انگلینڈ کے ایک قصبے لوٹن میں
کوٹلی آزاد کشمیر کے ایک صاحب سے ملاقات ہوئی جو وہاں ایک کیب آفس کے مالک
تھے۔انہوں نے ایک دلچسپ واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ ان کے کیب آفس میں پندرہ
ٹیکسیاں چلتی ہیں،ان میں سے ایک ڈرائیور انگریز ہے۔ایک دن وہ انگریز
ڈرائیور کیب آفس میں بری حالت میں آیا،اس کے کپڑے میلے تھے اور وہ آتے ہی
کہنے لگا کہ جلدی سے کھانا منگواﺅ،میں نے دو دن سے کھانا نہیں کھایا۔وہ
صاحب بتا رہے تھے کہ میں اس انگریز کی یہ بات سن کر حیران و پریشان ہو گیا
اور مجھے افسوس ہواکہ ہم کہاں پہاڑوں سے آ کر یہاں انگلینڈ میں لاکھوں
کروڑوں کما رہے ہیں اور یہ جو اسی ملک کا پیدائشی باشندہ ہے اور باشندہ بھی
اس ملک کا جہاں کوئی کام نہ کرنے کی صورت اتنا ماہانہ وظیفہ ملتا ہے کہ ایک
شخص آرام سے اپنی ضروریات پوری کر سکتا ہے،اس کی یہ حالت ہے۔کیب آفس کے
مالک ان صاحب نے کہا کہ مجھے اس کی حالت دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔ میں نے
فورا اس کے لئے کھانا منگوایا۔ کھانے کے دوران میں نے اس کو نصیحت کرنا
شروع کر دی۔میں نے کہا ” مائیکل،تم اپنی زندگی کے ساتھ ایسا کیوں کر رہے
ہو،اگر تم طریقے سے رہو تو تمھارا اپنا گھر ہو ،تمھاری اپنی کیب ہو“ ۔ اس
پر اس انگریز ڈرائیور نے جواب دیتے ہوئے سوال کیا کہ یہ اپنا کیا ہوتا
ہے؟کوٹلی کے وہ صاحب بتا رہے تھے کہ مجھے اس کی بات سن کر بہت غصہ آیا کہ
میں اسے نصیحت کر رہا ہوں اور وہ کہتا ہے کہ اپنا کیا ہوتا ہے۔میں نے اس کی
قمیض ہاتھ سے پکڑ کر کہا یہ قمیض تمھاری ہے،میری نہیں۔اس پر گورا ڈرائیور
کھانا کھاتے کھاتے بولا کہ جب تک میرے جسم پہ ہے،اسی وقت تک میری ہے،جسم سے
اتر گئی تو پھر میری کہاں رہی؟وہ صاحب سنا رہے تھے کہ میں اس کی یہ بات سن
کر دنگ رہ گیا کہ یہ سوچ تو ہم مسلمانوں کی ہونی چاہئے اور یہ برطانیہ کے
ایک عام غریب شہری کی سوچ ہے؟
یہ واقعہ میں نے کئی بار سنایا ہے کیونکہ اسی سے مجھے یہ خیال آیا کہ انسان
کے پاس جو پیسہ آتا ہے،جو اس کے پاس جائیداد ہوتی ہے ،جو اس کے رشتہ دار ،عزیز
و اقارب کی دولت ہوتی ہے،اس میں سے اس کا حصہ اتنا ہی ہے جتنا پیسہ وہ خود
پہ خرچ کرتا ہے،اس کی جائیداد اتنی ہی ہے جس سے وہ مستفید ہوتا ہے،رشتہ دار
،عزیز و اقارب اتنے ہی ہیں جتنا وہ ان سے میل ملاپ رکھتا ہے۔اس سے زیادہ کی
فکر ”سگ دنیا“ بننے کے سوا اور کچھ نہیں۔ ایسے افراد آپ کے بھی مشاہدے میں
آئے ہوں گے جو تمام عمر جی جان سے اپنی جائیداد میں اضافہ اور اسکی رکھوالی
کرتے رہتے ہیں،انہیں اس جائیداد سے خود کو مستفید کرنے کی توفیق نہیں
ہوتی،وہ مر جاتا ہے اور اس کی جائیدادیں جس کے لئے وہ ہلکان ہوتا رہتا
تھا،اس کے رشتہ داروں اس سے انجوائے کرتے ہیں یا کئی بار کوئی اور ہی اس
جائیداد سے مستفید ہوتا ہے۔انسان جو کچھ بھی دوسرے انسانوں کی بھلائی کے
لئے خرچ کرتا ہے ،وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے۔اسی لئے کہا گیا ہے کہ جو
ضرورت سے زیادہ ہے اللہ کی راہ میں دے دو۔یہی وہ سوچ اور طرز عمل ہے جو
انسان اور حیوان کے درمیان اور شعور و بے شعور کے درمیان تخصیص کرتا
ہے۔مذہب کے معاملے میں بھی عمومی طور پہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ انسان اپنی
مذہبی روایات کا پابند رہنے کی بات کرتا رہتا ہے لیکن جہاں بات مادیت کی آ
جائے وہاں مذہب تو مذہب اللہ تعالی کی بھی نفی کی کوشش کی جاتی ہے۔میرے
خیال میں انسان کا شعور ہی اللہ تعالی کی سب سے بڑی پہچان ہے۔
تقریبا بیس سال قبل میں نے ایل ایل بی میں داخلہ لیا۔پہلی کلاس میں ٹیچر کا
دیا ایک سبق مجھے اب بھی یاد ہے۔قانون کے اس ٹیچر نے ہمیں وکالت کا پہلا
سبق دیتے ہوئے بتا یا کہ کسی کو بغیر طلب کئے مشورہ نہ دو،کتنا بھی ا چھا
مشورہ دیا جائے تواس کی قدر نہیں ہوتی۔جب تمھیں کبھی یہ خیال آئے کہ تم
بغیر طلب کئے جانے کے کسی کو کوئی مشورہ دو ،تو یہ خیال آتے ہی اپنا ہاتھ
بلند کر کے اپنے منہ پہ زور سے ایک تھپڑ لگاﺅ۔یہ اس سے بہتر ہو گا جو بغیر
مانگے کے مشورے کا ہوتا ہے۔ہمارے وہ ٹیچر بتا رہے تھے کہ انسان اسی مشورے
،نصیحت پہ عمل کرتا ہے جس کے لئے اس نے کچھ ادا (Pay)کیا ہو۔اسی حوالے سے
ٹیچر نے ایک واقعہ بھی سنایا۔ایک دیہاتی کسی کام سے شہر آیا۔کام کاج سے
فارغ ہو کر وہ بس اڈے پہ پہنچا اوراپنے گاﺅں جانے والی بس کا ٹکٹ لیکر اس
میں بیٹھ گیا۔معلوم ہوا کہ ابھی بس روانہ ہونے میں کافی دیر ہے۔اس پر وہ
دیہاتی بس سے اتر گیا اور ارد گرد کی دکانوں کے بورڈ پڑھنے لگا۔اتنے میں اس
کی نظر ایک وکیل کے دفتر کے بورڈ پہ پڑی جس پہ لکھا تھا کہ” صرف پانچ سو
روپے میں قیمتی مشورہ،فائدہ نہ ہونے پر دوگنے پیسے واپس“۔وہ دیہاتی فورا اس
دفتر میں داخل ہو گیا۔اندر جا کر دیکھا کہ چند افراد وکیل کے منشی کے کمرے
میں وکیل کے کمرے میں جانے کا انتظار میں بیٹھے ہیں۔وہ بھی وہاں بیٹھ
گیا۔باری آنے پر منشی نے اسے اندر جانے کا اشارہ کیا۔دیہاتی وکیل کے کمرے
میں داخل ہوا تو وہاں کا ماحول دیکھ کر مرعوب ہو گیا۔اندر ایک شخص عینک
پہنے سر جھکائے بیٹھا تھا۔اس نے ایک نظر اٹھا کر اس دیہاتی کو دیکھا اور
ایک کاغذ کے ٹکڑے پہ کچھ لکھ کر اس کے ہاتھ میں تھما کر بولا فیس باہر منشی
کو دے دو۔دیہاتی کاغذ کا ٹکڑا ہاتھ میں دبائے کمرے سے باہر آیا،منشی کو
پانچ سو روپے دیئے اور دفتر سے باہر آ گیا۔بس میں بیٹھنے تک اس کی ہمت نہ
ہوئی کہ وہ کاغذ کو کھول کر اس میں لکھی تحریر پڑتا۔بس میں بیٹھ کر اس نے
کاغذ لکھولا ،اس میں لکھا تھا” آج کا کام کل پہ مت چھوڑو“ ۔دیہاتی سخت
مایوس ہوا اور اسے اس وکیل پہ بہت غصہ بھی آیا کہ اس نے اسے معصوم دیہاتی
سمجھ کر لوٹ لیا ہے۔اس نے بس میں سوار اپنے گاﺅں کے چند افراد کو بھی اپنے
ساتھ ہونے والی اس ” واردات“ کے بارے میں بتا یا تو ان کی بھی یہی رائے تھی
کہ اس وکیل نے اسے لوٹ لیا ہے۔انہی میں سے ایک شخص نے اسے کہا کہ اس کا ایک
رشتہ دار پولیس میں ہے،اگلی بار شہر آنے پر اسے ساتھ لیکر وکیل کے پاس جانا
وہ تمھارے پیسے واپس دلادے گا۔سب نے کہا کہ وکیل نے کونسی نئی بات بتائی ہے
یہ تو سب کو پتہ ہے کہ آج کا کام کل پر مت چھوڑو۔
دیہاتی اپنے گاﺅں پہنچا تو اس کے بیٹے اور دوسرے رشتہ دار کھیتوں سے فصل
کاٹ کر آ رہے تھے۔گھر پہنچ کر سب اکٹھے بیٹھے تو اس نے فصل کے بارے میں
پوچھا تو معلوم ہوا کہ فصل کاٹ کر کھیتوں میں ہی گٹھے لگا دئے گئے ہیں۔اتنے
میں اس دیہاتی کو اپنے ساتھ ہونے والا واقعہ یاد آیا،اس نے جیب سے وہ کاغذ
نکالا اور گھر والوں کو اپنے لٹنے کو واقعہ سنایا اور کہا کہ اگلی بار میں
وکیل کے دفتر جا کر اپنے پیسے واپس مانگے گا۔اچانک اسے خیال آیا کہ وکیل کے
بورڈ پہ لکھا تھا کہ فائدہ نہ ہونے کی صورت دوگنے پیسے واپس ،میں نے تو
ابھی اس پر عمل ہی نہیں کیا،اس بارے میں اگر وکیل نے پوچھا تو میں لاجواب
ہو جاﺅں گا۔اس نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ اٹھو اور کھیتوں سے کاٹی گئی فصل کے
گٹھے اٹھا کر گودام میں رکھو۔اس کے بیٹوں نے کہا کہ صرف ہماری ہی نہیں بلکہ
تمام علاقے کے لوگوں کی فصل کھیتوں میں پڑی ہوئی ہے اور موسم بھی بالکل
ٹھیک ہے۔لیکن اس دیہاتی نے ان کی ایک نہ سنی اور کہا کہ یہی طریقہ ہے وکیل
کے مشورے پر عمل کرنے کا ،کیونکہ میں نے شہر جاکر اس سے دوگنے پیسے لوں
گا۔اس کے بیٹوں نے بڑ بڑاتے ہوئے کام شروع کر دیا اور تمام فصل اٹھا کر
گودام میں رکھ دی۔رات کو علاقے میں شدید بارش کے ساتھ طوفان آیا جس سے تمام
علاقے کے لوگوں کی فصل تباہ ہو گئی۔گودام میں رکھنے کی وجہ سے اس دیہاتی کی
فصل محفوظ رہی اور معمول سے بہت زیادہ قیمت پر فروخت ہوئی۔وہ دیہاتی بہت
خوش ہوا اور مٹھائی کا ڈبہ لیکر وکیل کے پاس گیا اور اسے تمام واقعہ
سنایا۔وکیل سے اسے کہا کہ اگر میں تم سے پانچ سو روپے نہ لیتا تو تم میرے
دفتر سے باہر نکلنے سے پہلے ہی مشورے والا کاغذ کسی کونے میں پھینک دیتے
اور بس میں بیٹھنے تک تمہیں یاد بھی نہ رہتا کہ ”آج کا کام کل پہ مت
چھوڑو“۔تم نے اس مشورے کے لئے پیسے دیئے تھے اسلئے یہ بات تمھارے ذہن پہ
سوار رہی،تم نے اس اچھی بات پہ عمل کیا اور فائدہ حاصل کیا۔یعنی بغیر قیمت
ادا کئے حاصل مشورے کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔
پاکستان کے ابتر حالات پہ بات کرتے ہوئے میں کئی بار راولپنڈی کے اپنے
مقامی دوستوں سے یہ کہتا ہوں کہ آپ لوگوں نے پاکستان کے لئے کچھ ادا نہیں
کیا اسی لئے آپ لوگوں کو اس ملک کی قدر نہیں ہے۔آپ لوگ رات کو سوئے تو
ہندوستانی تھے،صبح اٹھے تو پاکستانی بن گئے۔یہی وجہ ہے کہ آپ لوگوں نے اس
ملک ،آزادی کی قدر نہیں کی ۔ |