واقعہ کرب و بلا جہاں عشق و
عرفان کے انوار سے منور و تاب ناک ہے وہیںصبر واستقامت اور اعلائے کلمةالحق
کے جذبے کا مدرس بھی ہے۔امامِ عالی مقام نے حمایتِ حق اور پاس بانیِ نظامِ
مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے اپنی اور اپنے اہلِ خانہ و اقربا
کی مقدس جانوں کا نذرانہ پیش کرکے داعیان و محبانِ دین کے لیے ایک منارہ
نور بنادیاجس کی روشنی میں اہلِ اسلام اپنا دعوتی سفر ہمیشہ طے کرتے
رہیںگے۔ان کی شہادت ہمارے لیے مشعلِ راہ بھی ہے اور فروغِ حق کے ہر مشن کے
لیے رہ بر و رہ نما بھی۔
ہر دور میں اسلامی شان و شوکت،احکام و مسائل کے تحفظ و احیا اور تجدید و
اصلاح کی خاطر ربِ قدیر اپنے کچھ بندوں کومنتخب فرماتا ہے تاکہ وہ حوادثِ
کائنات سے نظامِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے چہرہ زیبا کو تغیر و
تبدل کی گرد و غبار سے محفوظ رکھ سکیں۔میدانِ کربلا میں امامِ حسین اور ان
کے اہلِ قافلہ کاشماران ہی پاک باز ہستیوں میں کیا جاسکتاہے۔اس کے بعد سے
حسینیت حق کی علامت قرار پائی اور یزیدیت کو حق کے مقابل تسلیم
کرلیاگیا۔اسی طرح حسینیت کو معیارِ حق گردانہ جانے لگااور حسینی کردار کے
حامل اصحابِ حق کو اس کا پاس بان۔
چودھویں صدی عیسوی کے نصف آخراورپندرہویں صدی کے اوائل میںمسلمانانِ عالم
جس مذہبی و سماجی، سیاسی و معاشرتی اور تحریکی کش مکش سے گزرے ہیںوہ حالات
اہلِ علم سے پوشیدہ نہیں،ہرطرف سے شعار و افکارِ اسلام پر پے درپے خارجی و
داخلی حملے ہورہے تھے اور یہ حملے عسکری نہیں بلکہ فکری اور اعتقادی
تھے۔(کیوں کہ صلیبی جنگوں میںسلطان صلاح الدین ایوبی سے شکستِ فاش کے بعد
اسلام دشمن طاقتوں نے اپنااندازِ حرب اور جنگ و قتال یک سر بدل دیا تھا۔اب
ان صلیبیوںکی کوشش ہوتی ہے کہ کس طرح مسلمان کو اپنے مذہب،اسلامی تعلیمات و
احکام اور نظرےات سے دور کرکے ان کے بدن سے روحِ محمدی نکال دی جائے)....ایسے
دور میں قومِ مسلم کی قیادت و امامت اور اسلام کی فکری و اعتقادی اور
نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لیے مشیت نے مجددِ اسلام امام احمد رضا محدث
بریلوی کے فرزندِ ارجمند مفتیِ اعظمِ عالم علامہ محمد مصطفی رضاقادری نوری
کاانتخاب کیاتھا۔جن کی بصیرت و استقامت،تقویٰ و طہارت،شجاعت و علمی جلالت
نے عرب و عجم اور مشرق و مغرب کے آفاق کو فتح کیا۔جنہوں نے اعلائے کلمةالحق
کے لیے اپنی جان و مال کی پرواہ کیے بغیر بے لوث مجاہدانہ خدمات انجام
دیں۔چاہے وہ شردھا نند کی شدھی تحریک کا طوفانِ بد تمیزی ہو،تحریکِ گاؤکشی
کی گستاخانہ مہم۔چاہے تحریکِ ہجرت کا دل فریب نعرہ ہو یا تحریکِ خلافت کی
جذباتیت۔نس بندی کی شکل میں اندرا حکومت کی شرعی معاملات میں مداخلت ہو،
ایمرجینسی کی کالی آندھی ہو یا سعودی حکومت کی ظالمانہ پالیسی ہو۔یا پھر
مسلمانوں میں پھیلنے والے بدعقیدگی کے مہلکِ ایمان جرثومے ہوںیابدعملی کی
وبا،ہرمحاظ پر حضورمفتیِ اعظم نے حسینی کردار اداکیا۔صبر و رضا اور بصیرت و
استقامت کامظاہرہ کیا،ملت کی قیادت و امامت اورصحیح رہ نمائی کا فریضہ
انجام دیا....اس تناظرمیں ہم یہ کہنے میں حق ب جانب ہیں کہ بلا شبہہ حضور
مفتیِ اعظم اپنے دور میں امام حسین رضی اللہ عنہ کے نائبِ اعظم تھے۔
حضور مفتیِ اعظم کی ذات میںنیابتِ امام عالی مقام کا ایک رخ یہ بھی ملاحظہ
کرتے چلیں کہ حضور مفتیِ اعظم اپنے دور میں مرجع العلما والمشایخ تھے،عرب و
عجم کے علما ومشایخ اور قایدین ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔چاہے وہ مسند افتا
و تدریس کے ماہرین ہوں،میدانِ سیاست و سلطنت کے شہ سوارہوں،خانقاہوں کے
اربابِ طریقت ہوں یادرس گاہوں کے اصحابِ شریعت، ہرکوئی ان کا معترف،ان کی
نگاہِ التفات کا ملتجی اور امیدوار۔ایسے عالم میں حضور مفتیِ اعظم کے فیضان
و برکات کا عجیب اور بڑا فیاضانہ انداز تھا۔جس طرف نظراُٹھاتے حسینی شراب
قادریت کے جام میںچھلک اُٹھتی،پیاسے بے خود ہوکر پیتے اور دریائے لطافت میں
غوطہ زن ہوجاتے۔جس پر نگاہ ڈال دیتے اسے یکتائے روزگار بنادیتے۔یہ ان کی
خداداد روحانیت اور تصرف کا فیضان تھا کہ ان کے دامنِ کرم سے جو بھی وابستہ
ہو ازمانے نے اسے پلکوں پر بٹھایااور نگاہوں میں بسایا۔آپ کے جانشین حضور
تاج الشریعہ فرماتے ہیں
مفتیِ اعظم کا ذرہ کیا بنا اختر رضا
محفلِ انجم میں اختر دوسرا ملتا نہیں |