رات کا پچھلا پہر اور وقت 1ہونے کوہے،آرام کی غرض سے جب اپنے بستر کا رخ کیا تو
نیند کوسوں دور،سوچنے لگا کہ آج آخر ایسا کیا ماجرا ہے کہ نیند آنے کا نام نہیں لے
رہی۔ ابھی یہ ہی سوچ رہا تھاکہ اسی اثناء میں دل و دماغ نے ایک انگڑائی لی اور ایک
دم اٹھ بیٹھا اور قلم، کاغذ اٹھا کربناء سوچے لکھنا شروع کر دیا۔ لکھنے پڑھنے کی
عادت تو ہمیشہ سے رہی ہے لیکن کبھی اس طرح بغیر سوچے سمجھے لکھنے کااتفاق شاید پہلی
مرتبہ ہو رہا ہے۔ لکھنا پڑھنا تو انسان بچپن سے ہی سیکھتا ہے اور یہ بھی اللہ رب
العزت کی طرف سے کسی نعمت سے کم نہیں۔ ہمیں اس نعمت کی قدر اس لیے نہیں ہوتی کیونکہ
ہم مسلسل لکھ پڑھ اور بول رہے ہوتے ہیں جب کہ ہمیں اس نعمت کی قدر معلوم کرنی ہو تو
اپنے ان عزیزوں اور دوستوں سے ملنا ہو گا جو تعلیم کی دولت سے دانستہ یا نا دانستہ
محروم ہیں۔
دین اسلام میں اس لکھنے پڑھنے کی افادیت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا
ہے کہ بنیادہی سے انسان کی تخلیق کے ساتھ آدمؑ کو رب کائنات نے بہت اچھے اچھے ناموں
کا علم عطا فرمایا اور پھر یہ سلسلہ بڑھتے ہوئے خاتم النبیین محمد صلى اللہ علیہ
وسلم تک بھی لفظ" اقراء "،پہلی وحی کے نزول تک قائم رہا جو قیامت تک آنے والی
انسانی نسلوں کے لیئے راہ ہدایت کا ذریعہ بھی بنا۔ فرمان نبوی صلى اللہ علیہ وسلم
کے مطابق "ماں کی گود سے لے کر قبر کی لحد تک علم حاصل کرنا"،ہماری رہنمائی کے لیے
کافی ہے لیکن آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم جو پڑھنا لکھنا جانتے بھی ہیں اس کے
باوجود ہم حقیقی علم کے نور سے عملاً محروم ہو تے چلے جا رہے ہیں۔ اس کی بنیادی
وجوہات پر نگاہ دوڑائی جائے تو ہمیں کسی اور کی مثال دینے کی ضرورت نہیں پڑے گی،کسی
کی طر ف انگلی اٹھانے کی نوبت بھی نہیں آئے گی کیونکہ پڑھ لکھ کر اسے پس پشت ڈال
دینے والا کوئی اور نہیں بلکہ اس کے ذمہ دار بھی ہم خود ہیں۔ انسان اپنی تخلیق پر
غور کرے تو اسے یہ بات کبھی نہ کبھی ضرور محسوس ہو گی کہ اللہ تعالی نے اسے دنیا
میں کسی خاص مقصد کے لیے بھیجا ہے اور اس خاص مقصد کی جستجو کرنا ہی در اصل کامیاب
زندگی بسر کرنے کا نام ہے۔
دیکھا جائے تو علم اس وقت تک کوئی معنی نہیں رکھتا جب تک وہ علم نافع ثابت نہ ہو
اور علم اس وقت تک نفع بخش ہو نہیں سکتا جب تک ہم اللہ اور رسول صلى اللہ علیہ وسلم
کی اطاعت و فرمانبرداری، والدین سے حسنِ سلوک کے علاوہ امر بالمعروف اور نہی عن
المنکر کو اپنا شعار نہ بنا لیں بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ ہم اس وقت تک صحیح معنوں
میں انسان کہلوانے کے حق دار ہی نہیں جب تک ہمارے ہاتھ اور زبان سے کوئی دوسرا شخص
محفوظ نہ رہ سکے۔ ہم معاشرے میں اس وقت تک مقام حاصل کر ہی نہیں سکتے جب تک اساتذہ
کرام کی عزت و آبر و کواپنے اوپر لازم نہ کر لیں۔ معاشرتی،سماجی،اخلاقی قدروں کو
اپنے پاؤں تلے روندنا اور پھر اپنے نام کے ساتھ سابقے اور لاحقوں کا کثیر استعمال
انتہائی غیر مناسب اور بد تہذیبی میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں اپنے داد ا محترم مولانا
محمد یونس اثریؒ کا ذکر اس لیے کرتا چلوں کہ بزرگوں کی صحبت اور ان سے حاصل کی گئی
رہنمائی ہمیشہ مشعل راہ ہوا کرتی ہے۔اس ضمن میں ایک چھوٹا سے واقعہ ہے جو آپ کے
ساتھ شئیر کر رہا ہوں ’’جب میں چھٹی جماعت میں تھا تو ایک دن دادا ابو کے پاس بیٹھا
ہوا تھا انہوں نے پوچھا آپ تعلیم کس لیے حاصل کر رہے ہو؟میں نے فوراجواب دیا کہ
دادا ابو میں اس لیے پڑھ رہا ہوں تا کہ کل کو بڑا آدمی بن سکوں۔۔۔۔!! میرا ابھی
اتنا ہی کہنا تھا کہ وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمانے لگے کہ بیٹا اگر تم تعلیم
اس لیے حاصل کر رہے ہو کہ تم بڑے آدمی بنو،اعلی عہدے پر فائض ہو سکو تو پھر ایسی
تعلیم کا کچھ فائدہ نہیں،تمہیں علم کی جستجو کرنا ہوگی۔ علم اور تعلیم میں فرق ہے۔
تعلیم تمہیں اعلیٰ عہدے پر تو پہنچا دے گی مگر علم تمہیں بلندیوں کی معراج پر لے
جائے گا۔ ہمیشہ اپنے آپ کو ایک طالب علم سمجھو گے اور ہر کسی سے کچھ نہ کچھ سیکھنے
کی جستجو دل میں ہو گی تو تم اپنی مراد بھی پالو گے اور علم بھی حاصل کر لو گے۔ یاد
رکھو ! میں آج بھی طالب علم ہی ہوں اور علم حاصل کرنے کی جستجو میں ہوں‘‘۔ جب میں
یہ بات سن رہا تھا تو ساتھ میں میرا دل و دماغ یہ سوچ رہا تھا کہ اتنا بڑا آدمی اگر
ابھی تک اپنے آپ کو طالب علم ہی سمجھ رہا ہے تو میں جو ابھی چھٹی جماعت کا طالب علم
ہوں،کس باغ کی مولی ہوں۔۔۔۔۔!!
انسان کی کامیابی کا دارومدار علم کے حصول میں ہی مضمر ہے۔ علم نافع کی ترویج صرف
باتوں سے ممکن نہیں بلکہ اپنے قول و فعل سے عملاً اس میدان میں محنت کی ضرورت بھی
ہے۔ اپنے عمل سے علم کو تقویت بخشنا اور اسے نفع بخش بنانا ہم پر انتہائی لازم بھی
ہے اور سنت نبوی صلى اللہ علیہ وسلم کی پیروی بھی۔ علم چاہے تھوڑا ہی ہو مگر عمل کے
ساتھ ہو تو دنیا و آخرت کی بھلائی کا باعث بن جاتا ہے چونکہ ’’باعمل با مراد
۔۔۔۔۔۔بے عمل بے مراد‘‘ یہ بڑی تلخ حقیقت ہے۔ |