تعلیم کے میدان مین پاکستان دنیا
کے بے شمار ممالک سے پیچھے ہے کیونکہ یہاں لوگوں کے لیے تعلم حاصل کرنے کے
مواقع اور سہولتیں نا کافی ہیں۔2012کے سروے کے مطابق پاکستان میں تعلیم
یافتہ لوگوں کی شرح تقریباَ 58فیصد ہے اور سروے سے مزید یہ معلوم ہوا کہ
دیہی علاقوں کی نسبت شہروں میں تعلیم حاصل کرنے کا رجحان کافی زیادہ
ہے۔دیہی اور شہری علاقوں کے درمیان خواندگی کی شرح میں فرق کی کافی ساری
وجوہات ہیں جیسے دیہی علاقوں میں سرکاری اداروں کی کم تعداد،تعلیمی سہولتوں
کا فقدان وغیرہ۔پاکستان میں خواندگی کی شرح مزید بہتر کرنے کی اشد ضرورت ہے
کیونکہ پڑھی لکھی قوم ہی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے ۔خواندگی
کی شرح میں اضافہ کرنے کی ایک اور بڑی وجہ روزگار کے بڑھتے ہوئے مسائل کو
ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہے کیونکہ پڑھے لکھے اور باشعور لوگ ہاتھ پر
ہاتھ رکھ کر بیٹھنے کی بجائے اپنے اپنے وسائل کی تلاش میں مصروف ہو جائیں
گے اور جلد ہی اپنی منزلوں تک پہنچ جائیں گے کیونکہ ایک پڑھا لکھا انسان
اپنے روزگار کے لیے وسائل پیدا کر سکتا ہے۔
پوری دنیا میں خوانگی کی شرح اگر دیکھی جائے تو یورپ ممالک کی سب سے زیادہ
ہے۔پاکستان کے مقابلے میں بھارت کی خواندگی کی شرح 74فیصد ہے۔جبکہ چین کی
شرح خواندگی 93 ہے جو پاکستان سے ایک سال بعد آزاد ہوا ۔اس کا مطلب یہ ہوا
کہ پاکستان میں تعلیم کا فقدان آج سے نہیں بلکہ آزادی کے وقت سے چلا آ رہا
ہے۔پاکستان کے مختلف شہروں کی شرح خواندگی کچھ اس طرح سے ہے کہ پاکستان کا
سب سے پڑھا لکھا شہر جو خواندگی میں سب سے سبقت لے گیا راولپنڈی کے قریب
واہ کینٹ(ٹیکسلا) ہے۔جبکہ دوسرے نمبر ر اسلام آباد ہے جس کی شرح خواندگی
87ہے اور لاہور84 فیصد خواندگی رکھتے ہوئے تیسرے نمبر پر ہے۔
پاکستان میں تعلیمی فقدان کی ایک بڑی وجہ نااہل انتظامیہ ہے جن میں بے شمار
لوگ جعلی ڈگریاں لیے بیٹھے ہوئے تھے اور انہی لوگوں نے ملک کا ستیاناس کر
کے رکھ دیا ۔قارئین آپ صرف اس مثال سے اندازہ لگالین کہ وفاقی وزیر تعلیم
کا عہدہ بندر بانٹ کے ذریعے جعلی ڈگری ہولڈر شیخ وفاص اکرم جیسے شخص کو ملے
تو وہاں تعلیمی اصطلاحات میں کیسے بہتری آئے گی؟ وزراء اپنی مراعات اور
پروٹوکول کے لیے تو اسمبلیوں میں بل پاس کرالیتے ہیں مگر تعلمی اصطلاحات
میں بہتری کے لیے کوئی خاطر خاہ کام نہیں کیا جا رہا۔دانش سکول ہی کی مثال
لے لیں جس پر اربوں روپے لاگت آئی مگر یہ ایک خاص علاقے کے لیے فائدی مند
ثابت ہواحالانکہ سرکاری تعلیمی ادارے پورے پاکستان میں موجود ہین مگر انہیں
اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے۔یہ تو انتہائی فضول عمل ہے کہ پیلے سے موجود
تعلیمی اداروں پر توجہ دینے کے بجائے نئے ادارے بنانے شروع کر دیئے جائیں
اور اربوں روپے خرچ کر کے بھی فائدہ صرف خاص ریجن کو ہو جہاں دانش سکول
واقع ہیں۔سرکاری تعلیمی اداروں کی حالتِ بیزار ہے اور پاکستان کے کئی
علاقوں میں طلباء سکول کی چھت کے بجائے کھلے آسمان لے بیٹھ کر تعلم حاصل
کرنے پہ مجبور ہیں۔
اب اگر بات کی جائے کہ پاکستان میں تعلیم کے شعبے میں خرچ ہونے والا بجٹ
کتنا ہے؟ پاکستان حالیہ دور میں GNP کا 2.3% اور کُل بجٹ کا 9.9% تعلیمی
شعبے میں خرچ کر رہا ہے جو کہ انتہائی کم ہے اس کے مقابلے میں اگر دیکھا
جائے تو ہمسایہ ملک بھارت اپنے GNPکا% 4.5اور کُل بجٹ کا 12.7%تعلیم کے
شعبے میں خرچ کر رہا ہے اور اسی طرح بنگلہ دیش GNP کا 2.1%اور کُل بجٹ کا
14.1% شعبے میں خرچ کر رہا ہے۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان میں پیدا ہونے والے بچوں میں سے 25ملین پرائمری
سکول ہی نہیں جاتے۔اگر بچوں کی اتنی زیادہ تعداد شرو ع سے پرائمری سکول ہی
نہیں جائے گی تو پاکستان کی شرح خواندگی کیسے بہتر ہو گی۔تعلیمی فقدان
کیایک اور بڑی وجہ غربت بھی ہے۔پاکستان میں بستے والوں کی بہت بڑی تعداد
غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔اب اس صورتحال میں لوگ کیسے اپنے
تعلیم جاری رکھ سکیں۔ایک اور افسوس ناک حقیقت آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں کہ
پاکستان کی 90%عوام نے کبھی لائبریری جانے کی زحمت ہی نہیں کی ۔اس سے واضح
ہو رہا ہے کہ کتاب سے کس قدر ہماری لگن ہے ۔اب ضرورت اس امر کی ہے لوگ
مطالعہ کو اپنا شوق بنا لیں اور تعلیم کے حصول کی جانب اپنارجحان بنا
لیں۔حکومت کو بھی چاہیے سرکاری تعلیمی اداروں کو جدید سہولیات سے آراستہ
کرے جس سے لوگوں کو تعلیم حاصل کرنے کے بہتر اورآسان مواقع حاصل ہوں۔ |