معیت اور قبر کا احترام

پاکستان میں بسنے والی سبھی قومیں محض علم کی کمی کے باعث جہالت کے گڑھوں میں گرتی چلی جا رہی ہیں۔اسلامی تعلیمات،احکامات اور حقائق جاننے کےلئے کسی کے پاس وقت نہیں۔دولت اکٹھی کرنے کے چکر میںپاکستانی اتنے مصروف ہے کہ علم حاصل کرنے کی بجائے سُنی سُنائی بات پر اس قدر یقین کرلیتے ہیں کہ بولنے والے کو نعوذباللہ عالمِ قُل سمجھ لیتے ہیں۔پاکستان میں ایسی اَن گنت مثالیں ملیں گی جن کے سُننے کے بعد اس بات کا یقین آجائے کہ یہ قوم اللہ اور اُس کے رسول اور قرآنِ پاک سے کس قدر دورجاچکے ہیں۔پیری فقیری،قبروں کو سجدے،تعویز دھاگے،جادو ٹونے اور نجانے کیا کُچھ جس کا تعلق اسلامی تعلیمات سے دور دور تک نہیں۔صرف اور صرف نام نہاد علمائ،عالمِ دین اور مولویوں کے پیچھے لگتے ہوئے ہماری قوم قبروں کی بے حرمتی جیسے فعل سے بھی دریغ نہیں کرتے۔جبکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق معیت اور قبر کے بارہ میں تعلیمات انتہائی ادب اور احترام بجالانے کی ہیں۔

معیت کے بارہ میں مختلف مذاہب نے مختلف طریقہ ہائے احترام کی ہدایات دی ہیں۔لیکن احترام کا سب سے بہتر طبعی اور الہامی طریق وہ ہے جسے اسلام نے اپنایا اور فوت شدہ انسانوں کے جسد کو زمین میں دفنانے کی ہدایت دی۔مُردہ کو دفنانے کی قدیم رسم، وہ پہلی انسانی سوچ ہے جو تمثیلی زبان میں آدم کے دو بیٹوں کے واقعہ کی صورت میں انسانی علم کا حصہ بنی۔آدم کے دوبیٹوں کا واقعہ یہ ہے کہ جب ایک بھائی نے دوسرے بھائی کو جس کی قربانی مقبول ہوئی تھی اور اس کی محنت عمدہ پھل لائی تھی محض حسد کے ہاتھوں مغلوب ہوکر قتل کر دیا تو جلد بعد وہ نادم ہوا اور اسے فکر دامن گیرہوئی کہ وہ اپنے مقتول بھائی کی نعش کا کیا کرے۔اس پر اسے ایک نظارہ دکھایا گیا کہ ایک کّوے نے دوسرے کّوے کی نعش کو زمین میں گڑھا کھود کر دفن کیا ہے۔اس پر اسے بھی یہ ترکیب سوجھی اور اس نے اپنے بھائی کی نعش کوزمین میں دفن کیا۔احترامِ میت کے بارے میں جو اسلامی تعلیم ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ آنحضرت فرماتے ہیں۔ترجمہ:”تم وفات یافتہ لوگوں کو برا بھلا نہ کہو۔ان سے برا سلوک نہ کرو کیونکہ وہ اپنے خدا کے حضور پہنچ چکے ہیں۔“ اسی طرح حضرت عمرہ بنت عبدالرحمن بیان کرتی ہیں کہ:”حضور نے قبروں کو بد نیتی اور بے حرمتی کے طور پر اکھیڑنے والوں پر لعنت بھیجی ہے“۔

پاکستان میں فرقہ پرستی کی آڑ میں جو گروح قبروں کی بے حرمتی کرتے ہیں۔اُن سے اگر یہ سوال کیا جائے کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں تو یقینا جواب یہی ملے گا کہ اُن کے عالم،اُستاد،مولوی ،پیر یا امام کا حکم ہے کہ ایسا کرنے سے جنت میں داخل ہوگے یا ثواب پاﺅ گے۔حالانکہ قبروں کی بے حرمتی کرنے والے اگر خود قرآن اور حدیث کا مطالعہ کریں تووہ شاید ایسا کرنے پر ہرگز راضی نہ ہوں۔ایسے میں نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ انپڑھ، جب عالم بن جائیں تو قومیں نہ صرف تباہ ہوتی ہیں بلکہ مختلف قسم کے عذاب اُن پر آتے ہیں جیسا کہ پاکستان میں اس وقت مختلف قسم کے عذاب نازل ہورہے ہیں۔

جو خود کوپڑھا لکھا عالمِ دین سمجھتے ہیں وہ یہ یاد رکھیں کہ ابوجہل بھی بہت پڑھا لکھا آدمی تھا بڑا عالم تھا دانیٰ تھا۔صرف ایک بات نے اُسے ابوجہل بنادیا اور وہ بات اُس کی ہٹ دہرمی تھی۔ابوجہل بھی اللہ اور اُس کے رسول کے احکامات کو ٹھکراتے ہوئے ایامِ جاہلیت کی روایات کو ترجیح دیتا تھا اور ہمارے علماءاور آجکل کے بزرگ جنہیں سیانے بھی کہا جاتا ہے اُسی ابوجہل کے نقشِ قدم پر چلتے نظر آتے ہیں۔
Inam Ul Haq
About the Author: Inam Ul Haq Read More Articles by Inam Ul Haq: 38 Articles with 47825 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.