گزشتہ دنوں کافی عرصے کے بعد شادی کی ایک تقریب میں شرکت
کا موقع میسر آیا ۔ایسا لگتا تھا کہ جیسے رنگ و نور کا ایک سیلاب امنڈ آیا
ہو۔ سجے ہوئے پنڈال میں چہکتی لڑکیاں‘ مہکتے ہوئے لڑکے اور کھلکھلاتے ہوئے
بچے ‘اولاد کے فرائض سے عہدہ براءہوتے ہوئے والدین ۔ دلہن کی سہیلیاں‘
دولہا کے دوست ‘ عزیز و رشتہ دار سب مل کر ماحول کو سحرانگیز بنارہے تھے۔
میں گھومتے پھرتے اسٹیج کے نزدیک کھڑی ہوئی‘ بے دھیانی میں وہاں ہونے والے
شور کو سن رہی تھی۔ ایک بلند ہوتی ہوئی آواز کہہ رہی تھی ۔”ہنس لو بیٹا جی
خوب ہنس لو‘ یہ آج تمہاری آخری ہنسی ہے۔“
دوسری آواز جو غالباً دلہن کی بہن یا سہیلی کی تھی ‘نے مدافعانہ رویہ
اختیار کیا۔”جی نہیں جناب‘ آج ہی سے تو مسکرانے کا سلسلہ شروع ہوا ہے‘ آگے
آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔“
یہ جملے اور اس قسم کی باتیں میرے لئے نئی نہیں تھیں ‘بس فرق صرف اتنا تھا
کہ میں اپنی مصروفیات کی وجہ سے ذاتی تقاریب سے دُور ہوکر رہ گئی تھی۔ آج
ساری باتیں ذہن میں تازہ ہوکر رہی گئیں اور میں اس سوچ میں پڑگئی کہ کیا
نیا دور‘ نئی صدی اور نیا بھی زمانہ اسی پر ُانی اور دقیانوسی سوچ کے ساتھ
پنپے گا؟
شادی کو ہمیشہ سے ہی مردوں کے لئے بوجھ ‘ذمہ داری اور قید قرار دیا جاتا ہے
۔ بہت سے لڑکے اس لئے شادی سے جان چھڑا کر صرف دوستیوں پر اکتفا کرتے نظر
آتے ہیں کہ کون ذمہ داریوں کا بوجھ ڈھوئے گایا کون صبح و شام کی چخ چخ میں
پڑے گا جب کہ دوسری جانب لڑکیاں بھی شادی کے بعد کی تلخیوں ‘ذمہ داریوں اور
جھنجٹ سے بچنے کے لئے شادی سے کتراتی نظر آتی ہیں۔ یہ وہ معاشرتی رویہ ہے
جو آج بے شمار برائیوں کو جنم دینے کا سبب بن رہا ہے۔
شادی شد ہ زندگی کی خوبصورتیاں انتہائی منفرد اور اس حسین ترین رشتے کی
نزاکتیں بے حد دلکش ہیں جنہیں بلاوجہ کی انا پرستی اور غلط تصورات کی بھینٹ
چڑھادیا جاتا ہے۔ ایک مرد جب کسی عورت سے شادی کرتا ہے تو وہ قرآن ‘ حدیث
اور سنت نبوی اکی رو سے اس عورت کی ذمہ داریوں کا نگہبان ہوتا ہے۔ خالق
حقیقی کی نگاہ میں مرد و عورت‘ دو انسانی گوہر‘ دو ایک جیسی آسمانی روحیں
اور ایک دوسرے کے مثل و نظیر ہیں ۔ ”رشتہ ازدواج“ ہر لحاظ سے مکمل اور جامع
سنت‘ بہترین رسم زندگی اور وہ خوبصورتی ہے کہ جو اس جہان پر حاکم ہے۔اِسی
طرح ”زوجیت“ کا یہ مقدس رشتہ اِس عالم ہستی کے معمار کے جمال کی پرُعظمت
نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔
اسلام وہ واحد مذہب ہے ‘ جس نے عورتوں کا درجہ بلند کیا۔ ان کی مستقل حیثیت
قائم کی‘ اُن کے حقوق متعین کئے ‘وراثت میں حصہ دار بنایا‘انہیں اُن کی
املاک کا مالک بنایا ‘ چند کے سوا انہیں بیش تر امور میں مردوں کے برابر
حقوق دیئے ‘ ان کی پرورش کو اجر و ثواب قرار دیا‘ بیوی اور شوہر میں حقوق
کی مساوات قائم کی‘ بیوی کو شوہر کی رفیق زندگی بنایا۔ تمام تر عزت و تکریم
کے ساتھ اللہ رب العزت نے قران کریم میں ایک عورت کی ذمہ داری والدین کے
بعد شوہر پر تفویض کی اور واضح کردیا کہ کیوں کہ مرد اپنی جسمانی قوت‘
معاملہ فہمی اور دُور اندیشی میں عورت سے زیادہ ہے اس لئے بیوی بچوں کے
جملہ اخراجات اور ان کے آرام و حفاظت کی تمام تر ذمہ داری اس پر عائد ہے۔
اپنی فطری و کسبی برتری کے باعث مرد کو گھر کی ریاست کا امیر قرار دیا گیا
ہے ۔اس بات کو لوگ یہ رُخ دیتے ہیں کہ عورت کے گلے میں مرد کی غلامی کا طوق
ڈال دیا گیا ہے یا مرد کے سر پر عورت کی ذمہ داری تھوپ دی گئی ہے کیوں کہ
ان انتظامی امور کے علاوہ عورت کے اپنے حقوق ہیں جو مرد پر ایسے ہی واجب
ہیں جیسے مرد کے حقوق عورت کے ذمہ واجب ہیں۔
ایک لڑکی جب شادی ہوکر کسی مرد کی زندگی میں آکراس کے تمام رشتوں سے جڑ
جاتی ہے۔اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ دوسرے ماحول اور گھر میں ایڈجسٹ کرنے
میں تھوڑا وقت ضرور درکار ہوتا ہے ۔شوہر‘ جس کے ذہن میں معاشرتی رویئے نے
یہ بات نقش کردی ہے کہ عورت پاﺅں کی جوتی ہے ‘اسے شروع ہی سے اپنے کنٹرول
میں رکھنا ضروری ہے‘ پہلے ہی دن سے یہ توقع رکھنے لگتا ہے کہ عورت اس کی
آنکھ کے اشارے پر چلے گی۔بے شمار ایسی مثالیں ہیں کہ جس میں شوہر اپنی
بیویوں کی اپنے گھر والوں سے اچھا سلوک روا نہ رکھنے کی شکایت کرتے نظر آتے
ہیں لیکن کوئی ایسا نہیں ہے جو مردوں کی اپنے سسرالوں میں اپنی اکٹرفوں ‘
روکھے پن اور بدمزاجی کی نشاندہی کرتا ہو ‘کیوں کہ ایک جانب مرد بیویوں پر
اکڑتے ہیں تو دوسری جانب وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شادی کرکے انہوں نے اپنے
سسرال والوں کا ایک بوجھ کم کیا ہے۔
مرد اپنی بیوی سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اس کے ہر سکھ دکھ اور آرام و آسائش
کا خیال کرے گی لیکن وہ اس بات کو فراموش کردیتا ہے کہ اس کی بیوی بھی
انسان ہے اور اس کو بھی کسی قسم کا دکھ پہنچ سکتا ہے‘ وہ کسی بات پر اُداس
یا پریشان ہوسکتی ہے۔ میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ اگر مرد صر
ف اپنی بیوی کی چھوٹی چھوٹی خو اہشات کا خیال رکھے تو وہ اس کے لئے بڑی سے
بڑی تکلیف اُٹھاسکتی ہے۔
ایسے میں اگر کوئی عورت فکر معاش میں اپنے شوہر کے شانہ بشانہ ہے تو اس پر
دہری ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے۔ ایک جانب وہ اپنے گھر کے تمام امور انجام
دیتی ہے تو دوسری جانب دفتری ذمہ داریاں ادا کرتی ہے۔ ملازمت پیشہ خواتین
دفاتر سے واپسی کے بعد گھریلو کاموں میں اُلجھ جاتی ہیں جب کہ مرد حضرات
آفس سے واپسی کے بعدبستر پر لمبی تان لیتے ہیں‘ انہیں پانی بھی بستر پر ہی
چاہئے ہوتا ہے۔ایسے میں انہیں کبھی اس بات کا خیال نہیں آتا کہ ان کی نصف
بہتر بھی سارا دن کی تھکی ہاری ہے اور صنف نازک ہونے کی حیثیت سے اسے زیادہ
آرام کی ضرورت ہے ۔اس کے برعکس اگر کسی بات میں کسر رہ جائے تو مرد حضرات
کی بدمزاجی عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ ایسے میں وہ گھر سے باہر نکل کر بیوی کے
کام کرنے کو اس کی عیاشی تک قرار دیتے ہوئے یہ بات بالکل فراموش کر بیٹھتے
ہیں کہ اُن کا یہ عمل اللہ کے نزدیک کس قدر ناپسندیدہ ہوگا۔
عام طور پر مرد دوسری شادی کو مردوں کا حق قرار دیتے ہوئے گاہے بگاہے قرآن
کا حوالہ دیتے نظر آئے ہیں اور انہیں غالب گمان یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ
نے اسی وجہ سے انہیں عورت سے برتر بنایا ہے کہ وہ بیک وقت چار ازدواج رکھنے
کی اہلیت رکھتے ہیں ۔ میں نے بہت سے مردوں کو یہ بھی کہتے ہوئے سنا ہے کہ
اللہ تعالیٰ نے ہر اعتبار سے مردوں کو عورتوں سے بلند درجہ عطا فرمایا ہے
اسی وجہ سے اسے بیک وقت چار شادیوں کی اجازت دی ہے جب کہ اس امر کے پیچھے
اللہ تعالیٰ کی وہ حکمت و دانائی ہے جو معاشرے کو برائیوں سے بچانے کا سبب
ہے ۔
ہمارے معاشرے میں بیویوں پر تشدد کے واقعات عام ہیں بعض مذہبی لوگ بھی اپنی
بیویوں کو روئی کی طرح دھنک دیتے ہیں اور اس نام نہاد ظلم کو قرآن کی ایک
آیت سے صحیح ثابت کرتے ہیں‘ قرآن مجید میں نا فرمان بیوی کو نصیحت کرنے‘
پھر بستر الگ کرلینے اور پھر چہرے کے علاوہ کسی اور جگہ ہلکی ضرب دینے کا
حکم ہے۔کھلے ذہن کے بعض شارحین نے بتایا ہے کہ ”ضرب“کے معنی صرف مارپیٹ ہی
نہیں‘ ضرب کی ایک معنی سزا کے بھی ہیں۔ یہ سزا بستر پر تنہا چھوڑدینے پر
ختم ہوتی ہے۔
ایک مقام پر اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :۔
ترجمہ : ” اور تم اپنی بیویوں کے ساتھ عمدگی سے زندگی بسر کرو پس ‘ اگر وہ
تمہیں (کسی سبب) ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناپسند ہو ‘ مگر
خدا نے تمہارے لئے بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔“
اس ضمن میں حضور اکرم ا نے ارشاد فرمایا ”کوئی مسلمان شوہر اپنی بیوی سے
نفرت نہ کرے۔ اگر کوئی ایک عادت ناپسند ہو تو دوسری عادتیں پسندیدہ ہوں گی
مثلاً اگر عورت خوبصورت نہیں یا اس میں کوئی اور خامی ہے ‘ تو اس وجہ سے
قطع تعلق نہ کرے یا ہوسکتا ہے بیوی جھگڑالو یا بدصورت ہے تو ممکن ہے وہ
اولاد ایسی دے ‘جو اس شخص کی عزت میں اضافے کا سبب بنے۔ “لیکن ہمارے ہاں
پڑھے لکھے اور جاہل دونوں طبقے کے مرد حضرات ان باتوں کو کبھی مثال بناکر
پیش نہیں کرتے ۔
مرد کے پاس ”طلاق “ کی صورت میں ایک انتہائی اہم ہتھیار ہے جس سے وہ گاہے
بگاہے اپنی بیویوں کو زخمی کرتے رہتے ہیں۔ ہر دوسری بات پر طلاق اور بچوں
کو چھین کر گھر سے نکال دینے کی دھمکی دی جاتی ہے اور عورت وہ خواہ کتنی ہی
آزاد خیال اور معاشی طور پر مستحکم کیوں نہ ہو اپنے گھر اور بچے کی خاطر
گالیاں ‘مار اور بدسلوکی برداشت کرتی نظر آتی ہے اور افسوس ناک بات یہ ہے
کہ اس میں پڑھی لکھی‘ ان پڑھ اور جاہل ہر طرح کی خواتین شامل ہیں‘جب کہ
حضور اکرم ا کا ارشاد ہے کہ ”شوہر بلاوجہ بیوی کو طلاق نہ دے۔ “ آپ ا کا
ارشاد ہے”ناپسندیدہ ترین جائز کام اللہ کے نزدیک طلاق ہے۔“
اسلام اگر عورت کو پابند کرتا ہے کہ وہ نیکی کے کام میں خاوند کی اطاعت
کرے‘ خاوند کے گھر کی حفاظت کرے‘ خاوند کے مال ومتاع کی حفاظت کرے‘ خاوند
کی امانت کی حفاظت کرے اور خیانت نہ کرے‘خاوند کے سامنے خوبصورتی اور زیب و
زیبائش کا اہتمام کرے تاکہ اس کی رغبت کسی اور طرف نہ ہوسکے۔ اُس سے پیار
ومحبت کرے ‘اس کے دکھ سکھ میں شریک ہو‘اس کی مشکلات کو سمجھے اور اسکا ساتھ
دے‘اس پر شک نہ کرے اور اولاد کی صحیح تربیت کرتے تو مرد پر بھی لازم قرار
دیتا ہے کہ وہ عورت کے بنیادی حقوق پورے کرے۔
سیدنا عمرو بن احوص جشمی رضی اللہ عنہ ا س روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کو میں نے خطبہ حجتہ الوداع میں یہ فرماتے ہوئے سنا ۔”'سنو!
عورتوں کے ساتھ اچھاسلوک کیاکرو ‘اس لئے کے وہ تمہارے پاس قیدی ہیں ‘ تم ان
سے اس (ہم بستری اور اپنی عصمت اور تمہارے مال کی حفاظت ) کے علاوہ اور کچھ
اختیاربھی نہیں رکھتے ‘ ہاں اگر وہ کسی کھلی بے حیائی کا ارتکاب کریں (پھر
تم انہیں سزا دو) پس اگر وہ ایسا کریں تو انہیں بستروں سے علیحدہ چھوڑدو
اور انہیں مارو ‘ لیکن اذیت ناک مارنہ ہو پھر اگر وہ تمہاری فرماں برداری
اختیار کرلیں تو ان کے لئے کوئی اور راستہ مت ڈھونڈو یاد رکھو !جس طرح
تمہار حق تمہاری بیویوں پر ہے پس تمہا ر ا حق ان پر یہ ہے کہ وہ تمہارے
بستر ایسے لوگوں کو نہ روندنے دیں جنہیں تم ناپسند کرتے ہو اور ایسے لوگوں
کو گھر کے اند رآنے کی اجازت نہ دیں جنہیں تم اچھا نہیں سمجھتے (چاہے وہ
اجنبی مرد ہو یاعورت)سنو! اور ان کا حق تم پر یہ ہے‘ کہ تم ان کے ساتھ
خوراک اور پوشاک میں اچھا سلوک کرو (طاقت کے مطابق انہیں یہ چیزیں فراہم
کرو)۔(سنن ترمذی1163)‘ سنن ابن ماجہ1851)‘ وسندہ‘صحیح۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم سے پوچھا :”ہم میں سے کسی کی بیوی کا اس پرکیاحق ہے؟“تو آپ نے
فرمایا:”جب تو کھائے تو اسے بھی کھلا جب تو لباس پہنے تو اسے بھی پہنا اور
اس کے چہرے پر مت مار نہ اسے برا بھلا (بدصورت)کہہ اس سے بطور
(تنبیہہ)علیحدگی اختیار کرنی ہو تو گھر کے اندرہی کر۔“
شو ہر اپنی بیوی کی عزت کرے‘ دوسروں کے سامنے اس کا مضحکہ نہ اُڑائے ‘ اس
کی حوصلہ افزائی کرے جب کہ بیوی کو بھی شوہر کی عزت و آبرو کی حفاظت‘ اپنی
زبان پر قابو‘ شوہر کے آرام و آسائش کا خیال رکھنا چاہئے ۔اگر میاں اور
بیوی اسلام کی رو سے بتائے ہوئے اپنے کردار پر عمل کریں تو گھر جنت کی نظیر
بن سکتا ہے ۔ |