تحریر: سفارش علی باجوہ
موت برحق ہے اور ہر ذی نفس کو آنی ہے کسی کو اس کا صحیح وقت بھی معلوم نہیں
اور جوہوتا تو کاروبار زندگی یوں نہ ہوتا۔ ہم سب ہمہ وقت موت کے منتظر ہوتے
اور ہر چاپ موت کی چاپ سنائی دیتی ہے۔ کسے معلوم کہ اسے اگلا پل نصیب بھی
ہوتا ہے کہ نہیں مگر امید پر دنیا قائم ہے اور سب اسی پر چلے جارہے ہیں۔
کسی دانشور کا کہنا ہے کہ دنیا ایک سٹیج ہے اور یہاں آنیوالے ہر ذی روح کو
اپنا کردار نبھانا ہے۔ مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے کردار اعمال
اور افعال سے اپنے کردار کو ایسا لافانی و لاثانی شاہکار بنا دیتے ہیں جو
ہمیشہ کیلئے امر ہو کر خلق خدا کے دلوں پر نقش ہوجاتا ہے اور ان کا کردار
ایسا ہوتا ہے جسے ہمیشہ ہمیشہ دیکھنے کو دل چاہتا ہے۔ گوجرانوالہ کیلئے
سرمایہ افتخار اور وجہ ناز کی حیثیت رکھنے والے خواجہ نعمت اﷲ مرحوم و
مغفور بھی انہیں عظیم لوگوں میں سے ہیں جو خلق خدا کیلئے اپنا آپ وقف
کردیتے ہیں۔ گوجرانوالہ کے معروف، نیک نام او رفن پہلوانی میں ”شیر پنجاب“
کا لقب پانے والے علی محمد پہلوان کے گھر پیدا ہونیوالے اس عظیم سپوت نے
سماجی، فلاحی اور رفاعی تاریخ میں ایسے انمٹ نقوش چھوڑے کہ آج پندرہ سال کا
عرصہ گزرنے پر بھی لوگ اس عرصہ میں دنیا سے چلے جانیوالے اپنے سگے بہن
بھائیوں کو تو شاید بھول چکے ہوں لیکن خواجہ نعمت اﷲ سے ملنے والی پیارو
محبت اور اپنائیت کو نہیں بھول پائے۔ ان کی شخصیت ایک گھنے پیڑ کی مانند
تھی جس کی ٹھنڈی چھاﺅں میں سفر حیات کے مارے لوگ سستانے آجاتے تھے۔ خواجہ
صاحب اپنے پرائے سب سے یکساں محبت کرتے تھے۔ گویا وہ ایک ایسی شمع کی مانند
تھے جو دیر و حرم میں یکساں روشنی پھیلاتی ہے۔ شہر کا ہسپتال ہو یا لاری
اڈا، سنٹرل جیل ہو یا تعلیمی ادارہ، مسجد ہو یا ولی اﷲ کا ڈیرا، قبرستان
میں کوئی سہولت پہنچانے کی ضرورت ہو یا کسی جگہ راستہ بنانے کا مسئلہ
پہلوانوں کا اکھاڑہ ہو یا کسی یتیم بچی کی شادی، مدرسہ سرحد میں تعمیر ہو
یا بلوچستان میں ہر جگہ خواجہ نعمت اﷲ کے نشانات نظر آئیں گے۔ انجمن فلاح
کشمیریاںکے پلیٹ فارم سے علامہ اقبال ہسپتال بنانے کی مہم چلائی اور اسے
شہر کا خوبصورت اور جدید طبی سہولتوں سے آراستہ ہسپتال بنا کر لوگوں کیلئے
وقف کردیا۔ عید قربان پر کھالیں اکٹھی کرنے کا مرکز جاوید اسٹیل مارکیٹ میں
ان کا کاروباری مرکز ہی ہوتا تھا جو ان کی قائم کی گئی روایت کے مطابق
پندرہ سال گزر جانے پر بھی ہر سال ان کی دکان ہی ہوتی ہے اور ان کے فرزند
خواجہ شجاع اﷲ اپنی عید کی خوشیاں نظر انداز کرکے اس خدمت خلق کے کام میں
عید کے تینوں دن وہیں گزارتے ہیں۔
مثالی کاروباری صفات کی وجہ سے آل پاکستان امپورٹرز اسٹین لیس اسٹیل ایسوسی
ایشن کے تاحیات صدر رہنے والے خواجہ نعمت اﷲ تمام عمر سیاست کی ہیرا
پھیریوں سے دور رہے۔ الیکشن کے دنوں میں ہر سیاسی آدمی کی خواہش ہوتی ہے کہ
خواجہ صاحب اس کی حمایت کریں۔ مگر انہوں نے ہمیشہ غیر جانبداری کا مظاہرہ
کیا۔ انہوں نے شہر میں متحارب ایسے ایسے فریقین میں صلح کرا دی جس کا کوئی
امکان نہ تھا۔ روزانہ ان کے گھر کے باہر غرض مند عورتوں، بچوں اور مردوں کا
جھمگٹا لگا رہتا جن میں سے شاید ہی کبھی کوئی خالی ہاتھ گیا ہو۔ دینی،
کاروباری، سماجی، تعلیمی، پہلوانی اور مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے
لوگ خواجہ صاحب کی سرشام جمنے والی محفل میں شریک ہوتے۔
مختلف مزاج سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ایک ہی جگہ پر اکٹھا کرنا شاید ہر
آدمی کاکام نہیں۔ اس سب کے باوجود خواجہ نعمت اﷲ انتہائی سادہ انسان تھے ہر
آدمی سے سلام لینے میںپہل کرتے اور بڑے سے بڑے رئیس زادے سے بھی اسی طرح
پیش آتے جس طرح عام لوگوں سے یہی وجہ تھی کہ جب 2فروری 1998ءکو خواجہ صاحب
کی موت کی المناک خبر شہر میں پھیلی تو انسانوں کا ایک سمندر شیرانوالہ باغ
کی طرف چل پڑا۔ کسی دانشور کا قول ہے کہ کسی انسان کی عظمت کا اندازہ کرنا
ہو تو اس کی موت کا انتظار کرو۔ انسانوں کے اس سمندر میں ہر شخص کے چہرے پر
چھائے غم کے بادل یہی ظاہر کررہے تھے کہ اسکاکوئی بہت ہی قریبی عزیز اور
جان سے بھی پیارا اسے تنہا چھوڑ گیا ہے۔ کوئی اپنے محسن کو رو رہا تھا تو
کوئی اپنے دوست کیلئے دکھی تھا۔ کسی کا باپ بچھڑا تھا تو کسی کا غمگسار داغِ
مفارقت دے گیا تھا۔ غرض ہر کوئی اس بات کا دعویدار تھا کہ وہی خواجہ نعمت
اﷲ مرحوم مغفور کا قریبی ہے۔ یہی وہ خاص بات تھی جو محترم خواجہ صاحب کو
منفرد اور ممتاز بناتی تھی کہ مال و دولت کی فراوانی نے انہیں مفرور نہیں
عاجز بنایا تھا۔ خواجہ نعمت اﷲ کے فرزندان خواجہ شجاع اﷲ، خواجہ ضیاءاﷲ،
خواجہ ذکاءاﷲ بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انسانی خدمت کے اس مشن
کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خواجہ صاحب آج ہم میں نہ ہو کر بھی
موجود ہیں اور ان کا نام لینے والے صرف ان کی اولاد یا ان کے عزیزواقارب ہی
نہیں بلکہ وہ دوست، ہمدم اور وہ گمنام لوگ بھی ہیں جو ان کے حسن سلوک سے
فیض یاب ہوتے رہے ہیں۔ بلاشبہ خواجہ نعمت اﷲ مرحوم و مغفور ایسے بڑے آدمی
تھے جن کی شخصیت کا احاطہ الفاظ سے نہیں احساس سے کیا جاسکتا ہے۔ |