سماجی کارکنوں میں بھی اخلاص نہ رہا

اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ ملک بھر میں جہاں بھی ناخوش گوار واقعات یا فرقہ وارانہ فسادات رونماہوتے ہیں وہاں بن بلائے سماجی کارکنوں کی انجمنیں یا جماعتیں سب سے پہلے متاثرین کی ہمدردی کے لیے پہنچتی ہیں اور ان کی آواز میں آواز ملاکر انتظامیہ ‘شرپسندوں اور حکومتوں کو لتاڑتی ہیں ۔اس طرح سے متاثرین کو وقتی طور پر تھوڑاسا صبر آجاتا ہے اور وہ حالات سے مقابلہ کر نے کے لیے تیارہوجاتے ہیں۔ کبھی کبھی کو ئی اکیلا سماجی کارکن بھی اسی طرح کے کارنامے کر تا ہے ۔اسی پر بس نہیں پھر توایسی انجمنیں یا اکیلا سماجی کارکن متاثرین کی داد رسی ‘امدا د اور بازآباد کاری کے لیے رات دن ایک کردیتے ہیں ۔انتظامیہ اور حکومت کی برائیوں کے لیے میٹنگوں پہ میٹنگیں‘ امیر لوگوں اور بیرو نی ممالک سے غریبوں کی بازآباد کاری کے لیے چندوں پہ چندے اور حکومت کی وزرات اقلیتی بہود سے ان کے نام پررقمیں اینٹھنا ایک طویل عرصے تک ان کے کام بن جاتے ہیں ۔یہ لوگ کون ہوتے ہیں؟کہاں سے آتے ہیں؟کیوں متاثرین کے غم میں شریک ہوتے ہیں ؟ان سوالوں کو نہ تو کو ئی پوچھتا ہے اور نہ ہی کسی کے ذہن میں یہ خدشات کھٹکتے ہیں ۔انھیں تو لوگ بلا سوچے سمجھے ’’خدا ‘‘کا فرشتہ تک بھی کہہ ڈالتے ہیں۔اس میں غلطی کسی کی بھی نہیں ہے ۔متاثرین تو اپنے زخموں سے ہی تڑپتے رہتے ہیں ‘دور رہنے والے بس افسوس کر کے رہ جاتے ہیں ۔رہی سماجی کارکنوں کی انجمنیں اور سماجی کارکن تووہ اپنا گھناؤنا مقصد حاصل کر لیتے ہیں اور فرشتوں کے لباس میں شیطانی عمل کر ڈالتے ہیں۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ کسی کو ان پر شک تک نہیں ہوتا‘ اُس آگ و طوفان کے ماحول میں کسی کو کچھ بھی انداز ہ نہیں ہوپاتااوریہ لوگ انسانیت کا ڈھنڈورا پیٹ کر اپنا کام نکال لیتے ہیں پھر جب دھند چَھٹتی ہے تو پھر کہیں فساد ہوجاتا ہے اوریہ انجمنیں یا سماجی کارکن وہاں تعزیت اور افسوس کے لیے پہنچ جاتے ہیں اور انھیں بھی بے وقوف بنا کر امداد کے لیے ملنے والی ساری رقم ہڑپ کر جاتے ہیں ۔میرے ان خیالات کی تصدیق کے لیے حالیہ دنوں رونما ہونے والا یہ واقعہ کافی ہوگا جس نے انسانیت کو ایک بار پھر شرم سار کر دیا ہے ۔

ملک کی مشہوراورمایہ ناز سماجی کارکن ’’ محترمہ تیستا سیتلواڑ‘‘کی سماج سیوا کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ‘ملک کا ہر کس و نا کس انھیں جانتا ہے اور ان کی سماجی خدمت کے ہر جگہ چرچے ہیں لیکن ان پرگجرات فسادات کے نام پر 75لاکھ روپے ہڑپ کر نے کا الزام عاید ہوا ہے اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ انھوں نے اس الزا م کا دفاع بھی نہیں کیا ہے۔جس سے انداز ہ ہوتا ہے کہ ’’دال میں کچھ کالا ہے ‘‘یا پوری دال ہی کالی ہے۔

ہوسکتا ہے کچھ قارئین کو اس پر یقین نہ آئے لیکن ’’مانو یا نہ مانو ‘‘یہ سچ اور روشن کی دن کی طرح صاف حقیقت بھی۔یہ دلوں میں ہلچل مچادینے والا انکشاف اس وقت سامنے آیا جب گجرات فساد ات کی 10ویں برسی(28فروری2013) کے موقع پراحمد آباد میں واقع گلبرگ سوسا یٹی کے ذمے داروں نے تیستا سیتلواڑ جیسے نام نہاد ہمدردوں پر سوسائٹی کے دروازے بند کردیے اور’’ واپس جا ؤ واپس جاؤ ‘‘کے نعرے لگا کر انھیں بیرنگ لوٹا دیانیز آیندہ ان کے داخلے پر پابندی کے لیے پولیس میں عرضی بھی دائر کر دی ۔

سو سایٹی کے ذمے داروں کا کہنا ہے کہ’’ وہ نام نہاد ہمدردوں اور جھوٹ موٹ کے آنسو بہانے و الوں سے بالکل عاجز آچکے ہیں ۔یہ لوگ کسی موثر اقدام کے علاوہ ہمیں اب تک صرف دلاسا اور تسلّی ہی دیتے رہے ہیں دوسرے لفظوں میں ہمیں بے وقوف بنا تے رہے ہیں۔انھوں نے ہماری فلاح و بہودکے لیے دنیا بھر سے جو رقم بٹوری ہے جس کا تخمینہ 57لاکھ روپے ہے اس کا ایک پیسہ بھی ہمیں نہیں ملا ‘وہ سب کہاں گیا ؟نیز اب تک تیستا سیتلواڑ جیسے لوگوں نے ہمارے لیے کیا کچھ کیا ہے ؟جس پیسے پرہمارے متاثرین کا حق تھا وہ تیستا سیتلواڑ جیسے لوگ ہضم کر گئے ۔ ہم آج بھی اسی طرح بے بس و مجبور ہیں اور اپنے زخم سل رہے ہیں مگر اب ہمیں صبر کر نا اور اپنے آپ کو سنبھالنا آگیا ہے اس لیے ایسے مگر مچھ کے آنسو بہانے والوں اور نام نہاد ہمدروں کی ہمیں کو ئی ضرورت نہیں ہے ۔‘‘

واضح ہو کہ یہ تیستا سیتلواڑ وہی ہیں جو 28فروری 2002 کے گجرات فسادات کے بعد روزنامہ راشٹریہ سہاراکے معزول گرو پ ایڈیٹر عزیز برنی اورسماجی وادی پارٹی کے سابق جنرل سکریٹری ٹھاکرامر سنگھ کے ساتھ متاثرین کی فریادرسی کے لیے خصوصی طیارے سے احمدآباد پہنچی تھیں۔تینوں لوگوں کے مقاصد الگ الگ تھے ۔مظلومین و متاثرین انھیں دیکھ کر تھوڑی دیر کے لیے اپنے غموں کو بھول گئے کیو نکہ اول الذکر دونوں حضرات اس وقت اپنے عہدوں پر براجمان تھے اور تیستا تو پورے ملک میں سماجی کارکن کے نام سے مشہور تھیں ہی ‘گجرات میں اِن لوگوں نے اپنا الّو خوب سیدھا کیا اور متاثرین کو بے وقوف بنا یا۔اور لاشوں پر’’ صحافت وسیاست ‘‘کر تے رہے مگر قدرت نے بھی انھیں جلد ہی سبق سکھا دیا اوروہ دونوں بہت جلد اپنے اپنے عہدوں سے بڑے بے آبرو ہو کر بر خاست ہو ئے ۔تیستا سیتلواڑ کی کچھ نیکیا ں اب تک کام آتی رہیں مگرکب تک ؟ اس کے گناہوں پھر سے ان پر حاو ی ہو گئے اور آج وہ سماجی کارکن کے بجائے ایک مجرم ‘بدعنوان ‘کر پٹ ‘گھپلہ باز اورلاشوں کی سوداگری کر نے والی‘خونخواراور ڈائن عورت بن گئیں۔
ایسے واقعات کے بعد اب کو ئی کسی سماجی کارکنان پر بھروسہ نہیں کرے گا ۔کرے بھی کس طرح جس کسی پر بھی بھروسہ کیا ہے وہ بد عنوان اور کر پٹ نکلا ۔انا ہزارے کوکون نہیں جانتا ‘ملک کا بچہ بچہ اس سے واقف ہے لیکن اس کی بھی نیت میں فتور تھا۔با با رام دیو سماج سیوا کی آڑ میں ملک کا تختہ پلٹ کرنے کے منصوبے بنا ئے ہو ئے تھا۔اروند کجریوال سیاست میں داخلے کے لیے ہاتھ پاؤ ں مار رہا تھا اور جب اس کی ’’آپ‘‘بن گئی تو پھر اس نے سماج سیوا کا چو لا اتار کر سیاست کا لباس کا پہن لیا۔

کس کس کا نام لوں ‘کس کس کی جنم کنڈلی بیان کر وں‘کس کس کی کے بارے میں کہوں ‘کو ئی بھی تو ایسا نہیں نظر آتا جس کے دل میں اخلاص کی رمق بھی باقی ہو ۔بات دراصل یہ ہے کہ پیسہ ہے ہی ایسی چیز جو کری کرائی تو بہ کو توڑ دیتی ہے اور اس کی خاطر انسان اپنے عزیزوں تک کا خون کر دیتا ہے پھر یہ سماجی کارکن تو کسی کے بھی عزیز نہیں ہوتے‘انسانیت کے بھی نہیں‘پھر کیوں یہ اپنی محنت سے ‘چال بازی اور فریب کاری سے اکھٹا کیا ہوا پیسہ متاثرین کو دیں۔

احساس
انھیں تو لوگ بلا سوچے سمجھے ’’خدا ‘‘کا فرشتہ تک بھی کہہ ڈالتے ہیں۔اس میں غلطی کسی کی بھی نہیں ہے۔ متاثرین تو اپنے زخموں سے ہی تڑپتے رہتے ہیں ‘دور رہنے والے بس افسوس کر کے رہ جاتے ہیں ۔رہی سماجی کارکنوں کی انجمنیں اور سماجی کارکن تو اپنا گھناؤنا مقصد حاصل کر لیتے ہیں اور فرشتوں کے لباس میں شیطانی عمل کر ڈالتے ہیں۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ان پر کسی کو شک بھی نہیں ہوتا‘ اُس آگ و طوفان کے ماحول میں کسی کو کچھ بھی انداز ہ نہیں ہوپاتااوریہ لوگ انسانیت کا ڈھنڈورا پیٹ کر اپنا کام نکال لیتے ہیں پھر جب دھند چَھٹتی ہے تو پھر کہیں فساد ہوجاتا ہے اوریہ انجمنیں یا سماجی کارکن وہاں تعزیت اور افسوس کے لیے پہنچ جاتے ہیں اور انھیں بھی بے وقوف بنا کر امداد کے لیے ملنے والی ساری رقم ہڑپ کر جاتے ہیں ۔
IMRAN AKIF KHAN
About the Author: IMRAN AKIF KHAN Read More Articles by IMRAN AKIF KHAN: 86 Articles with 60555 views I"m Student & i Belive Taht ther is no any thing emposible But mehnat shart he.. View More