روزنامہ جموں کشمیر نے اپنی
اشاعت کے سات سال مکمل کر لیے ہیں۔ منتظمین سے پوچھا جائے تو یہ سات سال
نہیں سات صدیوں کا سفر تھا۔ مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ جموں کشمیر کی
اشاعت سے چند روز قبل برادر عامر محبوب صاحب میرے ہاں تشریف لائے اور یہ
خوشخبری سنائی کہ اگلے ہفتے سے اخبار کی اشاعت شروع ہو جائے گی۔ مجھے یہ
بھی حکم دیا کہ آپ کا اپنا اخبار ہے ، کالم تسلسل سے ملنا چاہیے۔ میں نے
حکم کی تعمیل کی اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ تب میں فکرمند تھا کہ ایک
کارکن صحافی کتنے عرصے تک یہ بوجھ برداشت کرے گا۔وقت گزرتا گیا اور میرے
بھائی عامر محبوب کا اعتماد بڑھتا رہا اور روزنامہ جموں کشمیر نے باوقار
انداز میں یہ کٹھن سفر جاری رکھا۔ کئی مراحل پر میرے جیسے لوگوں کے دل دھل
گئے کہ اس گرداب سے یہ کس طرح پار ہوگا ۔ لگتا ہے کہ عامر بھائی کو اپنی
والدہ کی پرتاثیر دعاؤں نے ہر مشکل مرحلے پر راستہ دیا۔ریاست جموں وکشمیر
جیسے غیر تجارتی اور مختلف قسم کی عصبیتوں سے مالامال خطے سے کسی روزنامے
کا اجراءاور مستقل اشاعت جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ خیر عامر بھائی اپنے
بہی خواہوں کو ہمیشہ سرپرائز دینے اور حاسدین کو جلانے میں کامیاب رہے۔
قومی سطح پر روزنامہ خبریں کی اشاعت نے صحافت پر مخصوص گروہ کی مناپلی کو
للکارا اور رفتہ، رفتہ اس قافلے میں مزید ہم سفر بھی اس کے ہم رقاب رہے،
ایک وقت آیا کہ صحافت کے فرعون بے معنی ہوگئے، اسی طرح ریاستی سطح پر
روزنامہ جموں کشمیر اور اس کی ٹیم نے صحافتی مناپلی کو نہ صرف توڑا بلکہ
پاش، پاش کردیا ۔ خطے میں نئی صحافتی روایات کو جنم دیا اور کارکن صحافیوں
کے لیے کئی ایک سنگ میل بھی قائم کیے۔عامر بھائی نے یہ بھی ثابت کیا کہ
ٹیلنٹ سرمائے سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ سرمائے اور ٹیلنٹ کی جنگ بھی اس
ادارے نے بخوبی جیت لی۔جموں کشمیر کے اجراءکے بعد آزادکشمیر میں صحافت نے
نصف صدی جتنا سفر چند سالوں میں طے کر لیا۔ نامہ نگاروں اور رپورٹرز کی ایک
بڑی ٹیم تیار ہوئی۔ آج راولپنڈی اور اسلام آباد کے صحافتی میدان میں کشمیری
صحافیوں کی ایک بڑی ٹیم نظر آرہی ہے، جن کی اکثریت نے اپنے صحافتی کیرئیر
کا آغاز روزنامہ جموں کشمیر سے ہی کیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ اس کی کھوک سے
کئی ایک نئے اخبارات نے جنم لیا اور وہ بھی کامیابی سے شائع ہو رہے ہیں۔
یوں روزنامہ جموں کشمیر نے آزادکشمیر میں صحافت کو نئی زندگی دے کر ایک
تاریخی کارنامہ انجام دیا۔
آزادکشمیر میں سیاست اور صحافت دونوں بیانات اور انٹرویوز تک محدود ہیں۔ جب
بھی یہ حقائق کی تلاش اور حق گوئی کی راہ اختیار کریں گے تب کہیںوہ عوامی
ترجمان کہلائیں گے۔ ابھی یہ منزل دور اور سفر بہت کٹھن ہے۔ آج تک کا ادھورا
سچ سب ہی اپنی، اپنی ضرورت کے مطابق بولتے ہیں۔ ابھی پورا اور مکمل سچ
بولنے اور سننے کی گنجائش نہیں، جب کوئی سچ بولنے کی بات کرتا ہے تو ایک
قیامت برپا ہوتی محسوس ہوتی ہے۔ ہر ایک لرز جاتا ہے، نہ کوئی پورا سچ بول
سکتا ہے اور نہ ہی سننے کی ہمت رکھتا ہے۔جب لوگ اپنے مفادات اور ضروریات سے
بالاتر ہوکر سچ کی تلاش شروع کریں گے تو عوام کی قوت ان کی پشت پر ہوگی۔ تب
تک یہ اتنا ہی خطرناک سفر قرار پائے گا جتنا آزادکشمیر کی کسی بھی سڑک پر
ڈرائیونگ کرنا۔ تاہم کسی کو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر سچ کی تلاش میں
نکلنا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ بولنے اور لکھنے کی آزادی کے بعد پورا سچ بولنے
اور لکھنے کی ریت کون ڈالتا ہے۔سچائی کی پاداش میں کچلے جانے والے تو ہمیں
نظر آتے ہیں لیکن ”امر“ ہو جانے والوں پر ہماری توجہ نہیں جاتی۔ جس دن ہمیں
سچائی کے ساتھ جینے کی ہمت ہو گئی اس دن جو کچھ ہماری آنکھ دیکھے گی اسے
بلا کم و کاشت بیان بھی کر دیں گے۔ آج ہم دیکھتے کچھ ہیں اور لکھتے کچھ۔
یہی ہمارا المیہ ہے لیکن یہ سب کچھ حالات کے جبر کے تحت ہو رہا ہے۔ہمیں کون
بتلائے کہ ادھورا سچ دراصل پورا بلکہ پورے سے بھی کچھ بڑھ کر جھوٹ ہوتا
ہے۔ہمیں یہ بھی سوچنا ہے کہ جس کلمہ طیبہ کے اقرار سے ہم مسلمان کہلاتے ہیں
اس کے مطابق شہادت اور گواہی کو چھپانا تو گناہ کبیرا ہے کجا کہ اسے توڑ
موڑ کر اس طرح بیان کیا جائے کہ اصل حقائق کیا، کیوں، کب ،کہاں اور کیسے کے
بجائے اگر اور مگر جیسے الفاظ میں چھپ کر رہ جائے۔
حالات کا جبر کیا ہے،کیا ہمارے مالک حقیقی سے زیادہ طاقتور ہے؟ اگر آج کے
ناخدا جھوٹ کو پسند کرتے ہیں تو ہمیں کون بتلائے گا کہ اصل خدا تو سچ کو
پسند کرتا ہے۔ جھوٹ کے رکھوالوں کے پاس اگر کچھ معمولی سی طاقت ہے تو کیا
حق کے پاسدار کے ہاں طاقت کی کوئی کمی ہے۔ اگر جھوٹے لوگوں کے دامن میں چند
ایک اشرفیاں ہیں تو کیا سچ کے مالک کا دامن افلاس سے عبارت ہے؟ بس یہ سب
کچھ ا یمان اور یقین کی بنیاد اور کسوٹی ہیں۔ اللہ ہمیں سچ سے محبت کرنے
اور جھوٹ سے نفرت کرنے کی ہمت عطا فرمائے۔ |