ء میں قیامت آ جائے گی
کوئی سیارہ زمین سے ٹکرانے والا ہے۔ یہ الفاظ زیادہ تر نوجوانوں کی محفلوں
میں زیربحث ہے ۔ اچانک کہاں سے لوگوں کو پتہ چل گیا کہ 2012ء میں قیامت آئے
گی،۔ کچھ عرصہ قبل ہالی ووڈ کی ایک فلم نے دنیا بھر میں ہلچل مچا دی تھی اس
فلم میں یہ تاثر دیا گیا تھا کہ 31دسمبر 2012ء میں قیامت آئی گی ،دنیا
ملیامٹ ہو جائے گی ،البتہ ریلیز ہونے کے فوراً بعد ناسا نے یہ پیش گوئی
مسترد کر دی لیکن خصوصاً نوجوان طبقہ اس پیش گوئی پر یقین کر بیٹھاتھا۔لیکن
ابھی 31دسمبر نہیں آیا تھا کہ ایک اور طرف سے 21دسمبر کی آواز آئی کہ دن
11بجے 11منٹ اور 11سکینڈ پر قیامت آئی گی یہ پیشن گوئی ’’مایا‘‘ مذہب کی
طرف سے کی گئی ہے ۔دوسری طرف خبر ہے کہ امریکیوں نے اسلحہ جمع کرنا شروع کر
دیا ہے کہ قیامت آنے والی ہے اس دن جہنم میں جگہ کم پڑنے کی وجہ سے لاشیں
زمین پر اتریں گی۔ ہم بحیثیت مسلمان کیاہم مان سکتے ہیں کہ قیامت 21دسمبر
کوواقع ہو گی۔لیکن آج خصوصاً نوجوانو میں پیش گوئی کے بعد اتنی تھرتھلی
کیوں مچ گئی ؟شاید اس لئے کہ جو شخص مجرم ہوتا ہے وہ ہمیشہ پشیمان ہوتا
رہتا ہے، اُسے ڈر لگتا ہے کہ ابھی کہیں سے کوئی مجھے پکڑ نہ لے ۔ افسوس کہ
اﷲ رب العزت کی پکڑ سے ڈرتے بھی ہیں لیکن گناہوں سے توبہ نہیں کرتے۔ آئیے
سائنس اور اسلام کی روشنی میں اس موضوع پر روشنی ڈالتے ہیں۔قرآن مجید میں
ارشاد باری تعالیٰ ہے
’’قیامت جلد آنے والی ہے‘‘
قرآن مجید تو آج سے تقریباً 1433 سال پہلے نازل ہوا ہے تقریباً سواچودہ سو
سال گزرنے کے باوجود قیامت نہیں آئی ۔قیامت کا علم تو کسی نبی بلکہ آخری
نبی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو بھی نہ تھا، قیامت کا علم صرف اﷲ
رب العزت کے پاس ہے۔ ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے!
’’اِن کو کہہ دیجئے کہ قیامت کا علم صرف اﷲ کے پاس ہے اس کے وقت پر اس کو
سوائے اﷲ کے کوئی اور ظاہر نہ کرے گا وہ آسمانوں اور زمین میں بڑا بھاری (حادثہ)
ہوگا وہ تم پر محض اچانک آئے گی۔ وہ آپؐ سے اِس طرح پوچھتے ہیں جیسے گویا
آپ اس کی تحقیق کر چکے ہیں۔ آپؐ فرما دیجئے کہ اس کا علم خاص اﷲ ہی کہ پاس
ہے لیکن اکثرلوگ نہیں مانتے‘‘
بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کچھ لوگ تحقیق و تجربہ کی بناء پر کسی وقوعہ کی
تفصیلات و کیفیات یا کسی قدیم الوقوع میں لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
حالانکہ وہی چیز بہت سے انسانوں میں مخفی ہوتی ہے لیکن اس کا وجود عالم
شہادت میں قطعی طور پر ثابت نہیں ہوتے ہیں۔ البتہ اِسے منصّہ شہود پر لانے
والوں کو ’’عالم غیب‘‘ کے خطاب سے نہیں نوازا جاتا۔ عالم شہادت کی بہت سی
اشیاء ان کے خواص، اِن کی کیفیات، ماہیات، چاند، سونا چاندی اور جواہرات
جیسی معدنیات تک رسائی اور نت نئی زمینی معلومات، دریاؤں اور سمندروں کی
مخلوقات، نئے علاقوں اور ملکوں کی دریافت، ماں کے پیٹ میں بچے سے متعلقہ
معلومات، بارش کے وقوع یا عدم نزول کے امکانات، زلزلے، سیلاب، آندھی، طوفان
وغیرہ کے خدشات آلات جراحی کے ذریعے جسم انسانی کی اندرونی معلومات وغیرہ
عجوبہ روزگار ہیں۔ جو مرد و زنانہ کے ساتھ ترقی کے تدریجی مراحل اور ارتقاء
کے ابتدائی منازل طے کرکے حال ہی میں بڑی سرمت کے ساتھ منصّہ شہود پر ظاہر
ہوتے ہیں۔ حالانکہ انسانی تاریخ کی گڑھیال کی سوئیاں اگر ایک دو صدی پیچھے
گھوما دیں تو یہ سب کچھ ’عالم غیب‘‘ کی فہرست میں شامل کرنا ناگزیز ہوگا۔
اب انہی چیزوں کو ’’عالم شہادت‘‘ میں شمار کرنا حتمی ہونے کا متقاضی ہے گل
یہ امکان رد نہیں کیا جا سکتا کہ آنیوالا وقت اور تحقیقات جدیدہ، حالیہ وقت
تحقیقات موجودہ میں مزید اضافہ و ترامیم ضرور کرے گا خبر واحد کی خصیت قرآن
مجید کی روشنی میں ارشاد باری تعالیٰ ہے!
’’اے ایمان والو! جب تمہارے پاس فاسق خبر لائے تو تحقیق کر لیا کرو‘‘
اِس آیت سے ثابت ہوا کہ اگر خبر لانے والا فاسق ہے تو اِس کی خبر غیر معتبر
ہے جب تک مزید تحقیق سے بات واضح نہ ہو جائے لیکن اگر خبر دینے والا صالح و
ثقہ اور معتبر ذمہ دار ہے تو اِس کی خبر قبول کرنے میں قباحت نہیں۔ اِس آیت
سے اس فطری حقیقت کی ترجمانی ہوتی ہے کہ دنیاوی معاملات میں کسی فرد واحد
کی خبر کو بنیادی طور پر شک و شبہ کی نگاہ سے نہیں دیکھا جائے گا بلکہ
بنیادی اور اصولی طور پر کسی بھی معتبر عادل و ضابطہ مسلمان کی خبر کو قبول
کیا جائے گا اور اس کے مطابق ہلا ترود عمل کیا جائے گا البتہ اگر خبر دہندہ
کی ثقافت محل نظر ہو تو اِس کی خبر و اطلاع کی پہلے تحقیق کی جائے گی اور
مکمل اعتماد کے بعد اِس پر عمل کیا جائے گا۔ بحیثیت مسلمان ہمیں ہر سنی
سنائی اور کسی کی بات کو سط نہیں سمجھنی چاہیے جبکہ تک تحقیق نہ کرے اور
قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے!
’’لہٰذا اہل علم سے پوچھ لو اگر تمہیں معلوم نہیں‘‘
اِس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ اگر تمہیں کسی مسئلے کا علم نہ
ہو تو اہل علم سے پوچھ لیا کرو لیکن اسے کسی ایسی شرط سے مشروط نہیں کیا کہ
اہل علم کی صرف ایسی بات معتبر ہو گی جس پر بیت سے علماء کی مہر ثابت ہو
ایک عالم سے پوچھنا ہی کافی قرار دیا گیا ہے۔ دوسری طرف 2012ء میں قیامت
کیسے آ سکتی ہے کیونکہ ابھی احادیث میں قیامت کی بڑی نشانیاں جو بتائی گئی
ہیں وہ ابھی تک پوری ہی نہیں ہوئی۔
حدیث پاکؐ ہے!
’’قیامت ہر گز قائم نہ ہوگی جب تک کہ تم دس نشانیاں دیکھ نہ لو’’ پھر آپؐ
نے انہیں شمار کیا‘‘
دلھواں، دجال، دابہ (جانور)، سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، حضرت عیسیٰ کا
نزول، یاجوج ماجوج کا خروج، مشرق و مغرب اور جزرۃ العرب میں تین مقامات پر
کچھ لوگوں کا زمین میں دھنسنا، اور سب سے آخر میں یمن سے آگ نکلے گی جو
لوگوں کو میدان محشر میں ہانک لے جائے گی۔ جب تک یہ نشانیاں پوری نہیں ہو
گی تو بحیثیت مسلمان ہم اتنی دیر تک قیامت آنے پر یقین نہیں رکھتے جیسے کہ
حدیث مبارکہؐ ہے!
’’علامات (قیامت گویا) ایک ہار میں پروئی ہوئی ہیں کہ اگر اس ہار کو کاٹ
دیا جائے تو وہ (واقع ہونے میں) تاننا باندھ لیں‘‘
اِن تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ قیامت کب آئیگی
یہ ہم میں کوئی شخص بلکہ سائنس دان تک یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ قیامت کب
آئیگی اِس کا علم صرف اور صرف اﷲ رب العزت کے ہاتھ میں ہے اور نوجوانوں میں
یہ ڈر قیامت کے حوالے سے پایا جاتا ہے وہ یقیناً شرمناک ہے کہ وہ موت سے
ڈرتے ہیں حالانکہ انسان کو ایک نہ ایک دن مٹی میں ملنا ہے۔ مومن کیلئے تو
یہ دنیا قید خانہ ہے۔
میرے اِس مضمون لکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ مووی آنے کے بعد اور اب مایا
مذہب کے پیروکاروں کی پیشن گوئی کے بعد نوجوانو کا خاصہ طبقہ اِس مفروضہ پر
قائم ہو چکا ہے۔ اﷲ کرے میرے دوستو کی اِصلاح ہو جائے ہم اﷲ تعالیٰ سے ابھی
معافی مانگے نہ کہ قیامت قریب آنے کا انتظار کریں کیوں کہ موت کبھی بھی
آسکتی ہے۔ اﷲ رب العزت سے دُعا ہے کہ ہمارے گناہوں کو معاف فرمائیں ہماری
اصلاح فرمائیں پاکستان کی حفاظت فرمائیں (آمین) |