کسی قوم کی تقدیر اور اُس کا
مستقبل باصلاحیت اور تعلیم یافتہ نوجوان نسل سے وابستہ ہوتا ہے۔ فتح و نصرت
کا عالمی نشان ہے نوجوان اہے جس شعبے میں ہو اسے محنت کرنی چاہیے کیونکہ
مسلسل محنت اور عمل تقدیر کو بدل دیتے ہیں۔ نوجوان طبقے کو قوم کی ریڑھ کی
ہڈی سمجھا جاتا ہے۔ اگر کسی قوم کے نوجوان ہی سست اور کاہل ہو جائے تو شاید
ہی وہ قوم کامیاب ہو سکے اگر کسی قوم کے نوجوان بدعنوانی اور تخریب کاری
میں ملوث پائے جائے۔ تعلیمی اداروں کے سامنے جو کہ طالب علموں کی بہترین
تربیت گاہ ہوتی ہے وہاں توڑ پھوڑ کرنا شروع کر دیں۔ لوگوں کو آرام کی سہولت
فراہم کرنے کے بجائے ان کی تکالیف میں اضافے کا باعث بنے ایک زخمی کو
اسپتال پہنچانے کے بجائے اس کو سڑک پر مرنے کیلئے چھوڑ دے تو تباہی و
بربادی اس قوم کا مقدر بن جائے گی۔
میں اس کالم میں نوجوانوں کے حوالے سے مختلف موضوعات پر مختصر روشنی ڈالووں
گا لیکن میری یہ باتیں نوجوانوں کو بُری لگی گی لیکن دوستوں میں تنقید
برائے تنقید نہیں بلکہ تنقید برائے اصلاح کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اگر پھر
بھی کسی کے دل کو ٹھیس پہنچی ہو تو پشکی معذرت۔ موبائل فونز جدید دور کی
اہم ضرورت میں سے ایک لیکن نوجوان طبقے نے موبائل فونز کو بے حیائی کے
کاموں کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ دوسری طرف موبائل فونز کا اس قدر
عام ہونے سے نوجوان نسل کی پڑھائی پر بڑے اثرات مرتب ہو رہے ہیں خاص طور پر
تعلیمی اداروں میں موبائل فون پر پابندی کے باوجود اس کی یلغار کو روکنا
ممکن نہیں ہے۔ اکثر لیکچر کے دوران فون پر بیل بجنے لگتی ہے جس کی وجہ سے
پڑھائی کا تسلسل ٹوٹ جاتا ہے کلاس روم میں عجیب سا ماحول پیدا ہو جاتا ہے
اور بے جا ایس ایم ایس کی وجہ سے بھی لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا
ہے۔ اگر مساجد میں نظر دوڑائیں تو نماز یا خطبے کے دوران بھی فونز استعمال
کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ون ویلنگ بھی نوجوان طبقے میں زور پکڑتی جا رہی ہے۔ خصوصاً اہم مواقع پر ون
ویلنگ کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے ہزاروں نوجوان زندگی کی بازی
ہار چکے ہیں۔ دراصل ہم نے یہ سوچنا چھوڑ دیا ہے کہ ہمارے والدین ہمیں کتنی
مشکلات اور مصائب سے جوان کرتے ہیں پھر تعلیم دلواتے ہیں تاکہ ان کا بیٹا
ایک اچھا انسان اور بڑا افسر بن سکے لیکن یہ غلط حرکات کی وجہ سے جب لخت
جگر جدا ہو جائے تو پھر درد وہی جان سکتا ہے جو صاحب اولاد ہو کتنے ایسے
نوجوان دیکھے ہیں جو ان حرکات کی وجہ سے معذور ہو کر پچھتا رہے ہیں ہمیں ان
سے نصیحت حاصل کرنی چاہیے۔ ہمارے نوجوان منشیات کا عادی ہوتا جا رہا ہے
جہاں اس کے ہاتھ میں قلم ہونی چاہیے تھی وہاں سگریٹ دکھائی دے رہا ہوتا ہے
اور اس کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ اہم مواقع مثلاً 14 اگست،
عید کے دن، 23 مارچ میں پارکز میں ہلہ گلہ چھیڑ چھاڑ لڑکیوں پر آوازیں کسنا
معمول بن چکا ہے جس کی وجہ سے بہت کم فیمیلز اہم مواقع پر پارکز کا رُخ
کرتی ہیں۔ آج کے نوجوان نے انٹرنیٹ کو صحیح استعمال کرنے کے بجائے اس کا
غلط استعمال شروع کر رکھا ہے۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان غیر اخلاقی سائٹ دیکھنے والا دنیا میں تیسرا ملک
ہے حالانکہ انٹرنیٹ زندگی کا اہم جزو بن چکا ہے کیونکہ آج کی نئی نسل کو
اگر مغرب زدہ کہیں تو مضائقہ نہیں ہو گا آج کی نئی نسل میں دوسروں کی تقلید
کرنے کا جذبہ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح موجود ہے لیکن حیرت کی بات
ہے کہ نوجوان نسل صرف برائیوں میں تقلید کیلئے ذہانت کو اپناتے ہیں اگر
اچھائی کی تقلید کرنے کا کہا جائے تو پرانے زمانے اور دقیانوسی قرار دیا
جاتاہے۔ ہماری آج کی نوجوان نسل میں قائداعظم محمد علی جناحؒ، محمد بن قاسم،
صلاح الدین ایوبی، نیوٹن بننے کے جذبات ایک فیصد جب کہ عامر خان، سلمان خان
بننے کے جذبات 99 فیصد ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے عامر خان کی فلم ریلیز ہوئی جس میں صاحب نے کندھوں پر رومال
رکھا ہوا ہے، ہماری نوجوان نسل نے اتنی جلدی اور تیزی یہ فیشن اپنایا بس اﷲ
بچائے، ہمارا نوجوان طبقہ اپنا کلچر اور اسلام کی حدود کو بھولتا جا رہا
ہے۔ نوجوان تو وہ ہے جو حقیقی جذبے سے سرشار ہو کر لوگوں کے دکھ درد سمجھنے
والا ہو اور اگر تعلیم سے فارغ ہو چکا ہے تو فلاحی کاموں پر توجہ دینی
چاہیے۔
شاعر نے کیا خوب کہا ہے
نہیں ہے نا اُمید اقبال اپنی کشتا دیراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
جو زیر تعلیم ہیں انہیں قائداعظم محمد علی جناحؒ کے اس فرمان پر عمل پیرا
ہونا چاہیے۔
’’ایمان، اتحاد، نظم، کام کام اور بس کام‘‘
اگر کوئی نوجوان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے اس فرمان پر دل و جان سے عمل
کرے تو یقینا میں یہ کہوں گا کامیابی اس کے قدم چومے گی۔ ہمارا آج کا
نوجوان تخریب کاری اور ڈکیتی میں ملوث کیوں پایا جاتا ہے۔ وہ اس لئے کہ ایک
تعلیم یافتہ نوجوان جب اپنے روزگار کے حصول کیلئے کسی محکمے میں جاتا ہے تو
بجائے تعلیمی قابلیت دیکھنے کے لئے وہ لوگ اثر و رسوخ اور دولت کی بناء پر
نوکری دیتے ہیں۔ جب یہ واقعات طالب علم کے ساتھ پیش آتے ہیں تو وہ انتقامی
کارروائی پر اتر آتا ہے۔ قلم کے بجائے ہتھیار اُ‘ٹھاتا ہے، بے گناہ لوگوں
کو اپنے انتقام کا نشانہ بناتا ہے اور اُس کے دل میں وطن کے خلاف نفرت ابھر
آتی ہے۔ ہمارے ملک کی ترقی کیلئے وہی جذبے نوجوانوں میں بیدار کرنا ہوں گے
جو آج سے 62 سال پہلے قائداعظم محمد علی جناحؒ نے بیدار کیا تھا۔ اس لئے
ہمارے آج کے نوجوان کو بہتر بنانے کیلئے بزرگوں کو انہیں راہ راست پر لانا
ہو گا۔ انہیں قیمتی نصیحتوں سے نوازیں۔ والدین بچوں کی سوسائٹی کا خیال
رکھیں تاکہ یہی نوجوان مستقبل میں وطن کی سلامتی کیلئے جان کو داؤ پر لگا
دے تاکہ کل پاکستانی بچے بوڑھے اور عورتوں کا سر فخر سے بلند ہو اور شہداء
پاکستان کی روح کو سکون ملے۔ آخر میں میں ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کا ایک
شعر بیان کرنا چاہوں گا جس پر عمل کرنے سے ایک نوجوان کی زندگی میں روشنی
ہی روشنی آ سکتی ہے۔
’سبق پڑھ پھر عدالت کا شجاعت کا صداقت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا |