پریس کلب سیاست اور صح آفت

او ہو بھائی کیا حال ہے بہت دن بعد آپ سے ملاقات ہوئی یار آپ تو کسی کا پوچھتے ہی نہیں اپنے ووٹ میں مجھے یاد رکھنا انشاء اللہ آپ کیلئے بہت کچھ کرونگا یہ وہ باتیں ہیں جو گذشتہ دنوںپریس کلب کے انتخابات کے موقع پر راقم سمیت بہت سارے صحافیوں کو پریس کلب میں داخلے کے موقع پر سننے کو ملی پورے سال میں صرف ایک ہی دن ہے جس دن ممبران کو وی آئی پی سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کے ہاتھ میں ووٹ ہوتا ہے جسے امیدوار اپنے حق میں لینے کیلئے بہت ساری ایسی باتیں بھی کرتا ہے جو وہ عام حالات میں نہیں کرتا اور یہی ایک دن ہوتا ہے جس میں تمام صحافیوں کو ملنے کا موقع بھی ملتا ہے اور اس دن بڑا کھانا بھی ہوتا ہے اور ہر صحافی پریس کلب کے انتخابات والے دن اپنے آپ کو وی آئی پی سمجھتا ہے جبکہ راقم کی طرح خشاکیان سمجھنے والے بہت سارے صحافیوں کو عزت مل جاتی ہیں جس کا عام دنوں میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا- صحافی عام لوگوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی معلومات رکھتے ہیں جس کی بنیادی وجہ اپنے شعبے سے وابستگی اور حالات حاضرہ پر نظر رکھنا ہے اسی باعث ملک میں سیاسی فضاء میں صحافی عام لوگوں سمیت سیاستدانوں پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں کہکمی کمینوں کے پاس عقل نام کی کوئی چیز نہیں اور ہر دفعہ ایسے لوگوں کو منتخب کرتے ہیں جن سے انہیں کچھ نہیں ملتا اور سیاستدان ایسے ہیں کہ انتخابات والے دن لوگوں کے گلی محلوں میں نظر آتے ہیں اس بارے میں کارٹون بھی چھپتے ہیں جس میں سیاستدانوں کو لتاڑا جاتا ہے لیکن اپنے انتخابات کے موقع پر ان کی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں انہیں اپنا غلط بھی نظر نہیں آتا اور بہت ساری ایسے کام ہوتے ہیں جنہیں بیان بھی نہیں کیا جاسکتا اس صورتحال کا اندازہ راقم کو انتخابات والے دن امیدوار وں حامیوں اور ووٹروں کے مابین جھگڑے سے ہوا جو گالی گلوچ یہاں پر دیکھنے کو ملااس سے اندازہ ہوا کہ اپنے آپ کو آسمان پر سمجھنے والے صحافی بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں - باہر سے صاف نظر آنے والے صحافی کتنی گل افشانی کرتے ہیں اس کا اندازہ اگر کسی نے کرنا ہے تو وہ پریس کلب آکر دیکھ لے -

پریس کلب صحافیوں کیلئے گھر اور ایک ادارے کی حیثیت رکھتا ہے یہ واحد جگہ ہے جہاں پر مختلف النوع شعبوں سے تعلق رکھنے والے صحافی ایک دوسرے کیساتھ بیٹھ کر گپ شپ لگاتیہیں اور مختلف خبروں کا تبادلہ بھی کرتے ہیں جبکہ عام لوگ اور سیاسی ورکرز اپنے خبروں کی اشاعت کو یقینی بنانے کیلئے پریس کلب میں پروگرام کرتے ہیں جس سے جہاں ان کی خبریں بہتر اور تمام اخبارات میں چھپ جاتی ہیں وہیں پر صحافیوں کو بھی اپنے گھر پر خبریں مل جاتی ہیں تاہم اس کیلئے مخصوص صحافی ہوا کرتے ہیں جو باقاعدگی سے پریس کلب میں آتے ہیں اور مختلف پروگراموں کی کوریج کرتے ہیں جبکہ دیگر شعبوں میں کام کرنے والے صحافی یہاں آکر انٹرنیٹ کی سہولت سمیت دوستوں سے رابطوں اور دوپہر کے کھانے کیلئے بھی اسے استعمال کرتے ہیں لیکن کچھ لوگ اسے اپنے منفی مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں - بات ہورہی تھی پریس کلب کے انتخابات کی جس طرح کے منفی پروپیگنڈے سیاستدان اپنے مخالفین پر کرتے ہیں اسی طرح کے ڈرامے پریس کلب کے انتخابات کے دوران دیکھنے کو ملتی ہیں ایک دوسرے کیساتھ ہر مشکل میں کام آنے والے صحافی کیسے اپنے ساتھیوں کے پیٹ میں چھرا گھونپتے ہیںووٹروں کو اپنی جانب راغب کرنے کیلئے ایسی ایسی باتیں سننے کو مل جاتی ہیں جس سے بہت سارے صحافیوں کی ماضی کا بھی پتہ چلتا ہے افسوسناک امر یہ ہے کہ انتخابات والے دن مختلف امیدوار اور ان کے ساتھی دست و گریباں بھی ہو جاتے ہیںجس کے اثرات بعد میں نکلتے ہیں - ان اثرات میں مخالف گروپ سے تعلق رکھنے والے ممبران صحافیوں پر تربیتی پروگراموں میں مواقع نہ دینا سمیت مستحق صحافیوں سالانہ گرانٹس میں مشکلات پید ا کرنا اور بعض اوقات ساتھیوں کو بیروزگار کرنے کی کوششیں بھی شامل ہیں جس کی وجہ سے بہت سارے صحافی براہ راست کسی سے کھل کر بات بھی نہیں کرسکتے کیونکہ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ اگر ان دنوں میں کسی سے رابطہ کرلیا تو پھر مستقبل میں مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں-

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جس طرح ہمارے دیگر شعبے استعمال ہوئے وہیں اسی کی وجہ سے بہت سارے اداروں کی توجہ خشاکیانو)میرا مطلب صحافیوں( کی طرف بھی مبذول ہوگئی ہیں اسی باعث بہت سارے این جی اوز نے پروپوزل بھیج کر خشاکیانو کے نام پر فنڈز بھی حاصل کرلئے ہیں کہ خشاکیانو کی تربیت ضروری ہے اسی کی آڑ میں بہت سارے منظور نظر لوگ ٹرینرز بن گئے ہیں جو ملک کے مختلف حصوں میں خشاکیانو کو تربیت دے رہے ہیں عجیب ڈرامہ یہ ہے کہ ایسے ایسے لوگ ٹریننگ دے رہے ہیں جو کسی زمانے میں سیاسی لوگوں کے پی آر او زبنے ہوئے تھے اور یہ سلسلہ پورے پاکستان میں جاری ہے سب سے اذیت ناک چیز یہ ہے کہ تربیت لینے والے بھی مخصوص صحافی ہی ہوتے ہیں یعنی جو پریس کلب میں روزانہ آکر "صاحب جی" سلام کرتے ہیں اور یہ وہی صحافی ہی ہیں جنہیں صحافیوں کی سیکورٹی کی ٹریننگ سے لیکر کمپیوٹر ٹریننگ تک کیلئے منتخب کیا جاتا ہے راقم نے ایسے صحافی بھی ٹریننگ میں دیکھے ہیں جنہیں کمپیوٹر کھولنا بھی نہیں آتا لیکن انہیں کمپیوٹر سیکورٹی کے ٹریننگ میں بٹھا دیا جاتا ہے کیوں کہ وہ مخصوص لوگوں کے رشتہ دار ساتھی یا پریس کلب کے انتخابات میں سپورٹ کرنے والے ہوتے ہیں یا پھر ایسے لوگ تربیت لیتے ہیں جنہیں تیل لگانے میں ملکہ حاصل ہوتا ہے`تربیت لینے والے صحافی فیلڈ میں بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں -جس طرح شعبہ سیاست نے ملک کا بیڑہ غرق کیا ہے اسی طرح ہمارے شعبے میں ہونیوالے سیاست نے صحافیوں کی آپس کے رشتے دوستیاں ختم کردی ہیں مخصوص صحافی اپنے سیاسی مذہبی نظریات ہر جگہ پر تھونپتے نظر آتے ہیں اور انہیں سپورٹ بھی مخصوص لوگ ہی کرتے ہیں جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ جیلسی )حسد( تو ہر ایک شعبے میں زیادہ ہے لیکن اپنے صحافت میں جتنی جیلسی اور منافقت ہیںوہ کہیں پر بھی نہیں -

جس طرح شعبہ سیاست میں ووٹ لینے کے بعد کمی کمینوں کی اوقات ختم ہوجاتی ہیں اور انہیں پانچ سال کیلئے پوچھا نہیں جاتا اسی طرح پریس کلب کے انتخابی عمل پورا ہونے کے بعد صحافی ایک سال کیلئے کمی کمینوں سے بدتر ہوجاتے ہیںاور ان کی اوقات نہیں رہتی لیکن اگر ہمارے صحافی عوام کو تلقین و نصیحت کے بجائے اپنے آپ کو ٹھیک کرتے ہوئے صحافت سے سیاست کو دور کریں اور تعلق برادری کے بجائے میرٹ پر ووٹ دیں اور انتخابی عمل پر سیاست نہ کرے تو یقینا راقمسمیت بہت سارے خشاکیانو کی حالت بہتر ہوسکے گی اور ان کے کام بھی میرٹ پر ہونگے ساتھ میں صحافیوں کی تعلقات خراب نہیں ہونگے خصوصا انتخابات کے دنوں سے لیکر عام دنوں تک -
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 498124 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More