آنے والے نئے سال 2013ءکو اپنے
لئے ایک چیلنج سمجھ کر لیں ، حوصلے اور ہمت کے ساتھ نئے سال کا آغاز کریں ،
جو کام آپ نے پچھلے سال نہیں کئے یا نہیں کر سکے ان کو اب ترتیب وار پورا
کرنے کی جستجو میں منحمک ہو جائیں، ویسے تو آجکل انسانی زندگی واقعتاً بہت
مصروف ہے تو کیوں نہ اس مصروف زندگی میں خود کو ہر وقت اور ہر دم دنیا کے
ساتھ قدم ملاکر چلنا اپنا مقصدِ حیات بنا لیا جائے تاکہ آپ کی کامیابی کا
سفر جاری رہے۔ لیکن ایسا سفر بھی ہو جس سے ہماری اسلامی زندگی میں بھی
سدھار پیدا ہو سکے۔
اللہ رب العزت سورہ ملک میں ارشاد فرماتے ہیں کہ، مفہوم: ” وہی اللہ جس نے
موت و حیات عطا کی ہے تاکہ تمہارا امتحان لے کر دیکھیں کہ تم میں کون اچھے
اعمال کرتاہے“ اس مفہوم سے یہ معلوم ہوا کہ رب العزت نے دنیا کو انسانوں
کیلئے ایک امتحان گاہ بنایا ہے اور عمرِ رواں کے غیر متعین چند سال دے کر
دنیا میں بھیجا ہے تاکہ وہ اس مختصر مدت میں اچھے اور نیک اعمال کرکے اپنے
امتحان میں کامیابی حاصل کرے، لیکن کتنے افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ
انسانوں نے اس امتحان گاہ کو تفریح گاہ بنا لیا ہے ۔
ہونا تو یہ چاہیئے کہ نئے سال میں اپنے ارد گرد کے بدحال لوگوں کو وقت دیں،
گزرے سال میں اگر آپ کی مصروفیت کی وجہ سے اپنے پیاروں سے ملاقات نہیں ہوئی
یا اپنے کسی دوست احباب کو وقت نہیں دے پائے تو اس سال میں آپ ان کو بھی
اپنی فرصت میں جگہ دیں تاکہ انسانیت اور رشتوں سے نزدیک ہو جائیں، اس طرح
سے آپ یقینا خوش و خرم اور مطمئن زندگی گزار پائیں گے۔ جن رشتوں ناتوں اور
دوست احباب کو پچھلے سال آپ غم و غصے کی نظر کر چکے ہیں ان سب کو صلح کے
دائرے میں لانے کی سعی کریں کچھ نہیں تو کم از کم اس سے آپ کے مَن کا بوجھ
ضرور کم ہو جائے گا۔ رشتوں کے اس بکھرے موتی کو سمیٹ لیں اور اس گتھی کو
سلجھائیں کیونکہ یہ آپ کی اوّلین ذمہ داریوں میں سے ہے۔
مگر آج ہم سب غیرمذہب لوگوں کی راہ سے جُڑ چکے ہیں ،نئے سال کا آغاز ہوتے
ہی ہم خوشی میں رقص و سرور، فرحت و انبساط ، شراب و شباب کی محفلیں سجا
لیتے ہیں، ساحلِ سمندر پر بے پایاں رقص و ہلڑ بازی کا مظاہرہ کرتے
ہیں،موسیقی کی تال پر کاروں، جیپوں کی چھتوں پر چڑھ کر دیوانہ وار رقص کرتے
ہیں، موٹر سائیکلوں کے سائلنسر نکال کر شاہراہوں پر ون ولنگ کرتے نظر آتے
ہیں ، اور جو کچھ پردے کے پیچھے کرتے ہیں راقم کے خیال میں تو اسے پردے کے
پیچھے ہی رہنے دیں تو بہتر ہے، عمر کے گھٹنے کو عمر کی درازی سمجھتے ہیں،
کیونکہ جب نیا سال آئے تو بندے کو سمجھنا چاہیئے کہ اس کی عمر کا ایک سال
کم ہوگیا ہے بلکہ یوں کہہ لیں کہ ایک سال قبر کے قریب پہنچ گیا ہے ، جیسے
جیسے اس کے زندگی کے ایّام گذر رہے ہیں ویسے ویسے وہ قبر کے قریب پہنچ رہا
ہے، مگر ہم لوگ یہ سب کچھ بھول کر نئے سال کو اپنی عمر کا اضافہ سمجھتے
ہوئے بے پایاں محفلوں میں شرکت کو خوش نصیبی سمجھ لیتے ہیں۔جبکہ ہمارا مذہب
اس بات کی قطعی اجازت نہیں دیتا اور ویسے بھی ہمارا نیا سال تو شروع ہو چکا
ہے اس موقعے پر تو ہم لوگوں نے شاید ہی اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت میں
وقت لگایا ہو، اسے رازی کرنے کی کوشش کی ہو، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے
بتائے ہوئے راستے کی طرف یا ان کے بتائے ہوئے اصولوں کی طرف گامزن ہونے کی
کوشش کی ہو، کاش ! کہ ایسا ہو جائے تو ہم سب کی زندگی سنور جائے۔ کاش! کہ
ہم سب یک زبان ہوکر اللہ رب العزت سے توبہ مانگ لیں تو شاید ہماری بخشش ہو
جائے کیونکہ ابھی توبہ کا دروازہ بند نہیں ہوا۔
ہماری یہی تمام خامیاں تو ہیں جس کی وجہ سے ہم سب اللہ کے عتاب میں آئے
ہوئے ہیں، ڈینگی مچھر، نگلیریا وائرس، جعلی دوائیاں ، بجلی کی لوڈ شیڈنگ،
پانی کی کمی، گیس کی کمی، اور سب سے بڑھ کر موبائل سگنلز کی لوڈ شیڈنگ، اگر
غور کیا جائے تو یہ سب اللہ کا عذاب ہی تو ہے جو ہم سب پر نازل ہے۔ اور اس
سے بھی بڑھ کر نفرتیں، ٹارگٹ کلنگ، فرقہ بندی، مرنے والے کو نہیں معلوم کہ
وہ کیوں مارا جا رہا ہے اور مارنے والے کو یہ نہیں پتہ کہ وہ کیوں مار رہا
ہے، یہ سب بھی عذابوں کے زمرے میں شمار ہونگے۔ نئے سال میں، میں آپ کو کیا
ان سب عوامل کی مبارک باد دوں، ہاں مبارک باد کا لفظ تب سجے گا جب ہم سب
نئے سال میں ان تمام برائیوں کے خاتمے کا سدِّباب کرنے کی ٹھان لیں، ان
برائیوں سے جان چھڑاتے ہوئے اپنے نامہ اعمال میں ثوابوں کا ذخیرہ جمع کرنے
کی ٹھان لیں ۔
مگر ہم تو غرق رہتے ہیں مختلف ٹی وی چینلز پر رقص و سرور کی نیم عریاں
پروگرام دیکھنے میں، نئے سال کی آمد پر کیک کاٹنے میں، اور بے ہودہ ، حیا
سوز مرد و زن کی مخلوط محفلیں سجانے میں، کہا ںکا طریقہ اور کہاں........
؟یہ بات بڑے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ پورے سال اتنی برائی نہیں ہوتی جتنی
برائی ہم اس ایک رات میں کر لیتے ہیں اور وہ بھی کس لئے بس تھوڑی سی لذتِ
نفس اور نفسانی خواہشات کی تکمیل کیلئے ، ہم سب کو یہ تمام لغو یات کے بارے
میں بہت سوچنا ہوگا تاکہ آئندہ ان گناہوں سے بچا جا سکے۔
یہ سب خرافات مغربی تہذیب کا حصہ ہیں مگر ہمارے مسلم نوجوان بھی اس مغربی
تہذیب و تمدن سے اتنا متاثر ہیں کہ اس فعلِ گناہ میں برابری کی بنیاد پر
شریک ہوتے ہیں، ہمارا دین تو ہمیں بے حیائی کے کاموں سے روکتا ہے ، کیونکہ
حیا تو ایمان کا جزو ہے ، جس میںحیا نہیں ان میں ایمانی حرارت نہیں ۔ اس بے
ہودہ مغربی تہذیب نے آج ہم سب کو حیوان سے بدتر کر دیا ہے، لوگ اُفقِ عرب
سے طلوع ہونے والے ستارے کو چھوڑ کر مغربی ستاروں کے دلدادہ ہو گئے ہیں۔
وقت کا تقاضا ہے کہ ہم سب غیروں کے طریقے کو چھوڑ کر اسلامی تہذیب سے ناتا
جوڑ لیں۔اس نئے سال میں کچھ نیا سیکھنے کی کوشش کریں ، اپنی بہتری اور
بھلائی کہ لئے جو نیا کام کریں اس امید کے ساتھ شروعات کریں کہ اللہ ہمارے
ساتھ ہے تو ہی کامیابی حاصل کر سکیں گے، علم بڑی دولت ہوتی ہے ، علم حاصل
کریں دنیاوی بھی اور ساتھ ہی ساتھ دینی بھی تاکہ آپ ہر اچھے اور برے
معاملات کو سمجھنے کی صلاحیت پا سکیں۔حبیب جالب صاحب نے کیا خوب کہا ہے کہ:
خدا کا نام کوئی لے تو چونک اٹھتے ہیں
ملے ہیں ہم کو وہ رہبر خدا کے رستے میں
ابھی وہ منزلِ فکر و نظر نہیں آئی
ہے آدمی ابھی جرم و سزا کے رستے میں
خدائے بزرگ و برتر نے جو ہمیں زندگی کے تین درجے دیئے ہیں یعنی بچپن، جوانی
اور پڑھاپا، روزِ محشر ان میں سب سے زیادہ جوانی کے بارے میں ہی سوالات کئے
جا سکتے ہیں اس کی بایں وجہ تو یہی ہو سکتی ہے کہ اکثر لوگ جوانی میں اپنے
ڈگر سے ہٹ جاتے ہیں ، اور گناہوں کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں،ویسے بھی جوانی
قدرت کا عظیم نعمت اور قیمتی سرمایہ ¿ حیات ہوتا ہے ، بچپن گذر جائے تو
جوانی میں قدم رکھا جاتا ہے اور پھر بڑھاپا اور ہر دور میں کسی نہ کسی وجہ
سے یہی خواہش ابھرتا ہے کہ کاش میرا وہ دور واپس آ جاتا ، مگر ایسا ممکن
نہیں ہوتاکیونکہ گزرا ہواپل اور گزری ہوئی عمر کا حصہ کبھی واپس نہیں آتا
اسی لئے یہ سوچنا ضروری ہے کہ جوانی جیسی قیمتی دولت کو کن کاموں میں صَرف
کیا جائے، اللہ رب العزت کو جوانی کا ایک سجدہ بڑھاپے کے ستر سجدوں سے
زیادہ افضل ہے، آج کل ہمارے نوجوان مسجد کی زینت بننے کی بجائے بے ہودگی
اور دیگر عوامل کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیںاور اللہ کے غضب کو للکار رہے
ہیں، خدارا اپنے آپ پر رحم کریں اور اللہ کے بتائے ہوئے رستے پر چل کر اپنا
آخرت سنواریں۔
چلیئے آپ ہی کی بات کو آگے بڑھاتے ہیں کہ سالِ نو کا آغاز ہونے کو ہے تو ہم
سب اس یقین کے ساتھ آگے بڑھیں کہ نماز قائم کیا جائے، اللہ کی رسی کو
مضبوطی سے تھام لیا جائے، قرآن شریف کو جُلدانوں سے نکال کر اس کی تلاوت کو
اپنا وطیرہ بنا لیا جائے، اپنے بچوں کو دین کی تعلیم سے سرفراز کیا جائے،
اپنے گھر کو اسلام کا گہوراہ بنایا جائے ، صفائی کو نصف ایمان بنایا جائے،
اپنے اندر کے فرعون کو نکال باہر پھینکا جائے تاکہ ہم سب اللہ کے قریب ہو
جائیں، سادگی، سلیقے کو اپنایا جائے، ان سب کاموں کو کرنے سے یقینا ہم سب
ذہنی سکون حاصل کر سکتے ہیں، تفکرات سے آزادی پا سکتے ہیں، اور جب یہ سب
کچھ ہماری زندگی میں شامل ہو جائے گا تو ہماری زندگی میں جلترنگ بج اُٹھیں
گے ۔ اللہ آپ سب کا حامی و ناثر ہو۔
(فطرتاً کہے دیتا ہوں کہ آپ سب کو مغرب کا نیا سال مبارک ہو۔) |