مال دار فقیر اور فقیر مال دار
کیسے بنتے ہیں ، یہ قدرت الہی کے کرشموں میں سے ہے، دن کورات ،رات کو دن ۔گرمی
کوسردی ،سردی کوگرمی ۔ بادشاہ کوغلام ، غلام کوبادشاہ ۔حاکم کو محکوم،محکوم
کو حاکم۔ زبردست کو زیر دست ،زیردست کو زبردست بوس کو پی اے،پی اے کو بوس
خادم کو مخدوم، مخدوم کوخادم۔قیدی کوآزاد ،آزادکو قیدی ۔عزت مند کو ذلیل ،ذلیل
کوعزت مند ۔صحت مند کو مریض، مریض کو صحت مند ۔بچے کو جوان ، جوان کو بوڑھا۔
یہ سب اس کی طاقتِ خیرکی کارستانی ہے، ورنہ اس کی تو اتنی عظیم قدرت ہے کہ
وہ سب کو یکساں فقراء یااغنیاء ۔۔۔۔ بنائے ، لیکن وہ اپنے بندوں کے مختلف
احوال میں اچھے اعمال وکارکردگی دیکھنا چاہتے ہیں ’’ لیبلوکم ایکم احسن
عملاً‘‘ ۔
اسکی مثال آپ ایک کلاس ٹیچر سے سمجھئے،اپنے شاگردوں کے امتحان لینے سے پہلے
بھی اسے پتہ ہوتاہے کہ کون کتنے پانی میں ہے ،لیکن اتمام حجت اور تلامذہ کے
مابین چہ می گوئیاں ختم کرنے کے لئے وہ سوال نامہ بناتاہے ،امتحان منعقد
کرتاہے، احسن عمل دیکھنا چاہتاہے، امتحان کامقصود ہی قابل لوگوں کو پاس
کرکے آگے اعلیٰ درجات تک پہنچاناہے ، فیل کرنامقصود نہیں ہوتا، لوگ خود
نکّمے ہوتے ہیں وہ پاس نمبرز تو کیا رعایتی نمبرز جوایک ممتحن کا احسان ہے
کے بھی مستحق نہیں ہوتے ، توتب جاکر فیل ہی ہوجاتے ہیں ، بعض متنبہ ہوکر
ضمنی امتحانوں کے چانسز میں نکل بھی جاتے ہیں ، بعض مرتبہ قابل طالب علم سے
بھی کوئی ایسی فحش غلطی ہوجاتی ہے کہ پیپر میں فیل ہوجاتاہے، یاپھر دانش
گاہ ہی سے خارج ہوجاتاہے، فیل یا خارج ہونے میں قصور اس کا اپنا ہوتاہے
،مدیراور ممتحن کا نہیں،اسی سے اﷲ تعالی کے ان فرامین کوسمجھنے کی کوشش کی
جانی چاہئے ،کہ’’ اﷲ تعالی اپنے بندوں کے لئے ایمان کوپسند کرتاہے،
کفرکونہیں ‘‘ ، اب ’’جوچاہے ایمان لائے ، جوچاہے انکار کرے ‘‘،لیکن یہ یاد
رکھیوکہ’’ ،تمہیں جوتکلیف پہنچے گی وہ تمہارے ہی کئے کی سزا ہوگی‘‘ ۔
علامہ ابن جوزی نے دنیاکے اس امتحان گاہ میں ایسے ہی ایک پاس آدمی کے فیل
ہونے اور ایک فیل کے پاس ہونے کاعجیب وغریب سبق آموز او رعبرت انگیز واقعہ
نقل کیا ہے،اصفہان میں ایک بہت بڑارئیس اپنی بیگم کے ساتھ دسترخوان پر
بیٹھا کھانے میں مصروف تھا، دسترخوان اﷲ کی نعمتوں سے بھرا ہواتھا، اتنے
میں ایک فقیر نے صدالگائی : اﷲ کے نام پر کچھ کھانے کے لئے دے دوبھائی۔ اس
شخص نے اپنی بیوی کو حکم دیا، کہ سارا دستر خوان اس فقیر کی جھولی میں ڈال
دو، بیوی نے حکم کی تعمیل کی،اتنے میں اچانک اس نے اس فقیر کا چہرہ دیکھا
،تو دھاڑیں مارکر رونے لگی، اس کے شوہرنے اس سے پوچھا ،جی بیگم کیاہوا ؟ اس
نے کہا،آپ کو کیا بتاؤں؟ـــــ ۔۔۔۔جو شخص فقیر بن کر ہمارے گھر پردستک دے
رہاتھا،وہ چندسال پہلے اس شہر کا سب سے بڑا مالدار ،ہماری اس کوٹھی کا مالک
او رمیرا سابق شوہرتھا ۔۔۔۔چندسال پہلے کی بات ہے کہ ہم دونوں اسی جگہ
دسترخوان پر آج کی طرح ایسے ہی بیٹھ کرکھاناکھارہے تھے، اتنے میں ایک فقیر
نے صدا لگائی کہ میں دودن سے بھوکاہوں، اﷲ کے نام پر کچھ کھانے کے لئے دے
دو، یہ شخص غصے میں آکردستر خوان سے اٹھا اور اس فقیر کی اس قدر پٹائی کی
کہ وہ لھولھان ہوگیا، نہ جانے اس فقیر نے کیا بددعادی کہ اس کے حالات
دگرگوں ہوگئے، کاروبار ٹھپ ہوگیا ،کوٹھی بھی چلی گئی ،یوں وہ شخص فقیر
وقلاش ہوگیا، اس نے مجھے بھی طلاق دے دی ،اس کے چند سال کے بعد میں آپ کی
زوجیت میں آگئی ۔شوہر بیوی کی یہ باتیں سن کر کہنے لگا، بیگم ،کیا میں آپ
کو اس سے زیادہ تعجب خیز بات نہ بتلاؤں ؟ بیوی نے کہا ضرور بتائیں، کہنے
لگا ،جس فقیر کی آپ کے سابق شوہر نے پٹائی کی تھی، وہ مضروب کوئی دوسرا
نہیں، بلکہ میں ہی تھا۔گردش دوراں کا ایک عجیب نظارہ یہ تھا کہ اﷲ تعالی نے
اس بدمست اور غضبناک مال دارکی ہرچیز ،مال ،کوٹھی ،حتّی کہ بیوی بھی چھین
کر اس شخص کو دے دی ،جو فقیر بن کر ،اس کے گھر پر آیاتھا او ر چند سال بعد
پھر اﷲ تعالی نے اس شخص کو فقیر بناکر اسی کے درپر لے آیا ،واﷲ علی کل شیء
قدیر۔
اس واقعے میں ہربرسرروزگار ،صاحب منصب ، اہل اقتدار ،اہل علم ،عزت دار ،
مال دار، فیکٹری مالک اوربھاری مینڈیٹ والے ، مکے لہرانے والے، اپنوں پررٹ
قائم کر نے کے لئے خون کی ندیاں بہانے اور اغیار کے ایک فون پر ڈھیر ہونے
والے حاکم کے واسطے کافی شافی درس اور عبرت ہے ، جاہ وجلال،مال اور اقتدا ر
کے بھوکوں میں کوئی ہے جواس عبرت آموز واقعہ سے نصیحت حاصل کرے ؟؟؟ |