یہ جو 26 جنوری گزری ہے

ابھی چندروز قبل 26 جنوری کو ہم نے اپنا 64واں یوم جمہوریہ منایا۔ مجھے اپنے لڑکپن کے وہ دن یاد ہیں جب یہ دن دیگر تہواروں سے بڑھ کر جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا تھا۔ گلیوں سڑکوں کی خاص طور سے صفائی ہوتی تھی، بازاروں کو ترنگے جھنڈوں سے سجایا جاتا تھا اور قطار در قطار اسکولوں کے بچے گلی کوچوں میں پربھات پھیریاں نکالتے تھے ۔ جگہ جگہ جھنڈا سلامی ہوا کرتی تھی اور تمام دن فضامسرت اور مستی سے شرابور رہتی تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ عوام کی یہ حصہ داری کم ہوتی چلی گئی اور یوم جمہوریہ اور یوم آزادی رسمی ادائیگی کے حد تک سرکاری تقریبات بن کر رہ گئیں۔یہ احتساب کا دن بھی ہے جس میں کامیابیوں اور ناکامیوں کا حساب کتاب لگایا جاتا ہے۔ آج اسی پہلو سے ہم اپنی جمہوریہ کاجائزہ لیتے ہیں۔ جمہوریت صرف انتخاب کے ذریعہ حکومت سازی کا نام نہیں بلکہ اس کی بڑا وصف یہ ہوتا ہے کہ ہر فرد کے دکھ درد کا مداوا دردمندی کے ساتھ ہواور کسی کے ساتھ بھید بھاﺅ نہ برتا جائے۔ اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب کہ حکمرانی مفاد خصوصی کی نہیں بلکہ ہر حال میں قانون کی ہو۔ ہماری جمہوریہ میں انتخابی نظام تومستحکم ہوا ہے مگر قانون کے نفاذ میں جانبداری کی شکایت عام ہے۔

ہرچند کہ اردہ تھا کہ اس ہفتہ بھی اپنے کالم میں کانگریس کی چنتن بیٹھک کے کچھ دوسرے پہلوﺅں پر لکھوں گا مگر چنتا کا یہ پہلو کچھ کم اہم نہیں ہے۔اس لئے بات اسی پر کی جائے گی مگر شروع اسی بیٹھک کے ذکر سے کرتے ہیں۔

مذکورہ بیٹھک میں ہمارے وزیر داخلہ جناب سشیل کمار شندے نے دہشت گردی کے حوالے سے کہا تھا کہ ہمیں رپورٹیں ملی ہیں کہ آر ایس ایس اور بھاجپا کے تربیتی کمپوں میں دہشت گردی کا پاٹھ پڑھایا جاتا ہے جس پر سنگھ پریوار برہم ہونا لازمی تھا۔ مگر یہ برہمی اس وقت کافور ہوگئی جب داخلہ سیکریٹری نے سنگھ کے ان سیوم سیوکوں کے ناموں کی فہرست جاری کردی جو دہشت گردی کے معاملات میں گرفتار ہوچکے ہیں۔ یہ فہرست ابھی اور لمبی ہوگی کیونکہ خبر یہ ہے کہ مرکزی حکومت جالنہ ، پورنا اور پربھنی کی مساجد اور ناندیڑ میں ایک سنگھی کے گھر دھماکے کی جانچ بھی قومی جانچ ایجنسی (این آئی اے) کے حوالے کرنے والی ہے۔ یہ بات دنیا کو معلوم ہے کہ ’جہادی‘ دہشت گردی کے مقابلے کے نام پر سنگھی دہشت گردی کی یہ کارستانیاں اسی گروہ کے کرتوت ہیں جو مالیگاﺅں ، مکہ مسجد، درگاہ خواجہ غریب نوازؒ اور سمجھوتہ ایکسپریس کے دھماکوں میں ملوّث تھا۔ناندیڑپولیس نے سنگھ کے کارکن لکشمن کونڈوار کے گھر پر دھماکہ کے بعد ، جس میں دو آدمی مرے تھے، تلاشی کے دوران گول ٹوپیاں، مصنوعی داڑھیاں، مسلم لباس وغیرہ برآمد کئے تھے مگر اے ٹی ایس مہاراشٹرا نے ان کا اپنی تفتیش میں کوئی ذکرنہیںکیا اور جانچ کو اس کے منطقی انجام تک نہیں پہنچایا۔ 2006 میں یہ دھماکہ اس وقت ہوا تھاجب کونڈوار اور اس کے ساتھی بم بنارہے تھے۔عجب نہیں کہ ممبئی ریل دھماکوں ، احمدآباد بم دھماکوں، یوپی سلسلہ وار دھماکوں اور اسی طرح کی خانہ ساز دہشت گردی کی دیگر وارداتوں میں بھی اسی قبیلے کا ہاتھ نکلے۔ہرچند کہ وزیر داخلہ کے اس بے وقت بیان کا ایک بالواسطہ فائدہ یہ ہوا کہ ٹی وی چینلز کا موضوع بدل گیا اور کنٹرول لائن کے واقعہ کے بعد حکومت پر جو دباﺅ پڑ رہا تھا وہ ختم ہوگیا اور بھاجپا ، جس نے گزشتہ پارلیمانی الیکشن میں دہشت گردی کو اہم موضوع بنانے کا اعلان کیا تھا، خود دفاعی پوزیشن میں آگئی مگر اس کا ایک دوسرا پہلو بھی پیش نظر ر ہے۔

دہشت گردحملوں کی نئی تفتیش میں روز نئے انکشافات سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ ان جرائم کے سراغ روز اول سے موجود ہونے کے باوجود ،جن کی نشاندہی ”کرکرے کے قاتل کون؟ “ نامی دستاویزی کتاب میں موجود ہے، اصل مجرموں کو نظرانداز اور فرضی ملزموں کو گرفتار کرنے کا سلسلہ کیوں اور کس کی ایماءپر جاری رہا ؟جب نفاذ قانون میں دھاندلی کا یہ حال ہے کی خطاکار تودیش بھگت کہلائے اور بے قصور دیش دروہی کہلائے اورجیل میں جائے توکیونکر ملک اپنی جمہوریت پر ناز کرے ؟سوچئے یہ کیسا جمہوری نظام ہے جس میں عوام اپنے منتخب حکمرانوں کی ناانصافیوں اور بے حسی کی مار جھیل رہے ہیں؟

قانون کی حکمرانی کی ناقص صورت حال اور حکمرانوں کی بے حسی چند مثالیں ابھی سامنے آئی ہیں۔ اسی 26جنوری کا انڈین ایکسپریس اس وقت میرے سامنے ہے، جس کے صفحہ اول پر پانچ کالمی شہ سرخی اور ویڈیو کلپنگ کے تین تصویروں کے ساتھ ایک رپورٹ چھپی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ مہاراشٹرا کے قصبہ دھولے کے حالیہ فساد کے دوران قانون کے محافظوں نے کیا رول ادا کیا؟ اس فساد میں پولیس کی راست فائرنگ میں چھ افراد مارے گئے اور ان سب کا تعلق اقلیتی فرقہ سے تھا۔ فساد کے بعد یہ شکایت کی گئی کہ پولیس کا رول جانبدارانہ تھا جس کو اعلا ترین سرکاری سطح پر مسترد کردیا گیااور پولیس کو کلین چٹ دیدی گئی۔لیکن اس رپورٹ نے پولیس کی پول کھول دی ہے۔تصویروں میں پولیس جوانوں کو دوکان کا دروازہ توڑ کے سامان لوٹتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اس خبر سے ایوان حکومت میں کوئی زلزلہ نہیں آیا ہے، اور یہ کہہ کرلیپا پوتی کردی گئی کہ چند پولیس والے متعصب ہونگے۔ سوال بہت سارے ہیں، مثلاً کیا حکام کو نہیں معلوم کہ ان تحت عملہ قانون شکن ہے؟ ضرور معلوم ہے ، مگر قانون شکنی قانون کے محافظوں کو وطیرہ بن چکی ہے۔ اور یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ اس کے بغیر پولیسیا رعب داب قائم ہی نہیں ہوسکتا۔

یہ کوئی نادر واقعہ نہیں، بلکہ نہ جانے کتنے لوگ پچھلے 64 سال سے چِلّارہے ہیں کہ جمہوری ہندستان میں قانون شکنی اور کمزورعوام خصوصاً عورتوں اور اقلیتوں کے تحفظ کے بارے میں مجرمانہ غفلت ، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر سازشی ذہن کام کر رہا ہے، مگر قیادت بے حس و حرکت ہے۔اسی اخبار کے پہلے ہی صفحہ پر ایک دوسری خبر شائع ہوئی ہے۔ دہلی کے ایل جی تیجندر کھنہ نے یوم جمہوریہ کے پیغام میں کہا ہے:’ میرے پاس اسلحہ لائسنس کی درخواستیں آتی ہیں، میں نے ان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اسلحہ کا کچھ بہتر استعمال کریں۔ ایسے لائسنس داروں کو شام میں، رات میں اسلحہ لے کر اپنے آس پڑوس میں، سنسان جگہوں پر اور بس اڈوں پر گھومنا چاہئے اور جہاں کہیں دیکھیں کہ کسی عورت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہورہی ہے تو اپنے اسلحہ کو استعمال کریں اور خطاکار کو پولیس کے حوالے کریں۔“

کھنہ صاحب کا شمار سوجھ بوجھ والے لائق افسروںمیں ہوتا ہے۔ان کے اس مشورے پر اگر عمل ہوا توامن وقانون کے کیاکچھ مسائل پیدا ہو سکتے ہیں اور تحفظ کے بجائے عورتوں کے لئے خطرے کتنے بڑھ سکتے ہیں، یہ تو الگ بحث ہے مگر اس کے بین السطور بتارہے ہیں کہ دہلی پولیس کی اہلیت پر ریاست کے آئینی سربراہ کا اعتماد بھی متزلزل ہوچکا ہے۔ ایسی صورت میں عوام کیسے یہ محسوس کریں کہ ہم واقعی کسی جمہوری نظام کا حصہ ہیں اورہرسال 26جنوری کو آئین کے حکمرانی کی سالگرہ مناتے ہیں؟

حال ہی میں دہلی میں ایک نوجوان عورت کی اجتماعی آبروریزی اورپھر موت کے واقعہ نے ہر حساس دل کو دہلا کر رکھ دیا۔ شور اٹھا کہ بلاتکاریوں کو سخت سزا دی جائے ۔ دباﺅ اتنا شدید تھا کہ مرکزی وزارت داخلہ نے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جگدیش شرن ورما کی سربراہی میں ایک تین رکنی کمیشن قائم کردیا، جس سے کہا گیا کہ جنسی جرائم پر قابو پانے کے لئے قوانین میں مطلوبہ اصلاحات تجویز کرے۔ اس کمیشن نے تو لائق ستائش تندہی دکھائی اورایک ماہ کے اندر اپنی سفارشات پیش کردیں مگر دہلی پولیس اور وزارت داخلہ کے اعلا افسران کے رویہ نے روائتی بے حسی کا مظاہرہ کیا جس سکی شکایت جسٹس ورما کو بھی ہوئی۔اس پورے ایک ماہ کے دوران نہ تو وزارت داخلہ نے کمیشن سے رجوع کیا اور نہ پولیس حکام نے۔ دہلی پولیس کی نمائندگی وکیل کی سطح تک محدودرہی۔ اتنا ہی نہیں،وقت مقررہ پر کمیشن سے رپورٹ قبول کرنے کے لئے نہ تو کوئی وزیر موجود تھا اور نہ کوئی اعلا افسر۔چنانچہ رپورٹ ایک جے ایس کو پیش کی گئی۔ اس روش سے کیا یہ تاثر نہیں ملتا کہ جنسی جرائم اور تحفظ نسواں کے معاملے میں ہماری سیاسی اور انتظامی مشینری کی بے حسی عوامی احتجاج کے باوجود بدستور برقرار ہے؟ کیا جمہوریت میں اربات حکومت کو ایسا ہی رویہ شوبھا دیتا ہے؟اس ضمن میں سپریم کورٹ کا یہ تبصرہ اہم ہے کہ مسئلہ ناکافی قوانین کا نہیں ہے ان کے نفاذ کا ہے۔ ظاہر ہے جب حکمرانوں کے دماغوں سے قانون کی اہمیت مٹ گئی تو عوام پر اس کا خوف کیونکر برقرار رہے۔

اس معاملہ میں رہی سہی کسر اس خبر نے پوری کردی کہ حکمراں کانگریس کے میڈیا انچارج جناردھن دویدی کا ہرکارہ نصف رات کے بعد کانگریس کی سفارشات لے کر جسٹس ورما کی رہائش گاہ پہنچا اور اصرار کیا کہ ورما صاحب کو سوتے سے اٹھادیا جائے تاکہ وہ سفارشات کا لفافہ خود ان کے حوالے کر سکے۔ ہر چند کہ محترمہ سونیا گاندھی نے اطلاع ملتے ہی اس غیر شائستگی پر خود فون کرکے جسٹس ورما سے اظہار ندامت کیا اور معافی مانگی مگر اس واقعہ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے بے حسی کا یہ روگ سیاسی گلیاروں میں کتنی دور تک پہنچ چکا ہے؟بیشک محترمہ گاندھی ایک مہذب، باحوصلہ اور باوقار خاتون ہیں، ان کو یقینا اس سے اذیت ہوئی ہوگی اور دل سے معذرت کی ہوگی مگران کے اظہار ندامت سے اس حقیقت پر پردہ نہیں پڑجاتا کہ پچھلے 64 سالوں میں عموماً اخلاق اور احساس بڑی حد تک پست ہو چکا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مادی اعتبار سے گزشتہ چھ دہائی میں ملک نے بہت ترقی کی ہے۔ عام طور سے لوگ خوشحال ہوئے ہیں مگر اقدار کے انحطاط اور قانون کے خلاف ورزیاں، شرف آدمیت کی پامالیاں ، الاماں۔سب سے بڑھ کر تعصب کی وبا ہے۔ یہ تعصب جو ہندو ، مسلم سے شروع ہوا اب ذات اور برادریوں اورطبقوں تک پھیل گیا ہے۔ کرپشن ، جو پہلے عیب تھا اب ہنر بن گیا۔ چنانچہ پرتیش نندی کے اس بیان پرکہ بدعنوانی میں کچھ طبقات زیادہ بڑھ گئے ہیں یہ کہنا کہ بدعنوان کون نہیں ہے، ہم پر ہی انگلی کیوں اٹھائی جاتی ہے، حد درجہ بے غیرتی ہے۔ بدعنوانی ، چاہے وہ مالی ہو یااپنے فرض منصبی کی ادائیگی میں ہو یا الزام تراشی کی، خون کی طرح رگوںمیں دوڑتی پھرتی ہے اور اس کوبخوشی برداشت کیا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر عوام نئے ہندستان کے قومی تہواروں پر جوش و خروش سے عاری ہوتے جاتے ہیں تو خطا کس کی ہے؟ بہر حال روایت ہی سہی،تمام باشندگان وطن کو یوم جمہوریہ مبارک اور یہ دعا کہ ذہنی انحطاط کا یہ دور ختم ہو اور ہندستان اپنی قدیم تہذیب کی بازیافت کی جانب مراجعت کرے جس کا دوسرا نام تیاگ، محبت اور دیانت ہے۔
جن چراغوں سے تعصب کا دھواں اٹھتا ہو
ان چراغوں کو بجھادو تو اجالے ہونگے
میں اگر وقت کا سقراط بھی بن جاﺅں تو کیا
میرے حصے میں وہی زہر کے پیالے ہونگے
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 163177 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.