تعلیم کی بھینس گئی پانی میں

بہت غور کیا جائے تب بھی اس امر کا تعین نہیں کیا جاسکتا کہ ہمارے ہاں جیسا حال تعلیم کے شعبے کا ہے ویسا پورے ملک کا ہے یا جیسی بُری حالت پورے ملک کی ہے ویسی تعلیم کی ہے! خیر گزری کہ دنیا ہمارے سرکاری تعلیمی اداروں کی عمارات اور ساز و سامان کا جائزہ نہیں لیتی ورنہ پتہ نہیں کیا کا کیا سمجھ بیٹھے! جو کچھ ہم نے اب تک تعلیم کے نام پر مارکیٹ میں پیش کیا ہے وہ اس قدر عجیب و غریب ہے کہ ذرا سا بھی سوچیے تو (اپنا) سَر پیٹنے کو جی چاہتا ہے!

عوام کی مجبوری ہے کہ سرکاری اسکولوں کی بیشتر عمارات کو آثار قدیمہ کے نمونے سمجھ کر ان کا احترام کرتے ہیں! اِن عمارات کو آثار قدیمہ کے نمونوں کے سوا کچھ اور سمجھا بھی تو نہیں جاسکتا! زمانے کے تھپیڑے کھا کھاکر زندگی کی بازی ہارے ہوئے اسکول ہماری نئی نسل کو کیا سکھائیں گے اِس کا اندازہ تو ہم میں سے کوئی بھی نہیں لگا سکتا!
 

image

ایک زمانے سے سرکاری اسکولوں کے پڑھے ہوئے بچے ملک کو چلاتے آئے ہیں۔ جب تعلیم کے شعبے کو نجی شعبے یعنی سرمایہ داروں نے اپنی جولاں گاہ نہیں بنایا تھا تب بھی ٹوٹی پھوٹی، ہلتی جلتی اور بہت مشکل سے سانس لیتی ہوئی عمارات میں قائم سرکاری اسکول قوم کو نالج ورکرز فراہم کیا کرتے تھے۔ سرکاری اسکولوں کے پڑھے ہوئے باصلاحیت افراد مختلف شعبوں میں اپنا آپ بخوبی منواتے تھے۔

بات عمارات تک رہتی تو کچھ نہ تھا، جب تعلیم اور تدریس کے ڈھانچے ہی کو ہلا دیا گیا تو حقیقی بگاڑ پیدا ہوا۔ اور پھر کچھ بھی نہ بچا۔ یاروں نے شاید قسم کھا رکھی ہے کہ کِسی بھی شعبے کو بربادی کی آخری حد تک پہنچاکر ہی دم لینا ہے! کہتے ہیں ڈائن بھی سات گھر چھوڑ دیتی ہے۔ جن معاشروں میں غیر معمولی کرپشن عام ہے وہ بھی تعلیم جیسے بنیادی شعبے سے کھلواڑ نہیں کرتے کیونکہ انہیں یاد رہتا ہے کہ انسان جس عمارت میں موجود ہو اس کی کِھڑکیوں، دروازوں اور روشن دانوں سے تو کِھلواڑ کی جاسکتی ہے مگر سُتونوں سے نہیں کھیلنا چاہیے کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں پوری عمارت دھڑام سے زمین پر آ رہتی ہے! اِتنا بڑا جگرا صرف ہمارا ہے کہ سُتونوں اور بُنیادوں سے بھی کِھلواڑ کرتے ہیں اور نتائج کے بارے میں سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے!

کراچی کے بن قاسم ٹاؤن کے لَٹھ گوٹھ کا سرکاری اسکول زمانے سے بند پڑا ہے۔ اساتذہ اور طلبا نہ ہوں تو اسکول محض عمارت رہ جاتا ہے اور پھر عمارت بھی کہاں رہتی ہے، آخر میں تو کھنڈر ہاتھ آتا ہے! علم سے محبت کرنے والے ہر انسان کے سَر پر لَٹھ کی طرح برسنے والا لَٹھ گوٹھ کا بند اسکول خاصے واضح انداز سے بتا رہا ہے کہ تعلیم کے حوالے سے ہماری پالیسیاں اب بند گلی میں پہنچ چکی ہیں! جب علم ترجیحات میں شامل نہ ہو تو تدریس کے لیے قائم کی جانے والی عمارات بالآخر حیوانات کی آماجگاہ میں تبدیل ہوکر رہ جاتی ہیں! جو اقوام تعلیم سے کِھلواڑ کرتی ہں ان کی نسلیں جہالت کے اندھیروں میں ڈوب جاتی ہیں اور پھر ا ±ن کے تعلیمی اداروں کی خستہ حال عمارات میں بھیڑ بکریاں ہی ڈیرے ڈال لیا کرتی ہیں! سندھ میں ایسے سرکاری اسکولوں کی کمی نہیں جنہیں اب مویشی پالنے کے لیے کامیابی اور عمدگی سے استعمال کیا جا رہا ہے! اِس حالت میں بھی یہ اسکول ہمیں کچھ نہ کچھ تو سکھا ہی رہے ہیں۔ مثلاً خالی پڑے ہوئے اسکولوں میں بھیڑ بکریاں اور بھینسیں ڈیرے ڈال کر یہ پیغام دے رہی ہیں کہ اگر علم کے حصول اور دانش کی ترویج کو ترجیحات میں شامل نہ کیا گیا تو ہمارے پورے قومی وجود کو جہالت اسی طرح چَر جائے گی جس طرح بھیڑ بکریاں گھاس چَر جاتی ہیں!
 

image

جب اہل اختیار کو اپنی جیبیں بھرنے سے فرصت نہ ہو تو نئی نسل کو بہتر زمانوں کے لیے تیار کرنے کا کون سوچے؟ سوال صرف قومی سطح پر ترجیحات کے تعین کا ہے۔ جو چیز ترجیحات میں شامل ہی نہ ہو اُس کا معیار بلند کرنے کے بارے میں کون سوچے گا؟ ہماری ”پیش رفت“ کا یہ عالم ہے کہ ہم نے تعلیم کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے! جن کے ہاتھ میں اقتدار و اختیار ہے وہ شاید یہی چاہتے ہیں کہ تعلیم اور تدریس کے لیے قائم کی جانے والی عمارات گندے پانی میں گِھری رہیں اور اُن میں بھیڑ بکریاں ہی نہیں، گائے بھینسیں بھی قیام فرمائیں! سیدھی سی بات ہے، بند اسکول صرف پرائمری مویشیوں کے لیے تو ہو نہیں سکتے! بکریاں اگر پرائمری سطح پر ہیں تو بھینسیں اِن بند اسکولوں میں مڈل اور سیکنڈری کی سطح پر! جن کے ہاتھ میں سرکاری اسکولوں کا نظم و نسق ہے وہ شاید یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ بند سرکاری اسکولوں میں بھیڑ بکریوں اور بھینسوں کو چہل قدمی کرتی دیکھ کر دنیا بھر کے لوگ یہ سمجھیں گے کہ ہم اپنے یعنی انسانی بچوں کو تعلیم دینے کے عمل سے فارغ ہوکر اب مویشیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر رہے ہیں!

نئی نسل کو اقوام عالم مں کچھ کرنے کے قابل بنانے کا فریضہ صرف معیاری تعلیمی ادارے ہی انجام دے سکتے ہیں۔ اور ہم نے اپنے تعلیمی اداروں کو کِس انجام سے دوچار کر رکھا ہے! تعلیم و تعلم کی تباہی کے ساتھ ساتھ ایک بڑا دُکھ اِس بات کا بھی ہے کہ اِتنا کچھ ہو جانے پر بھی .... شرم ہم کو مگر نہیں آتی!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 483418 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More