وادی سوات کو مشرق کا سوئزر لینڈ
کہا جاتا ہے جب کہ وادی کالام کو سوات کا دل کہا جاتا ہے۔ وادی کالام اپنی
قدرتی حسن اور سرسبز وشاداب اونچے پہاڑوں، لہلاتے کھلیانوں، شور مچاتے
دریاؤں اور وسیع و گہری جھیلوں کی وجہ سے نہ صرف پورے ملک بلکہ بیرونی
ممالک کے سیاحوں کو بھی اپنی طرف کھینچ لاتی ہے۔وادی کالام کے سادہ لوح
باشندوں کی مہمان نوازی اور خوش مزاجی وادی کے حسن میں اور بھی نکھار پیدا
کرتی ہے۔ لیکن اس بارے کبھی کسی نے سوچا بھی نہیں کہ علاقے کی اصل خوبصورتی
اچھے تعلیم یافتہ معاشرے سے ہی پیدا ہوتی ہے اگر اس تناظر سے دیکھا جائے تو
وادی کالام تعلیم کے لحاظ سے بہت پیچھے ہے۔لگ بھگ ایک لاکھ سینتالیس ہزار
کی آبادی پر مشتمل اس خوبصورت وادی میں صرف ایک ہائیر سیکنڈری سکول موجود
ہے میں خود اس سیکنڈری کا ایک اد نیٰ سٹوڈنٹ رہ چکا آج تک اپنے اس پرانے
سکول کے بارے جاننے سے قاصر ہوں کہ ہمارے وزارت تعلیم نے اس کے لئے کتنے
ایس ایس تعینات کئے ہیں جب ہم اس میں پڑھتے تھے تو کبھی کبھار ایک اجنبی
شخص کو ہائیر سیکنڈری کے بلڈنگ کے ارد گرد چہل قدمی کرتے دیکھتے تو ہمار ا
وہم و گمان ہوجاتاتھا کہ فلاں سفید کپڑوں والا شخص ہمارا فزکس کا ایس ایس
ہے۔ اس طر ح بہت کوشش کے بعد ایک مرتبہ ہم اپنے بیالوجی کے ایس ایس کا
سوراغ لگانے میں بھی کامیاب ہو گئے تھے ان کے بارے میں ہمیں پتہ چلا تھا کہ
استاذی محترم منگورہ شہر میں پرائیویٹ کالج چلاتا ہے بیالوجی کا ٹیوشن لینے
وہاں گئے اور ان سے شرف ملاقات بھی حاصل ہوئی غیر شناسا استاذی محترم کو یہ
پتہ چلنے کے با وجود کہ ہم ان کے سٹوڈنٹس ہیں اور میں ان کی خاطر گورنمنٹ
سے سیلری بھی لیتا ہو دل میں ذرا سا بھی رحم نہ آیا۔جب ہاسٹل اور ٹیوشن فیس
کا سنا تو ہمارے ہاتھوں کے طوطے نہیں بلکہ کتابیں اڑ گئے ہم نہ چاہتے ہوئے
بھی وہاں سے چلے گئے اور کیمسٹری کے ایس ایس صاحب کا پتہ تب چلا جب ہمارے
ایف ایس سی کے امتحانات ہورہے تھے۔ میتھس کا پیپر تھا۔سنا کہ انسپکشن ہونے
والا ہے۔ہم نے بھی جو کاغذ کے پرزے رکھے تھے نکال کر پھینک دئے۔ اور باہر
والی مین گیٹ پر نظر چار کرکے انسپکٹر کی راہ تکنے لگے۔اتنے میں ایک صاحب
داخل ہوا۔ ہم خاطر داری کیلئے آگے بڑھے اور مصافحہ کرنے لگے تو صاحب ہائیر
سیکنڈری کا پوچھنے لگا۔ہم سوچے صاحب کو غلط فہمی ہو رہی ہے کیوں کہ امتحانی
ہال ہائی سکول میں ہی تھا جہاں صاحب تشریف فرما چکے تھے۔لہذا ہم نے عرض کیا
کہ سر جی امتحانی ہال یہی ہے تو انہوں نے کہا بیٹے امتحانی ہال سے میرا کو
ئی تعلق نہیں میں گورنمنٹ ہائر سیکنڈری کالام کا کیمسٹری ایس ایس ہوں تب دل
خوش ہوا ۔اس پر نہیں کہ صاحب انسپکٹر نہیں تھا لیکن اس پر کہ ہمیں اپنے
کیمسٹری کے ایس ایس کا بھی دیدار حاصل ہوا۔ وہ کس کام کیلئے آیا تھا کب
واپس چلا گیا ہمیں کچھ پتہ نہیں چلا۔ اس کے بعد ہم نے اپنے استاذی محترم کو
کالام کے ایریا میں بھی نہیں دیکھایہ تو تھے ہائی سیکنڈری کے حالت زار ی
یہی صورتحال کالام کے باقی تمام سکولوں کی بھی ہیں وادی کالام میں تقریباََ
پانچ ہائی سکول ، نو مڈل سکول، اور ستائیس پرائمری سکول ہیں ان میں سے تین
چارسکولز کبھی کبھار کھلے دکھائی دیتے ہیں وہ بھی اس طرح کہ ایک ٹیچر اپنے
گھریلوں مصروفیات سے کچھ ٹائم نکال کر ڈنڈا ہاتھ میں لئے دھوپ کا مزہ لیتے
ہوئے مدہوش دکھائی دیگا اور بچے میدان میں کھیل رہے ہونگے ۔گرلز پرائمری
سکولز میں ایسے جعلی استانیان تعینات کئے ہیں کہ پڑھانا دور کی بات ان کو
ان بچیوں کو سنبھالنے کا بھی کوئی طریقہ نہیں آتا ۔بچیاں روزانہ جاکر گلی
ڈنڈا کھیلتی ہیں اور اتنا شور شرابہ ہوتا ہے کہ پورے محلے کا سکون برباد
کرتے ہیں۔ نہ گھریلوں کام کاج کے رہے اور نہ پڑھنے کے قابل رہیں۔کالام میں
بیوں نامی لگ بھگ تین سو ساٹھ کی آبادی والا پہاڑ کی چوٹی پر بھی ایک
گورنمنٹ پرائمری سکول موجود ہے۔ یہ علاقہ کالام بازار سے تقریباََدو تین
کلومیٹر پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے۔اس سکول کیلئے گاؤں سے دور ایک پی ٹی سی
ٹیچر پوسٹ کیا ہے۔جو روزانہ پہاڑ کی چوٹی چڑھنے کی زحمت نہیں کر سکتا اس
لئے ان صاحب نے مقامی میٹرکولیٹ کو آدھی سیلری پر ہائیر کیا ہے ۔ جو ہفتے
میں ایک دو بار جاکر ان صاحب کی حاضری لگا تا رہتا ہے۔پرائمری سے لیکر
میٹرک تک کا تعلیمی نظام اتنا گرا ہوا ہے کہ پرچوں کے نتائج کو جزوی طور پر
لیا جاتا ہے۔یعنی اگر طالب علم امتحانی پرچوں میں فیل بھی ہو جائے تو اس کو
اگلی کلاس میں بھیج دیا جاتا ہے طالب علم جب میٹرک میں بورڈ کے امتحان کے
لئے بیٹھتا ہے تو قلم چباتا رہتا ہے۔پورے تحصیل کالام نہیں بلکہ تحصیل
بحرین اور مدین میں بھی کوئی ڈگری کالج موجود نہیں۔ ایف اے ،ایف ایس سی کے
بعد کوئی سٹوڈنٹ آگے پڑھنا چاہتا ہے تو شہروں میں جاکر ہاسٹل کا فیس بھی
برداشت کرنا پڑتا ہے وادی کالام معاشی طور پر پیچھے ہے امن کے دنوں میں جب
جون، جولائی میں سیاح حضرات علاقے کا رخ کرتے تو تھوڑا بہت گزارہ چلتا
تھالیکن سیاحت بھی طالبنائیزیشن اور سیلاب کے بعد بری طرح متاثر ہو چکی ہے
معاشی صورت حال نقل مکانی کا بھی سبب بن چکی ہے۔جس کا اثر بھی براہ راست
تعلیم پر پڑتا ہے۔ہمارے سکولوں کی زبوں حالی ہم ہی بہتر سمجھ سکتے ہیں۔
میٹرک کے بعد چند طلباء ہی اپنی پڑھائی جاری رکھ سکتے ہیں۔ باقی معاشی
مجبوری کے تحت کھیتوں میں کام کرنے یا کسی نجی اداروں میں کام کرنے لگ جاتے
ہیں۔اس صورت حال میں یہاں کے طلبہ اور طالبات کا کیا بنے گا۔ ارباب اقتدار
سے اس کا جواب پوچھا جائے تو اپنے گریبان میں جھانکنے کے قابل بھی نہیں
رہیں گے۔اچھی معیاری اور منصفانہ تعلیم کا مطلب ایک۔ اچھا معاشرہ ، زیادہ
آمدنی، بہتر صحت اور بہتر تعلیم ہے۔اس لئے ایک منصفانہ اور جامع نظام تعلیم
جو تعلیم کے فوائد مہیا کرتا ہے۔ جو کہ اس مسئلے کا واحد حل ہے۔ہم اپنے
ارباب اقتدار سے گزارش کرتے ہیں کہ ہمارا تعلیمی نظام درست کیا جائے ،
منصفانہ اور معیاری تعلیم فراہم کیا جائے۔ |