شروع اللہ کے نام سے شروع جو
بڑامہربان اور نہایت رحم والا ہے
کافی عرصہ کے بعد کھیل کے میدان کی طرف پیدل مارچ شروع کیا۔گراﺅنڈ کی حدود
میں جاتے ہی سانس پھولنے لگی اور گراﺅنڈ پر مکمل طور پر دُھول کا قبضہ
تھا۔آوارہ کتے جگہ جگہ چہل قدمی کر تے ہوئے آتے جاتے سڑک کنارے اور گراﺅنڈ
میں موجود لوگوں پر بھوکتے ہوئے عجیب کیفیت پید ا کر رہے تھے کہ آیا ہم سب
کا آنا کہیں ان کو ناگوار تو نہیں گزرا؟مٹی میں دبتے پاﺅں پر نظر گئی تو
میری سرخ رنگ کی جوتیاں بالکل سفید ہوگئی جس کو دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا
جا سکتا تھا کہ منہ اور سر کے بالوں کا بھی یہی حال ہو گا۔کرکٹ کی حالیہ
انڈیا پاکستان سیریز میں پاکستان کی کامیابی نے بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں میں
بھی کرکٹ کھیلنے کا شوق مزید بڑھا دیا ہے اور یہاں گراﺅنڈ پر بھی دو سے تین
مختلف کونوں میں اپنی مستی میں مست، دنیا سے بے نیاز ہو کر کھیل میں مگن
تھے جن کو یہ تک نہیں پتہ کہ ان کے حکمرانوں نے ان کواس نادان عمر میں بھی
تقریباً 86 سے 90ہزار کا مقروض کرادیا ہے۔جن کو یہ تک نہیں پتہ کہ
بےروزگاری کیا ہوتی، دہشت گرداور دہشت گردی کیا ہوتی،جن کویہ تک نہیں پتہ
کہ کون کتنا کھا گیا اور کتنا کھا کر رفو چکر ہوگیا ہے، جن کو یہ نہیں پتہ
کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے بھی یہ پاکستان میں میرٹ کی بنیاد پر آسانی سے
نوکری حاصل کر سکیں گے،جن کو یہ تک نہیں پتہ کہ آئندہ ہونے والے مشکوک
الیکشن میں کون ان کے ملک پاکستان میں چھائے اندھیروں کو روشنی میں تبدیل
کرے گا ؟ لیکن ان کو یہ بخوبی پتہ کہ وائیٹ بال اور نوبال کیا ہوتی،رن آؤٹ
کیا ہوتا، ایل بی کیا ہوتا،کہاں بال کروائیں کہ کھلاڑی کو کلین بولٹ کر دیں
۔اس کے علاوہ دو ، تین جگہوں پر بڑے لڑکوں کو بھی کرکٹ کھیلتے دیکھا۔لیکن
ان نوجوان لڑکوں کے چہرے بتا رہے تھے کہ یہ صرف ٹائم پاس کرنے آئے کیونکہ
کھیلتے ہوئے بھی ان کے چہروں سے مایوسی عیاں تھی۔مایوسی ہو بھی کیوں نا جب
اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہاتھوں میں ڈگریاں لے کر در در کی ٹھوکریں
کھا کھا کر کوئی نوکری نہ ملے تو کھیلتے وقت بھی دل اور دماغ کہیں اور
ہوتا۔حکمرانوں کی طرف سے انٹرشپ کے ذریعے سال سال کے پروگراموں کے تحت
روزگار مہیا کیا جا رہا اور ساتھ ساتھ کچھ نارمل وظیفہ بھی دیا جا رہا لیکن
بہترہے کہ حکمران ان انٹرشپ کی بجائے مستقل روزگار کی طرف کوئی بہتر حکمت
عملی اپنائے کیونکہ یہ حکمران خود تو پانچ پانچ سالوں کے لئے منتخب ہوتے
اور بے روزگاروں کے لئے ایک سال کا وظیفہ دیا جاتا۔ملک میں رہی سہی کسر گیس
و بجلی کی لوڈشیڈنگ نے پوری کر دی جس سے موجود پلانٹ اور انڈسٹریاں بند
ہوگئی ہیں جس سے ہزاروں افراد بے روزگار ہو گئے ہیں جو کہ صرف اور صرف
حکمرانوں کی غلط پالیسوں کا نتیجہ ہے جن کی سزائیں صرف اور صرف غریب عوام
کو مل رہا ہے۔نوکریوں کے سلسلہ میں چکرلگا لگا کر جب کوئی نوجوان گھر کو
واپس خالی ہاتھ لوٹتا تو بوڑھے والدین اور بہن ، بھائی کے سوالیہ آنکھیں
اور بھی ہمارے نوجوانوں کے دلوں پر تیر جیسے لگتی ہیں۔اب تو کسی جگہ نوکری
کے لئے اپلائی کرنا ہو تو نارمل ایک درخواست کےلئے بھی کم سے کم 100 سے لے
کر 200 تک لگ جاتے جو کہ ایک بے روزگار کے لئے بہت مشکل عمل ہوتا ہے۔پھر
ٹیسٹ و انٹرویو کے دھکے اور پتہ بھی نہیں کہ نوکری حق پر ملے گی یا سفارش
پر، بعض اوقات تو ٹیسٹ و انٹرویو کینسل کر دیئے جاتے ۔ فیلڈنگ پر موجود سب
کھلاڑی جسمانی طور پر تو کھیل کے میدان میں ہوتے لیکن دماغی طور پر کہیں
اور ہوتے جو کہ صرف خیالی پلاﺅ پکانے میں لگے ہوتے تو اسی اثناءمیں بیچارے
کھلاڑی کے ہاتھوں ایک آسان کیچ چھوٹ جاتا جس کا فائدہ صرف اور صرف مخالف
ٹیم کو ہوتا۔جس طرح کہ چھوٹے چھوٹے کیچ چھوڑ کرPTI کے چیئرمیں عمران خان کر
رہے اور وہ وقت دور نہیں کہ اگر کوئی موئژ پالیسی نہ بنائی تو کوئی بڑا کیچ
یا وکٹ گنوا سکتا جو کہ پوری ٹیم کےلئے باعث ندامت بن جائے گا۔گراﺅنڈ کے دو
مخالف سمت میں والی بال کے نیٹ لگے ہوئے تھے اور ایک پر عوام کا رش کم تھا
اور ایک پر زیادہ تو میں بھی رش والی سائیڈ پر جانے کوترجیح دی۔میرے جانے
سے پہلے دوگیم ہوگئی تھی اور یہ آخری گیم تھی۔تین تین کھلاڑیوں پر مشتمل
جوڑ بنائے گئے جو کہ تیارکھڑے تھے کھیلنے کو مگر یہ دیکھ کر حیرانگی ہوئی
کہ ایک جگہ نوجوان لڑکے اور بزرگ سب اپنی اپنی ٹیموں پر جواءلگا رہے
تھے۔اور مزید حیرانگی اور شرمندگی ان بزرگوں سے ہوئی جن کو ان نوجوانوں کے
لئے مشعل ِ راہ ہونا چاہیے تھا وہ بڑھ چڑھ کر نوجوانوں کو اور اور پیسے
لگانے کے لئے اسرار کر رہے تھے۔اب میری توجہ گیم پر کم اور آس پاس
موجودتماشیوں پر لگ گئی۔کیوں کہ یہ کھیل اب کھیل نہیں رہا جواءبن گیا تھا
جس کا مقصد صرف اور صرف جیت وہ بھی پیسوں کی۔زیادہ تر بے روزگار نوجوان
اپنی جیب خرچ سے جواءلگا رہے تھے اس امید پر کہ ڈبل ہو جائیں گے اور ایک ہی
رات میں امیر ہوجائیں گے۔سگریٹ نوشی کافی عام دیکھنے کو ملی اور ایسے ایسے
نوجوانوں کو وہاں پر موجود سگریٹ نوشی کرتے دیکھا جن کا میں تصور نہیں کر
سکتا تھا کیونکہ یہ صرف گھر والوں سے چھپ چھپ کر سگریٹ نوشی کر رہے تھے اور
والدین کے ساتھ دھوکہ دہی کر رہے تھے۔اسی طرح کسی طرف سے چرس پینے کی بد بو
آ رہی تھی لیکن تعاقب کرنا ناممکن تھا کیونکہ کھلی فضاءمیں انداز لگانا
مشکل تھا کہ کس جگہ سے آرہی لیکن اتنا یقین کہ آس پاس سے ہی آ رہی تھی۔اس
کے علاوہ چند لڑکے موبائل پر خفیہ اندازوں میں چہل قدمی کرتے ہوئے پورے گراﺅنڈ
میں اِدھر سے اُدھر پھرتے ہوئے نظر آ رہے تھے جس سے وضع ہو رہا تھا کہ یہ
بھی کسی نشہ میں مبتلا ہو گئے اور گھر والوں سے اوجھل ہو کر وقت گزاری کر
رہے ہیں۔جب تعلیم ہونے کے باوجود کوئی بنیادی تعلیم حاصل نہیں کرے گا تو
ایسا تو ہوگا۔ہمارے بزرگ خود کو اچھے کاموں میں ماڈل بننے کی بجائےجب ان کے
شانہ بشانہ جواءوغیرہ میں حوصلہ فزائی کرتے پھر تے نظر آئیں گے تو پھر ہم
سب کا گلہ کہ ہماری نوجوان نسل ان کی عزت نہیں کرتی۔ نشہ پھیلانے والوں کے
لئے یہ کھیلوں کے گراﺅنڈ فائدہ مند ہوتے جن سے یہ نوجوانوں کو آسانی سے نشہ
وغیرہ کی لپیٹ میں لے لیتے۔کھیلوں کے میدان ویران ہوتے جا رہے ہیں۔موبائل
فون کے غلط استعمال نے ہماری تقریباً3 سے 4 کروڑ نوجوان نسل کو تباہ کر
رکھا ہے۔نوجوانوں کی طرف سے اس کے غیر ضروری اخراجات والدین کے لئے باعث
مصیبت بنتے جا رہے ہیں۔نت نئے ماڈلز مارکیٹ میں آنے سے بچے والدین سے
خریدنے کی ضد کرتے۔اور یہ بھول جاتے کہ ان کے والدین کتنی مشکل سے اس
مہنگائی کا سامنا کر رہے اور کس مشکل سے گھرانے کے اخراجات چلا رہے
ہیں۔بچوں کی ٹیوشن فیس، کتابیں،یونی فارم وغیرہ کے اخراجات مکمل کرنا اور
برداشت کرنا غریب والدین کےلئے ناممکن ہو گئے ہیں اور اوپر سے اگر ان کے
بچے اس قسم کے کاموں میں ملوث ہوں تو والدین کی رہی سی عزت خاک میں مل جاتی
اور وہ کسی کو منہ دیکھانے کے قابل نہیں رہتے۔والدین بچوںکے پیٹ پالنے
کےلئے در در کی ٹھوکریں کھاکھا کر وقت سے پہلے اپنی جوانی کو بڑھاپے میں
تبدیل کر لیتے۔کیا نوجوانوں کو یہ زیب دیتا کہ ان کی غلطیوں اور غلط حرکات
سے ان کے والدین کی عزت پر حرف آئے؟میں تمام نوجوان نسل کو اتنی ہدایت دوں
گا کہ فضول شوق پالنے کی بجائے نماز و قرآن کو اپنائیں۔حالات اور وقت کا
تقاضا کہ والدین کے دکھ سکھ میں ساتھ دیں اور میں مزید کوئی نصیحت نہیں کر
نا چاہتا سوائے اس کے کہ:۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری |