پاک بھارت کرکٹ تعلقات

قومی کرکٹ ٹیم نے بھارت کو اسی کی سرزمین پر شکست دے کر قوم کو نئے سال کا تحفہ پیش کیا ہے۔دورہ بھارت کے دوران پوری قومی ٹیم مخالف ٹیم پر چھائی رہی ۔ اس طرح اس نے بھارت سے فتح چھین کر لاکھوں کروڑوں ہندوستانیوں کے دلوں پرانہی کے دیس میں اپنی دھاک بٹھا دی۔جیت کے اس تحفے نے پوری قوم کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر دی ۔ پورے ملک میں جشن کا سماں بندھ گیا۔ لوگ جیت کے نشے میں سڑکوں پر نکل آئے اور خوشی سے پاکستان زندہ باد اور پاکستان کرکٹ ٹیم زندہ باد کے نعرے بلند کرتے نظر آئے۔ 2008ءمیں ممبئی حملوں کے بعدپاکستان ٹیم کا یہ پہلا دورہ بھارت تھا۔

بھارت نے ممبئی حملوں کے فوراََ بعد پاکستان سے کرکٹ تعلقات منقطع کرلئے تھے۔ بہت سے تجزیہ نگاراس بات پر متفق ہیں کہ ممبئی دھماکے تو محض بہانہ تھے، اصل میں انڈین پریمیئر لیگ کو چلانے اور پاکستان کو بین الاقوامی کرکٹ سے دور رکھنے کے لئے یہ بھارت کی ایک چال تھی جس پر وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوا۔ بھارتی لابی نے صرف اپنی ٹیم کے تعلقات ہی منقطع نہیں کرائے تھے بلکہ اس نے سری لنکا اور بنگلہ دیش کی ٹیموں کو بھی پاکستان نہ بھیجنے پر وہاں کے حلقوں کو آمادہ کیااور اس کے لئے بیک ڈور راستہ اپنایا گیا۔ بعض تجزیہ نگار تو یہاں تک کہتے ہیں کہ 2009ءمیں لاہور میں سری لنکا ٹیم پر ہونے والے حملے کے پیچھے بھی بھارتی طاقتیں کارفرما تھیں۔یہ حقیقت اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ انڈین پریمیئر لیگ کی جڑیں بھارت کی انڈر ورلڈ تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اس سے ایک طرف بھارتی انڈسٹری کے بہت سے نامور نام جڑے ہیں تو دوسری طرف عالمی کھلاڑیوں، میڈیا، فلمی صنعت اور غیرملکیوں کی بڑی بڑی شخصیات اس سے وابستہ ہیں۔ ان کے لئے آئی پی ایل سونے کی چڑیا سے کم نہیں۔ یہی وجہ ہے کے دنیائے کرکٹ کے بہت سے نامورکھلاڑی اتنی کرکٹ اپنی قومی ٹیم کے ساتھ نہیں کھیلتے جتنی بھارت میں آئی پی ایل کے لئے کھیل رہے ہیں۔ آئی پی ایل کے مفادات کی پوٹلی بہت سے ممالک کے کرکٹ بورڈز کو بھی پہنچتی ہے ۔ اس طرح آئی پی ایل سے جڑے کھلاڑیوں کا بس چلے تو وہ تمام ممالک سے انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنا چھوڑ دیں اور صرف ورلڈ کپ تک محدود ہوجائیں مگر اپنی ٹیم سے وابستگی ان کی مجبوری ہے۔ لہٰذا وہ مختلف ممالک کے دوروں کے دوران اپنی ٹیم سے جدا ہونے کا رسک نہیں لیتے لیکن جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو سیکورٹی ایشو کے نام پر وہ یہاں کے دورے سے جان چھڑانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سی ٹیمیں پاکستان کے طے شدہ دورے سے مکر گئیں ۔حتیٰ کے ورلڈ کپ کے میچز بھی منعقد نہ ہوسکے۔اس حوالے سے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی بدنیتی بھی واضح ہوکر سامنے آئی ۔

چلیں یہ تو پاکستان کی سرزمین پر میچ کھیلنے کا معاملہ ہے، بھارت مختلف بہانوں سے پاکستان کی میزبانی کرنے میں بھی ہچکچاہٹ کا شکار رہا۔ اس التواءکے پیچھے بھارتی بورڈ کے علاوہ حکومتی ہاتھ بھی پایا جاتا رہا۔ اس کی بڑی وجہ ہوم گراﺅنڈ میں پاکستان کے خلاف شکست کا ڈر اور خوف تھا۔ بھارتی تماشائی جنون کی حد تک کرکٹ سے وابستہ ہیں مگر شکست ان کے لئے ناقابل برداشت رہی ہے۔ اس حوالے سے وہ کافی شدت پسند واقع ہوئے ہیں۔ پوری دنیا اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ جب بھارتی ٹیم اپنے ہوم کراﺅڈ اور ہوم گراﺅنڈ میں شکست سے دوچار ہونے کے قریب ہوتی ہے تو اکثر میچ پایہ تکمیل تک پہنچنے سے پہلے ہی بدنظمی کی نذر ہوجاتے ہیں اور یہ بدنظمی اس حد تک پھیلتی ہے کہ گراﺅنڈ سے باہر بھی توڑ پھوڑ بلکہ فسادات شروع ہوجاتے ہیں۔ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیجئے، پاکستان کا بھارت کے خلاف اسی کی سرزمین پر فتح کا گراف بہت بلند رہا ہے۔بھارتی سورما اپنے ہی گراﺅنڈز پر گرین شرٹس کے خلاف بے بس دکھائی دیئے۔ اس صورتحال نے نہ صرف بھارتی کرکٹ بورڈ، کھلاڑیوں اور انتظامیہ کو سخت دباﺅ میں مبتلا کئے رکھا بلکہ پوری دنیا میں بھارت کی ”وسیع القلبی“ اور ”روشن خیالی“ کا پول کھول دیا۔ اس کیفیت سے نکلنے کی ایک ہی صورت تھی کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کا سامنا کرنے سے حتی الامکان احتزاز کیا جائے۔ پاکستان کی بلائنڈ کرکٹ ٹیم تو بھارت کی ”میزبانی “ کا مزا تو چکھ ہی چکی ہے جب اس کے کپتان ذیشان عباسی کو ناشتے کی میز پر پانی کی جگہ ایک خطرناک کیمیکل پیش کردیا گیا ۔اس واقعہ سے ایک روز قبل قومی بلائنڈ ٹیم نے بھارت کو شکست دی تھی جس کا بدلہ انہوں نے خطرناک کیمیکل کے ذریعے لینے کی کوشش کی۔

بہرحال بات ہورہی تھی پاکستان کرکٹ ٹیم کی بھارت کے خلاف کامیابی کی تو واقعی قوم کے چہرے اس فتح کھل اٹھے ہیں۔ اس قوم کو ایسی خوشیوں کی اشد ضرورت ہے اور جس انداز سے قومی ٹیم نے بھارت کی سرزمین پردشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے” مسلز اور نروز“کو آزمایا ہے، وہ قابل تحسین ہے۔ عوام کو پاکستان کرکٹ ٹیم نے جیت کی خوشیاں تو عوام کی جھولی میں ڈال دی ہیں مگر دہشت گرد ان سے یہ خوشیاں چھیننے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے۔ اگر وہ خود کو مسلمان کہتے ہیں تو کوئی مسلمان کسی انسان خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو کی جان نہیں لے سکتا۔ ان کی اپنی ہی منطق ہے وہ اپنوں ہی کا خون بہا کر فتح کی ہا ہا کار مچا رہے ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ جیت تو وہ ہوتی ہے جو قوم کا سینہ پھلا دے۔ مگر ہمارے ”نجات دہندہ“ خطرناک گنیں پکڑ کر معصوم افراد کی گردنیں کاٹ کراصل میں دشمنوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ یہ لوگ اگر واقعی خود کو نجات دہندہ سمجھتے ہیں تو قوم کو آنسوﺅں کے سمندر میں ڈبونے کی بجائے اس کے چہرے پر خوشیاں اور مسکراہٹیں بکھیر کر دکھائیں، پوری قوم انہیں اپنے کندھوں پر اٹھا لے گی۔ دعا ہے کہ ہمارے بھٹکے لوگ بھی راہ راست پر آکر ملک کے پرچم کو بلند کرنے اور لوگوںمیں خوشیاں بانٹنے کا ذریعہ بنیں۔
Ibne shamasi
About the Author: Ibne shamasi Read More Articles by Ibne shamasi: 55 Articles with 38899 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.