اصلیت

تحریر : سرفراز احمد

میرا نام بے راہ روی ہے ۔ صبح سے شام اور رات تک گھومنا پھرنا میرا کام ہے ۔ اس کا مطلب آوارہ گردی ہرگز نہیں بلکہ اس ساری مشقت کا مقصد رزق حلال کا حصول ہے ۔ کیونکہ مجھے اپنے کل کی بہت فکر ہے ۔ ایک ویل فرنیشڈ گھر ، بچوں کے لیے اعلی سکول ، بیوی کے لیے قیمتی زیورات اور من چاہے کھانے میرے خواب ہیں ۔ ان خوابوں اور آسائشوں کے لیے حصول کے لیے میں بہت زیادہ مصروف رہتا ہوں ۔ گھر کے لیے وقت چاہیے بہت کم نکلے لیکن اپنے فرائض بخوبی انجام دیتا ہوں ۔ بوڑھے والدین سے کبھی کبھی سلام دعا ہو جاتی ہے ۔ بچوں کے ساتھ بھی ایک آدھ ویک اینڈ گزارنے کا موقع مل جاتا ہے ۔ بیوی کے ساتھ تو اکثر فون پر بات چیت ہوتی رہتی ہے ۔ کبھی وقت ملے تو نماز جمعہ بھی ادا کر لیتا ہوں ۔ لیکن نماز عیدیں ادا کرنا کبھی نہیں بھولا ۔میری جاب کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ اکثر دوسرے شہروں میں آنا جانا لگا رہتا ہے ۔ ایک دفعہ گرمیوں کے دن تھے اور حبس بھی زیادہ تھی ۔ میں اپنا کام کاج نپٹا کے گھر لوٹ رہا تھا کہ اس دن اتفاقاً کام سے جلد فارغ ہوگیا ۔ شام کا وقت تھا کہ اچانک گاڑی خراب ہوگئی ۔ ڈرائیور سے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ گاڑی ٹھیک ہونے میں آدھے سے ایک گھنٹہ لگ جائے گا ۔ ادھر ادھر دیکھا تو پاس ہی کچھ کھیت دکھائی دیئے ۔ میں وقت گزاری کے لیے کھیتوں میں گھس گیا ۔ سامنے دیکھا تو قطار در قطار گوبھی کے پھول لگے ہوئے تھے ۔ سفید مائل گوبھی سبزلحاف میں لپٹی مسکرا رہی تھی ۔ اس کی مسکراہٹ میں سچائی اور سادگی تھی ۔ اتنی سچائی اور سادگی دیکھ کر میں بھی مسکرائے بغیر نہ رہ سکا ۔ گوبھی نے میر ے مسکرانے کی وجہ پوچھی تو میں بھی اس کی مسکراہٹ کی تعریف کر ڈالی ۔ اس نے جوابا ً کہا کہ میری مسکراہٹ قدرتی اور اصلی ہے ۔ اس میں زر ہ بھر بھی ملاوٹ نہیں اور نہ ہی یہ کسی بالی وڈ کی ایکٹریس کی طرز کی ہے ۔ جو تم لوگوں کو Attractivکرنے کے لیے مسکرانے کی سخت محنت کرتی ہیں ۔ مصنوعی پن تو تم لوگوں میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے ۔ میرے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا ۔ میں اٹھا اور ایک پگڈنڈی پر چلنے لگا ۔ اس راستے پر چلنے کا مجھے کوئی خاص تجربہ نہیں تھا ۔ کیونکہ میں ہموار راستوں پر چلنے کا عادی ہوں ۔ اچانک میرا پاﺅں پھسلا اور میں زمین پر گر گیا میں کھڑا ہونے ہی لگا تھا کہ تم سے آج کی نہیں بلکہ کروڑوں برس کی ہے تمھارے باپ آدم بھی میری ہی مٹی سے بنائے گئے تھے ۔ اپنے مضبوط گھروں میں تم نے مجھے پکے فرشوں کے نیچے دبا دیا ہے ۔ اور تمھارے دل بھی ان فرشوں کی طرح سخت ہوگئے ہیں جب تمھارے ہاتھوں سے بنا ہوا شاندار گھر تمھیں جگہ دینے سے قاصر ہوگا تو میں ہی تمھیں اپنے اندر جگہ دوں گی ۔ یہ تندوتیز لہجہ مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا تھا ۔ میں اٹھا اور تھوڑا آگے کو نکل آیا ۔ سامنے مجھے ایک گھنا درخت دکھائی دیا ۔ سوچا کہ تھوری دیر کے لیے Relaxeہو جاﺅں کیونکہ پچھلی ساری باتیں میرے دماغ میں گونج رہی تھیں ۔ میں تھورا نروس بھی تھا ۔ میری اس حالت کو دیکھ کر درخت نے کہا کہ آجاﺅ میری چھاﺅں کے نیچے یہ بالکل فری ہے ۔ایسا تمھارے شہروں میں ہوتا ہے کہ ہر چیز کی قیمت اداکرنی پڑتی ہے ۔ تم لوگ سخت مادہ پرستی کاشکا ہو ۔ میں گرمیوں میں چھاﺅں اور بار ش میں چھتر ی ہوں ۔ دن بھر کے تھکے ہارے پرندے شام کو میرے ہی آشیانے پر ڈیرہ ڈالتے ہیں ۔ شام کے وقت لوگ میرے گر د ہیں اکٹھے ہوتے ہیں ۔ اور اپنا دکھ سکھ ایک دوسرے سے شیئر کرتے ہیں ۔ میں کئی داستانوں کا اکیلا گواہ ہوں ۔ لوگوں کے سینکڑوں راز میرے اندر دفن ہیں ۔ میں نے ادھر سے نکلنے میںہی عافیت جانی اور گندم کی فصل کی طرف متوجہ ہوا ۔ گندم بھی شاید اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی ۔ مجھے دیکھتے ہی بولی کہ اپنے ساتھیوں سے بولو کہ مجھ پر اتنے زہریلے سپرے نہ کیا کریں بلکہ پہلے اس زہر کو ختم کرو جو تمھارے اندر ایک دوسرے کےلئے بھرا ہے جیسے تم فرقوں ، ذاتوں اور مختلف حیثیتوں میں بٹ گئے ہو ۔ اس طرح تم نے میرے بھی سوجی میدہ کے نام پر حصے کر دیئے ہیں اور پھر اس کو خالص کا نام دیے کر فروخت کرتے ہوئے ۔ ایسا کرنے سے تمھارے چہرے کی قدرتی چمک کتنی ماند پر گئی ہے ۔ اور اس پر اینجگ کے اثرات وقت سے پہلے آنا شروع ہو گئے ہیں ۔ اتنی دیر میں مجھے ڈرائیور کی آواز آئی کہ گاڑی ٹھیک ہوگئی ہے ۔ میں لمبے لمبے قدم بھرتا ہوا وہاںسے نکلا اور گاڑی میں سوار ہو کے گھبرا گیا ۔ مغرب کا وقت تھا کافی عرصہ کے بعد ازان کی آواز بڑی بھلی معلوم ہوئی اور میری اصلیت کی طرف یہ بلاوا مجھے مسجد کی طرف کھینچ کر لے گیا ۔ میں نے نماز ادا کی اور گھر واپس آیا تو ماں باپ کی طرف دیکھا وہ کافی ضعیف دکھائی دیئے بچے مجھے اس وقت گھر دیکھ کر کافی حیران تھے اور میں کافی دیر تک یہ سوچتا رہا کہ کیا میری یہ تمام تگ ودو ان کے لیے ہی ہے ۔ حسن سے مجھے ملنے کی فرصت نہیں ۔
Pasha Mughal
About the Author: Pasha Mughal Read More Articles by Pasha Mughal: 3 Articles with 2555 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.