اتنا سچ کہاں ہضم ہوتا ہے

صنم نے امی سے جھوٹ بولا کہ وہ سکول میں لیٹ ہو گئی ،جب سکول سے باہر آئی تو اس کی گاڑی جا چکی تھی، اس لیے اسے پیدل واپس آنا پڑا یہ سب بہانے تھے در اصل وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ پارک گئی تھیِ۔

صنم کے والد جب گھر آئے تو انہوں نے صنم کو اپنے کمرے میں بلایا، اس سے نرم لہجے میں پوچھا بیٹا آپ کو آج سکول میں دن کیسا گزرا، صنم نے پھر جھوٹ بولا پاپا بہت اچھا پھر پہلے والی بات بتائی کہ وہ کیسے لیٹ ہو گئی۔ اس کے پاپا نے جوتا اُٹھایا اور صنم کی ایسی پٹائی کی کہ وہ گیند کی صورت میں گول مٹول ہو گئی۔

ماما جی ماما جی ،پاپا جی پاپا جی کہتی رہی لیکن منصور صاحب صرف ایک ہی بات کہہ رہے تھے جھوٹ بولتی ہے ، اب جھوٹ بولے گی، صنم کی ماما کمرے میں آ کر اسے بچانے لگی ، چھوڑ دیں اب جھوٹ نہیں بولے گی، بولو نا!

جی جی جی اس کے منہ سے اس کے علاوہ کچھ نکل ہی نہیں رہا تھا۔پاپا نے ہاتھ دھوئے اور کھانا کھاتے کھاتے سر ہلاتے رہے، جانے انہیں کیا سوجھی کہ قرآن اُٹھایا اور صنم کے کمرے کی طرف آنے لگے۔ صنم ادھر آؤ، ڈرتے ڈرتے صنم پاپا کے پاس گئی تو انہوں نے پھر آرام سے کہا ، تم دسویں کلاس میں ہو ،قرآن مجید کی عظمت تو جانتی ہو نا، جی وہ انتہائی دھیمی آواز میں بولی ، آج میں نے تمہیں پارک میں دیکھا تو مجھے یقین نہیں آیا کہ تم سکول کی بجائے اپنی دوستوں کے ساتھ اس طرح پارک آ جاؤ گی۔ لیکن میں نے دل میں سوچا تھا کہ اگر تم نے سچ بولا تو تمہیں سزا نہیں ملے گی ، صرف تنبیہہ کر کے چھوڑ دوں گا، لیکن تم نے جھوٹ بولا ، اب مجھے یقین ہے کہ تم دوبارہ جھوٹ ضرور بولو گی ، کیونکہ یہ عادت ایک دفعہ لگ جائے تو آسانی سے نہیں جاتی اس لیے میں نے سوچا ہے کہ تم سے اس پاک قرآن کی قسم لوں ، اس پر ہاتھ رکھو اور قسم کھاؤ، آئندہ جھوٹ کبھی نہیں بولو گی۔

صنم نے ایسا ہی کیا۔ وہ بہت زیادہ مانتی تھی کہ قرآن کی قسم جھوٹی کھانے سے جزام کا مرض لاحق ہو جاتا ہے ، اب وہ انتہائی احتیاط سے بات کرتی تھی۔

چند دن میں گھر والے اس سے عاجز آ گئے یہاں تک کہ والد صاحب نے اسے زیادہ بولنے سے منع کر دیا بلکہ اسے حکم دیا کہ وہ ان کے سامنے کسی سے بات نہ کیا کرے۔

جو حالات و واقعات پیش آئے ان میں سے چند آپ کے گوش گزار کرتی ہوں ۔ سنیں اور فیصلہ کریں کہ قصور آخر کس کا تھا۔ دوسرے دن گھر میں والدہ صاحبہ کی دوست آگئی، وہ بھی ماما کی طرح آس پڑوس کی خبریں سنا رہی تھیں ،بلکہ بار بار باتوں میں کہتی آج صفائی کا دن ہے ،لیکن آج کے دن بھی لوگ صفائی سے متعلق نہیں سوچتے ،ماما نے صنم کو بلایا اور کہا بیٹا جاؤ چائے بناؤ اور کچھ بھی دیکھ لینا۔ منگا لو کا اشارہ کر دیا۔

صنم نے اچھا خاصا انتظام کیا ، چائے لے کر کمرے میں آئی تو آئی ہوئی مہمان نے کہا بیٹا کہو کیسی جا رہی ہے پڑھائی ، جی اچھی چائے تو بہت اچھی ہے ،تمہیں پتہ ہے آج صفائی کا دن ہے ۔جی ہماری ٹیچر بھی بتا رہی تھی میں تو مگر صفائی کر کے آئی ہوں ۔ برتن بھی دھو دیے اور گند بھی پھینک دیا۔ یہ آواز کیسی آ رہی ہے ۔ کیسے گندے لوگ ہیں،گندی گالیاں دے رہی ہے یہ عورت تم جانتی ہو صنم اِنہیں۔

صنم نے کہا نہیں یہ صاف ستھرے لوگ ہیں وہ میں نے گند نیچے پھینک دیا نا۔ اس لیے وہ غصہ ہو رہی ہیں ۔کیا تم نے گند ان کے گھر کیوں پھینک دیا گھر نہیں صنم نے صفائی دیتے ہوئے کہا ۔ گلی میں پھینکا ہے
مامابھی تو کچن سے گلی کی نالی میں ہی گند پھینکتی ہیں۔ہماری کھڑکی کچن کی گلی کی طرف کھلتی ہے تو کچن میں تو ، چپ کرو ۔ماما نے منہ بناتے ہوئے صنم کو کہا اور اسے باہر جانے کا اشارہ کیا ۔شرمندگی سے دانتوں کو پیسنے لگی ۔آئی ہوئی مہمان نے اسے سمجھانے کے لیے بہت سی باتیں کہیں ،نا چار ہو بھی سنی ۔ماما نے صنم کو اس کے جانے کے بعد ڈانٹا اور کہا میں کہاں گند کھڑکی سے باہر پھنکتی ہوں۔ صنم نے کہا میں نے کئی بار دیکھا ہے ماما اسی لیے تو میں نے بھی ایسا کیا۔ آپ جھوٹ کیوں بول رہی ہیں۔

صنم کی ماما خاموشی سے کمرے سے چلی گئی۔ سب گھر والوں نے سیر کا پروگرام بنایا۔ والد صاحب نے کہا کہ چچا کی فیملی کو بھی ساتھ سیر کی پیش کش کی جائے ۔سب خوشی خوشی سیر کے دوران کھانا کھانے لگے صنم کی ماما نے بریانی بنائی تھی ، آنٹی نے جب سپون دیکھیں تو کہنے لگیں صنم تمہارے ہاتھ میں جو سپون ہے کتنی بھاری اور عمدہ ہے تم لوگوں نے یہ کہاں سے لیں۔ صنم نے کہا آنٹی یہ تین ہی ہیں در اصل پرس چھوٹا سا تھا اتنی ہی پرس میں آتیں تھیں۔

آنٹی کو بات سمجھ نہ آئی تو انہوں نے وضاحت طلب کی ، معلوم ہوا کہ یہ شادی ہوٹل کی سپونز ہیں جو ماما اپنے پرس میں ڈال کر تین لے کر آئیں تھی۔ صنم کی ماما نے غصے سے کہا کیا بکواس کر رہی ہو یہ تمہارے پاپا لائے تھے ۔ پاپا نے بھی ماما کا ساتھ دیا اور صنم نے مزید دلیل نہ دی۔

صنم کے بھائی کو بخار تھا آج وہ فٹ بال کھیلنے نہ گیا، اس کا ایک دوست آیا تو صنم نے دروازہ کھولا بولی کیا ہے،آصف نے کہا ریحان ہے، صنم نے کہا ہےتو اس نے کہا مجھے کام تھا صنم نے ریحان کی حالت کا بتایا تو اس نے کہا باجی ریحان کے شوز دے دیں، جو آپ کے ماموں یو۔ کے سے لائے ہیں۔ صنم ہنسنے لگی،ہمارے ماموں یو۔کے سے بات نہیں کرتے شوز کیا بھیجیں گے۔ آصف نے کہا وہ موٹے برون والے۔صنم نے کہا وہ تو ریحان نے لنڈا بازار سے لیے ہیں۔ریحان نے بعد میں جو صنم کا حال کیا آپ خود اندازہ لگائیں ۔لیکن یہ تو معمول تھا صنم نے سچ کا ساتھ نہ چھوڑنا تھا نہ چھوڑا۔

دروازے پر دستک ہوئی ، دادی کو دیکھ کر صنم نے خوشی سے آوازیں لگائیں دادی آگئی ، دادی آگئی،دادی کے آنے پر گھر بھر کا سناٹا ختم ہو جاتا وہ اونچی آواز میں ایسے باتیں کرتیں جیسے کسی سے لڑ رہی ہوں۔ کھانے پینے میں ایسے نخرے کرتیں جیسے ملکہ الزبیتھ کسی ہوٹل میں آگئی ہوں۔

دادی کو صنم نے دودھ کا کپ دیا تو ناک چڑھا کر بولیں یہ دودھ تو بہت پتلا ہے،اسے گرم کیا یا جیسا تھا ویسا ہی اُٹھا کر لے آئی ہو۔صنم نے کہا گرم نہیں کیا لیکن پانی ڈالا ہے امی نے کہا تھا دادی کے کپ میں تین حصے دودھ ایک حصہ پانی ڈال دینا کلو دودھ تو وہ پی جاتیں ہیں ایک دن میں۔

یہ سننا تھا دادی اور ماما میں ایک جنگ جاری ہو گئی اور صنم منہ دیکھتی رہ گئی۔ دھیرے دھیرے کمرے سے باہر چلی گئی۔دادی ناراض ہو کر واپس چلی گئیں ۔ ماما نے صنم کو خوب داد دی ، اسے سچ بولنے کا ایک تغمہ بھی ملا جو اس کے گال پر چھپا صاف نظر آتا رہا۔

سب کے سب صنم سے تنگ تھے ۔ اس کی کلا س میں اس کی کوئی دوست نہ رہی تھی۔ سب اس سے دور رہنا ہی پسند کرتے،اس کی دوست نے جب اسے اپنے عید کے کپڑے لا کر دیکھائے اور پوچھا کیسے ہیں،کپڑے تو بہت اچھے ہیں ،جب اس نے پوچھا مجھے کیسے لگیں گے تو صنم خاموش ہو گئی۔جب اس نے بہت اصرار کیا تو اس نے کہا در اصل یہ تم پر اچھے نہیں لگیں گے۔ اس نے کہا ابھی تو تم کہہ رہی تھی کپڑے بہت اچھے ہیں تو صنم نے کہا یار تمہارا رنگ بہت کالا ہے اور یہ کپڑے بہت ڈارک کلر کے ہیں۔ یہ سننا تھا کہ دوست کا منہ غبارے کی طرح پھول گیا۔

صنم کی تنہائی تھی اور اس کی سچائی، دروازے پر دستک ہوئی ریحان نے کہا صنم دروازے پر کون ہے دیکھو۔ دروازے پر میٹر ریڈر تھے صنم نے کہا جی کس سے ملنا ہے۔میڑ ریڈر نے کہا آپ کا میٹر خراب ہے۔صنم نے کہا نہیں میڑ تو تھیک ہے۔میڑ ریڈر نےکہا پھر یہ دھیرے کیوں چل رہا ہے۔صنم نےکہا وہ تو پاپا نے الیکٹریشن سے میٹر کو سلو کروایا ہے۔ میٹر ریڈر نے کہا آپ کو کیا معلوم کہ آپ کے پاپا نے میٹر سلو کروایا ہے۔صنم نے کہا دراصل پاپا ماما کو خفا ہو رہے تھے کہہ رہے تھے میں نے میٹر سلو کروایا ہے اس کے باوجود اِتنا بل کیا کرتے رہتے ہیں آپ سب۔ وہ لوگ چلے گئے اور شام کو دوبارہ آئے رشوت دے کر پاپا نے جان چھڑوائی ۔ آج دو سال کے بعد صنم کی اسی طرح پٹائی ہوئی اور وہ گول مٹول گیند بنی بیٹھی تھی ۔لیکن فرق صرف اِتنا تھا کہ وہ مار اسے جھوٹ پکڑے جانے پر اور یہ مار اسے سچ پکڑے رکھنے پر پڑھی تھی۔

جب پاپا مارنے کے بعد کمرے سے جانے لگے تو صنم نے روتے ہوئے اپنے کمرے کا رُخ کیا لیکن اس کی سچ کی یہ عادت ایسی پختہ ہو چکی تھی کہ اپنے گھر والوں کی دوری ، دوستیوں کے خاتمے اور ہر کسی کی نظر میں مذاق بننے کے باوجود ختم نہ ہو سکی،اب وہ قرآن پر ہاتھ رکھنے کی وجہ سے نہیں بلکہ عادتاً سچ بولتی تھی ، جھوٹ اس سے بولا ہی نہیں جاتا تھا۔لیکن جھوٹوں کی محفل سچے کا منہ کالا ہوتا ہے۔ جیسے کتے کو گھی ہضم نہیں ہوتا اسی طرح ہمارا معاشرہ اچھے لوگوں کو تنہا کر دیتا ہیں اور وہ لوگوں کی تضحیک کا نشانہ بنتے ہوے خود کو کوسنے لگتے ہیں۔ہمارے معاشرے کا وطیرہ بن چکا ہے میٹھا میٹھا ہپ ہپ ،کڑوا کڑوا تھو تھو۔

ہمارے ہاں ماں باپ جو کچھ خود نہیں کرتے بچوں سے امید کرتے ہیں کہ وہ اُن کو کر کے دیکھائیں۔ ہمیں دوسروں کو سدھارتے وقت اپنے گریبان میں ضرور جھاکنا چاہیے، ورنہ حالات ایسے ہی مضحکہ خیز ہو سکتے ہیں۔کیونکہ عادتیں اچھی ہو یا بُری بدلنا ہر حال میں ناممکن نہیں مشکل ضرور ہیں۔
کنول نوید
About the Author: کنول نوید Read More Articles by کنول نوید: 7 Articles with 4577 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.