تاریخ ِ عالم شاہدہے کہ
دنیامیںجتنی بھی بلندپایہ ہستیاں گزری ہیں‘اُن کے مقام ومرتبہ کی
ابتداءوانتہاءسرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے غیرمشروط وبستگی‘آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سچی غلامی اور بے انتہاءمحبت وعقیدت ہی ہے۔ایسی
کئی عظیم ہستیاں ہیں کہ جن کا نام سُن کر ہی حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم سے محبت وعقیدت کے جذبات اُبھر آتے ہیں ۔مگرصحابہ ءکرام رضوان
اللہ علیہم اجمعین کے بعدعشق ومحبت اورادبِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
میں جومقام حضورغوث الاعظم شاہ سیدعبدالقادرجیلانیؒ،حضرت مولاناعبدالرحمان
جامیؒ،حضرت مولانا رومیؒ،حضرت شرف الدین بوصیریؒ،حضرت شیخ سعدی شیرازی،
حضرت خواجہ حسن بصریؒ،حضرت نعمان بن ثابت المعروف امامِ اعظم ابو
حنیفہؒ،ؒحضرت امام محمداحمد غزالیؒ،حضرت سیدعلی ہجویری المعروف داتاگنج
بخشؒ،حضرت پیرسیدمہرعلی شاہؒ،حضرت مجددالف ثانیؒ،حضرت علامہ محمداقبال ؒ
اور حضرت امام احمدرضاخان بریلوی قادری رحمة اللہ علیہم اجمعین کو حاصل ہے
اس کی کوئی مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔ حضورسرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی محبت کے بحرِبیکراںسے فیضیاب ہونے والے غلامانِ رسول کا کوئی
شمارنہیں لیکن کچھ ایسی ہستیاں ہیں کہ جن کی پہچان ہی عشق و محبتِ رسول صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ان ہی میں سے ایک ،امام ِ عاشقاں، مجددِدین و
ملت،چشمہ ءِ علم وحکمت،عاشقِ صادق الشاہ امام احمدرضاخاں بریلوی قادری ؒ کی
ذات ِگرامی ہے کہ جن کا نام آتے ہی عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کالاحقہ دل ودماغ پر چھاجاتاہے۔
اعلیٰ حضرت ؒ کی ہرہراداسنت مصطفی اورآپؒکی پوری زندگی عشق رسول صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم سے عبارت ہے ۔ آپ ؒ کی زندگی کاہراک پہلو ایک زخیم کتاب
کامتقاضی ہے اورآپؒ کی زندگی پر جتنابھی لکھاجائے کم ہے ۔اعلیٰ حضرتؒکے
ادنیٰ معتقدکی حیثیت سے آپؒ کے عرس مقدس 25صفرالمظفرکے موقع پرراقم الحروف
آپ ؒ کی زندگی کے چند پہلوﺅں کو اختصارسے پیش کررہاہے۔اعلیٰ حضرت امام
احمدرضاخانؒ کو اللہ رب العزت نے بے انتہاذہانت وفطانت سے نوازاتھا۔آپ ؒ
اپنے علمی فضل وکمال کی بناءپر محض 15سال کی عمرمیں مسندِفتاویٰ پر فائز
کردئے گئے تھے۔آپؒ بچپن سے ہی ملنسار،خوش خلق اورحلیم الطبع تھے۔آپ ؒ نے کم
وبیش 50علوم پردسترس حاصل کی ۔جن میں بطورخاص علم حدیث،علم فلکیات،علم
ریاضی،علم الاعداد،علم فقہ،علم نحو،علم فلسفہ،علم منطق،علم طب،علم
سائنس،علم الکلام اور دیگر علوم شامل ہیں۔آپ کی ایک کرامت یہ ہے کہ آپؒ کو
لوگ وضع قطع سے حافظ جی کہہ کر پکارتے تھے۔آپ کو یہ شاک گزراکہ لوگ آپؒ کو
حافظ قرآن کہتے اور سمجھتے ہیں، مگر آپ ؒ نے قرآن کریم حفظ نہیں کیا۔اسی
جستجومیں قرآنِ کریم حفظ کرناشروع کردیا۔روزانہ ایک سپارہ حفظ کرتے اوررات
کو نمازِ تراویح میںسنادیتے۔اس طرح ایک ماہ کے قلیل عرصے میں پوراقرآنِ
کریم حفظ کرلیا۔آپ ؒ کے خلفاءاورشاگردوں میں مولاناشاہ احمدنورانیؒ کے
والدگرامی مرحوم ومغفورحضرت شاہ عبدالحلیم صدیقی ؒ،مفسرِقرآن حضرت
مولانانعیم الدین مرادآبادیؒ اورپیرصاحب کچھوچھویؒ سمیت ہزاروں علماءومشائخ
عظام شامل ہیں‘جنہوںنے آل انڈیاسنی کانفرنس بنارس میں منعقدکرکے سب سے پہلے
نظریہ پاکستان کی ابتداءکی۔اعلیٰ حضرت ؒ نے 1919ءاور1920ءمیں انگریزوںاور
ہندﺅوںکے خلاف علی الاعلان فتویٰ صادرفرمایااور مسلمانوں کی واشگاف اندازسے
راہنمائی کرتے ہوئے فرمایاکہ انگریزاور ہندومسلمانوں کے دوست نہیں
ہوسکتے۔مسلمانوں کو جذبہ ءعشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سرشارہوکر
ان دونوں سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کرنی ہوگی۔اس تبلیغ کا یہ اثر ہوا
کہ آل انڈیامسلم لیگ مظبوط ہوناشروع ہو گئی۔حضرت قائداعظم محمدعلی جناح ؒ
اور حضرت علامہ محمداقبال ؒ بھی اعلیٰ حضرت کی اس تحریک کے معترف ہوئے۔جب
حضرت علامہ محمداقبال ؒ نے پاکستان کا خاکہ پیش کیا اور حضرت قائداعظمؒ نے
مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کی تحریک چلائی تو سب سے پہلے اعلیٰ حضرتؒ کے
متوسلین ومعتقدین ،خلفاءاور صاحبزادگان نے آل انڈیاسنی کانفرنس کے پلیٹ
فارم سے اس کی کھل کر حمائت کی اور قیام پاکستان کو ممکن بنانے میں ہراول
دستے کاکرداراداکیا۔حالانکہ اُ س وقت بعض لوگوں نے قائداعظم پر کفرکے فتوے
لگائے اور برملاءکہاکہ ”پاکستان تو دورکی بات ہے، کسی ماں نے ایسابیٹانہیں
جنا ،جوپاکستان کی ”پ“بھی بناسکے۔مگرآپ ؒ کے عقیدت مندوں اور مسلمانوں کی
غالب اکثریت نے پاکستان کاخواب شرمندہ تعبیرکرکے دکھایا۔
اعلیٰ حضرت ؒکی جذبہ ءعشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میںڈوب کر لکھی
ہوئی نعتیں آج سوسال سے زائدعرصہ گذرنے کے باوجود زبان زدعام ہیں۔”سب سے
اولیٰ واعلیٰ ہمارانبی ،صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں
سلام “جیسے کلام آج بھی مسجدومحراب سے گونجتے عشق و محبت وادب ِ مصطفی صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشبو بکھیررہے ہیں۔اس کے علاوہ آپؒ نے محبت رسول
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ڈوب کر ایک ہزارسے زائد کتب تصنیف فرمائیں۔آپ
کا ترجمہ قرآن ”کنزلاایمان “حقیقی معنوں میں دین وایمان کی سلامتی کی کنجی
ہے اس ترجمہ قرآن نے پوری دنیامیں ادب ومحبتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے حوالے سے جو شہرت پائی‘ اپنی مثال آپ ہے۔آپ کاترجمہ قرآن عشق رسالت
مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاص پہچان عطاکرتاہے۔آپ کانعتیہ کلام
”حدائق بخشش“ وہ مجموعہ کلام ہے جس کو پڑھ کر ایک سچاغلام ِ مصطفےٰ
بلامبالغہ نعت کی صوررت میںقرآن پڑھتاہوادکھائی دیتاہے۔فرماتے ہیں
عرشِ حق ہے مسندِرفعت رسول اللہ کی
دیکھنی ہے حشرمیں عزت رسول اللہ کی
اے رضاخودصاحبِ قرآن ہے مداحِ حضور
تجھ سے کب ممکن ہے پھرمِدحت رسول اللہ کی
ایک اورمقام پر فرماتے ہیں،
وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا،وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی ،جان ہے تو جہان ہے
آپ ؒ نے محبت وعشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ڈوب کر نعتیں
لکھیں،آپؒ کا مزارپرانوار بریلی شریف انڈیامیں آج بھی مرجع خلائق ہے۔آپ ؒ
کے فیض ِعشق رسول سے تاقیامت تشنگانِ عشق رسول اپنی محبت کی پیاس
بھجاکرہدائت پاتے رہیں گے۔
ڈال دی قلب میں عظمت ِ مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سیِدی اعلیٰ حضرت ؒپہ لاکھوں سلام |