کچھ وقت اولیاء کرام کی صحبت میں - پہلا حصہ

 برصغیر پاک و ہند اور مشرق وسطیٰ میں اولیاء کرام کا بہت اثر و رسوخ ہے کیوں کہ ان پاک ہستیوں نے ان معاشروں میں دعوت الی اللہ، اپنے اخلا ص اور حسن خلق کے ذریعے لوگوں کے دل جیت لیے تھے۔ان تمام درویش صفت افراد نے اپنی زندگیاں اللہ کی راہ میں کھپا دیں یہ تمام لوگ دین کے ساتھ مخلص تھے آج ایک المیہ یہ بھی ہے کہ یہ تمام اولیاء کرام ساری زندگی لوگوں کو اسلام کی اور توحید کی دعوت دیتے رہے لیکن ہم لوگوں نے ان کی سیرت کے بجائے صرف ان کے مزارات پر جانے ہی کو کافی سمجھ لیا ہے ( یہ ایک الگ بحث ہے کہ مزارات پر جانا درست ہے یا نہیں اور اس فروعی بحث میں الجھنا بھی مناسب نہیں ہے) صرف مزارات پر جانا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے ساری زندگی جس مقصد کے لیے کھپا دی کیا ہم نے وہ مقصد حاصل کرلیا ہے؟ کیوں کہ مشہور بزرگ حضرت ابو علی دقاق رح کے پاس ایک شخص بڑی دور سے چل کر آیا اور عرض کی کہ فلاں جگہ سے آپ کی زیارت کے لیے حاضر ہوا ہوں ۔آپ نے فرمایا کہ جس مقصد کے لیے تم آئے ہو وہ محض طویل سفر طے کرنے سے حاصل نہیں ہوسکتا اسے حاصل کرنے کے لیے اپنے نفس پر قابو پانے کی کوشش کرو پھر ہی کامیابی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ایک بات کی اور بھی وضاحت ضروری ہے کہ ہمارے بہت سے سادہ لوح بھائی جوش عقیدت میں اتنا آگے بڑھ جاتے ہیں کہ وہ اولیاء کرام کا رتبہ اور کرامات بیان کرنے میں بعض اوقات اتنا آگے بڑھ جاتے ہیں کہ اولیاء کرام کی صفات نعوذ باللہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی زیادہ بیان کردیتے ہیں اس میں ان بھائیوں کی نیت کا کوئی کھوٹ نہیں ہوتا بلکہ یہ محض نادانی اور کم علمی کے باعث ایسا کرتے ہیں اس میں بنیادی بات یہ یاد رکھنے کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے محبوب ترین بندے اور نبی ہیں تو جو کرامات اللہ نے اپنے محبوب ترین نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں عطا کیں تو وہ ان کے کسی امتی کو کیسے عطا کی جاسکتی ہیں۔اس بات کا خیال رکھنا چاہیئے۔اب آیئے ذرا ان بزگان کی صحبت میں کچھ وقت گزارتے ہیں۔

آج ہمارے معاشرے میں جس فرد کو اختیار و اقتدار میں ایک ذار سا بھی حصہ ملتا ہے تو وہ پھولا نہیں سماتا ہے۔اور اس کے ساتھ ساتھ وہ پہلا کام اپنے عزیز و اقارب کو نوازنے کا کرتا ہے لیکن صاحب بصیرت اور اہل حق اس کو کیا سمجھتے تھے اس کا اندازہ اس واقعے سے ہوتا ہے کہ ایک صحابی حضرت ہرم بن حیام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کوئی سرکاری عہدہ سپرد کیا حضرت ہرم بن حیام رضی اللہ عنہ کو اس بات کا احساس تھا کہ عزیز و اقارب اور دوست احباب کہیں ان کو کسی بات کے لیے مجبور نہ کریں یا سفارشیں نہ لائیں اس کے لیے انہوں نے اپنے گھر کے سامنے اسطرح آگ جلوا دی کہ آگ کا ایک پردہ ان کے اور احباب کے درمیان حائل ہوگیا ان کے دوست احباب اور اعزہ حسب توقع آئے لیکن مکان کے اندر نہ جاسکے کہ سامنے آگ جل رہی تھی دور سے سلام کر کے وہیں رک گئے آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ رک کیوں گئے؟جواب ملا کہ کیسے آئیں ہمارے اور آپ کے درمیان تو آگ حائل ہے۔فرمایا تم لوگ اس معمولی آگ سے نہیں گزر سکتے لیکن مجھے جہنم کی دہشت ناک آگ میں جھونکنا چاہتے ہو! وہ لوگ آپ کا مطلب سمجھ گئے اور واپس ہوگئے۔

کسی انسان کے لیے یہ بڑا مشکل ہوتا ہے کہ وہ اپنی کسی بات سے رجوع کرے یعنی اپنی غلطی تسلیم کرے آئیں دیکھں کہ حضرت ذوالنون مصری اس حوالے سے کیا فرماتے ہیں۔ایک شخص حضرت ذالنون مصری رح کی خدمت میں حاضر ہوا اور خواہش ظاہر کی کہ آپ اسے کوئی نصیحت کریں جو ہمیشہ کام آتی رہے،حضرت ذالنون رح نے فرمایا بس یہ خیال رکھنا کہ کہیں لوگوں کےعیوب کی چھان بین تم کو اپنے عیوب پر نظر ڈالنے سے غافل نہ کردے-یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو دوسروں پر نگران مقرر نہیں کیا ہے،پھر فرمایا کہ حق تعالٰی کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ شخص وہ ہے جو سب سے عقلمند ہو اور عقلمندی یہ ہے کہ جب ان کو حق بات بتائی جائے تو وہ اس کو فوراَ قبول کرتے ہیں خواہ حق بات کہنے والا مرتبہ حیثیت میں کتنا ہی کمتر کیوں نہ ہو۔دوسرے اگر س سے غلطی ہوجائے تو اس کا اعتراف کرنے میں مطلق نہ ہچکچائے، تیسرے یہ کہ اگر کوئی شخص اس سے بات کرے تو وہ اسکو پوری توجہ اور غور سے سنے اگرچہ وہ اس کو پہلے سے جانتا ہو۔-

آج کی دنیا میں ایک رجحان عام ہوگیا ہے کہ لوگ بھوک اور افلاس کےخوف میں مبتلا ہوگئے ہیں۔معیشت کو ہی سب کچھ سمجھ لیا گیا ہے اور اسی بات کو بنیاد بنا کر مغرب نے نس بندی یا خاندانی منصوبہ بندی کا شوشہ چھوڑا ہوا ہے ،اور لوگ وہ خالق وہ مالک جو رازق ہے، جو ایک پتھر میں رہنے والے کیڑے کو بھی رزق پہنچاتا ہے اس کے اوپر توکل نہیں کرتے ہیں ایک مرتبہ ایک شخص نے حضرت شبلی رح کے پاس جاکر اپنی تنگی، معاشی پریشانیوں اور کثرت عیال کا ذکر کیا تو حضرت شبلی رح نے فرمایا کہ ایک کام کر اپنے گھر میں جاکر دیکھو جس کسی کا رزق خدا کے ذمہ نہ ہو اس کو نکال دے، وہ شخص شرمندہ ہوکر خاموش ہوگیا اور دوبارہ کبھی حرف شکایت زبان پر نہ لایا۔اسی طرح ایک دفعہ حضرت بایزد بسطامی رح نماز پڑھ کر فارغ ہوئے تو امام مسجد نے پوچھا کہ آپ نہ تو کسی سے کچھ طلب کرتے ہیں اور نہ کچھ کام کرتے ہیں تو پھر آپ کی گزر بسر کس طرح ہوتی ہے، آپ نے فرمایا کہ ذرا صبر کرو پہلے میں اپنی نماز دہرالوں کیوں کہ ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا درست نہیں جو رزق دینے والے کو نہ جانتا ہو۔

آج ہم لوگ دنیا داری میں اتنے مگن ہوگئے ہیں کہ ہمارا دھیان اپنے مسائل، دنیا داری، کاروبار میں ہی لگا رہتا ہے۔یہاں تک کہ اب نماز میں بھی ہم لوگوں کا دھیان کاروبار ہی میں لگا رہتا ہے۔ یہ دنیا داری ہی اللہ سے لو لگانے کی راہ میں حائل ہوجاتی ہے۔حضرت خواجہ فریدالدین عطاری مشہور بزرگ گزرے ہیں فقر اختیار کرنے سے پہلے وہ ایک بڑے کاروبار کے مالک تھے ایک دن وہ اپنی دکان میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک درویش ادھر آنکلا اس نے سوال کیا کہ بابا راہ خدا میں کچھ فقیر کو دیدو،لیکن آپ رح نے کوئی توجہ نہیں کی جب اس نے بار بار اپنا سوال دہرایا تو خواجہ صاحب نے تنک کر کہا میاں اپنا راستہ ناپو دیوانوں کی طرح کیوں گھور رہے ہو؟اس درویش نے کہا بابا میں تو اپنا راستہ لونگا لیکن تم اپنا راستہ کیسے لوگے؟ خواجہ صاحب نے حیرت سے پوچھا کہ میرے اور تمہارے راستہ لینے میں کیا فرق ہے؟درویش نے پوچھا اچھا کیا تو میری طرح مر سکتا ہے؟خواجہ صاحب نے کہا ہاں بے شک، درویش نے کہا اچھا دیکھ میں کیسے مرتا ہوں یہ کہہ کر درویش اپنا کمبل سر کے نیچے رکھ کر لیٹ گیا اور پھر ایک بار زور سے اللہ کہہ کر وفات پاگیا،یہ واقعہ دیکھ کر خواجہ فرید الدین عطار کی حالت متغیر ہوگئی، ساری دکان کھڑے کھڑے لٹا دی اور راہ فقر اختیار کی۔

ایک دفعہ شیخ ابو سعید ابوالخیر صوفیوں کے ایک گروہ کے ساتھ کہیں جارہے تھے، راستے میں ایک جگہ سنڈاس کو صاف کیا جارہا تھا ہر طرف غلاظت بکھری ہوئی تھی اور سخت بدبو پھیلی ہوئی تھی، سب صوفی وہاں رک گئے اور اپنے ناکوں پو رومال رکھ کر ادھر ادھر منتشر ہوگئے لیکن شیخ ابو سعید رح وہاں کھڑے رہے اور فرمانے لگے اے لوگو! جانتے ہو یہ نجاست اس وقت زبان حال سے کیا کہہ رہی ہے؟ لوگوں نے کہا آپ ہی بتائیں۔آپ نے فرمایا کہ یہ نجاست کہتی ہے کہ کل میں بازار میں مٹھائی اور خوش رنگ پھلوں کی شکل میں دکانوں کی زینت بنی ہوئی تھی اور لوگ پیسے خرچ کرکے مجھ کو دھڑا دھڑ خرید رہے تھے اور اب میں صرف رات تمہارے پیٹ میں پہنچ کر اس حالت کو پہنچ گئی ہوں حق تو یہ ہے کہ مجھے تم لوگوں سے بھاگنا چاہیئے لیکن اس کے بر عکس تم مجھ سے بھاگ رہے ہو۔

حضرت شیخ ابو العباس رح ایک مرتبہ اخروٹ خریدنے گئے، دکان دار نے ملازم سے کہا اچھے اچھے اخروٹ چن کر دینا، شیخ نے پوچھا کہ جب کوئی شخص اخروٹ خریدنے آتا ہے تو کیا تم ہمشہ نوکر کو یہی حکم دیتے ہو، اس نے کہا نہیں یہ تو میں نے آپکے علم کی وجہ سے کہا ہے،آپ رح نے یہ سن کر جواب دیا بھائی میں یہ چند اخروٹوں کے عوض اپنا علم فروخت نہیں کرسکتا ۔یہ کہہ کر آپ اخروٹ لیئے بغیر چلے گئے (جاری ہے)۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1520919 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More