مرض کی جڑتک پہنچے بغیرصرف چیخ
وپکاراپنی ناکامیوں کاغیرشعوری اعلامیہ تونہیں؟
ایک اسرائیلی نژادامریکی کی نہایت توہین آمیز اور گستاخانہ فلم INNOSENCE
OF MUSLIMSسے پوری دنیاکے مسلمان ایک بارپھرذہنی اذیتوں کی چکیوں میں پسنے
پرمجبورہوگئے ہیں۔ان کے احتجاجا ت کے طویل ترین سلسلے کے دباؤنے گستاخ فلم
سازکوجیل کی سلاخوں کے پیچھے توپہنچادیامگرایک بارپھریہ ثابت ہوگیاکہ مسلما
ن صرف اورصرف جذباتی قوم ہے ۔ہوش مندی ،سنجیدگی اورحکمت عملی کے الفاظ ا س
کی کتابوں میں مذکورہیں۔ عمل سے اس کادورکابھی واسطہ نہیں۔مسلمان شاید خوش
فہمی میں ہیں کہ مردو د گستاخ گرفتارہوچکاہے اورکئی ممالک نے مذکورہ فلم
پرروک لگادی ہے مگرکیاآئندہ کے لیے بھی ا س طرح کی فلموں پرروک لگ چکی
ہے؟بلاشبہہ محمدعربی صلی اﷲ علیہ وسلم سے مسلمانوں کارشتہ ہی کچھ ایساہے کہ
وہ ان کی شان میں ایک رائی کے دانے کے برابربھی توہین برداشت نہیں کرسکتے
مگرا س کاحل جذبات اورنعرے بازی نہیں ہے ۔مرض کی جڑتک پہنچے بغیرصرف جذبات
اورمطالبات کے سہارے نہ کبھی مسائل حل ہوئے ہیں اور نہ ہوسکتے ہیں۔
توہین رسالت کی ا س دردناک مہم کے خلاف محسوس ہواکہ ہماری قیادت بھی
گہرائی،سنجیدگی اورٹھوس عملی اقدام کے بجائے روایتی نعرے بازی اوربیان بازی
کی عادی ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق اب تک ہمارے کسی سیاسی اورمذہبی لیڈر
کا کوئی ایسابیان سامنے نہیں آیاجومسلمانوں کے لیے قابلِ عمل بھی
ہواورمؤثرومستحکم بھی۔اردواخبارات میں جوکالم اورمقالات شائع ہوئے ،ان میں
سے کسی میں بھی مسلم امہ کے لیے کوئی قابلِ قدر مشورہ اورتجویزپڑھنے کو
نہیں ملی۔(الاماشاء اﷲ)وہی روایتی باتیں جنہیں برسو ں سے سنتے سنتے سماعت
بھی اکتاچکی ہے ،اس حساس مسئلے پرکہی جارہی ہیں مثلاً’’یہ یہودیوں اور
عیسائیوں کی سازش ہے‘‘ ،’’اسرائیل اورامریکہ مسلما ن اور اسلام کو بدنام
کرناچاہتے ہیں‘‘ ،’’توہینِ رسالت بڑابدترین جرم ہے‘‘ ، ’’اسلام
اورپیغمبراسلام صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف یہ مذموم حرکتیں کبھی بھی کامیاب
نہیں ہوں گی‘‘،’’مجرم کوا س کے کیے کی سزاضرورملے گی‘‘،’’اظہارراے کی آزادی
کااسلام دشمن ناجائز فائدہ اٹھارہے ہیں‘‘۔وغیرہ وغیرہ۔
آپ یہ تحریریں اٹھاکردیکھ لیجیے ،لب لباب یہی ہوگا۔ مسلمانوں کواس سلسلے
میں کیااقدامات کرناچاہیے اورامکانات کا جائزہ لے کرکس طرح کی منصوبہ بندی
کرنی چاہیے کہ اس طرح کی حرکتوں پرہمیشہ کے لیے روک لگ جائے ۔اس طرح کی
عملی باتوں سے بالعموم یہ تحریریں یکسرخالی نظر آتی ہیں ۔
ان میں سے کچھ مقالہ نگارتووہ ہیں جنہیں اخبارمیں چھپنے کابہت شوق ہے ،بعض
وہ ہیں جواپنی لیڈری چمکانے کی غرض سے قلم سے دودوہاتھ کرتے ہیں ،کچھ وہ
بھی جنہیں مغرب کی ہربات میں کیڑے نکالنے کے سوااورکوئی کام ہی نہیں،بعض وہ
ہیں جن کے خیالات اپنے نہیں ہوتے۔یہ لوگ دو چار اردوکے اخبارسامنے رکھتے
ہیں اورانہیں پڑھ کرالفاظ کواپنے اظہارکی زبان عطا کردیتے ہیں ۔یہ سمجھے
بغیرکہ اصل حقائق کیاہیں اور مسلمانوں کو اس حساس مسئلے میں کیاحکمت عملی
اپنانی چاہیے ۔ان میں کچھ حضرات واقعی پڑھے لکھے ہیں لیکن جب وہ بھی وہی
راگ الاپتے ہیں توان کے اندرکا’’مفکر‘‘سامنے آکھڑاہوتاہے ۔ جو مسلمانوں کے
قائدکہے جاتے ہیں ان کاغیرذمے دارانہ رویہ تواوربھی افسوس ناک اورمایوس کن
ہوتاہے۔ وہ معلوم نہیں کیوں ان مواقع پرخامو ش رہتے ہیں یا اگرکچھ بولتے
بھی ہیں تووہ علاقائی سطح سے آگے نہیں بڑھ پاتا۔ مسلمانوں میں بہت سارے
فرقے ہیں۔ اگرہرفرقے اورہر جماعت کے قائدین ایسے نازک مسائل پراپنے متبعین
کی صحیح رہ نما ئی کردیاکریں تب بھی بہت حدتک مسائل حل ہو جائیں۔
یہ اہانت آمیز حرکتیں آج سے نہیں ،عہدرسالت ہی سے مختلف صورتوں میں ہوتی
چلی آرہی ہے اور مستقبل میں اور بھی بھیا نک شکل میں جاری رہیں گی ۔ہمارے
احتجاجات اور مظاہرو ں سے اس میں وقتی طورپرتوکچھ روک لگ سکتی ہے مگرہمیشہ
کے لیے ظالموں کاہاتھ نہیں روکاجاسکتا ۔
سوال یہ ہے کہ پھر مسلمانوں کیا کرناچاہیے ؟واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں
کوجوکرناچاہیے، نہیں کرتے ۔بدقسمتی سے ہماری سوسائٹی میں مفت کے مشورے دینے
والوں کی بہتات ہے جو کرتے توکچھ نہیں خالی مشورے دیتے پھرتے ہیں ۔وہ عمل
سے دورہیں اورعمل ان سے دور۔ہمارے احتجاجات،مظاہروں، جارحیت، تشدد،قتل
وغارت گری اور توڑ پھوڑ کا نتیجہ توضرور نکلتا ہے مگروقتی اورجزوی ،کلی
اوردائمی نہیں ۔ا س سے ہماری طاقت ختم ہوتی ہے ،وقت بربادہوتاہے اورہماری
بھیانک تصویردنیاکے سامنے پیش کی جاتی ہے جیسا کہ اب تک یہی ہوتاآیاہے جن
سے ہر بار اسلام دشمن ہماری آبادیوں کو برباد کرنے کے لیے ایک نیا جوازتلا
ش کر لیتے ہیں۔اگرہوش مندی سے کام نہ لیاگیاتویقین کیجیے مستقبل میں بھی
یہی اورزیادہ خطرناک اندازمیں ہونے والا ہے ۔مدعایہ نہیں کہ احتجاج نہ ہو۔
احتجاج ضرورکیجیے مگرجوش کے ساتھ ہوش مت کھوئیے ۔
مسلمان عام طورپراس طرح کے مسائل میں سوچتے ہیں کہ ہم احتجاج کے سوااورکرہی
کیاسکتے ہیں ۔یہ سوچنابالکل غلط اور ہماری کمزوری اورکاہلی کاغیرشعوری
اعلامیہ ہے ۔مسلمان ا س کے علاوہ بھی بہت کچھ کرسکتے ہیں جوان وقتی
احتجاجوں اور مظاہرو ں سے ہزارگنازیادہ طاقت ورہے اور دراصل یہی ا س طرح کی
حرکتوں کاصحیح توڑاورجواب بھی ہے ۔ کبھی سوچاکہ ہمارے ارد گرد نہ جانے کتنے
افرادایسے ہیں جودن کی روشنی میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے مبارک اقوال
کی خلاف ورزی کرتے ہیں؟کتنے ہیں جوسیرتِ نبوی کی صحیح معلومات رکھتے
ہیں؟کتنے فی صدایسے ہیں جنہوں نے سیرتِ رسول پرمشتمل چندکتابیں پڑھی
ہیں؟میں عوام کی نہیں خواص کی بات کر رہاہوں بلکہ ۷۰؍فی صدمولوی ، حافظ اور
مسجدوں کے امامو ں کی بات کررہا ہوں جورسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت
کادم توخوب بھر تے ہیں ،ببانگ دہل دعوے اورنعرے بلندکرتے ہیں مگرکیاانہیں
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ سے صحیح آشنائی ہے ؟ میلادشریف کی
محفلوں میں نعتِ پاک سنادینااورنبی رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حوالے سے چند
موٹی موٹی باتیں بتادینااوربات ہے لیکن ان کے بارے میں صحیح ، مستند،حقیقی
اورواقعی معلومات رکھنا دوسری بات ہے ۔اپنے حقیقی رہبروقائدکی سیرت سے
کماحقہ آشنائی کیا ہمارے فرائض میں شامل نہیں؟عوام میں کتنے فی صدایسے لوگ
ہیں جواپنے نبی کے مولدومسکن کے متعلق صحیح معلومات رکھتے ہیں اورکتنوں
کوان کاصحیح سنہ ولادت ووصال معلوم ہے؟
دل پرہاتھ رکھ کرایک با ت اورسن لیجیے ۔دنیابھرمیں توہین رسالت کاجوسلسلہ
چلتاآ رہاہے اس کی کڑی ہم ہی سے ملتی ہے ۔جی ہاں ،چوکیے مت ! اس کے ذمے دار
ہمارے دشمن نہیں ہم ہی ہیں ،کوئی اورنہیں صرف ہم۔ یادرکھیے کہ باطل کاکام
ہے جھوٹ عام کرنا،پروپیگنڈہ کرنا،توہین کرنا،اضطراب برپاکرنا، امن وامان
میں خلل اندازی کرنا۔وہ تو اپنے کام میں مخلص ہیں مگرکیاہم بھی اپنے کاموں
میں مخلص ہیں ؟ وہ اپنے تئیں اپنے مذہب کی ترویج کررہے ہیں ۔ یہودی یہودیت
کافروغ کررہے ہیں، عیسائی عیسائیت عیسائیت کے استحکام کے لیے جی جان سے لگے
ہوئے ہیں، ہمارے ہندوستان کے قوم پرست ہندواپنے مذہب کی نشوو نما کے لیے
ہاتھ پیرماررہے ہیں ۔ دنیا میں کسی بھی مذہب کے ماننے والے ایسے نہیں ملیں
گے جواپنامذہب پھیلانے میں کوشاں نہ ہوں۔مگرہم اپنے ضمیرکی گہرائیوں میں
جھانک کربتائیں کہ کیاہم چاہتے ہیں کہ ہمارے دین کی اشاعت ہو؟ آپ کہیں گے
کہ کیسی بات کہہ رہے ہو؟کون مسلمان نہیں چاہتاکہ اس کے دین کافروغ ہو ۔
جناب عالی!چاہنے سے کچھ نہیں ہوتابلکہ کرنے سے ہوتاہے ۔ہم نے اپنے دین کی
اشاعت کے لیے کیا کیا ہے؟ہم نے کتنو ں کو دین کی دعوت دی ہے ؟ہمارے پڑو س
میں ،محلے میں، شہر میں ، حلقۂ احباب میں ،حلقۂ تجارت میں اور حلقۂ معاملات
میں نہ جانے کتنے غیرمسلم ہوں گے مگر کیا کبھی ہم نے انہیں حضورصلی اﷲ علیہ
وسلم کاایک پیغام بھی پہنچایا ہے ؟انہیں سیرتِ نبوی کے کسی ایک پہلوسے بھی
روشناس کرانے کی کوشش کی ہے ؟
بارہ ربیع الاول جس دن سرورِکونین کی ولادت ہوئی ہے ، ہرسال آتاہے
اورچلاجاتاہے ۔ غیرمسلموں تک پیغام سیرت پہنچانے کایہ بڑا سنہراموقع ہوتاہے
مگریہ حسین موقع بھی ہماری کسل مندیوں اورمحرومیوں کی نذرہوجاتاہے ۔جلوسِ
میلادالنبی میں سیاسی اور مذہبی لیڈر دونوں زیادہ تراپنی ’’لیڈری ‘‘چمکانے
کی کوشش میں لگے رہتے ہیں مگرجس نبی کے ہم امتی ہے اورجس کی یاد میں یہ
جلوس نکالاجاتاہے ،ان کے علوے مرتبت کے بھر پور اظہار کی کوئی فکرنہیں ہوتی۔
توہینِ رسالت کی ان ناقابلِ برداشت اورمذموم حرکتوں کے جواب میں ہم آپ کرتے
کیا ہیں؟وہی احتجاج ، مظاہرے، مطالبے،توڑپھوڑاوربس ؟اس کے سواا ور کچھ نہیں۔
اس پہلوپر غورکیوں نہیں کرتے کہ جارحیت ،تشدد،قتل وغارت گری اورتوڑ
پھوڑہمیں توایک ذرہ برابربھی فائدہ نہیں پہنچتابلکہ ہم ان حرکتوں سے
مخالفین کوہی فائدہ پہنچادیتے ہیں جو فلمیں، کارٹون،خاکے وغیرہ بناتے ہی اس
لیے ہیں کہ اسلام اور پیغمبر اسلام کوغیرامن پسندثابت کیاجاسکے ۔ہمارے
ردِعمل سے انہیں کی کوششوں کو تقویت پہنچتی ہے۔
اتنی بات توآپ جانتے ہی ہوں گے کہ چورکاکام چوری کرناہے۔ وہ مالک کوجیسے ہی
بے پرواہ دیکھے گانقب زنی کی کوشش ضرورکرے گا۔اب یہ مالک کی ذمے داری ہے کہ
جہاں چاروں طرف چوروں،ڈاکوؤں اوراچکوں کابول بالاہووہاں ہر دم
ہوشیاراورالرٹ رہے۔کیااحتجاج اورمظاہرے کرلیناہی ہماری ہوشیاری اوربے داری
کی دلیل ہے اوراسی کانام عشقِ رسول ہے؟ ۔ ہم غافل ہیں ا س لیے ہم پرحملہ
ہورہاہے ۔ہمارے ایمانی کاشانے خالی پڑے ہیں اس لیے ا س میں نقب لگایا جا
رہا ہے ۔ذراسوچیں کہ کیااس کی حفاظت چیخنے چلانے سے ہو جائے گی ؟اس کو ایک
محسوس مثال سے یوں سمجھئے کہ آ پ کے گھر یاقریبی مکان میں اگرکوئی چوری
کرتاہے توآپ آس پاس کے لوگوں کوچیخ وپکارمچا کر بیدار کردیتے ہیں جس سے
چوربھاگ جاتاہے لیکن اگرآپ ہمیشہ شور مچائیں گے تولوگ کب تک آپ کے تعاون کے
لیے آگے آئیں گے ۔دوسروں کے بازؤں کاسہارالینے کے بجائے اپنے بازؤں میں دم
خم پیداکرلیجیے اوراپنے گھرکی حفاظت کاسامان کرلیجیے تاکہ دوبارہ چوری نہ
ہواوراگرہوبھی جائے توآپ اپنی طاقت کے زورپرچورکاکس بل نکال کررکھ دیں۔یہ
ایک عملی مثال ہے۔ ہر عقل مندآدمی یہی کرتاہے اوریہی کرنابھی چاہیے ۔ہم آپ
سب اپنے نجی معاملات میں یہی کرتے ہیں مگر عظمت ِ رسالت کی باری آتی ہے
توہم دوسروں سے تعاون کی بھیک کیوں مانگتے ہیں ؟احتجاج کرکے اپنے مطالبات
کی فہرست حکومت کے سامنے کیوں پیش کرتے ہیں ؟دنیاکی دیگر اقوام کویہ
تاثردینے کی کوشش کیو ں کرتے ہیں کہ ہمارے نبی کی توہین کی گئی ہے لہٰذاا س
کے خلاف آوازبلندکی جائے؟کیاآپ کو امیدہے کہ حکومت آپ کی آوازپرلبیک کہے
گی۔اب تک پچاسیوں مسائل پرلاکھوں احتجاج کیے گئے مگرنتیجہ کیا برآمد ہوا
؟آپ کی با ت مانی گئی ؟اگروقتی طورپرکچھ روک لگ بھی گئی توکچھ دن کے
بعدکوئی دوسرااس سے بھی زیادہ خطرناک منصوبہ سامنے آگیا۔ توہینِ رسالت
پرمبنی ا س فلم کے سلسلے میں بھی یہی ہواکہ ہزاروں احتجاجات کے دباؤمیں
آکرگستاخ فلم سازکی گرفتاری توکرلی گئی ہے ۔مگریہ سب دکھاواہے۔ وہ اب کی
بار اور زیادہ طاقت سے حملہ آورہوں گے اورمسلمان پھراحتجاج کرنے پرمجبورہوں
گے۔
کرنے کاکام یہ ہے کہ ہم خودحفاظتی تدابیراپنائیں اور ایساپلان تیارکریں کہ
یہ ڈکیتیاں کم ہوتے ہوتے یکسرختم ہو جائیں۔ا س کے لیے پانچ، دس سال نہیں کم
از کم ایک نسل کی عمر یعنی پچیس تیس سال پچاس سال کاوقت درکارہوگا۔یہی سب
سے مضبوط قدم ہے اورسب سے مؤثربھی ۔یقین جان لیجیے کہ اس کے علاوہ اور کچھ
نہیں۔ہم سب یہ عہدکریں کہ ہمارے پیارے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان میں جب
جب اورجتنی زیادہ گستاخیاں کی جائیں گی ہم سب اتناہی اپنے عشقِ نبی کو لَو
کو بڑھا ئیں گے ۔اپنے نبی کے پیغامات کوعام کریں گے ۔ہم اپنے بچوں کورسول
اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کادیوانہ بنائیں گے ۔ان کی گھٹی میں عشق رسول کاجام
انڈیل دیں گے تاکہ یہ نشہ کبھی اترنہ سکے ۔ لیکن یہاں صورتِ حال برعکس ہے ۔
ہمارے بچے انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھتے ہیں اورمستزادیہ کہ ہم ا س
پرفخرکرتے ہیں ۔ یہ بچے کانوینٹ اسکولوں میں پڑھنے کے بعددنیادارتوبن جاتے
ہیں ، دنیاکماتے ہیں ،الحادیت سے اپنے پاؤں آلودہ کرتے ہیں مگررسول اﷲ صلی
اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات سے دورہوتے ہیں ۔ یہ بچے اپنے نبی کے بارے میں
بنیادی باتیں بھی نہیں بتاسکتے ۔ سوچنے کی بات ہے کہ ہم اپنے نبی کی اہمیت
کواپنے گھروں میں نہیں منواپارہے ہیں تودنیاوالوں سے کیو ں توقع رکھتے ہیں
۔
دراصل غلطی عوام کی نہیں خواص کی ہے ۔عوام توبے چارے کالانعام ہوتے ہیں ان
کے قائدین انہیں جس طرف ہنکالے جاتے ہیں یہ بے چارے اسی طرف چل پڑتے ہیں ۔
مسلمانوں کے پا س مساجداﷲ کی طرف سے ایک ایساانعام ہیں کہ دنیاکے بڑ ے سے
بڑے میڈیائی ادارے بھی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔مستقبل میں ٹکنالوجی چاہے
کتنی بھی آگے بڑھ جائے لیکن جوکام ان مساجدسے جمعوں کے خطبو ں میں
لیاجاسکتاہے وہ کروڑوں طاقت ور ترین میڈیائی آلات سے بھی نہیں لیا جا سکتا
۔ مسجدوں کے زیادہ ترائمہ اپنے عوام یعنی مقتدیوں کی دینی وفکری تربیت صحیح
ڈھنگ سے کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔اسی توہینِ رسالت کے مسئلے کو لے لیجیے
۔کوئی واضح، مؤثر،مــضبوط اورقابل قدرتجویزیہاں سے نشرنہ ہوسکی ۔رائے عامہ
کوہمو ار کرنے میں یہ ائمہ اگرکمرہمت کس لیں تووہ سب ہوجائے جو اسلام
کومطلوب ہے ۔مسلمانوں کے ہرطرح کے مسائل میں یہی سب سے اثردار اور طاقت
ورکام کرسکتے ہیں ۔ائمہ جمعے کے خطبوں میں یہ کیوں نہیں بتاتے کہ رونے
دھونے،امریکہ اوراسرائیل کوگالیاں دینے، چیخنے چلانے اوراپنی بے بسی
اورمظلومی جومنظرعام پرلانے سے نہ کبھی کچھ ہواہے اورنہ کبھی ہوگا۔ائمۂ
مساجدعوام کی ذہنی تربیت اس ڈھنگ سے کریں کہ وہ وقتی ہنگاموں کے بجائے
نسبتاً زیادہ نفع بخش چیزوں کی طرف متوجہ ہوں۔ یہی ہر مسئلے کاحل ہے ۔
بلاشبہہ یہ درست ہے کہ مسلمان بڑی جذباتی قوم ہے مگر اس جذباتیت کی
ڈورانہیں ائمۂ مساجداورعلماکے ہاتھ میں ہے ۔ یہ عوام ہرگزکوئی سطحی کام
نہیں کرسکتے ۔یہ قائدین ان سے جوچاہے کرواسکتے ہیں مگرشایدفکری زرخیزی کی
کمی ہے یاعدم دل چسپی یابے حسی۔اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ اب تک مسلم مسائل
پر ہزاروں بارصرف مظاہرے ہوئے ہیں جس کانتیجہ کچھ نہیں نکلا اور مسلمانوں
کے زخم برابررستے رہے ۔اگرکوئی ایسامنظم پلان اورعملی تجویزمسجدوں کی طرف
سے نشر کی جاتی توشایداحتجاجات سے زیادہ ہم کوئی عملی،مؤثراورتعمیری کام
کرتے۔
ایک ایسی فضاتیارکی جائے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت سے
گھرگھرمنورہو۔خصوصاًغیروں کوسیرت نبوی پرمشتمل کتابچے پڑھنے کے لیے دیے
جائیں تاکہ اسلام اورپیغمبراسلام کے حوالے سے کوئی بھی غلط فہمی ان کے دل
میں جگہ نہ بناسکے ۔ اگرہم واقعتا توہینِ رسالت کے اس مذموم سلسلے
کوبندکرانے کے لیے مخلص ہیں تونئی نسل کی فکری تطہیر ازحد ضروری ہے۔ان کے
دل ودماغ کاسانچہ ایسا تیار کردیا جائے کہ گمراہیت والحادیت کابڑاسے
بڑاطوفان بھی اس میں ہلکی سی خراش بھی نہ پیدا کرسکے ۔ الحادیت اور گمراہیت
کاطوفان جس تیزی سے ہمارے گھروں میں داخل ہورہاہے اس سے خطرہ ہے کہ
خدانخواستہ ہمارے گھروں ہی میں کوئی گستاخِ رسول پیدانہ ہوجائے۔ہماری قوم
کے ۹۰؍فی صد بچے کالجوں اورکانوینٹ اسکولو ں میں پروان چڑھ رہے ہیں۔ان سب
کادین وایمان خطرے میں ہے۔ہم توہینِ رسالت کے خلاف چیخ وپکار ضرور مچا رہے
ہیں مگرہمارے گھروں میں اپنوں سے ہی آگ لگ رہی ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ
ہردورمیں ہمیں غیروں سے زیادہ اپنوں سے نقصان پہنچا ہے ۔ ہمارے معاشر ے میں
ایک نہیں ہزاروں لوگ ہیں جوشعوری یا غیرشعوری طورپرتوہین رسالت کے سنگین
جرم کے مرتکب ہیں ۔ توہینِ رسالت پرمبنی کتابیں آج بھی مارکیٹ میں دستیاب
ہیں ۔ ان پر آج تک کوئی پابندی نہیں لگائی جا سکی۔ہم اپنے گھرکو چھوڑ کر
باہرکی خرافاتوں پرشورمچارہے ہیں۔ غیروں کی گستاخی توگستاخی مگراپنوں کی
گستاخی ،گستاخی نہیں ؟ ۔
توہینِ رسالت کی اس مہم کے خلاف تقریباً سارے مقالہ نگاروں اورکالم نگاروں
نے مضطرب مسلمانو ں کوبس ایک ہی رائے دی ہے کہ مغربی مصنوعات کابائیکاٹ
کیاجائے تاکہ ان کی معیشت پر کاری ضرب لگے اوروہ اس طرح کی حرکتوں سے باز
آئیں ۔ اس طرح کے اعلانات سے اتفاق بہت مشکل ہے۔ آپ سنجیدگی سے سوچیے کہ
دنیابھرمیں مسلمانوں کی تعدادتقریباً ایک ارب ہے۔عیسائی سب سے زیادہ ہیں
پھرہمارا نمبر آتا ہے اوراس کے بعددیگراقوام ہیں۔اگرہم مغربی مصنوعات
خریدنا بند کردیں تو کیا دیگر قومیں بھی ہماراساتھ دیں گی؟اورکیا ہمارے پا
س ان مصنوعات کاکوئی متبادل ہے ؟اس سوال کے جواب میں ہم میں سے بہت سارے
لوگ فوراً کہہ دیں گے (کیوں کہ مشورہ دینا اورعمل نہ کرناہماری خصلت بن چکی
ہے )کہ ان چیزوں کی فیکٹری کھول لی جائے تولازماً مسلمان ہماری بنائی ہوئی
چیزیں خریدیں گے۔یہ تجویزکامیاب ہوسکتی ہے مگرکیاہم اپنے اندراتنی سکت
رکھتے ہیں؟ہم آپ اس عملی تجربے سے روزانہ گزرتے ہیں کہ اگرہم کوئی کام کرنے
لگیں تو سب سے پہلے مخالفت کی آواز ہمارے ہی خیمے سے بلندہوتی ہے ۔ہماری
قوم میں غداروں کی ایک کثیر تعداد موجودہے جوچندٹکڑوں کے عوض اپنا ضمیر تو
گروی رکھتے ہی ہیں پوری قوم کوان کے آگے جھکاناچاہتے ہیں ۔مسلم ممالک کے
حکمراں خودامریکی اوراسرائیلی نظریات کے غلام ہیں ۔ مصنوعات کے بائیکاٹ کا
اعلان تومیں اپنے بچپن سے سنتاچلا آرہا ہوں مگر اس سے کیافرق پڑا۔ ؟یہ
مشورہ بالکل غیرعملی ہے۔ اس پرعمل مشکل ترین ہے۔
ہم ان کی بنائی ہوئی چیزیں خریدنانہیں چاہتے مگر خریدتے ہیں ہم ان کے قائم
کیے ہوئے تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو پڑھانا نہیں چاہتے مگرپڑھارہے ہیں
۔آج تک کسی قائدکی زبانی یہ نہیں سناگیاکہ مسلمان اپنے بچوں سے کانوینٹ
اسکولوں سے اٹھوالیں کہ وہاں بچے اپنے دین اوراپنی تہذیب سے برگشتہ ہوتے جا
رہے ہیں ۔حالانکہ مغربی مصنوعا ت کابائیکاٹ اتناضروری نہیں جتناان اداروں
کابائیکاٹ کہ یہ ہماری بچو ں کوہم سے چھین رہے ہیں اوراﷲ ورسول سے دورکررہے
ہیں ۔جس مقرر اور مضمون نگارکو دیکھوتو یہ مشورہ ا س کی زنبیل سے سب سے
پہلے با ہر آتاہے ۔(معذرت کے ساتھ) کیا مشورہ دینے والے بھی اس عمل میں
مخلص ہیں؟۔ ہزارو ں احتجاجات میں مغربی مصنوعات کے بائیکاٹ کااعلان ہوا مگر
کبھی ان پرعمل ہوا؟۔ مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان اسی وقت کارگرہوگاجب ہم
ان غداروں کوچن چن باہرنکالیں اور انہیں کیفرکردارتک پہنچائیں ۔ اس کام کے
لیے ہیرے کاجگرچاہیے اس لیے فی الحال اسے اٹھا رکھیے۔
اعلانا ت سے کچھ نہیں ہوتا،خیالی دنیاسے باہرآئیے اور حقائق سے آنکھیں
چارکیجیے۔ اورپھردوسری چیز یہ کہ آپ کن کن چیزوں کابائیکاٹ کریں گے۔ دوچار
چیزیں ہوں توبات سمجھ میں آتی ہے مگرجس معاشرے کوبیسیوں چیزوں کوخریدنے پر
مجبور کردیا گیا ہو وہاں کیاآپ صحیح معنو ں میں زندگی گزارپائیں گے ؟ ایسا
کوئی کام کیو ں کرتے ہیں کہ دنیابھرمیں ہمارا مضحکہ اڑایا جاتا ہے؟ ۔
ہمارے بچے جوعصری ادارو ں اورکانوینٹ اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔اﷲ
ایسادن کبھی نہ دکھائے مغربی قومیں انہیں میں سے کسی کو خرید کر ہمارے رسول
اورہمارے مذہب کی توہین کرنے پرآمادہ کریں ۔تاریخ میں اس کی درجنوں مثالیں
موجودہیں ۔ا س کے امکان کاانکارآسانی سے مت کیجیے ۔ہم ناکام ہیں اورناکام
رہیں گے جب تک کہ مرض کی جڑتک نہ پہنچ جائیں ۔ ا س کاحل گورنمنٹ کے پا س
نہیں ہمارے ہی پا س ہیں ۔ بس ضرورت ہے ضمیرکوبیدارکرنے کی اورارادوں کوعمل
سے جوڑنے کی ۔نعرے بازی اتنی کیجیے جتنی ا س کی ضرور ت ہے اوروہ بھی
سنجیدگی اورہوش مندی کے ساتھ اورکسی تخریب کاری کے بغیر کہ تخریب کاری کسی
بھی مسئلے کا حل نہیں بلکہ اس سے ایک اورمسئلہ پیدا ہوجاتاہے۔
ہم چاروں طرف سے گھرے ہوئے ہیں ایسی صورت میں ہمارے پا س صرف ایک ہی راستہ
ہے ۔آپ ان کے علاوہ ہزاروں دیگرراستے اپنائیں گے کبھی فلاح نہیں پائیں گے
اوروہ راستہ ہے دعوت دین کا۔یہ تہیہ کرلیجیے کہ دین سمجھیں گے دین سمجھائیں
گے ۔سیرتِ نبوی خودپڑھیں گے اوردوسروں خصوصاً غیرمسلمو ں کواس کی دعوت بھی
دیں گے ۔ انہیں اسلام کی طرف راغب کرنے کایہ طریقہ نہیں کہ ہم ان کے محلوں
میں جلسے کریں اوراب پراسلام مسلط کرنے کی کوشش کریں جیساکہ آج کے بعض
داعیوں کی روش ہے ۔اس میں سراسرنقصان ہی ہوتاہے ۔پہلے انہیں اپنے اخلاق
وکردارسے متاثرکریں پھرپیغمبراسلام صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ ا وران
کی تعلیمات سے ان کے دلوں کی زمین نرم کریں ۔ اگر وہ اسلام کے قریب نہیں
بھی ہوں گے تب بھی اسلام اورمسلمانوں کے تعلق سے ان کے رویے میں نرمی
ضرورآجائے گی ۔آئیے یہ تجربہ کرکے دیکھیں ۔ ہمارادین ،دینِ دعوت ہے۔ جب تک
دعوت کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے توہین رسالت پرمبنی خاکے ،فلمیں
،کارٹون،لٹریچر اورنہ جانے کیا کیا منظرعام پرآتارہے گا۔
دعوتِ دین ہی سے منسلک دوسرااہم ترین کام اعلی معیار کے اپنے اسکولو ں
اورکالجوں کاقیام ہے جہاں تعلیم ایسی ہوکہ طلبہ قابلیت میں دوسروں سے کسی
بھی طرح پیچھے نہ ہوں اورجب دین کی بات آئے توپختہ مسلمان نظرآئیں ۔وہ سچے
عاشق رسول ہوں اورسچے محب وطن ۔اگرہم نے یہ کام کرلیا تویقین جانیے جوکام
آپ کئی دہائیوں سے نہیں کرواپارہے ہیں وہ چندبرسوں میں خود بخود ہوجائے
گایعنی اس کے لیے پوری ایک نسل کے تیارہونے کا انتظارکرناہوگا۔اتنی بات
توجان لیجیے کہ یہ کام آپ کوابھی نہیں توبعدمیں کرنا ہی ہوگا۔ابھی بہت سے
لوگوں کواس کی افادیت سمجھ میں نہیں آرہی ہے لیکن جب چاروں طرف سے راستے
بند ہو جائیں گے توہمیں مجبوراً اس طرف متوجہ ہو نا پڑے گا۔تویہ کام ابھی
کیوں نہیں کرلیاجاتا؟۔جب ہماری نسل ہمارے ہاتھوں سے نکل جائے گی اوربزرگوں
کی تعلیمات سے عملاً برگشتہ ہوجائے گی تب ہمیں ہوش آئے گا؟ہماراالمیہ یہ ہے
کہ جب پانی سرسے اونچاہوجاتاہے تب ہمیں اپنے تحفظ کی فکرہوتی ہے۔بڑے دردسے
اس بات کاپھراعادہ کیاجارہاہے کہ ا س کے سوا ہمارے پاس اورکوئی راستہ ہے ہی
نہیں ۔ایک دعوتِ دین اوردوسرانسلِ نوکی فکری تطہیروتشکیل۔ باطل نے توہینِ
رسالت کی لکیربنائی ہے آؤہم سب مل کرعظمتِ رسالت کی ایسی لکیربنائیں جوباطل
کی اس منحوس لکیرکومٹادے اورا س کا رنگ پھرکبھی ابھرنہ سکے۔ کیا آپ اس کے
لیے تیارہیں؟ |