تاریخ گواہ ہے کہ فقط خوش بیانی
کے جوہر دکھا کر دنیا میں کوئی قوم ابھری نہیں ہے ،عمل کو چھوڑ کر صرف
باتیں بنا کر زبانی محبت کے اظہار کرنے سے کیا خراج عقیدت ادا ہو جائے گا ،نہیں
بلکہ اس سے تو دین ھدیٰ اور بدنام ہوگا ۔ہمارے قول و عمل کی دورنگی سے بہت
درد انگیز انجام دیکھنے کو مل رہا ہے ۔یہ سچ اور حقیقت ہے کہ میلاد و سیرت
کے جلسے بظاہر بامِ سعادت کے زینے ہیں محمدؐ کی نعت موتی کی مانند ہیں ،ایمان
کی انگشتری کے نگینے ہیں ،مگر ہمیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ ہماری بے روح
لفظوں کی قیمت ہی کیا ہے ۔اگر ہم بنی ؐ کی حیات مقدس پر نظر ڈالیں تو ہمیں
سراپا جہاد مسلسل ملے گی ،وفا کی صلابت میں فولاد و آہن اور کرم کی لطافت
میں رحمت ملے گی ۔ہمیں غورو فکر یہ کرنا ہے کہ محمد ؐ نے نور ہدایت کا پرچم
کیسے اڑایا ،دبتوں اور مظلوموں کو کیسے ابھار ا ،گرتوں کو کیسے اٹھایا ۔ہمیں
یہ سوچنا چاہئے کہ وہ کیا چیز تھی جس کے بل پر خدا کے پیمبر نے اٹھ کر
ایوانِ روما کی مسند کو الٹ دی تھی ،صحرا نشینوں کی کایا کیسے پلٹ دی تھی ۔ہم
سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ محمد مصطفی ﷺ نے
میدان سعی و طلب میں دامن استقامت کو کبھی نہ چھوڑا تھا ۔سارے زمانے سے کٹ
کر خدا کی اطاعت و وفا کا حقیقی محبت کا پرچم اٹھایا تھا ۔جس کے مضبوط دست
عمل میں نرالی شجاعت کا پرچم لہرایا تھا ۔وہ سراپا جرات و ہمدت مجسم تھا وہ
راتوں کا عابد اور دن کا سپاہی تھا ،انہوں نے سیاست کی زلفیں سنواریں اور
فقیری میں بادشاہی کی ۔اگر ہمیں کچھ بھی عقیدت ہے تو اپنا وطیرہ بدلنا پڑے
گا اور صداقت کے سانچے میں ڈھلنا پڑے گا ۔سخت راہوں پہ چلنا پڑے گا وہ
تابندہ اسلام جو کتابوں کے اوراق میں دفن ہو کر رہ گیا ہے اس پر عمل کرنا
پڑے گا اور یہ عہد کرنا ہوگا حبیب خدا کی اطاعت کیلئے ہمیں حقیقی مسلمان
بننا پڑے گا ۔یہ ذوق اطاعت سے خالی عقیدت ،عقیدت نہیں صرف بازی گری ہے ۔بتانِ
قوم وطن جس کو محمد مصطفی ﷺ نے توڑا تھا لیکن افسوس کہ ہم نے انہیں نئے سرے
سے پھر تراش لیا ہے اخوت کا جو محل تعمیر کیا تھا ہم نے اسے نفاق کی ضربت
سے توڑ دیا ہے ۔مسلمان اس دنیا میں عزت کیلئے بھیجے گئے ہیں ذلت کیلئے نہیں
حکمرانی کیلئے بھیجے گئے ہیں محکومی کیلئے نہیں، غلبہ و کامرانی کیلئے
بھیجے گئے ہیں ناکامی اور نامرادی کیلئے نہیں ،ترقی و سربلندی کیلئے بھیجے
گئے ہیں پستی و زبو حالی کیلئے نہیں شرط صرف یہ ہے کہ ہم اپنی جگہ پر
آجائیں اپنی حیثیت اور اپنے منصب کو پہچان لیں ہم ایک خدا کے بندے میں اور
واقعی ایک خدا کے بندے بن جائیں ۔ |