غیرمسلم آگے نکل گئے

 میں نے1995ء میں بحریہ ٹاؤن میں پودے اور درخت لگوائے تھے ،میں بنیادی طور پر درختوں کو خوبصورتی کی علامت سمجھتا ہوں۔ میرا خیال ہے جہاں گھاس، پھول اور درخت نہیں ہوتے اس جگہ کو جتنا مرضی سجا سنوار لیا جائے وہاں خوبصورتی پیدا نہیں ہوسکتی۔ میں قرآن میں جنت کے بارے میں پڑھتا ہوں تو مجھے اس میں ٹھنڈی آبشاروں، سست روندیوں، جنگلوں اور درختوں کے جھنڈ نظرآتے ہیں۔ اگر ہم زمین پر تخلیق کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے اللہ تعالیٰ نے زمین پر انسان کی پیدائش سے پہلے درخت اور سبزہ پیدا کیا۔

میں جب بھی کوئی پراجیکٹ شروع کرتا ہوں تو سب سے پہلے وہاں آرٹیکلچر پر توجہ دیتا ہوں۔ وہاں گھاس، پھول اور درخت لگواتا ہوں۔ میں نے 1995ء میں بحریہ ٹاؤن میں جو درخت لگوائے تھے وہ آہستہ آہستہ قد نکال رہے ہیں۔ میں نے ایک سال نباتات کے ایک ماہر سے رابطہ کیا اور اس سے پوچھا کیا دنیا میں ایسی ٹیکنالوجی ہے جس سے ہم بڑے سائز کے درخت خرید سکیں اور بحریہ ٹاؤن میں لگا سکیں۔ اس ماہر نے ایک بڑی تکنیکی بات بتائی۔ اس نے بتایا تھائی لینڈ میں بے شمار ایسی نرسریاں ہیں جو پچاس، پچاس اور سو ،سو سال پرانے درخت بیچتی ہیں۔

تھائی لوگ درخت کو گاچی سمیت زمین سے نکال لیتے ہیں،اس کے گرد پلاسٹک کی ایک شیٹ چڑھاتے ہیں، شیٹ کے اندر ناریل کی چھال لگاتے ہیں اور پھر ٹیوب اریگیشن سسٹم سے پانی دیتے ہیں۔ اس اریگیشن سسٹم کیوجہ سے یہ پودے مرجھاتے نہیں اور آپ بڑی آسانی سے انہیں ایک سے دوسری جگہ ٹرانسفر کرسکتے ہیں۔ میرے لئے یہ نئی معلومات تھیں۔ جب میں تھائی لینڈ گیا تو میں نے ایسی نرسریوں کا دورہ شروع کیا۔ یہ نرسریاں دیکھ کر میں حیران رہ گیا، یہ 25"25،30"30 کلو میٹرلمبی نرسریاں تھیں جن میں30 سے 100 سال تک پرانے درخت زمین سے باہر گملوں میں پڑے تھے۔ یہ ساری نرسریاں فوج کی ملکیت ہیں۔

تھائی لینڈ میں جب بھی کوئی سینئر افسر ریٹائرڈ ہوتا ہے تو حکومت اسے نرسری لگانے کی اجازت دے دیتی ہے ۔ اسے زمین کا ایک لمبا چوڑا ٹکڑا دے دیا جاتا ہے۔ تکنیکی ماہرین فراہم کردیئے جاتے ہیں، وہ افسر اور اس کا خاندان زمین کے اس ٹکڑے پر دس سے پندرہ مرلے کا ایک چھوٹا سا گھر بناتا ہے اور نرسری کے کام میں مصروف ہوجاتا ہے۔ یہ لوگ تھائی لینڈ اور دوسرے ممالک سے بڑے بڑے درخت خریدتے ہیں۔ ان کو بھاری مشینری کے ذریعے زمین سے باہر نکالتے ہیں، جڑوں کے گرد گاچی لگاتے ہیں اور گاچی پر ایک سیفٹی لیئر لگا دیتے ہیں جو درخت کو خراب ہونے سے بچاتی ہے۔ اس کے بعد انہیں تھائی لینڈ کی نرسریوں میں منتقل کردیا جاتا ہے،

ان کی تصویریں پوری دنیا میں بھیج دی جاتی ہیں، پوری دنیا سے لوگ آتے ہیں، اپنی اپنی مرضی کا درخت پسند کرتے ہیں اور اس کے بعد نرسریاں یہ درخت کارگو کردیتی ہیں۔ ان درختوں کے معاملے میں تھائی لینڈ نے ایک ایسی ٹیکنالوجی متعارف کرائی ہے جسے "ٹری سپیڈر" کہتے ہیں۔ یہ ٹری سپیڈر درخت کو زمین سے نکالتے ہیں، انہیں اٹھاتے ہیں، نرسری میں شفٹ کرتے ہیں، نرسری سے یہی سپیڈر کنٹینر میں رکھتے ہیں، کنٹینر سے جہاز میں منتقل کرتے ہیں اور دوسرے ملک جا کر زمین میں لگا دیتے ہیں۔ تھائی لینڈ نے ان درختوں کی ٹرانسپورٹیشن کیلئے کنٹینر ڈویلپ کرائے ہیں، کنٹینر ائرکنڈیشنڈ ہیں۔ درخت بیچنے والی کمپنیاں درخت کی نوعیت سامنے رکھ کر اس کنٹینر کا درجہ حرارت فکس کردیتی ہیں۔ جب کنٹینر متعلقہ جگہ پہنچ جاتے ہیں تو انہیں کنٹینر سے نکالا جاتا ہے اور نکالنے کے بعد زمین میں لگا دیا جاتا ہے۔ یہ درخت دو مہینے بعد اس زمین کا حصہ بن جاتے ہیں۔ تھالی لینڈ کی حکومت ان نرسریوں میں ان درختوں کی خریدوفروخت سے کئی ارب ڈالر سالانہ کمارہی ہے۔

میں نے ان نرسریوں سے دو لاکھ درخت خریدے ہیں۔ یہ 30"30 اور 50"50 فٹ اونچے درخت ہیں۔ ان میں بعض100"100 سال پرانے بوہڑ بھی شامل ہیں۔ اس وقت ہمارا سٹاف تھائی لینڈ میں یہ درخت پیک کررہا ہے۔ عنقریب یہ درخت پاکستان منتقل ہونا شروع ہوجائینگے۔ آپ تصور کریں جب یہ دو لاکھ درخت بحریہ ٹاؤن میں لگیں گے تو بحریہ ٹاؤن کی کیا صورت نکلے گی۔ مجھے یقین ہے ان درختوں کی وجہ سے یوں محسوس ہوگا جیسے بحریہ ٹاؤن آج سے چالیس سال پہلے بنا تھا۔

دنیا ٹیکنالوجی اور سائنس میں بہت آگے نکل چکی ہے۔ میں نے ایک جدید ٹیکنالوجی دیکھی ہے۔ اسے ہائیڈرل سپیڈرز کہتے ہیں۔ یہ ایک بڑی دلچسپ ٹیکنالوجی ہے۔ اس ٹیکنالوجی میں چار انچ موٹی ایک پچکاری ہوتی ہے جس میں پانی، بیج اور میچومن کیمیکل ڈال دیا جاتا ہے۔ جونہی پچکاری چلائی جاتی ہے، پچکاری پریشر کے ساتھ اس مواد کو پہاڑوں کی سلوپ پر پھینک دیتی ہے۔ میچو من پانی اور بیج کو پہاڑوں کی سلوپ پر چپکا دیتی ہے جس کے بعد پہاڑوں کی ان سلوپس پر پودے اگنا شروع ہوجاتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی بنیادی طور پر ایسی جگہوں اور ایسے خشک پہاڑوں کیلئے بناتی جاتی ہے جہاں پودا لگانا اور اگانا قریباً ناممکن ہوتا ہے۔ آپ اس تکنیک کے ذریعے پہاڑ کے دامن میں کھڑے ہو کر پہاڑ کی چوٹی پر درخت لگا سکتے ہیں۔ یہ پچکاری توپ کے گولے کی طرح ہوتی ہے۔ جو بیج، پانی اور میچو من کو پہاڑ کی سلوپ پر پھینک دیتی ہے جس کے بعد وہاں پودے اگنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس تکنیک کے ذریعے آپ صرف ایک مہینے میں بڑے بڑے پہاڑوں کو سرسبزوشاداب بنا سکتے ہیں۔ میں جب ان تکنیکیس کو دیکھتا ہوں تو مجھے اپنے بزرگوں کی بات یاد آجاتی ہے۔ ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے ایک نسل درخت لگاتی ہے اور دوسری نسل کو اس کا پھل اور سایہ ملتا ہے۔ میں کل تک اس بات کو حقیقت سمجھتا تھا لیکن جب میں نے تھائی لینڈ کی یہ ٹیکنالوجی دیکھی تو مجھے اپنے بزرگوں کے یہ خیالات تیرہویں صدی کا فلسفہ لگے۔ اب تو یہ حالت ہوچکی ہے کہ ایک نسل پودا لگائے اور دو سال بعد اس کا پھل کھانا شروع کردے۔ آپ دیکھ لیجئے غیرمسلم لوگ ہم سے کتنے آگے نکل چکے ہیں جبکہ ہم مسلمان لوگ ابھی تک گدھوں پر سواری کررہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے من وسلوٰی کا انتظار کررہے ہیں۔
H/Dr. Shahzad Shameem
About the Author: H/Dr. Shahzad Shameem Read More Articles by H/Dr. Shahzad Shameem: 242 Articles with 364607 views H/DOCTOR, HERBALIST, NUTRITIONIST, AN EDUCATIONISTS, MOTIVATIONAL TRAINER, SOCIAL WORKER AND WELL WISHER OF PAKISTAN AND MUSLIM UMMAH.

NOW-A-DAYS A
.. View More