یہ کھیل کہیں مہنگا نہ پڑجائے

(ویڈیو گیمز کے منفی اثرات پر لکھی گئی تحریر)

بظاہر وہ سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی ایک تصویر تھی، جس میں دو اَدوار کا موازنہ کیا گیا تھا، لیکن اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو اس میں ہمارے روشن ماضی کا بھیانک مستقبل جھلک رہا تھا۔ تصویر میں ایک جانب آج سے دس سال قبل ایک اسکول کے پلے گراﺅنڈ میں درخت کے نیچے بہت سے بچے ہنستے مسکراتے اچھل کود اور مختلف کھیلوں میں مصروف تھے جبکہ دوسری جانب اسی کھیل کے میدان کا منظر 10سال گزر جانے کے بعد دکھایا گیا تھا۔ درخت بھی اپنی جگہ پر کھڑا تھا بلکہ 10,8 سال گزر جانے کی وجہ سے اس کا پھیلاﺅ اور سایہ مزید بڑھ گیا تھا۔ زمین پر کنکر اور مٹی کی جگہ خوبصورت اور مخملی گھاس نے لے لی تھی، وہاں پر ڈھیر سارے بچے تھے، لیکن اب وہ زمانہ گزر چکا تھا کہ جب بچے کھیل کود اور مختلف مستیاں کرتے تھے۔ اب بچے اس درخت کے سائے میں بیٹھے ہیں۔ چپ چاپ اور اپنی دنیا میں مگن، کوئی ایک دوسرے سے بول نہیں رہا۔ ماحول پر ایک سناٹا طاری تھا، آخر یہ اتنے سارے بچے چُپ اور ساکن کیوں بیٹھے ہیں! کیوں کہ یہ اپنے موبائلز پر ویڈیو گیم کھیل رہے ہیں۔

جی ہاں! یہ ویڈیو گیمز ایک ایسا چسکا ہے جس نے بچوں کی ساری سرگرمیوں کو بہت محدود کردیا ہے۔ اب ویڈیو گیمز کی بدولت بچے جمود کا شکار بلکہ اپنی ذات کے اندر قید ہوکر رہ گئے ہیں۔اب حالات بھی کچھ ایسے بن گئے ہیں کہ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ سارا دن گھر پر رہے۔ اس طرح وہ کسی غلط صحبت میں بھی نہیں پڑے گا۔ متبادل کے طور پر والدین بچوں کو گھر میں ہی کمپیوٹر گیم کھیلنے کی تفریح مہیا کردیتے ہیں اور اطمینان کرلیتے ہیں کہ اب ان کے بچے کی جان اور اخلاقیات دونوں محفوظ ہیں لیکن والدین کا یہ اعتماد اور اطمینان غلط ثابت ہوسکتا ہے۔ گھر سے باہر کھیلنے کے مقابلے میں آپ کا بچہ کمپیوٹرگیم کے ذریعے جسمانی، ذہنی اور اسلامی لحاظ کئی گناہ زیادہ بگڑ سکتا ہے۔ آپ کو شاید اس بات کا علم نہ ہوکہ آج منظم سازش کے ذریعے مسلمانوں کی نئی نسلوں کے دشمن اس انداز میں گیمز تیار کررہے ہیں کہ بچہ کھیل کھیل میں نہ صرف اسلام سے کوسوں دور چلا جاتا ہے بلکہ اس کے لاشعور میں اسلام اور اس کے ارکان سے نفرت پیدا ہوجاتی ہے۔

بچہ گیمز میں موجود کرداروں کے ہر انداز اور انہی کے طرز کے لباس کو اپنانے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ سی ڈیز یا آن لائن گیمز میں موجود کرداروں کے لباس اور حرکات کس طرح کی ہوتی ہیں۔ عالم اسلام کے خلاف چھیڑی گئی صلیبی جنگوں کے بعد ایسی گیمز کو یورپی کمپنیوں نے متعارف کروایا جن میں امریکی افواج گیمز کی ہیرو ہوتی ہیں انہیں بدی کے کرداروں اور مراکز کے خلاف جنگ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ہیرو ان عناصر کو چن چن کر ختم کرتا ہے۔ یوں آپ کا بچہ جس کی کمانڈ پر گیم کا ہیرو ایکشن میں آتا ہے۔ درحقیقت جوائے اسٹک، ماﺅس یا مختلف بٹن کا ہر ایک کلک اس کے دل میں داڑھی والے کردار، مسجد سے مشابہہ بدی کے مرکز اور اسلامی شعائر کے مشابہہ پس منظر سے نفرت میں اضافہ کرتا ہے۔ مارڈھاڑ سے بھرپور ویڈیو گیمز میڈل آف آنر ،وار فائٹر اور کال آف ڈیوٹی بلیک اوپس 2اس کی چند حالیہ مثالیں ہیں۔ حالیہ دنوں میںان گیمز کی پاکستان میں فروخت پر پابندی عائد کر دی ہے کیوں کہ اس ان گیمز میں پاکستان کو ناکام ریاست کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ حالیہ دنوں میں ایک یورپی کمپنی LEGO نے ایک ایسا جنگی کھلونا تیار کیا ہے جس کا مڈل ترکی کی سابقہ تاریخی اہمیت کی حامل مسجد آیا صوفیہ سے مشابہہ ہے۔کھلونے میں خلائی جنگوں پر مبنی فلمی کردار Jabba the Hutt جو دہشت گرد قاتل اور مجرم کاروپ ہے۔ ماڈل کو اس کردار کے ہیڈ کواٹر کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور اس کا نام Jabba's Place رکھا گیا ہے۔ جس کا مقصد بچوں کے ذہن میں یہ ڈالنا ہے کہ اس طرح گنبد کے ڈیزائن والی جگہیں بدی کے مراکز اور ان سے متعلقہ لوگ مجرم اور دہشت گرد ہوتے ہیں۔ یہ تو تذکرہ تھا ان سازشوں کا جو اسلام دشمن عناصر بچوں کے برین واشنگ کے لئے کررہے ہیں۔

اس کے علاوہ جسمانی، ذہنی اور اخلاقی لحاظ سے بھی ویڈیو گیمز کے بے شمار منفی اثرات ہیں۔ کراچی نفسیاتی ہسپتال کے مینیجنگ ڈائریکٹر اور ماہر نفسیات ڈاکٹر سید مبین اختر کے مطابق بچوں میں اب کھیل کود کے مقابلے میں ویڈیو گیمز کا رجحان خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ماردھاڑ سے بھرپور گیمز کا زیادہ استعمال بچوں کے دماغ پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ ایسے گیمز بچوں کو چڑ چڑا اور مجرمانہ سوچ کا حامل بنا دیتے ہیں۔ امریکی تاریخ میں ہونے والے اندوہناک قتل عام جس میں 20 بچوں سمیت خونی قاتل نے 27 جانوں کو ضائع کردیا تھا اس کے پس پردہ محرکات بھی ویڈیو گیمز بنائے جاتے ہیں۔

نفسیاتی امراض کے علاوہ بھاگ دوڑ اور کھیل کود جو بچوں کی نشونما میں بہترین ثابت ہوتی ہے۔ جب بچے اس کو چھوڑ کر زیادہ دیر کمپیوٹر پر ہی کھیلنے میں اپنا وقت صرف کریں گے تو ان میں نظر کی کمزوری، موٹاپا اور دیگر جسمانی عوارض سے پیدا ہونے کے خدشات بھی رہیں گے۔

دوسری جانب ماہرین تعلیم اور اساتذہ کا شکویٰ ہے کہ کمپیوٹرگیمز اور ہر وقت ٹی وی دیکھنے کے شوق نے بچوں کو کتابوں سے دور اور مطالعہ کا چور بنا دیا ہے۔ بعض تعلیمی ادارے جن میں بچوں کو موبائل رکھنے کی اجازت ہے وہاں پر تو یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بچے دوران کلاس بھی گیمز کھیل رہے ہوتے ہیں۔ لہٰذا والدین اگر چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ صحت مند جسم اور صالح فکر کے ساتھ معاشرے کا ایک اہم فرد بنے تو اس حوالے سے انہیں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ کوئی گیم خریدنے سے قبل اس بات کا یقین کرلیں کہ یہ آپ کے بچے کی سوچ و فکر پر کوئی منفی اثرات ڈالنے کے بجائے اس کی تعلیمی و تعمیری صلاحیت کو بڑھائے گی۔

بچوں میں کوئی بھی اچھی یا بری عادت بچپن میں ہی پختہ ہو جاتی ہے اس لیے شروع ہی سے بچوں کو اچھی تفریح مہیا کریں اور اس کی حوصلہ افزائی کریں۔ اگر بچوں میں پیدا ہونے والی کسی خرابی کو بچپن میں کنٹرول نہ کیا گیا تو بڑے ہوکر وہ ان کی پختہ عادت بن جائے گی۔ دوسری اہم بات کے بچوں کو زیادہ دیر کمپیوٹر کے سامنے بیٹھنے کی ہر گز اجازت نہ دیں اور کوشش کریں کہ کمپیوٹر اور ٹی وی کو ایسی میں رکھا جائے جہاں سے دیگر افراد کی بھی اس پر باآسانی نظر پڑسکے۔ ایسا کرنے سے آپ کا بچہ کسی بے راہ روی کا شکار نہیں ہو گا۔ یاد رکھیے کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ آپ کی غفلت یا بے احتیاطی کی وجہ سے آپ کے بچے کا کھیل اس کے لئے مہنگا نہ پڑ جائے۔
Muhammad Naeem
About the Author: Muhammad Naeem Read More Articles by Muhammad Naeem : 20 Articles with 17045 views Member of KUJ | Sub-Editor/Reporter at Weekly Jarrar & KARACHIUPDATES |Columnist | http://www.facebook.com/Tabssumnaeem
.. View More