بچوں کو اسکول پہنچانا اور لانا
یومیہ معمول ہی نہیں، کراچی جیسے شہر میں تو اچھا خاصا دردِ سر بھی ہے۔
والدین کو علی الصباح بیدار ہوکر بچوں کو تیار ہی نہیں کرنا پڑتا، اسکول تک
چھوڑنا بھی پڑتا ہے۔ جو لوگ اس مشقت سے بچنا چاہتے ہیں وہ وین لگوا لیتے
ہیں۔ بڑی گاڑی میں بچے قدرے باسہولت اور آرام دہ انداز سے سفر کرتے ہیں اور
اسکول پہنچنے تک تازہ دم رہتے ہیں۔ سوزوکیوں اور رکشوں میں بچوں کو جس لا
پروائی سے لے جایا اور لایا جاتا ہے اسے سفّاکی سے مماثل قرار دیا جاسکتا
ہے۔ سوزوکیوں میں بچوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونسا جاتا ہے۔ گاڑی کا مالک
زیادہ سے زیادہ بچت چاہتا ہے۔ والدین کم سے کم پیسے دینا چاہتے ہیں۔ ان
دونوں کی کشمکش میں شامت بچوں کی آجاتی ہے۔ بڑی وین والے زیادہ پیسے لیتے
ہیں۔ تمام والدین دو یا تین بچوں کو وین سے بھیجنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
بچوں کو اسکول لے جانے والے سی این جی اور چنچی رکشوں میں بچوں کو سوار
کرنے کے نام پر ٹھونسا جاتا ہے۔ چھوٹے عمر کے بچے ٹھیک سے بیٹھ بھی نہیں
پاتے اور کھڑے کھڑے سفر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ڈرائیور کو بظاہر اس بات
سے کچھ غرض نہیں ہوتی کہ بچے کس طرح بیٹھے یا کھڑے ہیں۔ وہ رکشہ دوڑاتے
ہوئے اسکول پہنچتے ہیں۔ بسا اوقات انہیں دوسری شفٹ بھی اٹھانی ہوتی ہے۔ آپ
دیکھ رہے ہیں کہ سی این جی رکشہ میں بچی کس طرح تقریباً لٹکنے کے انداز سے
کھڑی ہوئی ہے اور ڈرائیور کو بظاہر اس بات سے کچھ غرض نہیں کہ نا سمجھ بچی
کس طرح کھڑی ہے۔ ایسے میں، خدا ناخواستہ، حادثہ بھی ہوسکتا ہے۔ سی این جی
سلنڈرز پھٹنے کے بڑھتے ہوئے واقعات کے باعث دل کو دھڑکا سا لگا رہتا ہے کہ
کہیں کوئی سلنڈر پھٹ نہ جائے۔
|
|
سی این جی رکشوں میں اب اضافہ سلنڈرز رکھے ہوتے ہیں۔ ڈرائیور اپنی سیٹ کے
ساتھ ہی ایک سلنڈر نصب کرتا ہے اور کبھی کبھی رکشہ کے پچھے حصے میں بھی
سلنڈر دھرا ہوتا ہے! یہ سلنڈر دائمی خطرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اسکول میں داخلہ دلاکر اچھی تعلیم کے حصول کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ
بچوں کو محفوظ طریقے سے اسکول بھیجنے کا اہتمام کرنا بھی والدین ہی کا فرض
ہے۔ اگر اسکول زیادہ دور نہ ہو تو خود چھوڑ آنا چاہیے۔ اور اگر تھوڑا دور
ہو تو بہتر گاڑی کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اسکول کی بڑی وین خاصی محفوظ ہوتی
ہے اور بچے ان میں قدرے آرام سے سفر کر پاتے ہیں۔ بچوں کے تعلیمی مستقبل کی
حفاظت کے ساتھ ساتھ خود بچوں کی حفاظت پر بھی بھرپور توجہ دی جانی چاہیے
تاکہ وہ خطرناک طریقے سے اسکول نہ جائیں اور بہتر گاڑیوں میں سفر کریں۔ بڑی
اور قدرے محفوظ وین کا کرایا کچھ زیادہ بھی ہو تو کچھ ہرج نہیں۔ کوئی بھی
چیز انسانی جان سے بڑھ کر نہیں ہوتی اور جان بھی کس کی؟ اپنے ہی بچوں کی۔
والدین چھوٹی کلاس کے بچوں کو رکشوں کے ذریعے اسکول بھیجنے سے گریز کریں تو
اچھا ہے۔ کھلی سواری بچوں کے لیے اچھی خاصی خطرناک ہوتی ہے۔ زیادہ کمانے کے
چکر میں رکشے دوڑانے والوں کو بظاہر اِس بات سے کچھ خاص غرض نہیں ہوتی کہ
پیچھے بیٹھے ہوئے بچے کس حال میں ہیں۔ یہ سوچنا تو والدین ہی کا کام ہے! |