آخر کیوں بھول جاتے ہیں

گاﺅں سے باہرایک ڈیرہ کے قریب لوگ جمع تھے۔ مگر ہرجانب خاموشی کا راج تھا۔ سب کے چہرہ پر حیرانی اور آنکھیں نم تھیں۔ یہ واقعہ کسی مطلب پرست سیاستدان، پڑھے لکھے رشوت خوربیوروکریٹ ، کسی بدمست نواب ، وڈیرے اور دیمک کی طرح غریب عوام کاحق چاٹنے والے کسی کرپٹ وزیر کانہیں۔بلکہ یہ تو جانوروں کے بیچ زندگی گزارنے والے ان پڑھ، سادہ زمینداراورایک ناسمجھ حیوان کے درمیان بے مثال دوستی کی داستان ہے۔ سب لوگ ایک انسان اور حیوان میں اس قدر پیار اور تعلق دیکھ کرحیران تھے۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب انسان اور جانور بھی ایک دوسرے سے احساس اور اپنائیت کے رشتہ میں جڑے تھا۔ آج تواس قدر قحط ہے کہ انسان کا انسانیت کے ساتھ دور دور تک کوئی واسطہ نہیں بلکہ انسان ہی انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ ایک وقت تھا جب مالک کو پریشان دیکھ کر گھر کے پالتوجانور بھی اُداس ہوجاتے،اگر مالک کہیں سفر پر جاتا اور زیادہ دن گزر جاتے تو اپنے مالک کو نہ دیکھنے پر چارہ تک ترک کر دیتے۔ یہ تو عام سی بات تھی کہ مالک کے بغیر گائے ، بھینس دودھ دینا بند کردیتی۔ بلکہ بعض اوقات تومالک کے بغیر دودھ حاصل کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجاتا۔

اس زمانہ میں لوگ دور دراز کا سفر کرتے، میلوں میں جاتے، اچھی طرح تحقیق کے بعد، عمدہ اور اعلیٰ نسل کے جانور خریدتے۔اسی طرح اس زمیندار نے بھی بڑے شوق اور چاہ سے بہت ہی مہنگا بیل خریدا۔ یہ بیل بہت طاقتور،خوبصورت اور واقعی قابل ِ دید تھا۔لوگ دور دراز سے اس بیل کو صرف ایک نظر دیکھنے کے لئے آ رہے تھے۔بیل تھا کہ آفت، نکیل میں دو مضبوط رسیوں سے باندھا جاتا۔ عام آدمی کی کیا مجال کہ اکیلے اُس کے پاس سے گزر سکے۔ پانی پلانے ، دھوپ چھاﺅں یا کمرے سے اندر باہر باندھنے کے لئے دو آدمی پکڑتے۔اس بیل کی طاقت اوردہشت گھر کے ہرچھوٹے بڑے کے لئے ایک مسلئہ بن گئی تھی۔

جب طاقت اعصاب اور دماغ پر سوار (حاوی)ہوکربدمستی میں بدلتی ہے تو اس کے نتائج ؟ ہاں اس کے نتائج ہم پاکستانیوں سے بہتر کون جانتاہے۔ جہاں مستی ِ اقتدار میں اپنے ہی شہریوں کوبم برسا کرمارا گیا ہے۔کوئی بدمست ٹارگٹ کلنگ میں مصروف ہے توکہیں غریب، نہتے اور بے قصور شہریوں سے بدلہ لے کر جنت خریدی جا رہی ہے ۔اگر عام انسان بے موت مرنے سے بچ بھی جائے تووہ ان بے حس وبے رحم حکمرانوں کے پیدا کردہ حالات (جو کسی بھی طرح سے موت کے شکنجے سے کم نہیں) سے تنگ آکر موت جیسی بھیانک چیز کوگلے لگانے پر مجبور ہے۔ بہرحال اس طاقت اور بدمستی کے نتیجہ میںبے بس،بے قصور،نہتے غریب عوام ہی مارے جارہے ہیں۔ چاہے عام شہری ہو یا دہشت گردوں کا مقابلہ کرتا کسی غریب ماں کا فوجی بیٹا۔

مالک کواپنے بیل سے بے پناہ پیارتھا۔ اُس کا ہرطرح سے خیال رکھتا۔ اچھے سے اچھا چارہ کا بندوبست کرتا۔ دن بھر اُس کی خدمت میں مشغول رہتا۔ برسات کے موسم میں مچھر تنگ کرتے تو مالک رات بھراُپلوں کے دھوئیں سے بیل کی مچھروں سے حفاظت کرتا۔ آہستہ آہستہ وہی زور آور ، بدمست بیل اپنے مالک سے اتنا مانوس ہوگیا کہ جسے دوآدمی بڑی مشکل سے سنبھالتے وہی اپنے مالک کا اس قدرتابعدار اور فرمانبردار کہ مالک چاہے تواکیلے رسی تھام کر چلے یا اُسے کان سے پکڑکر کہیں بھی لے جائے۔ کئی بار مالک اُسے کھول دیتا ، خود آگے چلتا اور بیل اُس کے قدموںکے نشان پر قدم رکھتے اپنے مالک کے پیچھے چلتا۔
یہ کیا کہ !ایک حیوان تواپنے مالک کی عطا ءکے بدلے اس قدر احسان مند اور تابعدار کہ اپنے مالک کے اشارہ پر عمل کرے۔ ہم انسان ہو کر اپنے رب، اپنے مالک جس نے ہمیں علم دیا، عقل وشعور عطاءکیا۔ کوئی نعمت ایسی نہیں جس سے ہمارے مالک نے ہاتھ کھینچا ہو۔ لیکن ہم ہیں کہ دن رات ہر لحظہ اُس کی نافرمانی میں بسر کرتے ہیں۔ پھر اپنے حالات کا رونا روتے ہیں۔ ہم کیوں نہیں سوچتے کہ اپنے مالک کے احسان اور عطاءکو بھلا کر، ہمیں تباہ وبرباد ہونے اور لٹنے سے کون بچائے گا۔ پھر ہمیں چاہے کوئی قرض اُتارو ملک سنوارو کے نام پر لُوٹے ، جمہوریت بہترین انتقام کے نام پر غریب بے کس عوام سے انتقام لے یا کوئی ظلم ، جبر، کرپشن کے خلاف جدوجہد کے بہانے ہماری بہنوں، بیٹیوں کے زیور تک ہڑ پ کرجائے ۔
ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غم ِ الفت کے
اتنے احسان کہ گنواﺅں تو گنوا نہ سکوں

بات کہیں اور نکل گئی! اُس زور آور بیل کی بات ہورہی تھی کہ جو صرف اپنے مالک کے سامنے موم کی گڑیا بن جاتا۔ مالک کے بڑے بھائی کو یہ سب کچھ عجیب لگتا۔ وہ دل ہی دل میں کڑہتااور کہتاکہ آخر کیا وجہ ہے کہ بیل مجھ سے نہیں ڈرتا ؟ وہ اپنے چھوٹے بھائی کاطرز عمل اختیار کرنے کی بجائے طاقت اور دھونس کے ذریعہ بیل کواپنا فرمانبردار بنانے کے نت نئے منصوبے بناتا۔ وہ اس انتظار میں رہتا کہ اُس کابھائی گاﺅں سے باہر جائے تو اپنے منصوبہ کو عملی شکل دے۔ آخر وہ دن آگیا جس کا انتظار تھا۔ اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اُس نے اپنے دیرینہ منصوبہ پر عمل کرنے کے لئے ایک مضبوط ڈنڈا لیا اور کہا ویکھو !وڈا آیا حمائیتی حاجی دوسے دا( دیکھو بڑاحمائیتی حاجی دوست کا)۔ پھروہی سلوک کیا!جو آمریت یا آمرانہ جمہوریت میں جکڑے غریب و بے بس عوام سے ہمارے بے رحم حکمران کرتے ہیں۔رسیوں میں جکڑے بیل کو بے رحمی سے مارمارکراُس کا براحال کردیا۔

بیل کا مالک پہنچا تو حسب عادت سب سے پہلے اپنے بیل کے پاس گیا۔ وہ اپنے بیل کی یہ حالت دیکھ کر دُکھ اور غصہ سے بے حال تھا۔ بیل کے زخموں پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے مالک کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ دوسری جانب بیل کے جذبات بھی مالک سے مختلف نہ تھے ۔ وہ مالک کے چھونے سے ہی سارے درد بھول گیا،جیسے مالک کے ہاتھ کا لمس ہی اُس کے زخموں کا سب سے بڑا علاج تھا۔وہ ننھے بچے کی طرح خوش تھا اورمصیبت کی اس گھڑی میںاپنے مالک کی ہمدردی کاآنکھوں ہی آنکھوںمیں شکریہ اداکرتے ہوئے کبھی مالک کے ہاتھ چومتا تو کبھی پاﺅں۔ انسان اور حیوان کے اس بے مثال پیاراور دوستی کو دیکھ کر ہر شخص کے چہرہ پر حیرانی اور آنکھیں نم تھیں۔

بیل پر اس ناروا سلوک کا یہ اثر ہوا کہ جب تک زندہ رہا اپنے پر کئے ظلم کے خلاف احتجاج کرتا رہا ۔وہ مالک کے بڑے بھائی کو دور سے گزرتے دیکھ کر، اُس کی آواز سن کریہاں تک کہ اگر رات سوتے میںمالک کا بھائی کھانستا ،تو بھی بیل زور سے پاﺅں زمین پر پٹختا، مٹی اُڑاتا اور گڑہکتا، یعنی زور دار آواز سے للکارتے ہوئے اپنے پر کئے گئے تشدداور ظلم پر بھرپورغصہ کا اظہار کرتا۔ ہم کیسے انسان اور کیسے باشعور شہری ہیں!کہ کوئی آمریت کی صورت میں ہم پر ظلم کرے یا جمہویت کے نام پرغریب، مجبور، بے بس عوام کااستحصال کرے۔ ہمیں اپنی سوچ، اپنا انتخاب بدلنا ہوگا ، ایک جانور کو تواپنے پر کئے گئے ظلم اور ناانصافی کا احساس مرتے دم تک رہے۔ ہم انسان ہوکر! مہنگائی، بے روزگاری، ناانصافی، کرپشن اورظلم کی صورت میں بے رحم حکمرانوں کے برسائے ڈنڈے، آخر کیوں بھول جاتے ہیں!
تو کہ نا واقف ِ آداب ِ غلامی ہے ابھی
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے!
MUHAMMAD AKRAM AWAN
About the Author: MUHAMMAD AKRAM AWAN Read More Articles by MUHAMMAD AKRAM AWAN: 99 Articles with 92484 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.