عصر حاضر جہاں تمام شعبہ ہائے
جات میں جدت کا متقاضی ہے وہیں تعلیم کے میدان میں بھی جدت روز بروز بڑھتی
جا رہی ہے‘ یوں تو پاکستان میں رائج تعلیمی نظام میں بدستور کئی خامیاں
موجود ہیں مگر ان تمام تر خامیوں کے باوجود موجودہ تعلیمی نظام میں خاطر
خواہ بہتری دیکھنے میں آئی ہے‘ جدید‘ ہنر مندانہ و فاصلاتی نظام تعلیم میں
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی (AIOU) نمایاں مقام رکھتی ہے‘ علامہ اقبال اوپن
یونیورسٹی کا شمار اپنے منفرد نظام تعلیم کے باعث دنیا کی بہترین
یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے‘ خاص طور پر اوپن یونیورسٹی کے شعبہ ماس
کمیونیکیشن نے ماہر ابلاغیات و مایہ ناز پروفیسر ڈاکٹر سید عبدالسراج کی
سربراہی میں ابلاغی تعلیم کے میدان میں گرانقدر خدمات سر انجام دی ہیں‘
شعبہ ہٰذا کے ہونہار اساتذہ سید بابر حسین‘ ڈاکٹر ثاقب ریاض‘ جاوید اختر‘
شاہد حسین‘ سعدیہ انور پاشا کی کاوشوں سے ماس کمیونیکیشن کا ڈیپارٹمنٹ ملک
بھر ابلاغی تعلیم کے میدان میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے‘ راقم الحروف بھی
مذکورہ یونیورسٹی میں M.sc Mass Communication کا طالبعلم ہے جو کہ میرے
لئے باعث فخر ہے۔
گذشتہ دنوں یونیورسٹی کے زیر اہتمام طلباءکی رہنمائی اور تعلیمی تشنگی کو
پورا کرنے کیلئے ورکشاپس کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں طلباءو طالبات کو
بہت کچھ سیکھنے کو ملا‘ دوستانہ ماحول اور مثبت و تعمیری بحث و مباحثے نے
ورکشاپس کو چار چاند لگا دیئے‘ ورکشاپس میں گزرا ہوا ایک ایک لمحہ سنہری
یادگار بن گیا اور درج بالا ورکشاپس نے بچپن کے زمانہ طالبعلمی کی یادوں کو
ترو تازہ کر دیا‘ یوں تو ورکشاپ میں شرکت کرنے والے تقریباََ سبھی طلباءو
طالبات اپنی مثال آپ تھے لیکن ادب سے لگاﺅ رکھنے والے چند ہمخیال دوست جن
میں راقم الحروف فیصل علوی‘ محکمہ جنگلات کے ڈویژن فاریسٹ آفیسر عابد حسین
گوندل‘ وزارت پانی و بجلی کے جمال حیدر بلتی‘ محکمہ موسمیات کے ارشد محمود‘
پاکستان ٹیلی ویژن کے حیات خان‘ انڈس ٹی وی سے تعلق رکھنے والے صحافی اعجاز
احمد اعجاز‘ آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے تاجر میاں شہباز‘ ملک چن زیب‘
ریڈیو پاکستان کے فیصل حنیف‘ نادرا کے غلام مصطفی پاکستان ایئر فورس کے
غلام رقیب مغل اور اسلام آباد پولیس کے انسپکٹر عبدالرﺅف پر مشتمل گروپ
روزانہ کی بنیاد پر ورکشاپس کے بعد علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ملحقہ
ایک ٹی سٹال پر چائے کا دور چلاتے ہوئے مختلف موضوعات پر سیر حاصل گفتگو
کرتے تھے جس سے ایک محفل کا سماع بندھ جاتا تھا اور چٹکلوں بھری محفل کے
اختتام پر تمام احباب اپنی اپنی منازل کی جانب رواں دواں ہو جاتے تھے اور
اگلے دن کا بیتابی کیساتھ انتظار کرتے تھے‘ یہاں میں اسلام آباد پولیس کے
انسپکٹر عبدالرﺅف خان کا خصوصی ذکر کروں گا کیونکہ وہ اپنے محکمے کے افسران
کے بارے میں پائے جانے والے عمومی عمومی تاثر کے برعکس انتہائی ہنس مکھ
انسان ہیں اور ”زندہ دلان مکتب“ میں خاص مقام رکھتے ہیں‘ یادگار ورکشاپس کے
بعد اب زندگی اپنی پرانی ڈگر پر رواں دواں ہے۔
قارئین کرام! پرانے دور میں معاشرے کے تقریباََ تمام افراد ایک دوسرے
کیساتھ روزانہ کی بنیاد پر بہ نفس نفیس رابطے میں رہتے تھے اور گلیوں‘
محلوں اور چائے کے ہوٹلوں پر خوبصورت محافل سجا کرتی تھیں مگر موجودہ دور
میں تقریباََ ہر شخص کا سماجی رابطہ محدود ترین ہوکر رہ گیا ہے جس کی وجہ
سے ہمارے معاشرتی رویوں میں بڑی حد تک تبدیلی آ چکی ہے‘ ہم اپنی تہذیب‘
ثقافت اور معاشرتی اقدار کو کھوتے چلے جا رہے ہیں جس کا خمیازہ ہمارے ساتھ
ساتھ ہماری آنے والی نسلوں کو بھی بھگتنا پڑے گا‘ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم
اپنی دم توڑتی ہوئی تہذیب و ثقافت کو بچانے کیلئے اپنی روز مرہ زندگی کا
کچھ وقت اپنی تہذیب‘ ثقافت اور معاشرے کو بھی دیں‘ جو قومیں اپنی تہذیب‘
ثقافت اور معاشرتی و اخلاقی اقدار کو کھو دیتی ہیں ان کی کوئی شناخت باقی
نہیں رہ جاتی اور بے شناخت قوموں کا وجود دنیا سے مٹ جاتا ہے۔ |