دارالعلوم دیوبند کے فتووں پر
انگریزی اخباراور الیکٹرانک میڈیا بڑا مہر بان ہے۔لیکن یہ مہربانی عام نہیں
خاص ہے۔اس ادارے سے ایسے فتوے بھی بکثرت جاری ہوتے ہیں جن سے اسلام کا روشن
اخلاقی پہلو نمایاں ہوتا ہے مگر وہ ان کو نظر نہیں آتے۔ مثلاًایک صاحبہ نے
دریافت کیا کہ کیا اسکول میں حاضر ہوئے بغیر دستخط کرکے، جیسا کہ عام طریقہ
ہے، تنخواہ لی جاسکتی ہے؟ جواب دیا گیا، منصبی ذمہ داری کو جہاں تک ہوسکے
پورا کرناچاہئے۔ بغیر اس کے اجرت لینا جائز نہیں۔)جواب نمبر28591- ( ایک
دوسرا استفسار یہ ہے کہ ملازمت کےلئے مطلوب اہلیت وتجربہ تو ہے مگرتجربہ کا
سرٹیفکیٹ نہیں۔ کیا فرضی سرٹیفکیٹ لگایا جاسکتا ہے؟اس کا کفارہ کیا ہوگا؟
اس کا جواب میں کہا گیا کہ جعلی سرٹیفکیٹ لگانا جائز نہیں۔(3600) ۔ ایک
خاتون نے ، جو خود برسر روزگار ہیں،دریافت کیا کہ وہ حجاب میں رہتی ہیں، ان
کے شوہر چاہتے ہیں کہ باہر کے سارے ذمہ داریاں جیسے گھریلو سامان کی
خریداری، بچوں کو اسکول لانا لیجانا اور بنک وغیرہ کے کام بھی بیوی ہی کریں،
چنانچہ ان کو بار بار باہر جانا پڑتا ہے،پیدل بھی چلنا پڑتا ہے، جس میں بہت
زحمت ہوتی ہے،وقت بھی ضائع ہوتا ہے۔ کار ہے مگر ڈرائیور نہیں رکھ سکتیں،کیا
ایسی صورت میں خود کار چلا کرسکتی ہوں؟ اس کے جواب میں شوہر صاحب کو سخت
تنبیہ کی گئی ہے اور کہا گیا ہے ان کا یہ رویہ ہرگزدرست نہیں۔ مجبوراً گھر
سے نکلنا ہوتو دوسری بات ہے۔ آپ حجاب کے اہتمام کے ساتھ کار چلا سکتی ہیں۔
(جواب نمبر21443)۔
اگر میڈیا کو دارالعلوم دیوبند کے فتووں سے اتنی ہی دلچسپی ہے تو اس طرح کی
فتووں کو خبر کا موضوع کیوں نہیں بنایا جاتا جن سے سماجی اصلاح کی صورت
نکلتی ہے اور اسلام کی بہتر شبیہ ابھرتی ہے؟ آخر کوئی تو وجہ ہے کہ صرف
ایسے ہی فتووں کو اچھالا جاتا ہے جن سے غلط فہمی پیدا کی جاسکے۔ دیسی میڈیا
بھی اسی کی پیروی کرتا ہے۔ اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس طرح کے فتووں سے
ہمارے دانشوربھی مخمصے میں پڑ جاتے ہیں۔ چنانچہ چند روز قبل یہ خبر آئی کہ
پاکستان کی کسی کمپنی نے دارالعلوم دیوبند کے دارالافتا سے پوچھا تھاکہ کیا
مسلم خاتون کو استقبالیہ پر بٹھایا جاسکتا ہے؟ اس کامختصرجواب یہ دیا گیا:
”مسلم عورت کا دفاتر میں استقبالیہ پر کام کرنا غیر اسلامی ہے کیونکہ مسلم
عورت پر بغیر حجاب کے مردوں کے سامنے آنے کی اجازت نہیں۔“ہر چند کہ دیو بند
کا یہ موقف نیا نہیں کہ عورتوں کو گھر کے اندر ہی رہنا چاہئے مگراس فتوے پر
شور مچا، تاکہ یہ تاثر پیدا کیا جاسکے کہ شریعت خواتین کے حق میں تنگ دل
ہے۔مصر کے حالیہ واقعات کے پس منظر میں عالمی سطح پر اس تاثر کو ابھارنے کی
خاص اہمیت ہے۔
ہر چند کہ یہ فتوا ناقص ہے ، جس کا ذکر آگے آئے گا مگر اس پرجامعہ ملیہ
اسلامیہ کی دو محترم اساتذہ نے جو صفائی پیش کی ہے اس پر پہلے نظر ڈال
لیجئے۔ایک صاحب نے فرمایا،”فتوے پر ہرایک کےلئے عمل کرنا فرض نہیں۔فتوی
عموماً کسی سوال کا جواب ہوتا ہے ۔ اس لئے اس کے پس منظر اور صورت کو
سمجھنا ضروری ہے ،جس میں فتوٰی پوچھا گیا ہے۔ مثلاً یہ حالیہ فتوٰی کہ مسلم
خاتون استقبالیہ پر کام نہیں کرسکتی ، ہر کسی کےلئے واجب العمل نہیں۔“ صاف
پتہ چلتا ہے کہ یہ تبصرہ سوال اور اس کا جواب دیکھے بغیر کسی اخبار نویس کے
پوچھنے پر کردیا گیا۔گمان یہ ہے کہ ذہن پر دباﺅ اس بات کازیادہ رہتا ہے
میڈیا میں نام آجائے اور روشن خیالی کی سند مل جائے۔ دوسرے صاحب نے، جو خیر
سے خود بھی مفتی ہیں فرمایا ،” فتوے کو حکم یا ہدایت نہیں سمجھنا چاہئے۔ یہ
تو ایک اسلامی نقطہ نظر ہے جس پر لوگ چاہیں تو عمل کریں۔“ ہر چند کہ یہ
دونوں اصحاب ہمارے لئے واجب الاحترام اوربڑے مرتبے والے ہیں، مگرمعذرت کے
ساتھ یہ کہے بغیر نہیں بنتا کہ دونوں جواب غیر ذمہ دارانہ ہےں۔ان سے عوام
کی نظروں میں فتووں کا وقار مجروح ہوتا ہے اور ان عناصر کو تقویت پہنچتی ہے
جو فتووںکی آڑ میں شریعت کے احکامات کو عوام کی نظروںمیں حقیر اوربے توقیر
اوراسلامی اداروں کو بے وزن کردینا چاہتے ہیں تاکہ ان اقدار کو مستحکم کیا
جاسکے جو غیرِ اسلام کی پسندیدہ ہیں۔بیشک مفتی کی رائے سے اختلاف کیا
جاسکتا ہے، مسئلہ کے استنباط و استخراج پر سوال اٹھایا جاسکتا ہے، لیکن کسی
عالم فاضل کا یہ کہہ دینا کہ فتوی تو بس یونہی ہوتا ہے، چاہو عمل کرو،نہ
چاہو تو نہ کرو؛ قطعی دوسری بات ہے۔ ہماری روایت یہ ہے کہ مفتی کے رائے سے
اختلاف کے باوجود ’فتویٰ‘ کا احترام کیا جاتا ہے۔ فتوی تاریخی اعتبار سے
ملّت کی قیادت اور امامت کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ہماری آزادی کی جدوجہد میں
عوا کا رخ طے کرنے میں فتووں اورعلماءکی آراءنے اہم کردار ادا کیا ہے۔
چنانچہ فتوے کے احترام کوعوام کے قلوب سے مٹادینا ایک مہلک صورت کو دعوت
دینا ہے۔ایک ایسے سیاسی ماحول میں ، جس میں قانون سازی پر آپ کا بس نہیں
آخر ملّت کو احکام شریعت کی جانب راغب اور عامل بنانے کےلئے آپ کے پاس
دوسرا زریعہ اور کیا ہے؟ اس فتوے پر تبصرہ کاحق اس صورت میں ادا ہوتا جب اس
فتوے سے اختلاف کا اظہار کیا جاتا جس کی اساس حجاب کے اس تصور پر ہے جس پر
علماءو فقہا میں سخت اختلاف ہے۔ پروفیسر صاحب نہیں مفتی صاحب تو یہ زحمت
فرماکر صحیح خطوط پر رنمائی فرما یہ سکتے تھے۔
فتوے کے احترام کا التزام ہماری دینی، ملّی اور سیاسی ضرورت ہے اور اس کی
کچھ فکراس دارالافتاءکو بھی ہونی چاہئے جس سے فتوی جاری کیا جاتا ہے۔افسوس
کہ دارالعلوم دیوبند کا دارالافتاءاس باب میں مطلوبہ احتیاط میں کوتاہ
اندیش نظرآتا ہے ، نتیجہ یہ کہ لوگوں کو اسلام کی شبیہ بگاڑنے کا خوب موقع
مل جاتاہے۔اس ادارے سے ہرروز روا روی میں اوسطاً تین درجن ’فتوے‘ جاری ہوتے
ہیں۔ فتوے کیا ہےں، بغیر استدلال کے ایک ایک دو دو جملوں میں عمومی جواب
ہوتے ہیں۔ شریعت کا ہر مسئلہ پیش نظر صورت کا تابع ہوتا ہے اور صورت مسﺅلہ
بدل جانے سے حکم بدل جاتا ہے۔ مگر ان سرسری فتووں میں ’صورتِ مسﺅلہ ‘کے
اصولی اظہار کو بھی ترک کردیا گیاہے۔ ظاہر ہے ایسے جواب کامل نہیں ہوتے اور
ناقص ہوتے ہیں۔مثلاً زیر بحث فتوے میںفرمایا گیا ہے کہ ’مسلم خاتون کا
استقبالیہ پر رکھنا غیر اسلامی ہے۔ ‘ اس سے سائل کو یہ نتیجہ نکالنے میں
کیا قباحت ہوگی کہ اگر خاتون غیر مسلم ہو تو کوئی حرج نہیں ، حالانکہ جن
فتنوں کا اندیشہ مذکورہ دارالافتاءکے متعدد فتووں میں ظاہر کیا گیا ہے ان
کے درآنے میں مذہب کی قید نہیں۔
دیوبند کا مستقل مسلک یہ ہے کہ خواتین کو معاش کےلئے گھر سے نہیںنکلنا
چاہئے، اوربکثرت فتوے اسی کی بنیاد پرصادر کئے جاتے ہیں۔ لیکن ہمارا محدود
علم ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ خود دور نبوی میں اورحضرات شیخین ؓ کے زریں
دورِ خلافت میں جب کہ بے آسرا شہریوں، بیواﺅں، مطلقہ خواتین اور یتیموں کی
کفالت بیت المال سے ہوتی تھی، محترم صحابیاتؓ معاش کےلئے گھروں سے نکلتی
تھیں۔چنانچہ ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے حضرت صدیق اکبرؓ کی صاحبزادی حضرت
اسمائؓ اپنے اونٹوں کےلئے جنگل سے کھجوروں کی گٹھری سر پر اٹھائے لئے جارہی
تھیں کہ راستے میں حضورﷺ مل گئے۔ آپ نے ان کو اپنے اونٹ پر بٹھالیا اور خود
اتر گئے۔‘ اس طرح کی روایات کی موجودگی میں معاش کےلئے خواتین کو گھر سے
باہر جانے سے کیسے روکا جاسکتا ہے۔ بیشک نان و نفقہ کی ذمہ داری باپ ،
بھائی یا شوہر کی ہے، مگر حقوق کی ادائیگی میں کوتاہیوں کے اس دور میں آج
یہ کیسے کہا جاسکتا ہے، عورت کا گھر سے باہر نکلنا فتنے کا باعث ہے۔ منع
ہے، تم گھر میںبیٹھو۔(5405)
قرآن کی ایک دو نہیں درجنوں آیات شاہد ہیں کہ ہمارے دین میں عورت اور مرد
کے درمیان کوئی درجہ بندی نہیں کی گئی ہے۔ عورت پرمرد کو قوام بنایا گیا
ہے،حاکم نہیں بنایا گیا ہے۔ عورت مرد کی زوج (جوڑا)ہے اس کی ملکیت نہیں ہے۔
عورت ہو یا مرد اپنے اپنے اعمال کےلئے خود ذمہ دار ہے اور ہر ایک اپنے نیک
و بدعمل کا پورا پورا اجر پائے گا۔ سورہ نور میں غص بصر اور پاکباز رہنے کی
تلقین فرمائی گئی ہے، مگرکس حکمت کے ساتھ ، غور فرمائیں: ”مومن مردوں سے
کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔
یہ ان کے حق میں زیادہ پاکیزہ بات ہے۔ بیشک اللہ اس کی خبر رکھتا ہے جو کچھ
وہ کرتے ہیں، اور مومن عورتوں سے بھی کہہ دیجئے وہ بھی اپنی نگاہوں کو نیچی
رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں(آیات:30، 31) ۔اس حکمت پر غور کرنا
چاہئے کہ پہلے مرد کو مخاطب کیا گیا ہے اور پھر عورت کو۔ یہ عام مشاہدہ ہے
کہ بدکاری کےلئے پہل اکثرمرد کی طرف سے ہوتی ہے، زلیخا کوئی ایک آدھ ہی
ہوتی ہے،اور ہر مرد مثل یوسفؑ نہیں ہوتا ۔ چنانچہ مرد کومکرر تنبیہ فرمائی
گئی ہے( عورت کو پھسلانے کےلئے) ’جو کچھ کرتے ہو، اللہ خوب جانتا ہے‘۔ اس
کے برخلاف عورت کو صرف محتاط روی کی ہدایت پر اکتفا کیا گیا ہے،اور اس ضمن
میںساتر لباس (اوڑھنیوں) کے استعمال اور زینت کو پوشیدہ رکھنے سے متعلق کچھ
ہدایات دی گئی ہیں۔ لیکن علمائے ہند کے ایک طبقہ نے عورت کے تعلق سے جو روش
اور نظریہ اختیار کیا ہے اس سے تو ایسا لگتا ہے گویا گناہ کا سرچشمہ عوت
ذات ہی ہے۔ حجاب کی تعبیر اور تشریح میں جس تنگی اور شدت پسندی کو اختیار
کیا گیاہے، وہ تو فی الواقع جاگیردارانہ ذہنیت کی عکاس ہے، جس نے عورت کو
شریعت اسلامی کے مطابق ہمسری کا درجہ دینے کے بجائے اپنی جاگیر سمجھاہے اور
یہ سمجھ لیا ہے کہ مرد تو فطرتاً پاک باز ہے، آزاد ہے،خدانخواستہ عورت ذات
ہی اپنی عصمت ہتھیلی پر لئے پھرتی ہے، حالانکہ اس گئے گزرے دور میں ہماری
مسلم خواتین ہی نہیں غیر مسلم خواتین بھی مردوں کے مقابلے اپنی عفت و عصمت
کے تئیں زیادہ محتاط اور حساس ہوتی ہیں۔ ہمیںکوئی حق نہیں پہنچتا کہ ان کی
ہستی کو مشکوک کریں ۔
حجاب کی جس تعبیر پر علمائے دیوبند کو اصرار ہے وہ بھی اختلافی ہے اور
اختلافی رائے کو حتمی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ آیات قرآنی اور احادیث نبوی سے
جن علماءنے یہ استدلال کیا ہے،ایک باوقار ساترلباس جس میں جسم اس طرح ڈھکا
رہے کہ ساخت نمایاں نہ ہو، کافی ہے ، نیز یہ کہ چہرے اور ہاتھوں کو کھلا
رکھا جاسکتا ہے ، ان کی اس رائے میں بڑا وزن ہے۔ اور یہی رائے اس وقت غالب
بھی ہے۔ اگر اس کو ملحوظ نہیں رکھا جائے گا تو آپ وقت کے پہئے کو الٹا نہیں
چلاسکتے اور مسلم معاشرے کو دو صدی پہلے کے دور میں نہیں لے جاسکتے۔
ہمارے مختلف دارالافتاجو فتوے صادر کرتے ہیں ان کی حیثیت محض ایک رائے کی
نہیںہوتی بلکہ انکا تعلق قانون سازی کے عمل سے ہوتا ہے اور بقول پروفیسر
ڈاکٹر ضیاءالدین ملک ، ” قانون سازی کے عمل میں معاشرے کی عرف اور مصلحت کو
ترجیحی طور پر برتا گیا ہے،جس کے نتیجہ میں اسلامی قانون تنگی، یک رخے پن
اور شدت پسندی سے دور اور آسانی ، کشادگی ، پائداری اور لچک سے آشنا رہا
ہے۔(مقالہ بعنوان ’معاصر ہندستان میںاسلامی قانون کی تدریس و تدوین ، موانع
اور امکانات‘)۔ لیکن ہمارا محتاط مشاہدہ کہتا ہے کہ برصغیر کے اکثر
دارالافتا اس کو ملحوظ نہیں رکھتے ۔ یہی وجہ ہے ان کے فتووں کا وہ وقعت
نہیں رہ گئی جو ہونی چاہئے۔مثال کے طور پر دیوبند کا ایک فتوی ملاحظہ
فرمائیں۔ استفسار یہ کیا گیا تھا کہ کیا بچیوں کو ایسے اسکول میں بھیجا
جاسکتا ہے جس میں معلم مرد ہوں، تو اس کے جواب میںفرماگیا ہے کہ” آخرت کی
فلاح مقصود ہے تو یہ کافی ہے کہ آپ گھر پر ہی بچیوں کو (۱)تجوید سے تلاوت
کلام پاک،(۲) بہشتی زیور،(۳) کسی کامل شیخ یا استاد کے وعظ و اسباق
پڑھوائیں اور امور خانہ داری سکھائیں ، یہ کافی ہے۔ (382, 3 July 2007) اس
میں شک نہیں کہ مخلوط تعلیم میں خرابیاں ہیں، لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں
کہ علم پرخواتین کے حق سے انکار کردیا جائے یا علم پرمسلم مردوں کی اجارہ
داری رہے۔ ارشاد نبوی ہے کہ علم (نافع) کا حاصل کرنا ہر عورت اور مرد کا
فرض ہے۔تو پھر کیا ہماری یہ ذمہ داری نہیں کہ اپنے بچوں کو اس فرض کی راہ
پر لگائیں اور جہاں لڑکوںکےلئے مدرسے قائم کرتے ہیں وہیں مخصوص جامعات
لڑکیوں کےلئے بھی قائم کریں، جہاں وہ تلاوت کرنا ہی نہ سیکھیں، اپنے ذوق کے
مطابق دیگر علوم دینیہ و عصری موضوعات میں بھی دسترس حاصل کریں؟ اور جب تک
ایسا نہ ہو مجبوراً دیگر صورتوں سے استفادہ حاصل کرکے اس فرض کو ادا کیا
جائے۔کیا لوگوںکایہ خیال ہے لڑکیوں کےلئے حصول علم کے اس فرض کی ادائیگی کی
اپنی ذمہ داری سے چشم پوشی پران کی گرفت نہیں ہوگی؟
آخری بات یہ کہ آخرت کی فکر توہمارا جزو ایمان ہے، جس دل میں آخرت کی کھٹک
جتنی کم ہوگی اس کا ایمان اتنا ہی ڈھل مل ہوگا۔ لیکن یہ مبارک آیت جو ہم ہر
دعا کے ساتھ دوہراتے ہیں :” اے ہمارے رب ! ہم کو دنیا کی بھی بھلائی دے اور
آخرت میں بھی بھلائی دے، اور ہم کو آتش جہنم سے بچائیو“(البقرہ: 201)، کا
بھی کچھ تقاضا ہے۔ اسی لئے ہم اپنی بچیوں اور بچوں کو ترک دینا اوررہبانیت
کادرس نہیںدے سکتے، بلکہ اسی ترتیب سے جہد وعمل پرتیار کرتے ہیں ،جو اس آیت
مبارکہ میں فرمائی گئی ہے۔ پہلے دنیا کی بھلائی اور اس کے نتیجہ میں آخرت
کی۔ اور وہ اس لئے ہماری آخرت کی بھلائی ،ہماری بھلی دنیا (حقوق کی ادائیگی
اورزرق حلال) میں ہی قائم فرمائی گئی ہے۔ (ختم) |