دنیا بھر کے ممالک میں جہاں کہیں بھی کوئی بڑا حادثہ رونما ہویاکوئی قومی سوگ منایا
جا رہا ہوتو افسوس کے اظہار کے لئے اُس ملک کا قومی پرچم سرنگوں کردیا جاتا ہے۔ مگر
سعودی عرب دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کا قومی جھنڈا کبھی بھی سرنگو نہیں کیا جاتا۔
سعودی عرب کے جھنڈے کو یہ امتیازی حیثیت اس لئے حاصل ہے کہ اِس کے قومی جھنڈے پر "کلمہ
طیبہ" درج ہےجو کہ تمام مسلمانوں کی وحدانیت کی نشانی ہے۔ دنیا بھر میں کہیں بھی
کسی بھی ملک میں سعودی عرب کا جھنڈا کلمہ طیبہ کے تقدس کی خاطر سرنگوں نہیں کیا
جاتا خواہ وہ اسلامی ملک ہو یا غیر اسلامی ملک۔ تمام دنیا میں اِس جھنڈے کی عزت سب
سے زیادہ کی جاتی ہے اور وجہ ہے "کلمہ طیبہ"۔
ہم خود تو مقدس کلمات کا احترام کرتے نہیں مگر جب دوسرے کرنے لگے تو ہم خود اپنے ہی
گھر کو آگ لگا دیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں عام رواج ہے کہ مذہب، کلمہ و قرآن کو ہمیشہ
سیاسی پارٹیوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کیا ہے خواہ وہ مذہبی پارٹی ہو
یا غیر مذہبی۔ پرسوں ایک بہت افسوس ناک واقعہ ٹی وی پر دیکھاجس میں لاہور میں "جماعت
اسلامی" کے کسی سیاسی جلسے کے دوران وہاں پر موجود جماعت کے کارکنان کسی بات پر آپس
میں گتھم گتھا ہوگئے۔ اُن کے ہاتھوں اور اُن کے سروں پر جماعت اسلامی کے پرچم لپیٹے
ہوئے تھے۔ اِس لڑائی جھگڑے کے دوران جماعت اسلامی کے پرچم کا جوحال ہوا وہ بیان
کرنے کے قابل نہیں ہے۔ تکلیف اِس بات کی ہوئی کہ جہاں پوری دنیا میں مسلمان اور غیر
مسلم جتنا کلمہ طیبہ کی تعظیم کرتے ہیں اتنا ہم لوگ خود اس کا خیال نہیں رکھتے۔
جماعت اسلامی کے جھنڈے پر کلمہ طیبہ درج ہے۔ مذہبی جماعتوں کے پمفلٹ، بروشر،
انتخابی بل بورڈز، چھوٹی چھوٹی جھنڈیوں، اشتہارات اور دوسرے کاغذات پرمقدس کلمات
ضرور درج ہوتے ہیں۔ مگر استعمال کے بعد اِن کا جو حال ہوتا ہے وہ کسی سے ڈھکاچھپا
نہیں ہے۔ ہم کبھی بھی کسی ایسی تحریریا کاغذ کے ٹکڑے کا احترام نہیں کرتے۔ جتنا
واویلا ہم لوگ غیر مسلموں کی طرف سے قرآن یا احادیث کی بے حرمتی پر مچاتے ہیں، اپنی
قومی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں، اپنے ہی بھائیوں کے گھروں اوردکانوں کو جلاتے ہیں،
شہر کی خوبصورتیوں کو تباہ کرتے ہیں کبھی بھی ہم میں سے کسی نے بھی اِس جانب
سنجیدگی سے نہیں سوچا۔ یہ صرف اِس جماعت کی بات نہیں ہےبلکہ دوسری مذہبی جماعتیں
بھی اسی طرف توجہ نہیں دیتیں۔ مگر اُن کے لئے سب ٹھیک ہے میرے اور آپ کے لئے بہت
بڑی سزائیں ہیں۔خیبر پختون خواہ میں جب درویشوں کی حکومت تھی تو محکمہ تعلیم مذہبی
جماعت کے پاس تھا، اُن کے وزیر جو خود بھی ایک بہت بڑے عالم فاضل شخص ہیں کے سامنے
جب یہ مسئلہ پیش کیاگیا کہ امتحانات میں ہمارے لوگ جس طرح قرآنی آیات اور احادیث کا
استعمال کرتے ہیں اور کس طرح امتحانات میں نقل کرنے کے لئے ان مقدس اوراق کو
استعمال کیا جاتا ہے ، اِس مسئلے کے حل کی تدارک کے لئے کوئی معقول بندوبست کیا
جائے اور اسلامی تعلیمات پر مبنی متحانات کو زبانی قرار دیا جائے یا کوئی اور مناسب
طریقہ امتحان وضع کیا جائے مگر اُنہوں نے بھی اِس طرف کوئی خاص توجہ نہ دی۔
اسی قسم کا سب سے بڑا مسئلہ جو تقریباً ہر دن میرے مشاہدے میں آتا ہے وہ ہے اخبارات
اور رسائل میں شائع شدہ قرآنی آیات و احادیث اور اسلامی ایڈیشن۔ آپ یقین جانیں میں
روزانہ صبح جب روٹیاں لاتا ہوں تو تندور والا جس اخبار میں مجھے روٹیاں دیتا ہے اُس
میں اکثر یہ مبارک کلمات ہوتے ہیں۔ میں نے اس بارے میں سوات کے ایک لوکل اخبار کے
مالک سے جب بات کی تو اُنہوں نے کہا کہ یہ شائع کرنا ہمارے لئے ضروری ہے کیونکہ ہم
نے لوگوں کو تعلیم دینی ہے مگر اِن صاحب کو کون سمجھائے کہ ہم لوگ اخبار میں کیا
پڑھتے ہیں اور بعد میں اس میں سموسے اور پکوڑے ہی بیچتے ہیں۔ اتنا شعور ابھی ہم میں
نہیں ہے کہ ہم سب اِن اوراق کو تعظیم دیں اور اِن کو اِس طرح سنبھال کر رکھیں کہ
اِن کی بے ادبی نہ ہو مگر کس کس کو سمجھائیں گے۔ پہلے تو میرے تندور والا مجھے ایسی
عجیب عجیب نظروں سے دیکھتا ہے بلکہ اب تو جب وہ مجھے دور سے دیکھ لیتا ہے توکچھ بے
چین سا نظر آنے لگتا ہے کیونکہ میں نے پھر وہی بات کرنی ہے اور وہ یہی کہے گا کہ
جناب میں تو خیال رکھتا ہوں مگر اتنے زیادہ ردی کے اخبارات میں کس کس اخبار کو میں
تلاش کروں گا۔۔۔
میری تمام بھائیوں سے درخواست ہے کہ جہاں بھی کوئی مقدس کلمات نظر آئیں اُن کا
احترام کریں۔ تمام مذہبی اور غیر مذہبی جماعتوں سے بھی گزارش ہے کہ انتخابی مہم کے
دوران اِن کلمات کی تقدس کا خیال رکھیں۔ اپنے جھنڈوں اور دوسری اشیاء پر ان کے بے
جا استعمال سے گریز کریں۔ |