پشاور میں پولیس گاڑی کو نشانہ
بنانے کے واقعے کے بعد پولیس کے حکام نے واضح ہدایات جاری کردی ہے کہ کھانے
پینے کا عمل یا تو تھانو ں کے اندر کیا جائے یا پھر اگر ضروری بھی ہوا تو
پولیس وین میں کھانے پینے کے دوران ایک اہلکار لازمی سیکورٹی کیلئے کھڑا
رہے گا جبکہ مسلسل حملوں کا نشانہ بننے کے واقعات کے بعد پولیس کیلئے
موبائل وین کو بم پروف بنانے کیلئے بھی اقدامات اٹھائے جارہے ہیں حکام کا
پولیس اہلکاروں کیلئے یہ اقدام تو بہتر ہے اور امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ
اس اقدام سے بہت حد تک سیکورٹی کی صورتحال بہتر ہو جائیگی اور اس طرح کے
واقعات میں کمی آئیگی لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کو کس
طرح پتہ چلتا ہے کہ پولیس کی گاڑی فلاں جگہ پر کھڑی ہے اور سربازار وہ لوگ
اس میں بم رکھ دیتے ہیں اس کا مطلب تو یہ ہے کہ یا تو پولیس اہلکار ان
لوگوں سے ملی ہوئی ہیں یا پھر عوام کے پیسوں پر پلنے والی یہ مخلوق انتہائی
نالائق ہے یا پھر اندھے ہیں کہ کوئی ٹائم بم رکھ کر چلا جاتا ہے اور ان
لوگوں کو پتہ بھی نہیں چلتا -یا پھر پولیس اہلکار مسلسل ایک ہی جگہ پر آتے
ہیں جسکی وجہ سے نشاندہی آسانی ہوتی ہے ہمارے ہاں یہ عجیب سا دستور ہے کہ
تحقیقاتی عمل پورا ہونے کے بعد معلومات کی شیئرنگ کا عمل نہیں ہوتا نہ ہی
یہ عمل پولیس کی طرف سے ہوتا ہے اور نہ ہی ہماری میڈیا فالو اپ کرتی ہے جس
سے اندازہ ہوسکے کہ خامی کہاں پر تھی اور اس کی روک تھام کیلئے مستقبل میں
کیا اقدام اٹھائے گئے
کچھ عرصہ قبل تھانہ سربند کے علاقے بٹہ تل میں پولیس اہلکاروں کو کھانے کے
دوران نشانہ بنایا گیا جس میں ہوٹل انتظامیہ سمیت عام لوگ بھی زخمی ہوگئے
تھے ابتداء میں بم ڈسپوزل یونٹ نے اطلاع دی کہ ہینڈ گرنیڈ سے حملہ ہوا تاہم
بعد میں وہاں زمین میں ہونیوالے گڑھے کی نشاندہی سے پتہ چلا کہ ا ن پولیس
اہلکاروں کیلئے دیسی ساختہ بم وہاں نصب کیا گیا تھا اور پولیس اہلکار جیسے
ہی وہاں کھانے کیلئے پہنچے تو دھماکہ کردیا گیا یہ وہ رپورٹ تھی جو شیئر
نہیں کی گئی اس سے اندازہ ہوا کہ یہ پولیس اہلکار روٹین کے مفت کھانے کیلئے
وہاں پہنچے تھے اور انہیں مسلسل ایک جگہ پر دیکھ دہشت گردوں کو بھی انہیں
نشانہ بنانے میں آسانی ہوئی یہی سلسلہ گذشتہ روز فردوس چوک میں بھی ہوا
لیکن بات آئی گئی اگر حکام پولیس اہلکاروں کو کھانے کے حوالے سے اس طرح
ہدایت کرتے کہ مہربانی کرکے مفت کھانے سے پرھیز کرے اور وہ بھی مسلسل ایک
جگہ سے تو شائد اس سے بھی اس طرح کے واقعات میں کمی آجائے لیکن کمی کمینوں
کے پیسوں پر پلنے والے یہ اہلکار انہیں اپنے آپ کو نہیں بلکہ کمی کمینوں کو
اپنا جوابدہ سمجھتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ٹیکسوں میں تو ان لوگوں
سے تنخواہ وصول کی جائے لیکن مفت میں کھانے پینے کا سامان ملتا رہے تو یہ
سونے پر سہاگہ ہے-لیکن ہماری مصیبت بھی یہی ہے کہ کمی کمینوں کو اپنے حقوق
کا پتہ ہی نہیں یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی انہیں ڈرانے دھمکانے کا کام کررہا ہے
اب بھلا ہو اپنے ملک صاحب کا جن کا لوگ رشتہ اب وینا ملک سے ملا رہے ہیں
اور اس بارے میں ایس ایم ایس بھی بہت زیادہ پھیلا ہوا ہے ایک ہفتے سے کراچی
میں دہشت گردی کی پیش گوئی کرنے والے ملک صاحب کی اس بات نے وہاں کے لوگوں
کو ذہنی تناؤ کا شکار کردیا ہے اور حالات بھی سنگین تر ہوتے جارہے ہیں -
پاکستانی قوانین کے مطابق اگر شخص کو کسی سے ڈر ہو تو وہ اپنے حفاظت کیلئے
اپنے متعلقہ تھانے میں 107/21 کے تحت پرچہ کرسکتا ہے کہ جس میں وہ ڈرانے و
دھمکانے والے کے خلاف شکایت کرسکتا ہے اور عدالت بندے کی شخصیت اور حیثیت
دیکھ کر ان سے ضمانت بھی لے سکتا ہے ملک صاحب کی دہشت گردی کے حوالے سے
بیان سے کمی کمین ذہنی تناؤ کا شکار ہیں کوئی یہ نہیں سوچتا کہ جس کا کام
ملک کی حفاظت کرنا ہے اور جس نے حلف بھی آئین پاکستان کے تحت اٹھایا ہو اگر
وہ شخص خود ہی شہریوں کو ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ شروع کرے تو اس کا مطلب یہ
نکلتا ہے کہ یا تو متعلقہ شخصیت خود ہی دہشت گردوں سے ملا ہوا ہے یا پھر
خود ان کاموں میں ملوث ہے اگر ملک صاحب یہ کہتے ہیں کہ انہیں اس بارے میں
اطلاعات ہیں تو پھر یہ اطلاعات کس ایجنسی نے دی ہیں اور یہ کیسی ایجنسیاں
ہیں جنہیں یہ تو پتہ ہے کہ دہشت گردی ہونے والی ہے لیکن انہیں روکنے کیلئے
کوئی اقدام نہیں اٹھایا جاتا- ملک صاحب کو اپنے ملک کے کمی کمینوں کا خیال
ہی نہیں لیکن انہیں بھارت میں رہنے والے فنکار کا بہت خیال ہے فنکار کو
ہمارے ہاں لوگ ڈم اور میراثی سمجھتے ہیں اور ہم نے تو یہ سنا ہے کہ ہر ایک
کو اپنے رشتہ داروں کا بہت دکھ ہوتا ہے شائد ملک صاحب کی کوئی دور کی رشتہ
داری ہو اگر ملک صاحب نے مسلمان ہونے کی وجہ سے بھارتی اداکار کے حوالے سے
بیان دیا تو کیا اس مملکت اسلامی جمہوری اور فلاحی ملک میں مسلمان نہیں
قابل ذکر بات تو یہ ہے کہ بھارتی میراثی میرا مطلب ہے کہ فنکار نے جوابا
کہہ دیا ہے کہ کسی کو ان کا غم کھانے کی ضرورت نہیں اس حوالے سے بھارتی
وزارت خارجہ کا بیان بھی ہمارے حکمرانوں کی آنکھیں کھولنے کے بہت ہے جس میں
انہوں نے ملک صاحب کو طعنہ دیا کہ اگر ملک صاحب اپنے عوام کی فکر کریں تو
یہ بہتر ہے - |