خطہ سندھ کا سماج (معاشرہ)کی
دو صدیاں (1850-1689ئ)انتہائی بحرانی دور پر مشتمل تھیں۔ ان دنوں اس خطہ کا
سماج اپنے وجود کی بحالی اور بقاءکی جدوجہد میں مصروف تھا مگر افسوس کہ اس
جدوجہد کی لازمی شرط یعنی قومی اتحاد اس سماج کو نصیب نہ ہوسکا۔ اس کا اصل
سبب سماج میں اقتدار کے لئے داخلی کشمکش اور گروہی تصادم تو تھا ہی مگر اس
کا اتنا ہی بڑا سبب مذہب بھی تھا۔ سندھ کے سماج کو ان دو داخلی امراض نے اس
کو جیسے پہلے (ماضی میں)ویسے ہی اس دور میں بھی نہ ریاست بننے دیا اور نہ
ہی قوم۔
اکثریت کے مذہب کی کثیر تعبیروں نے نہ صرف یہ کہ اس اکثریت کی یکجہتی اور
اعتقادی یکسوئی کو تباہ کیا بلکہ اس میں وطن دشمنی اور قومی غداری کی حد تک
فرقے پیدا کئے۔ اقلیت سے مذہبی رویے کا حال یہ تھا کہ "لا اکراہ فی الدین"
اور "لکم دینکم ولی دین"جیسے عظیم مصالحتی اصولوں کے ہوتے ہوئے بھی صرف "رسو"
کہنے والے کو "رسی" میں باندھ دینے کے لئے افراد تیار بیٹھے رہتے تھے۔
حکمراں اکثریتی مذہب والوں کے پاس لفظ "بنیا" تب بھی حقارت اور خواری کے
طور پر ہندوؤں کے لئے استعمال ہوتا تھا اور آج بھی ہوتا ہے۔عباسی کلہوڑا
دور کا یہ واقعہ (جیسے بیاض ہاشمی میں آیا ہے ) کہ 1157ھ (بمطابق 1744ئ)
میں ایک ہندو بال چند نامی نے مسلمانوں سے باتیں کرتے ہوئے جواب میں کہہ
دیا کہ "میں بنیا نہیں ہوں"۔ بس تو پھر اس کے لئے جیسے قیامت برپا ہوگئی کہ
"بال چند نے ہندو ہونے سے انکار کردیا ہے لہٰذا یہ مسلمان ہوگیا"۔ اس بے
چارے نے بہت آہ و بکا کی مگر سب بے سود رہا۔ اس کے اوپر گواہ مقرر ہوئے اور
مسئلہ قاضیوں اور مفتیوں کے سامنے پیش ہوا۔ ٹھٹھہ کے مخدوم ضیاءالدین،
مخدوم حاجی محمد ہاشم، شیخ عطاءاللہ مفتی، شیخ عنایت اللہ مفتی اور شیخ
محمد عارف مفتی، نصرپور عزت اللہ مفتی اور مخدوم عبدالخالق، نوشہرہ کے
مخدوم ابولمعالی، گھارو کے مخدوم عبدالرحیم، کوٹری کے مخدوم عاقل اور کھاہی
راہو کے مولوی محمد کامل نے ایک رائے ہوکر فتویٰ دیا کہ "بال چند مانے یا
نہ مانے لیکن وہ یہ الفاظ کہنے کے بعد مسلمان ہوگیا اور اس پر اسلام کے
ارکان واجب ہیں، انکار کی صورت میں اُسے مرتد شمار کیا جائے گا ، جس کی سزا
قتل ہے "۔ اس کے بعد ایک اورایسا ہی واقعہ اسی دور کا ہے ،جو اسی بیاض میں
ہے کہ 1159ھ (بمطابق1746ئ) میں دو آدمیوں نے ٹھٹھہ کے عالموں اور قاضیوں کے
سامنے ایک ہندو عورت کی بابت یہ شہاد ت دی کہ اس نے احمد نامی ایک شخص سے
زبانی لڑائی کرتے ہوئے اسے بے ایمان کہا۔ جس پر احمد نے اس سے پوچھا کہ کیا
تو ایمان رکھتی ہے؟ جواب میں عورت نے کہا کہ ہاں میں ایمان رکھتی ہوں ۔ اب
سوال یہ اُٹھا کہ وہ ہندو عورت یہ جملہ کہنے کے بعد مسلمان ہوچکی ہے یا
نہیں؟ عالموں نے جواب دیا کہ وہ ہندو عورت یہ جملہ کہنے کے بعد مسلمان
ہوچکی ہے۔ حاکموں پر لازم ہے کہ وہ شواہدات کی نشاندہی کے پیش نظر اس عورت
پر اسلام کے احکامات جاری کریں۔ مذہبی رسہ کشی اور دھتکار کے لئے یہ دو
مثالیں کوئی ایسی خاص اہمیت کی حامل نہیں جبکہ "بیاض ہاشمی" یا کئی اور
بیاضیں ایسی کئی مثالوں سے پر ہیں اور یہ صورتِ حال صرف سندھ کی یا اس دور
کی نہیں تھیں بلکہ اس سے بھی ڈھائی سو سال پہلے سندھ کے سمہ حاکم جام نظام
الدین عرف نندہ کے (دورِ حکومت 1507ءسے1560ء) کے ہم عصر شمالی ہند کے حاکم
سکندر لودھی کے دور کے متعلق "طبقاتِ اکبری" میں آیا ہے کہ ایک برہمن بودہن
نامی "کانیر "شہر کا رہائشی تھا۔ ایک مرتبہ اس نے مسلمانوں کے آگے اقرار
کیا کہ اسلام سچا اور میرا مذہب بھی صحیح ہے (اسلام حق است و دین من نیز
درست است) ۔ان کی یہ گفتگو کسی طرح عالموں کے کانوں تک پہنچی، جن میں
لکھنوتی کے رہنے والے دو مولوی قاضی پیارے اور شیخ بڈھے نے خواہ مخواہ اس
بات کو طول دیا اور وہ سیدھے وہاں کے نواب اعظم ہمایوں کے پاس پہنچ گئے ،
نواب صاحب نے اس برہمن کو ان مولویوں کے ساتھ (سلطان سکندر لودھی) کی طرف
صدر مقام(دارالحکومت) سنبل روانہ کیا۔ چونکہ سلطان کو علمی مذاکرات سے بڑی
دلچسپی تھی ، اس لئے اس نے نامی گرامی علماءکو ہر طرف سے بلا بھیجا ، جن
میں میاں قادن بن شیخ خو، میاں عبد اللہ بن عبد اللہ، سید محمد سعیدخان
دہلی والے اور سید میراں بن سید احسن قنوج والے قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ
عبدالرحمن سیکری والا ، میاں سید صدر الدین قنوجی اور سنبل کے میاں عزیز
اللہ اور دیگر علماءہمیشہ سلطان کے ساتھ ہوتے تھے، جو اس "معرکے" میں شامل
ہوئے۔ تحقیق کے بعد علمائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہوا کہ برہمن کو باندھ
کر (محبوس کرکے) اسلام کی طرف لانے کے لئے دعوت دی جائے اور اگر پھر بھی
انکار کرے تو قتل کردیا جائے قصہ مختصر برہمن دبورہن اسلام قبول نہ کرنے کی
پاداش میں قتل ہوا۔ سلطان نے بعد میں مذکورہ علماءکو انعام و اکرام سے نواز
کر اپنے اپنے شہروں کی طرف روانہ کیا۔ سندھ میں کلہوڑوں کے بعد بلوچی
تالپورمیروں کے دورِ اقتدار کے متعلق ایک انگریز مصنف ڈاکٹر برنس کے تاثرات
خود اس قسم کی صورتِ حال کی نشاندہی کرتے ہیں۔ میروں کا ذکر کرتے ہوئے وہ
انگریز ڈاکٹر لکھتا ہے وہ فطرتاً نیک، بامروت اور خوش اخلاق تھے، پر مشرکین
کے بارے میں سختی سے کام لیتے تھے۔ لاڑ(سیہون سے نیچے زیریں سندھ )کے علاقے
میں کسی بدنصیب ہندو سے اگر کوئی غلطی سرزد ہوجاتی تو اسے پکڑ کر کلمہ
پڑھوا کر ختنہ کروا دیتے۔ بلوچی تالپور میروں کی زبردستی ان کی تبلیغی
سرگرمیوں سے ظاہر ہوتی ہیں۔
عقل اس بات پر حیران ہے کہ آخر یہ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی اس خطے میں
ہندو کیوں پڑے ہوئے ہیں؟ اس کا فقط ایک ہی سبب ہوسکتا ہے یعنی جنم بھومی
(دھرتی ماتا)سے اُن کی محبت.... کہیں بھی دو مومن اگر شہادت دیں کہ کسی
ہندو نے قرآن کی آیتیں یا کلمہ پڑھا ہے تو دو شہادتیں اسے ایک دم شریعت
بٹھانے کے لئے کافی ہیں۔ تاریخ سندھ کی یہ ایک ثابت اور تصدیق شدہ حقیقت ہے
کہ ایسی ہی ایک مذہبی کدورت والی روش نے سندھ میں سیٹھ ناؤں مل جیسا ایک
غدار پیدا کردیا، جس نے سندھ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی پھرپور مالی مدد کی،
جس کے نتیجے میں خطہ سندھ میں تالپور بلوچوں کے چالیس (40)سالہ دور
اقتدارکا خاتمہ کردیا۔ اس سیٹھ ناؤ مل سے تین صدیاں پہلے بھی سندھ کو ایسا
ہی قاضی قاضن بھی نصیب ہوا، جو ایک بیرونی حملہ آور سندھ کے قاتل دشمن شاہ
بیگ ارغون سفاک سے ہمنوائی اور مدد کرنے پر آمادہ ہوا، جس کی بناءپر ریاست
ٹھٹھہ میں سمو اقتدار کا خاتمہ ہوا اور ارغون وترکھان خاندان کی ستر
(70)سالہ حکومت کے اقتدار کا سورج طلوع ہوا۔ یہی مذہبی عقائد کا اختلاف
تھا، جس کی بناءپر قاضی قاضن اور ان کے سارے مہدوی ٹولے کے مذہبی سربراہان،
شمالی سندھ کے مرکزی شہر بکھر کے سادات اور دوسرے کتنے ہی شیخ مشائخ نے
اپنے وطن اور اپنے سماج سے غداری کی اور حملہ آور دشمنوں کے لئے جاسوسی اور
روحانی فیض پہنچانے والے شکاریوں کا ہراول گروہ اس کے علاوہ تھا۔ جنہوں نے
ہر طرح کی غداری اور بربادی کا سامان مہیا کیا۔ اس دور کے عالموں نے خطہ
سندھ میں ریاست ٹھٹھہ کی بربادی کی تاریخ 927ھ (1520ئ) نکالی ہے۔ تاریخ
معصومی کے مطابق بارہ محرم کو ارغونوں کا لشکر ٹھٹھہ شہر میں داخل ہوا اور
20محرم تک ارغون بدمعاش فوجی دستے شہر میں لوٹ مار اور لوگوں کا قتل عام
کرتے رہے، جس سے یہ آیتِ مقدسہ" ان الملوک اذا دخلوا قریةً افسروھا"( جب
بادشاہ کسی شہر میں داخل ہوتے ہیں تو اسے ویران کردیتے ہیں)کی وضاحت آنکھوں
کے سامنے آگئی۔مطلب یہ کہ سولہویں صدی کے خطہ سندھ کا سماج صرف اپنی
اندرونی کمزوری اور مذہبی نااتفاقی کے باعث جس کی بنیادیں مذہبی اور سیاسی
خلفشار میں دھنسی ہوئی تھیں۔ خود کو شکست اور غلامی سے محفوظ نہ رکھ
سکا۔(بہ شکریہ سہیل خان) |