح کارروائی کرسکیں تاکہ قانون
نافذ کرنے والے اداروں میڈیا سمیت معاشرے کے ہر طبقے کو تحفظ فراہم کرسکیں۔
ملک میں ایک جامع انسداد دہشت گردی حکمت عملی کی ضرورت ہے کیونکہ ملک اس
وقت دہشت گردی کے عفریت میں پھنسا ہوا ہے۔ پوری قوم پریشان ہے، معیشت تباہ
ہوتی جارہی ہے اور ملک میں سرمایہ کاری رک چکی ہے، ترقی کا پہیہ جام ہو چکا
ہے۔ غیر ریاستی عناصر نے ملک میں دہشت گردی کا جال پھیلا کر معاشرے کے ہر
طبقے کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ فوج اور خفیہ ایجنسیاں بڑی جواں مردی سے اس
جال کو توڑنے کی کوششوں میں مصروف ہیں جن میں ہزاروں قربانیوں کے بعد وہ
کامیاب بھی ہیں لیکن صحیح معنوں میں ملک کو اس لعنت سے پاک کرنے کے لئے
واضح اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ پاک فوج اور
خفیہ ایجنسیاں جو اس دہشت گردی کےخلاف سینہ سپر ہیں اور بندھ باندھے کھڑے
ہیں۔ ان کو دو طرفہ طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ایک طرف تو وہ دہشت گردوں
کےخلاف لڑ رہے ہیں اور دوسری طرف دہشت گردی کے بعض واقعات کا الزام بھی بعض
عناصر کی طرف سے انہی پر عائد کردیا جاتا ہے۔ اس کا واضح مطلب فوج اور خفیہ
ایجنسیوں کے مورال کو کم کرنا ہے۔ پوری قوم بالخصوص دانشوروں اور ملک کے
پڑھے لکھے طبقے کو چاہئے کہ وہ آگے بڑھیں اور فوج اور خفیہ ایجنسیوں کےخلاف
الزامات لگانے والوں کےخلاف آواز بلند کریں۔ |